وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیر میں جاری خاموش قتل عام

جمعه 29 دسمبر 2017 کشمیر میں جاری خاموش قتل عام

قوموں کی بے بسی کے اسباب بہت سارے ہوتے ہیں مگر ہمارا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم ابھی تک نا ہی ایک قوم ہیں نا ہی اُمت !ہم بکھرے ہوئے وہ پروانے ہیں جنہیں اس چراغ کا بھی پتہ نہیں ہے جس کے گرد ایک پروانہ زندگی کی بہاریں نچھاور کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ان جانوروں کی طرح مارے جا رہے ہیں جنہیں دوسروںکے کھونے کا غم چند لمحات تک تو ضرور ہوتا ہے مگراس کے بعد وہ کھانے پینے میں مصروف ہو کراپنوں کے کھونے کا غم تک بھول جاتے ہیں ۔گذشتہ تقریباََ ڈھائی سو سال سے کشمیریوں پر ہر پچاس یا سو سال کے بعد کوئی نہ کوئی آکر حکومت کرتا ہے ۔ مزے لوٹنے کے بعد وہ چلا جاتا ہے مگر دوسرا آکر پھر ’’باپ داداؤں کی جاگیر ‘‘پرآکر اگلوں سے زیادہ وحشت ناک مظالم ڈھا تا ہے اور ہم اس امید میں جینے کا پھر حوصلہ کرتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہمیں ان مظالم سے نجات تو مل ہی جائے گی ۔مگر ہر بار یہ تاریک رات مزید سیاہ ہوگئی اور ہم پھر ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ۔ہماری اجتماعی سوچ ’’قتلِ عام‘‘روکنے پر متفق ہونی چاہیے تھی مگر المیہ یہ ہے کہ دلی میں براجمان چند ٹی وی اینکرس کی طرح ہم خود بھی اس ’’ماراماری‘‘کی تاویل کر کے آپ اپنے ضمیر کو مطمئن کر کے بدترین دھوکے میں رہنا چاہتے ہیں اور جب ایک قوم کو یہ بیماری لگ جائے تو اس کی مال و جان کے تحفظ کی ذمہ داری کوئی دوسرا کیوں اٹھائے ؟

جموں و کشمیر میں عسکریت کے بہانے 1990ء سے جاری قتل عام میں ہم اب تک ایک لاکھ سے بھی زیادہ تعداد میں مارے جانے کے باوجود اس کے روکنے پر متفق نظر نہیں آتے ہیں ! اس میں اہم رول تو بھارت نواز مین اسٹریم کا تو بنتا تھا مگر وہ زبانی جمع خرچ کے سوا اگر کچھ کر بھی پاتے ہیں تو بس اتنا کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مراعات اور جائدادیں حاصل کر کے سات نسلوں تک عیاشیوں کا سامان مہیا رکھے جائیں اور بس۔نہیں تو قوم پرستی کے لباس میں ملبوس یہ حضرات کیوں اس نازک مسئلے پر اتنے غیر سنجیدہ ہیں ؟ یہاں روز جنازے اٹھتے ہیں اور روز ماؤں کی گود اُجڑتی ہے یہ جنازے انہی علاقوں سے اٹھتے ہیں، جہاں سے مین اسٹریم کے لوگ اسمبلیوں میں نمائندگی کا دعوی لے کر پہنچتے ہیں ،مگر المیہ یہ کہ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے باوجود یہ لوگ اطمینان کی نیند کیسے سوتے ہیں ایک ناقابل یقین تصور ہے ۔یہ جس طرح سارا ملبہ دلی پر گرا کر اپنا دامن بچا لینے کی ناکام کوشش کرتے آئے ہیں اُ س میں ایک وقت تک انہیں فائدہ تو مل رہا تھا مگر اب صورتحال بالکل بدلتی جا رہی ہے ۔اس نئی صورت حال میں قوم کے ساتھ یہ صرف تب کھڑے نظر آتے ہیں جب اقتدار کی دیوی انہیں اپوزیشن کی کرسیوں پر بٹھاتی ہے نہیں تو انہیں اس بات کا ذرا برابر غم نہیں ہوتاہے کہ قوم مرے یا جئے اور بھارتی غلبے کے ستر برس میں آپ کو اسے کچھ بھی مختلف نظر نہیں آئے گا ۔عسکریت پسند نوجوانوں کا مارا جانا یہاں سرے سے اب کوئی اشو ہی نہیں رہا ہے گویا کہ یہ سب بالکل جائز اور مناسب ہے اور وہ اسی کے سزاوار ہیں ۔چندروزہ زبانی کلامی ہنگامہ اگر ہوتا بھی ہے تو بس اس بات پر کہ کوئی غیر عسکر ی مرد یا عورت جاں بحق ہو جائے ۔وہ بھی اس حد تک کہ ہلاکت کے بعدمذمت،انکوائری ،خاموشی،فراموشی اورامن کی واپسی کی جھوٹی امید اور بات ختم ۔

میڈیا کے مطابق11دسمبر2017ء کے دن سوپور کپوارہ شاہراہ پر چوگل ہندوارہ کے نزدیک ایک گائوں میںشبانہ مسلح تصادم میں تین عسکری نوجوانوں کے ساتھ ساتھ میسرہ نامی ایک جواں سال خاتون بھی گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئی ۔ شمالی کشمیر کے ڈی آئی جی کے حوالے سے کہا گیا کہ 25سالہ خاتون جو ایک بچے کی ماں بھی تھی، اس وقت کراس فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوئی جب اس نے اپنے مکان سے باہر نکلنے کی کوشش کی جہاں جنگجو چھپے بیٹھے تھے۔مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ مذکورہ خاتون کو سیکورٹی فورسز نے جان بوجھ کرگولیوں کا نشانہ بناکر ہلاک کردیا۔احتجاجی مظاہرین نے میسرہ کی نعش کو کپوارہ سوپور شاہراہ پر رکھ کر احتجاجی مظاہرے کیے اور واقعہ کی فوری طور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔مظاہرین نے الزام لگایا کہ میسرہ اپنے مکان سے باہر آرہی تھی کہ فوج نے اس پر گولیاں چلائیں جس کے دوران وہ موقع پر ہی جا ں بحق ہوگئی۔19دسمبر2017ء کو 24 سالہ خاتون روبی جان جبکہ 16 اور 17 دسمبر کی درمیانی رات 22 سالہ آصف اقبال بٹ کو فورسز نے بلاجواز فائرنگ کر کے قتل کردیا۔ 19دسمبر کی شام پولیس کے ا سپیشل آپریشن گروپ،44آر آر اور 14بٹالین سی آر پی ایف نے بٹہ مڈن وانپورہ کیلر شوپیان کا محاصرہ کیا ۔جس کے دوران شام قریب 7بجے فورسز اور عسکری نوجوانوںکے مابین جھڑپ شروع ہوئی جو رات دیر گئے تک جاری رہی۔اس دوران مقامی مظاہرین اور فورسز میں شدید نوعیت کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔رات کے دوران محمد یعقوب بٹ کے مکان کو باردوی مواد سے اڑا دیا گیا جس میں اس کی آلٹو گاڑی بھی تباہ ہوئی۔جس کے بعد فائرنگ تھم گئی۔لیکن رات کے دوران ہی دوبارہ فائرنگ کا آغاز ہوا جو صبح تک جاری رہا۔اس دوران فورسز نے غلام محمد شیخ اور عبدالاحد کے رہاشی مکانوں کو بھی تباہ کردیا اس دوران ایک گائو خانہ بھی تباہ ہوجہاں دو گائیں بھی مر گئیں۔مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ فورسز نے مظاہرین پر بے تحاشا پیلٹ اور گولیاں چلا ئیں جس کے باعث جواں سال روبی جان عرف بیوٹی زوجہ منظور احمد میر کو براہ راست گولی کا نشانہ بنایا گیا جس کے باعث گولی اس کی چھاتی کو لگی اور وہ موقع پر ہی لقمہ اجل بن گئی۔تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ روبی جان مسلح تصادم کے مقام پر کراس فائرنگ کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئی ہے۔ روبی جان کی ایک آٹھ ماہ کی بچی ہے۔ (جار ی ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر