... loading ...
شہلا حیات
بھارت کاہر شہر اپنے انواع واقسام کے کھانوں میں ایک دوسرے سے جدا شناخت رکھتاہے، اگرچہ اب بھارت کے ہر بڑے شہر میں بھارت کے مختلف شہروں کے مشہور اورمرغوب کھانے بھی بآسانی دستیاب ہوتے ہیں لیکن ان کھانوں کے ان کے شہروں میں جس اہتمام کے ساتھ پکایا جاتاہے، دوسرے شہروں میں وہ ذائقہ حاصل نہیں ہوپاتا، کھانوں کے اعتبار سے بھارت کے وہ شہر زیادہ مشہور ہیں جہاں نوابوں اورراجہ مہاراجائوں کے حکمرانی رہی ہے کیونکہ ان کو طرح طرح کے کھانوں کاجنون کی حد تک شوق تھا ،یہی وجہ ہے کہ بھارت کی دوسری ریاستوں کی طرح بھوپال بھی طرح طرح کے کھانوںکے لیے اپنی الگ شناخت رکھتاہے،خوبصورت جھیلوں کا شہر، محلات و مساجد کا شہر بھوپال نہ صرف اپنی تاریخ بلکہ اپنے دسترخوان کے لیے بھی شہرت رکھتا ہے۔بھوپال کی معروف مسجد تاج المساجدبھی اپنی مثال آپ ہے جسے نواب بیگم بھوپال نے تعمیر کروایا ہے۔
ہندوستان کی اس شاہی ریاست پر چار بیگمات نے بڑی لیاقت و فراست سے حکمرانی کی۔آخری نواب بیگم نے بالآخر حکومت کی عنان اپنے بیٹے کے سپرد کی جو کہ بھوپال کے آخری نواب ثابت ہوئے۔دوسری بہت سی ریاستوں کی طرح بھوپال بھی ہندوستان کا حصہ بن گیا اور نواب خاندان کو حکومت ہند نے تا زندگی جاگیر عطا کی۔ دہلی کی معروف طباخ سلمیٰ حسین لکھتی ہیں کہ دو جھیلوں کے درمیان آباد یہ شہر ہندو مسلم اتحاد کی بہترین مثال ہے۔ مسجدوں سے آتی مؤذن کی صدا، مندروں کے ناقوس، خوشنما ویران محل، خوبصورت جھیلوں کا خاموش پانی اور با رونق بازار یہ ہے بھوپال کا مختصر تعارف۔قدیم بھوپال میں مسلم تہذیب و ثقافت کا رنگ اب بھی نمایاں ہے۔ 1707 میں مغلیہ فوج کے افغان سردار دوست محمد خان، پرمار خاندان کے راجا بھوج کے بسائے شہر کو حاصل کیا اور اسے دوبارہ مستحکم کیا۔ نئے بھوپال شہر کی بنیاد رکھی اور نوابی دور کا آغاز ہوا۔ چونکہ دوست محمد افغان نژاد تھے اس لیے بھوپال کی ابتدائی تاریخ بہت حد تک اسلامی تہذیب و تمدن میں رچی بسی رہی اور آج بھی بھوپال میں کافی حد تک مسلم معاشرے کی جھلک موجود ہے۔
شاملا پہاڑی پر بنی شاملا کوٹھی جسے جنرل عبیداللہ خان نے 1911 میں بنوایا تھا نوابی دور کے اختتام پر خاندان کی رہائش گاہ بنی۔ 1945 میں سترہ برس کی دلھن بیگم ثریا رشید کے قدم سے یہ کوٹھی آباد ہوئی۔شاملا کوٹھی وسیع رقبے میں پھیلی تھی۔ باورچی خانہ وسیع تھا جہاں پانچ رکابدار اور 15 باورچی انواع و اقسام کی غذائوں کو تیار کرتے تھے۔ ہر رکاب دار اپنے فن میں ماہر تھا۔ رکابدار سراج بیکنگ کے ماہر تھے اور دیگچی کو مہر بند کر کے انگارے کے اوپر رکھ کر مزیدار کیک تیار کرتے تھے۔ چھوٹے موٹے نہیں بلکہ تین تین منزلہ کیک اسی ترکیب سے تیار کیے جاتے تھے۔
شاملا کوٹھی کے اطراف میں پھیلا جنگل بہترین شکار گاہ تھی اور کوٹھی کے مکینوں کا بہترین شغل شکار ہی تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ شکار کا گوشت پانی میں دھویا نہیں جاتا تھا بلکہ گیلے کپڑے سے صاف کیا جاتا تھا اور باورچی عمدہ کباب، کوفتے، پسندے اور فلفورا بنا کر دسترخوان پر پیش کرتے تھے۔ زائد گوشت دھوپ میں سکھا کر سال بھر استعمال کیا جاتا تھا۔ برسات کے موسم میں جب شکار کرنا دشوار ہوتا تو یہی گوشت مختلف طریقوں سے پکایا جاتا تھا۔گوشت کے علاوہ ترکاریوں کے عمدہ پکوان بھی وہاں بنائے جاتے تھے۔ ہر ترکاری گوشت کے ساتھ پکائی جاتی تھی۔ جب موسمی سبزیوں پر بہار ہوتی تو بڑے اہتمام سے ان کی ہانڈی تیار ہوتی تھی۔
نواب شاہ جہاں بیگم نے لکھنؤ سے رکابدار بلوائے اور نوابی دسترخوان اودھی کھانوں سے سج گیا۔ اودھ اور افغانی کھانوں کے میل جول سے کئی نئے پکوان وجود میں آئے۔بھوپال میں گوشت کا استعمال بہت ہوا ہے۔نوابی دسترخوان اور لذیذ کھانوں سے نظر ہٹائی تو ابراہیم پورہ کی چٹوری گلی سامنے آ گئی۔ چٹوری گلی واقعی چٹوری ہے اور اگر بھوپال میں چٹوراپن نہیں کیا تو بھوپال کا سفر ادھورا رہا۔ ‘کھانے کی اتنی اہمیت کہ روزے کا تصور نہیں۔کھانوں میں زعفران کا استعمال ایران کی دین ہے اور یہ مغل بادشاہوں کے دسترخوان میں مخصوص اہمیت کا حامل رہا ہے اور مغل حکمرانوں کی وساطت سے ہی زعفران ہندوستان پہنچی اورپھر امراکے کھانوں اور طبیبوں کی دوائوں کالازمی جزو بن گئی اپنی تمام تر صفات کے ساتھ ایک قیمتی اثاثہ ہے جو عوام کی دسترس سے باہر ہے۔
زعفران کو نازک پتیوں میں رنگ و نور کا جادو کہا جا سکتا ہے جس کا نہ صرف غذاؤں کو خوشبودار اور رنگین بنانے میں دنیا کے ہرگوشے میں استعمال ہوتا ہے بلکہ اس کے طبی فوائد بھی ہیں۔یونان و مصر و روما بھی اس کے سحر آگوں اور مدہوش کن اثرات سے نہ بچ سکے۔ زعفران کب اور کیسے وجود میں آیا؟ اس کے متعلق مختلف علاقوں کے دلچسپ افسانے ہیں۔یونانی اساطیر میں یہ پایا جاتا ہے کہ کِرکس نامی گبرو جوان سی لیکس نامی خوبصورت حسینہ کے عشق میں گرفتار ہوا لیکن حسینہ نے اس کے جذبات کی قدر نہ کی اور اسے فالسی رنگ کے خوبصورت پھول میں تبدیل کر دیا۔ یہ فالسی رنگ کا پھول اب زعفران کہلاتا ہے۔ بھارت میں کشمیر کا پامپور زعفران کی کاشت کے لیے معروف ہے۔کشمیر کے معروف دانشور محمد یوسف تینگ کا کہنا ہے کہ زعفران اور کشمیر کا پرانا ساتھ ہے۔ کشمیر کے حکمراں یوسف شاہ چک (86-1579) نے پامپور میں زعفران کی کاشت شروع کی تھی۔ حقیقت خواہ کچھ ہو آج پامپور زعفران کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز ہے اور وہاں کے دو سو سے زیادہ گاؤں تقریبا ڈھائی ہزار کلو زعفران پیدا کرتے ہیں۔اکتوبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے سے نومبر کے پہلے ہفتے تک زعفران اپنی بہار پر ہوتا ہے۔ آسمان پر چاند تاروں کا جال اور فرش پر زعفران کی رنگین بہار جنت کا منظر پیش کرتی ہے،اور آج بھی بھارت ہی نہیں بلکہ برصغیر کے ہر شہر اورقریئے کے امرا کے کھانوں میں زعفران کی رنگینی لازمی ہوتی ہے۔
بھوپال کی چٹوری گلی میں اگرچہ اب شاید ہی کسی دکان میں کسی مشروب یاکھانے میں زعفران ڈالی جاتی ہو لیکن زعفران کی جگہ زعفرانی رنگ ضرور استعمال کیاجاتاہے، بھوپال کی چٹوری گلی میںکھانے پینے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہر دم گاہکوں سے بھری رہتی ہیں۔ کوئی سلیمانی چائے کا مزہ لے رہا ہے تو کوئی نہاری کا پیالہ لیے بیٹھا ہے۔ بھوپال کے انوکھے ناشتے کا لطف اٹھانے کے لیے لوگ صبح صبح چٹوری گلی پہنچ جاتے ہیں۔ گرم گرم پھوہا، ساتھ بیکانیری سیو اور سنہری گرم جلیبی، نمکین اور میٹھاپن ہی بھوپال کی خاصیت ہے۔بھوپال میں قسم قسم کے کباب کا رواج ہے۔چٹوری گلی کی مشہور ڈش بن کباب ہے۔ ہاتھ سے کٹے موٹے قیمے کے تلے کباب بن رکھ کر پیاز چٹنی کے ساتھ کھائیے اور باورچی کو دعائیں دیتے آگے بڑھ جائیے جہاں نلی گوشت آپ کو للچانے کے لیے کافی ہے۔ وہاں سائیکل سوپ والا بھی اپنی مثال آپ ہے۔ کہتے ہیں کہ سالوں پہلے ایک نیپالی نوجوان آیا اور سائیکل پر ٹماٹر کا شوربہ بیچنے لگا۔ شوربہ مزیدار تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سائیکل سوپ والااب وہاں تین چار دکانوں کا مالک ہے۔
گلاوٹی کباب کی کہانی بھی بھوپال سے ملتی ہے۔ پتہ چلا کہ حاجی مراد علی بھوپال کے رکابدار تھے جو بعد میں لکھنؤ جا بسے۔ چونکہ وہ لولے تھے اس لیے یہ کباب ان کے نام سے مشہور ہوا۔ بھوپال میں گلاوٹی کباب رسک بسکٹ پر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔
چٹوری گلی شیطان کی آنت کی طرح ہے۔ جہاں چلتے چلاتے برفی رس ملائی پر نظر چلی ہی جاتی ہے۔ پتے کے دونے پر برف کا چورا، اس پر ربڑی کی موٹی تہہ اور گلاب کے شربت کا چھڑکاؤ۔ گلی سے باہر نکلتے ہوئے پان کا بیڑا منھ میں رکھیے اور بھوپال کے مکینوں کو دعا دیتے جائیے۔
وہ گھریلو صارفین جو اگست کا بل ادا کرچکے ہیں، انہیں اگلے ماہ بجلی کے بل میں یہ رقم واپس ادا کردی جائے گی، زرعی اور صنعتی شعبوں سے وابستہ افراد کے بل کے ادائیگی مؤخر کی جارہی ہے، شہباز شریف سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی مکمل آباد کاری کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں، ہم سب اس وق...
ملتان، شجاع آباد ،رحیم یار خان، راجن پور اور وہاڑی کے دیہی علاقوں میں تباہی،مکانات اور دیواریں منہدم ہو گئیں، ہزاروں ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصلیں ڈوب گئیں ، 20 سے زائد دیہات کا زمینی رابطہ تاحال منقطع سیلابی پانی کے کٹاؤ کے باعث بریچنگ کے خدشہ کے پیش نظر موٹروے ایم فائی...
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے متاثرین کی مدد کی جائے،وفاقی حکومت جلد اقوام متحدہ سے امداد کی اپیل کرے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر چند سالوں کے بعد ہمیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑتاہے،مراد علی شاہ کی میڈیا سے گفتگو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ حکومت سندھ نے سیلا...
دنیا دیکھ رہی ہے پاکستانی عوام کس مشکل سے گزر رہے ہیں، آفت زدہ عوام کو بجلی کے بل بھیجنا مناسب نہیں ہم پہلے ہی آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہیں، اس نے اس صورتحال کو سمجھ لیا؛ وزیرخزانہ کی میڈیا سے گفتگو پنجاب میں سیلاب کو جواز بناکر مہنگائی کا طوفان آچکا ہے حکومت نے اس سے ...
سیلاب کے نقصانات سے عوام کو محفوظ رکھنے کیلئے تمام ضروری اقدامات فوری طور پر کیے جانے چاہئیں، فوج عوامی فلاح کے تمام اقدامات کی بھرپور حمایت جاری رکھے گی،سید عاصم منیر کا اچھی طرز حکمرانی کی اہمیت پر زور انفرا سٹرکچر ڈیولپمنٹ تیز کرنا ہوگی، متاثرین نے بروقت مدد فراہم کرنے پر پ...
وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کا بنوں کا دورہ،جنوبی وزیرستان آپریشن میں 12 بہادر شہدا کی نماز جنازہ میں شرکت،سی ایم ایچ میں زخمی جوانوں کی عیادت، دہشت گردی سے متعلق اہم اور اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کی دہشت گردی کا بھرپور جواب جاری رہے گا،پاکستان میں دہشت گردی کرنیوالو...
45 لاکھ افراد اور 4 ہزار سے زائد دیہات متاثر،25 لاکھ 12 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل دریائے راوی ستلج اور چناب میں سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری بھارتی آبی جارحیت کے باعث پنجاب میں آنے والے سیلاب میں اب تک 101 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں، 45 لاکھ 70 ہزار ا...
سکیورٹی حکام نے نیتن یاھو کو خبردار کیا غزہ پر قبضہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے پانچ گھنٹے طویل اجلاس کا ایجنڈا غزہ پر قبضہ تھا، قیدیوں کو لاحق خطرات پر تشویش اسرائیل کے تمام اعلی سکیورٹی حکام نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو خبردار کیا ہے کہ غزہ شہر پر قبضہ انتہائی خطرناک ث...
توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کارکنان آپے سے باہر ، قیادت کی جانب سے کارکنان کو نہیں روکا گیا تشدد کسی صورت قبول نہیں،پی ٹی ائی کا معافی مانگنے اور واضع لائحہ عمل نہ دینے تک بائیکاٹ کرینگے، صحافیوں کا اعلان توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان...
پہلے ہی اِس معاملے پر بہت تاخیرہو چکی ہے ، فوری طور پر اقوام متحدہ جانا چاہیے، پاکستان کے دوست ممالک مدد کرنا چاہتے ہیں سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ہوناچاہیے، ملک میں زرعی ایمرجنسی لگائی جانی چاہیے، ملتان میں متاثرین سے خطاب چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ...
محکمہ موسمیات نے اگلے 2 روز میں مزید موسلادھار بارشوں کا امکان ظاہر کردیا،شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت پورٹ قاسم سمندر میں ماہی گیروں کی کشتی الٹ گئی، ایک ماہی گیر ڈوب کر جاں بحق جبکہ تین کو بچا لیا گیا، ریسکیو حکام کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے...
قدرتی آفات کو ہم اللہ تعالیٰ کی آزمائش سمجھ کر اِس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ، امیر جماعت اسلامی چالیس سال سے مسلط حکمران طبقے سے صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ یہ کس کو بے وقوف بناتے ہیں، گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ سیلاب کے نقصانات میں ہمارے حکمرانوں کی...