وجود

... loading ...

وجود

فرقہ پرست ہندومحبت کی نشانی تاج محل کے درپے

پیر 06 نومبر 2017 فرقہ پرست ہندومحبت کی نشانی تاج محل کے درپے

دہلی کالال قلعہ ہویاکوئی اورتاریخی مقام بھارت کے جنونی ہندوہروہ نشانی مٹانے پرتلے ہیں جووہاں مغل بادشاہوں نے تعمیر کرائی ۔ ہندوئوں کی خواہش ہے کہ یا تووہ مقام سرے ڈھادیاجائے تومسلمان حکمرانون کے دورمیں فنی تعمیرکانادرشاہکار ہے اگرایسا ممکن نہ ہوتو کم ازکم اس مقام پرمسلمانوں سے چھین کرہندوئوں کی دسترس میں دے دیاجائے ۔ با بری مسجد پر قبضے کے بعد ہندو فرقہ پرستوں کے حوصلے مزید بلندہوچکے ہیں ان کی خواہش کے کسی طرح تاج محل کوبھی کسی مندرکوگراکراس کی جگہ تعمیرکیے جانے کابتاکرملیہ میٹ کرکے کوئی مندرنما عمارت کادرجہ دلادیاجائے ۔اسی لیے تاج محل کو قدیم تیجو مہالیہ مندر کاحصہ قراردینے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔تاج محل کی تاریخی حیثیت بدلنے کی کوششوں میں بھارتی حکمران جماعت بی جے پی سب سے آگے ہے۔اس حوالے سے بی جے پی صدر لکشمی کانت واجپائی کا ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہنا ہے کہ مغل حکمران شاہ جہاں نے اس عمارت کی تعمیر کے لیے کچھ زمین ہند راجہ جے سنگھ سے خریدی تھی۔
واجپائی کا دعویٰ ہے کہ اس سے متعلق دستاویزات اب بھی موجود ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وقف کی ملکیت پر قبضہ جمائے بیٹھے اتر پردیش کے سینئر وزیراعظم خان کی نظر اب تاج محل پر ہے اور مزید کہا کہ تاج محل میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا مسلمانوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوپائے گا۔ تاج محل کو مندر قرار دینے کی کوششیں کئی عرصے سے جاری ہیں۔
اب تک کئی مرتبہ تاج محل کو مندر قرار دینے کی سازشیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ تاج محل کا نقشہ جس طرح سے بنایا گیا ہے ہندو اسے دید مندر کا حصہ قراردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تاج محل کے مغرب کی سمت جو مسجد ہے وہ سمجھ میں آتی ہے لیکن مشرق کی جو مسجد نما عمارت ، جسے نقار خانہ کہا جاتا ہے۔ اس کی موجودگی کے بارے میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ مقبروں میں نقار خانے نہیں بنائے جاتے۔
نقار خانے پرانے زمانے میں ہندو مندروں میں ہی بنائے جاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ تاج محل کی عمارت جو عربی آیات کندہ ہیں۔وہ بھی مندر کے نقش ونگار کو چھپانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ تاج محل میں ایک کنواں بھی ہے جس کے بارے میں ہندو انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ پرانے دور میں مندروں میں ایسے کنویں بنائے جاتے تھے تاکہ خزانہ چھپایا جاسکے۔ اس طرح کے اوٹ پٹانگ دعوؤں کے ذریعے تاج محل کو مندر قرار دینے کی سازش کی جارہی ہے۔
حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے نفیس سنگ مرمر سے تعمیر یہ روضہ اپنی محبت کی نشانی کے طور پر پانچویں مغل حکمران شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔ فارسی زبان میں ایسی تاریخوں کی کمی نہیں جس میں اس عمارت کی تفصیلی کیفیات اور بنانے والوں کے نام تک درج ہیں۔ اس ضمن میں عدالت نے اس استدال کو مسترد کردیا۔ ہندو فرقہ پرستوں کا دعویٰ ہے کہ یہ کوئی سو پچاس سال پہلے کی کہانی نہیں۔
یہاں ہندوؤں کا مندر ہوتا تھا لیکن مغل دور میں کچھ مسلمان حکمرانوں نے اپنے عزیزوں کو یہاں دفنایا تھا اس لیے وہ دعویدار ہوگئے ہمایوں اکبر اور صفدر جنگ کو بھی ایسی عمارتوں میں دفن کیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شیوا ا مندر تھا تو اس کے دعویٰ میں اربوں ہندوؤں میں سے صرف چند انتہا پسند ہی کیوں واویلا مچا رہے ہیں۔ ان کی وجہ صرف سستی شہرت کا حصول ہے یا پھر ہندو اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف ورغلایا جارہا ہے۔
تاج محل شاہ جہاں کی محبت کی نشانی کے طور پر زندہ ہے اور تا قیامت رہے گا جس کے پر شکوہ مینار آج بھی اس محبت کی یاد دلاتے ہیں۔ ماہر تعمیرات کے مطابق اس محل کو جیومیٹری کے مسلمہ اصولوں کے عین مطابق بنایا گیا ہے۔ محل میں واقع مقبروں کے مینار کا سائز مختلف ہے۔ شاہ جہاں کے مقبرے کے مینار ممتاز محل کے مقبرے سے زیادہ بلند ہیں۔ستونوں کے راز تاج محل کے چار مینار ہیں۔
چاروں کے چاروں محل کی بنیاد سے اٹھائے گئے ہیں اور ایسا زلزلے کہ ممکنہ نقصانات سے تحفظ کے لیے کیا گیا۔ اگر کبھی کوئی ہولناک زلزلہ آیابھی تو صرف مینار ہی گرے گا باقی عمارت محفوظ رہے گی۔ سیاح ہر طرف سے چاروں میناروں کو ایک ہی زاویے سے دیکھ سکتے ہیں، اس وقت کے ماہر تعمیرات نے اس تعمیر میں فیثا غورث کا فارمولا اپنایا اور توازن کے تمام ریاضیاتی فارمولوں سے استفادہ کیا۔
ماہرین کے مطابق تاج محل کو عجوبہ بنانے کی ایک دلیل یہ ہے کہ سارادن اس کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ صبح کے وقت اس محل کو گلابی شیڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ شام کو دودھیا سفید اور چاندنی رات کوسنہری دکھائی دیتا ہے۔ 22 ہزار مزدوروں نے دن رات اس کی تعمیر پر حصہ لیا۔ سنگ مرمر اور مقبرہ میں خالصتاََ سفید پتھر یعنی سنگ مرمر استعمال ہوا ہے۔ اس ضمن میں عرب،چین،افغانستان اور سر ی لنکا سے مختلف رنگوں کے قیمتی پتھر منگوائے گئے تھے جن میں سے تقریباََ 30 طرح کے پتھروں کو استعمال میں لایا گیا تھا۔
تاہم تاج محل کی خوبصورتی کا منبع اس کا مقبرہ ہے جسے پیاز کی شکل کا بنایا گیا۔ خوبصورت خطاطی میں اللہ پاک کے 99 ناموں کو بھی گندہ کروایا گیا ہے۔ تاج محل کی مجموعی بلندی 171 میٹر ہے۔ یہ شاہکار 22 سال میں مکمل ہوا ہے۔ اس کی تعمیر1631ء میں شروع ہوئی اور 1654ء میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ عمارت کا چبوترا جو سطح زمین سے کئی فٹ اونچا ہے سنگ مرمر کا ہے۔
اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف کرسی کے نیچے ایک حوض ہے جس میں فوارے باغ بھی ہیں۔ اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز اور شاہ جہاں کی قبریں ہیں۔ ہر سال 30 لاکھ سیاح اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں یہ تعداد ہندوستان کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ اس عظیم یادگار کو ایک طرف تو ہندو فرقہ پرست مندر بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں تو دوسری جانب اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی۔
آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث محبت کی اس عظیم یادگار کی رنگت سفید سے پیلی ہوگئی ہے۔ یہ انکشاف 2007ء میں ایک رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے سنگ مرمر پیلا ہوتا جارہا ہے اور اس تاریخی عمارت کی حقیقی خوبصورتی متاثر ہورہی ہے۔ رپورٹ میں تاج محل کی خوبصورتی کو بچانے اور سنگ مرمر کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لیے اسے صاف کرنے کی سفارش کی گئی تھی جبکہ آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے ماہرین کی تحقیق میں یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ تاج محل کی جگہ پر کوئی مندر نہ تھا۔
اس حوالے سے بھارتی اخبار ’’ نیوانڈین ایکسپریس‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ بتایا ہے کہ عدالت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کو اس سے شدید صدمہ پہنچاہے جس کا اظہار سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں کیا گیا ہے۔ بی جے پی آگرہ یونٹ کا کہناہے کہ رواں سال مارچ میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی چھ رکنی مشترکہ قانونی ٹیم کے سربراہ بیرسٹر ہری شنکر جین کی جانب سے آگرہ سول کورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چونکہ سترہویں صدی میں یہ تاریخی عمارت ایک مندر تھا۔
اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ تاج محل کو قدیم شیو مندر قرار دیا جائے۔ اور اس عمارت کا محکمہ آثار قدیمہ سے لیکر آر ایس ایس کے حوالے کیا جائے تاکہ یہاں مسلمانوں کا داخلہ بند کرکے اس پر تاریخی شیو مندر کا بورڈ لگادیا جائے اوراس مندر میں مقامی و عالمی سیاحوں کاداخلہ بند کرکے ہندوؤں کو پوجا پاٹھ کی اجازت دی جائے۔دراصل عدالتی حکم کے تحت حکومت ہند سے سرکاری موقف مانگا گیا تھا جس پر حکومت نے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا اور محققین کی ایک ٹیم کو ہندوؤں کے دعوے کی تحقیق کا کام سونپا تھا۔
اس ٹیم نے مسلسل چھ ماہ کی تحقیق کے بعد تحریری طور بی جے پی اور آر ایس ایس کے اس دعوے کو لغو قرار دیکر مسترد کردیا۔ مجموعی اعتبار سے بھارتی حکومت کی تحقیق میں تاج محل کی جگہ کسی مندر یا ہندو مذہبی مقام کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ اس لیے مرکزی حکومت کے بیان وموقف کے بعد یقین ہے کہ عدالت اس مقدمے کو خارج کردے گی جس میں تاج محل کو مندر قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
تاج محل، مندر کیس میں ایک دلچسپ امریہ بھی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی چھ رکنی وکلا ٹیم کی جانب سے اس کیس کا مدعی ہندوؤں کے دیو مالائی بھگوان، اگر یشور مہادیو کو بنایا گیا جن کا اس دنیا میں وجود تک نہیں ہے۔ کیونکہ خود ہندو مورخین کے مطابق وہ ایک دیومالائی کردارہے اس کے باوجود سٹی سول کورٹ میں اس کیس کو سماعت کے لیے قبول کر لیا گیا تھا۔
اس پر مسلمانوں میں تشویش پائی جارہی تھی۔ واضح رہے کہ آر ایس ایس او بی جے پی کے وکلاء نے ہندو مورخین کی لکھی کتابوں سے مبینہ تاریخی حوالوں کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاج محل بھگوان شیو کے مندر پر بنایا گیا تھا۔ حکومت کو ہر سال تاج محل سے 50 کروڑ سے زائد کی آمدنی حاصل ہوتی ہے جس پر ہندو تنظیموں کی نظریں گڑھی ہوئی ہیں اس لیے ان کی کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح تاج محل پر قابض ہو جائیں اس طرح سیاحوں کی آمدنی کے ساتھ ساتھ یہاں آنے والے دولت مند ہندو،ہندوعقیدت مند، ذات پات، کے لیے اربوں روپے فراہم کریں گے۔
ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ تاج محل مندر نہیں بلکہ اسلامی تاریخی عمارت اور مقبرہ ہے۔ ہندوستانی آثار قدیمہ حکام نے عدالت میں اس بات کے ثبوت میں 1920ء میں جاری کردہ سرکاری نوٹیفیکشن بھی پیش کیا جس میں تاج محل کی حفاظت کو یقینی بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔ سروے میں کہا گیا یہ دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے اور 1904ء میں برطانوی دور سے اسے ایسی یادگار تاریخی ورثہ قرار دیا گیا تھا جس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ہندوستان کی مرکزی وزارت ثقافت بھی وضاحت کرچکی ہے کہ تاج محل کے مندو ہونے کو کوئی ثبوت نہیں ملا۔


متعلقہ خبریں


سرحدی خلاف ورزی پر افغانستان کے اندر جواب دیں گے، وزیر دفاع وجود - جمعرات 30 اکتوبر 2025

افغان طالبان کاپاکستان کو آزمانا مہنگا ثابت ہوگا،ہم دوبارہ غاروں میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ضرورت پڑی تو طالبان حکومت کو شکست دے کر دنیا کیلئے مثال بنا سکتے ہیں،خواجہ آصف بعض افغان حکام کے زہریلے بیانات ظاہر کرتے ہیں طالبان حکومت میں انتشار اور دھوکا دہی بتدریج موجود ہے،پ...

سرحدی خلاف ورزی پر افغانستان کے اندر جواب دیں گے، وزیر دفاع

پی ٹی آئی قیادت کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے وجود - جمعرات 30 اکتوبر 2025

عمران خان سے ملاقات کی سلمان اکرم راجا ، علی ظفر کی الگ الگ لسٹیں سامنے آگئیں دونوں لسٹوں میں ایک ایک نام کا فرق ، فہرست مرتب کی ذمہ داری علی ظفر کو دی گئی تھی پاکستان تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ عمران خان سے ملاقات کی بھی الگ الگ لسٹیں سامنے آگئیں۔ ذ...

پی ٹی آئی قیادت کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے

تحریک لبیک والے ہلاک600 کارکنان کی لاشیں تو دکھادیں وجود - جمعرات 30 اکتوبر 2025

بتایا جائے ٹی ایل پی کے پاس اتنا اسلحہ کیوں تھا؟ کارکنوں کو جلادو ماردو کا حکم دینا کون سا مذہب ہے، لاہور میںعلما کرام سے خطاب سیاست یا مذہب کی آڑ میں انتہا پسندی، ہتھیار اٹھانا، املاک جلانا قبول نہیں ،میرے پاس تشدد کی تصاویرآئی ہیں،وزیراعلیٰ پنجاب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز...

تحریک لبیک والے ہلاک600 کارکنان کی لاشیں تو دکھادیں

عدالت سے کوئی امید نہیں،عمران خان وجود - بدھ 29 اکتوبر 2025

وزیراعلیٰ کے پی اپنی مرضی سے کابینہ بنائیں اور حجم چھوٹا رکھیں، علامہ راجہ ناصر عباس اور محمود خان اچکزئی کی تقرری کا نوٹی فکیشن جاری نہ ہونے پربانی پی ٹی آئی کا تشویش کا اظہار احمد چھٹہ اور بلال اعجاز کو کس نے عہدوں سے اتارا؟ وہ میرے پرانے ساتھی ہیں، توہین عدالت فوری طور پر فا...

عدالت سے کوئی امید نہیں،عمران خان

پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعیناتی پر بات کی، وزیراطلاعات وجود - بدھ 29 اکتوبر 2025

بھارتی جریدے فرسٹ پوسٹ کا 20 ہزار پاکستانی فوجی غزہ بھیجنے کا دعویٰ بے بنیاد اور جھوٹا نکلا،بھارتی رپورٹ میں شامل انٹیلی جنس لیکس اور دعوے من گھڑت اور گمراہ کن ہیں، عطا تارڑ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نجی اخبار کے جملے سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیے،آئی ایس پی آر اور ...

پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعیناتی پر بات کی، وزیراطلاعات

مولانا اور بلاول بھٹو کی اہم بیٹھک، فضل الرحمان کا اپوزیشن لیڈر کی تقرری سے انکار وجود - منگل 28 اکتوبر 2025

بلاول اپوزیشن لیڈر تقرری میں فضل الرحمان کیساتھ اتحاد کے خواہاں، پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں 74 اراکین اسمبلی ، جے یو آئی کے6 جنرل نشستوں سمیت 10ممبران کے ساتھ موجودہیں پاک افغان کشیدگی دونوں ممالک کیلئے مفید نہیں،معاملات شدت کی طرف جارہے ہیں ، رویے میں نرمی لانا ہوگی، ہم بھ...

مولانا اور بلاول بھٹو کی اہم بیٹھک، فضل الرحمان کا اپوزیشن لیڈر کی تقرری سے انکار

پی ٹی آئی نے نااہلی سے متعلق دائر اپیلیں واپس لے لیں وجود - منگل 28 اکتوبر 2025

چیئرمین پی ٹی آئی کی شبلی فراز کی نااہلی کی اپیل پر عدالت سے نوٹس جاری کرنے کی استدعا عمرایو ب انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے، اس لئے اپیل واپس لے رہے ہیں، بیرسٹرگوہر چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے عمر ایوب اور شبلی فراز سے متعلق دائر اپیلیں واپس لے لیں۔سپریم کورٹ ...

پی ٹی آئی نے نااہلی سے متعلق دائر اپیلیں واپس لے لیں

بھارتی قبضہ غیر قانونی، پاکستان، کشمیر لازم و ملزوم ہیں، حافظ نعیم وجود - منگل 28 اکتوبر 2025

جدوجہد آزادی رنگ لائے گی، مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا، عالمی برادری بھارت پر دبائو ڈالے،امیر جماعت حکومت کشمیر کا مقدمہ پوری طاقت سے لڑے ، تیسری نسل کو بھارتی مظالم کا سامنا ہے، مقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ پر بیان امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے اقوام متحد...

بھارتی قبضہ غیر قانونی، پاکستان، کشمیر لازم و ملزوم ہیں، حافظ نعیم

ملک بھر میں گھریلو صارفین کیلئے گیس کنکشن کھولنے کا اعلان وجود - پیر 27 اکتوبر 2025

آر ایل این جی سے گھریلو صارفین کو معیاری ایندھن کی فراہمی ممکن ہوگی،شہبازشریف خوشی کا دن ہے،پورے ملک کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا، تقریب سے خطاب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ملک بھر میں گھریلو گیس کنکشن کھولنے کا اعلان کردیا۔اسلام آباد میں گھریلو گیس کنکشن کی...

ملک بھر میں گھریلو صارفین کیلئے گیس کنکشن کھولنے کا اعلان

21 نومبر کو نظام تبدیل کرنے کی تحریک کا آغاز ہوگا، حافظ نعیم وجود - پیر 27 اکتوبر 2025

نوجوان اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں،طلباو طالبات کی ہزاروں میں ٹیسٹ میں شرکت نوجوان نہیں مستقبل میں سیاسی قبضہ گروپ مایوس ہوگا، بنو قابل پروگرام سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ نوجوان اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں، نوجوانوں کو ساتھ ملا کر نومبر میں...

21 نومبر کو نظام تبدیل کرنے کی تحریک کا آغاز ہوگا، حافظ نعیم

وفاق سے حقوق طاقت کے زور پر لیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وجود - پیر 27 اکتوبر 2025

ڈی جی آئی ایس پی آر نے میرے خلاف پریس کانفرنس کی، وفاقی وزرا نے گھٹیا الزامات لگائے میرے اعصاب مضبوط ، ہم دلیر ہیں، کسی سے ڈرنے والے نہیں، سہیل آفریدی کی پریس کانفرنس وزیر اعلی خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ وفاق سے اپنے حقوق طاقت کے زور پر لیں گے ، صوبے میں امن ل...

وفاق سے حقوق طاقت کے زور پر لیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

کشمیریوں کا بھارتی جارحیت کیخلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان وجود - پیر 27 اکتوبر 2025

27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں اتاری تھیں اوربڑے حصے پر ناجائز قبضہ کیا مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی، کل جماعتی حریت کانفرنس کی پریس کانفرنس کشمیریوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف آج دنیا بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہن...

کشمیریوں کا بھارتی جارحیت کیخلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان

مضامین
مودی سرکار کے بلڈوزر تلے اقلیتوں کے حقوق وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
مودی سرکار کے بلڈوزر تلے اقلیتوں کے حقوق

سیاست نہیں، ریاست بچاؤ قومی بقا کا پیغام وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
سیاست نہیں، ریاست بچاؤ قومی بقا کا پیغام

پاک افغان مذاکرات وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
پاک افغان مذاکرات

آزادی تحریکیں،بھارت کے لیے خطرہ وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
آزادی تحریکیں،بھارت کے لیے خطرہ

آفتاب احمد خانزادہ وجود بدھ 29 اکتوبر 2025
آفتاب احمد خانزادہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر