وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا امریکا پاکستان پر حملہ آور ہوگا؟

بدھ 03 جنوری 2018 کیا امریکا پاکستان پر حملہ آور ہوگا؟

یہ (دوسری قسط)
بات بھی ذہن میں رہے کہ اسی کی دہائی سے اسرائیل نے پورا ایک ہوائی یونٹ تشکیل دے رکھا ہے جس کے قیام کا مقصد جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا ہے عرب صحافتی ذرائع کے مطابق اسرائیل میں صحرائے نقب میں مختلف دشمن ملکوں کی جوہری تنصیبات کے ماڈل نصب ہیں جہاں پر انہیں تباہ کرنے کے لیے اسرائیلی فضائیہ مشقیں کرتی رہتی ہے اس کے علاوہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بھی ایسے عسکری مقامات ہیں جنہیں اسرائیلی فضائیہ کے استعمال کے لیے فعال قرار دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے خوفناک ردعمل کے خوف نے ابھی تک بھارت کو اسبات سے مانع رکھا ہوا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس سہولت کے استعمال کی اجازت دے۔

نائن الیون کے ڈرامے کے بعد اور مشرف انتظامیہ کی مہربانیوں سے امریکا افغانستان میں پہلے ہی قدم جما چکا تھا اس لیے اس کی چھتری تلے اسرائیلی اور بھارتی فورسز بھی اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرسکتی ہیں۔ نائن الیون سے لے کر اب تک پاکستان میں ان صہیونی دجالی قوتوں نے بارہا ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی کہ دنیا کو اس بات سے خوفزدہ کیا جائے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جس سے پوری دنیا کا امن دائو پر لگ جائے گا لیکن پاکستانی اداروں کی دانش مندی سے ان حالات کا بھی بڑی قربانیاں دے کر مقابلہ کیا گیا اور تاحال یہ جنگ جاری ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جارہی ہے لیکن امریکا اور اس کے حواری پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا کے خلاف حملوں میں پاکستان کی سرزمین استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن جب پاکستان کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کی جنگ پاکستان نے نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے لڑنی ہے اور اس بات کا جواب مانگا جاتا ہے کہ مشرق وسطی سے داعش کے جنگجوئوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے افغانستان لانے کے کیا مقاصد ہیں تو امریکا کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ تزویراتی طور پر اب تک افغان طالبان نے امریکا کے سامنے افغانستان میں بند باندھ رکھا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا افغانستان میں کسی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر کارروائی ڈالنے کے لیے خطے میں وارد ہوا تھا، دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کسی طور بھی امریکا کا ’’پارٹنر‘‘ نہیں ہے خطے میں امریکا اور اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی بھارت ہے، اسرائیل کے لیے بھارت اس لیے اہم اتحادی ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیلی جنگ کا بڑا ونگ پاکستان کو تصور کیا جاتا ہے جس کا جوہری کانٹا نکالے بغیر اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت کا تصور بھی ممکن نہیں ۔
ان حالات واقعات کے پیش نظر پاکستان کو داخلی اور معاشی طور پر انتہائی استحکام کی ضرورت ہے نواز شریف اور زرداری لوٹ مار کی صورت میں عالمی دجالی قوتوں نے پاکستان کو معاشی طور پر پہلے ہی دیوالیہ کے قریب کردیا ہے ۔ صورتحال کی سنگینی کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صحافتی ذرائع کے مطابق خلیجی ریاست بحرین نے مقبوضہ القدس کے مسئلے کو عالمی سطح پر غیر اہم قرار دے دیا ہے۔ایک اور’’ اہم عرب ملک‘‘ کے دارالحکومت میں ایسی یہودی مغربی کمپنیوں کے دفاتر قائم ہیں جو یہاں سے بیٹھ کربے ضمیر فلسطینی فرنٹ مینوں کے ذریعے مقبوضہ القدس میں مسلمانوں کی جائدادوں کے کئی گنا زیادہ قیمت پر سودے کرتی ہیں۔ ایک اور’’ اہم عرب ملک‘‘ کے ایک تزویراتی مطالعاتی ادارے (اسٹریٹیجک اسٹڈی)کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’’جس طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مسلمانوں کے لیے اہم اور مقدس شہر ہیں اسی طرح یروشلم بھی یہودیوں کے لیے اہم اور مقدس شہر ہے‘‘۔ یعنی مسلمانوں کو مقبوضہ القدس سے دست بردار ہوجانا چاہئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
مشرقی وسطی میں صورتحال کو اس حد تک اپنے حق کرلینے کے بعد اب اسرائیل اور امریکا کی نظریں پاکستان پر ہیں ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو اچک کر خطے میں اسے کم از کم بھارت کے رحم کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن اس تمام عرصے میں پاکستانی اداروں کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہ داری کا منصوبہ اب براہ راست چین کو بھی تنازعہ میں لے آئے گا جس کے بعد ماسکو کا اس میں شامل ہونا بھی ناگزیر ہوجائیگا ۔ جبکہ یہ بات اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ امریکا پر روس اور چین کی جانب سے دبائو ہے کہ وہ خطے میں قیام امن کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کرے۔یہ وہ حالات ہیں جب امریکا پاکستان کو دھمکیاں لگا رہا ہے ۔یو این او میں اپنے خلاف رائے شماری پر خلاف ووٹ دینے والے ملکوں امداد بند کرنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، اس کے باوجود مخالف میں ووٹ پڑنے پر ٹرمپ کو شرم سے ڈوب مرجانا چاہئے لیکن شرم سے مرنے کے لیے غیرت کا ہونا ضروری ہے۔ پہلے یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ امریکا کی زیرک صہیونی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ جیسے پاگل کو وائٹ ہائوس کیسے لے آئی لیکن افغانستان میں بننے والی درگت کے بعد اب صاف محسوس ہورہا ہے کہ امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ ٹرمپ جیسے پاگل کی آڑ میں رپوش ہوا جائے یقینی بات تھی کہ کوئی ہوش مند اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کرسکتا۔
(ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر