وجود

... loading ...

وجود
وجود

تعلیم تجارت یامشن ۔ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر

جمعه 20 اکتوبر 2017 تعلیم تجارت یامشن ۔ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر

پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کارہنما اور خاص طورپر حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنما اور وزرا جب بھی کسی جلسے یاتقریب سے خطاب کرتے ہیں توسب سے پہلے تعلیم کی اہمیت پر زوردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتی ،جبکہ دوسری جانب سرکاری اسکولوں پر نظر ڈالیں تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس اسکولوں کے چوکیدار اور چپراسی بھی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں تعلیم دلوانے کوتیار نہیں ہوتے،اسکولوں کی زبوں حالی کے بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والے مضامین اور تصاویر سے سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا با آسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اخبارات میں سرکاری اسکولوں کی حالت کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوںا ورمضامین سے ظاہرہوتاہے کہ بیشتر سرکاری اسکولوں میں طلبہ کو پینے کے پانی کی سہولت ،حاصل نہیں ہے ، ٓاسکولوں کی اکثریت بجلی جیسی نعمت سے محروم ہے، اور بچوں کو حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے اسکولوں کے ارد گرد واقع مکانوں کے مکینوں کی خوشامد کرنا پڑتی ہے۔ان اسکولوں کے اساتذہ کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جب سے اساتذہ کی حاضری کویقینی بنانے کے لیے بایو میٹرک سسٹم نافذ کیاگیاہے برسہابرس سے کسی شکوہ شکایت کے بغیر ڈیوٹیاں انجام دینے والے اساتذہ کی جانب سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواستوں کے انبار لگ گئے ہیں جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اساتذہ کی اکثریت ڈیوٹی دئے بغیر تنخواہیں اورمراعات وصول کرنے اورسرکاری اسکولوں میں ڈیوٹی کے اوقات میں اپنے نجی اسکول اورکوچنگ سینٹر چلانے کی اس قدر عادی ہوچکی ہے کہ اب ڈیوٹی کی پابندی انھیں شاق گزر رہی ہے۔
سرکاری اسکولوں کی اس زبوں حالی اور ابتر صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ تعلیم کے نام پرتجارت کرنے والے نجی تعلیمی اداروں کوپہنچاہے کیونکہ اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے والے والدین کے پاس اب نجی اسکولوں کارخ کرنے اور اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی منہ مانگی فیس اداکرنے کے سوا کوئی چارہ نہیںہے، نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے شہریوں سے فیسوں کے نام پر بھاری رقوم کی وصولی کا سلسلہ یوں توبرسہابرس سے جاری ہے اور ہر سال کے اختتام پر اور بعض اوقات درمیان ہی میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں من مانا اضافہ کیاجانا ایک معمول بن چکاہے اور ان کی اس من مانی پر توجہ دینے اور غریب والدین کو ان کی چیرہ دستیوں سے بچانے والا بظاہر کوئی نہیں تھاکیونکہ محکمہ تعلیم کے افسران یا تو نجی تعلیمی اداروں سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں یا اندرون خانہ اس لوٹ مار سے اپنا حصہ وصول کررہے ہیں جس کی وجہ سے انھوں نے نجی اسکولوں کے خلاف والدین کی شکایت پر کبھی مناسب توجہ دینا ضروری تصور نہیں کیا،لیکن بھلا ہو پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کا کہ اس کے نتیجے میں عام شہریوں میں بھی اپنے مسائل حل کرانے کے لیے احتجاج اور مظاہروں کی اہمیت کااندازہ ہوگیا ہے اس کی ایک تازہ جھلک والدین کی اْس مہم کی صورت میں نظر آئی جس کے تحت سیکڑووں کی تعداد میں والدین نے گزشتہ دنوں کراچی کے ممتاز نجی اسکولوں کے مرکزی دفاتر کے باہر مظاہرہ کیا اور فیسوں میں ہوش ربا اضافے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔محض گنتی کے چند والدین سے شروع ہونے والی یہ مہم آج ایک منظم اور پْرامن قانونی لڑائی میں تبدیل ہوگئی اورکراچی کے صرف ایک معروف نجی اسکول نیٹ ورک کے خلاف تقریباً 500 والدین یکجا ہوگئے۔ اِن والدین کا مؤقف واضح ہے۔ فیسوں میں من مانا اضافہ روکا جائے اور اِسے سندھ پرائیوٹ اسکول آرڈیننس میں مختص کردہ (زیادہ سے زیادہ) 5 فیصد سالانہ اضافے تک محدود کیا جائے۔
والدین کی یہ جدوجہد طویل بھی ہے اور کٹھن بھی اور اِس کے کئی روشن اور تاریک پہلو ہیں۔ اْمید افزا بات یہ ہے کہ اتنے برس میں پہلی دفعہ والدین منظم ہوئے اور انہیں ایسپا (آل اسکول پیرنٹس ایسوسی ایشن) بنانے کا خیال آیا۔ اپنے قانونی حقوق سے آگاہی اور عدالتی نظام پر عام آدمی کا یقین بھی اِس حوالے سے بہت خوش آئند ہے۔تاہم اِس معاملے کا سب سے حساس اور فکر انگیز پہلو یہ ہے کہ والدین اِن اسکولوں کے سامنے سینہ سپر ہیں جہاں اِن کے بچے ہنوز زیر تعلیم ہیں۔ بعید نہیں کہ فریق اسکول اِس مہم جوئی کا بدلہ بچوں سے لیں۔ ماضی میں کراچی کا ایک ممتاز نجی اسکول ایسا کرچکا ہے جہاں اسکول کی بے جا فیسوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکانے والے گھرانوں کے بچے امتیازی سلوک کا نشانہ بنے۔ عدالت کے واضح حکم کے باوجود اْن بچوں کے سیکشن الگ کیے گئے، اْنہیں واش روم کے باہر بٹھا کر لنچ کروایا جاتا، مارننگ اسمبلی میں دیگر بچوں کے سامنے نادہندہ کے طور پر ذلیل کیا جاتا اور تعلیم، امتحان اور کھیل کے مساوی حقوق سے محروم کیا گیا۔
اسکول انتظامیہ کے امتیازی رویے سے تنگ آکر کئی بچے اسکول چھوڑ گئے جبکہ باقیوں کو اِس معاملے میں بھی عدالت عظمیٰ کا سہارا لینا پڑا۔ غرض یہ کہ اِس تمام تر قصے میں بچوں کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگا نظر آتا ہے۔ اتنے اندیشوں اور دیگر والدین کے تلخ تجربوں کے باوجود سینکڑوں کی تعداد میں والدین کا دیگر نجی اسکولوں کے خلاف کھڑا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔والدین کی فعال تنظیم، فیصل ایسوسی ایشن کے سربراہ فیصل احمد گزشتہ 3 برسوں سے اِس مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اول اول اْن کا رابطہ پہلے نجی اسکول کے خلاف آواز اٹھانے والے والدین سے ہوا اور آج وہ ایک اور بڑے نجی اسکول نیٹ ورک کے ہاتھوں ستائے گئے والدین کی تنظیم کے صدر ہیں۔ فیصل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر مرحلے اور ہر سطح پر اِس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا،ان کے مطابق اول تو اسکول انتظامیہ والدین کو گھاس ہی نہیں ڈالتی اور اگر کہہ سن کر بیسیوں درخواستوں اور فون کالز کے بعد ملاقات ہو بھی جائے تو میں نہ مانوں کی ایک رٹ ہوتی ہے۔ حیلے بہانوں سے معاملے کو طول دیا جاتا ہے اور زیادہ بحث مباحثے پر انفرادی چھوٹ دینے کی پیشکش ہوتی ہے۔ جب معاملہ یوں بھی نہ سلجھے تو دھمکیوں کی نوبت آجاتی ہے۔
فیصل کا کہنا تھا کہ قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ وہ انتہائی قدم تھا جو والدین نے اسکول کی ہٹ دھرمی اور ڈائریکٹر جنرل کے نوٹیفکیشن کی مستقل حکم عدولی کے بعد مجبوراً اٹھایا۔ اِس حوالے سے والدین کا مطالبہ حق بجانب ہے۔ اْنہیں اسکول کی فیسیں دینے سے انکار نہیں لیکن پچھلے 3 برسوں کے دوران جس انداز سے متعلقہ اسکول کی فیسوں میں سالانہ 10 سے 15 فیصد بلاجواز اضافہ کیاگیا ہے، والدین اِسے قانون کی سراسر خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔گویا فی بچہ، مئی سے اگست تک ہر سال، ماہانہ 5 سے 10 ہزار تک کا اضافہ معمول کی بات ہے۔ اِس پر تعلیم کا گرتا معیار اور آئے دن مختلف مقابلوں اور سرگرمیوں کے نام پر ہزاروں کا خرچہ الگ درد سر ہے۔
اسکول میگزین اور اسٹیشنری کے نام پر بھی گاہے بہ گاہے خوب رقم بٹوری جاتی ہے۔ اِس پر مستزاد حکومت کی جانب سے عائد کردہ نیا تعلیمی ٹیکس، جسے والدین کے کھاتے میں ہی ڈال دیا گیا ہے۔ بقول ایک والد، یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسکول محض فیسیں بٹورنے، امتحان لینے اور غیر ضروری سرگرمیوں کے نام پر چندہ جمع کرنے کے کاروباری مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں علم اور دانش ندارد ہے بس مسابقت اور دکھاوے کا گورکھ دھندہ ہے۔
اِس حوالے سے اسکول انتظامیہ بات کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ اِس موضوع پر اْن کے وکیل عدالت میں اپنا مؤقف بیان کریں گے۔ نیز فیسوں میں5 فیصد اضافے کا قانون بھی عدالت میں چیلنج کیا جاچکا ہے۔ کیس کی سماعت مکمل ہوچکی ہے اور فیصلے کا انتظار ہے جو اْنہیں یقین ہے کہ اسکولوں کے حق میں ہوگا کیوںکہ مہنگائی کے تناظر میں فیسوں میں اضافہ فطری عمل ہے اور اِس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی۔ اگر کچھ والدین فیسیں ادا نہیں کرسکتے تو اْنہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ہمارے معیاری (برانڈڈ) اسکولوں سے نکال کر اپنی استطاعت کے مطابق سستے اسکولوں میں داخل کرا دیں۔مگر والدین کا کہنا ہے کہ وہ فیسیں دے سکتے ہیں جب ہی انہوں نے اپنے بچوں کو بہتر معیارِ تعلیم اور روشن مستقبل کی خاطر اِن اسکولوں میں داخل کرایا تھا۔ لیکن اسکول انتظامیہ کو من مانی کرنے کی اجازت دینے کوتیار نہیںہیں۔
حمود الرحمٰن جو خود بھی وکیل ہیں اور اِس کیس کے حوالے سے والدین کی نمائندگی کر رہے ہیں اْن کا کہنا ہے کہ 2001 میں پاس کیا گیا سندھ پرائیوٹ اسکول آرڈیننس ایک نہایت جامع اور عمدہ قانون ہے جس کو اگر درست طریقے سے لاگو کیا جائے تو اِس کے تحت تمام فریقین بشمول اسکول اور والدین کے جائز حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔اِس قانون میں نجی اسکولوں کو فیسوں میں بے جا اضافے کی کھلی چھٹی نہیں دی گئی، بلکہ زیادہ سے زیادہ 5 فیصد اضافے کو بھی متعلقہ انسپکشن کمیٹی کی سفارش درکار ہے جس کا انحصار براہِ راست اسکول میں دی جانے والی سہولتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نجی اسکولوں کا ایک بڑا اتحاد جس میں لگ بھگ ایک درجن کے قریب نامی گرامی نجی اسکول شامل ہیں، اْس کے خلاف مدعی بن کر سامنے آئے ہیں۔
مساوی اور معیاری تعلیم ریاست کا وعدہ بھی ہے اورآئینی ذمہ داری بھی، تاہم اِس کی پاسداری میں ریاست بْری طرح ناکام رہی ہے۔ ماضی میں نجی اسکولوں نے پاکستان میں وہ خلاپْر کیا جو تعلیم کے شعبے کو قومیائے جانے کے بعد پیدا ہوگیا تھا۔ تاہم یہ خلا پْر کرتے کرتے اْنہوں نے تعلیم کی تجارت شروع کردی اور اْسے طبقات میں بانٹ دیا اور محکمہ تعلیم نے اِس پرکوئی دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ، عام والدین کاخیال ہے کہ محکمہ تعلیم کے متعلقہ افسران کی جانب سے نجی اسکولوں کے مالکان کی لوٹ مار سے اس چشم پوشی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر افسران کے کچن کاخرچ یہی نجی اسکولوں کے مالکان برداشت کرتے ہیں،اس صورت حال میںوالدین کی امید کا واحدمرکز ملک کی اعلیٰ عدلیہ ہے کیونکہ اب نجی اسکولوں کی لوٹ مار پر قدغن عدلیہ ہی لگاسکتی ہے اورمحکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کو نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو نکیل ڈالنے پر مجبور کرسکتی ہے۔


متعلقہ خبریں


ایگزیکٹوکی مداخلت برداشت نہیں ،چیف جسٹس وجود - جمعه 29 مارچ 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر چیف جسٹس نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور عدلیہ کی آزادی پر کسی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے ...

ایگزیکٹوکی مداخلت برداشت نہیں ،چیف جسٹس

وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات، ججوں کے الزامات پر انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ وجود - جمعه 29 مارچ 2024

وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرانے کا اعلان کردیا۔اس بات کا اعلان وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیراعظم چیف جسٹس ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل انور منصور کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کیا ،اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط والے م...

وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات، ججوں کے الزامات پر انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ

6جج صاحبان کا خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام، چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ اجلاس وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا فل کورٹ اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظ...

6جج صاحبان کا خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام، چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ اجلاس

سندھ میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 30پرائمری اسکول بنیں گے وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

حکومت سندھ نے 30پرائمری ااسکولوں کی تعمیر کے لئے فنڈ کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے 1ارب 52 کروڑ 82 لاکھ 70 ہزار روپے کی منظوری دی محکمہ خزانہ سے رقم دینے کی سفارش بھی کردی گئی اسکولوں کی تعمیرات رواں ماہ میں ہی شروع کردی جائے گی۔

سندھ میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 30پرائمری اسکول بنیں گے

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔اسمگل شدہ اسلحہ ڈیلروں اور محکمہ داخلہ کی مدد سے لائسنس یافتہ بنائے جانے انکشاف ہوا ہے۔ایف آئی اے کے مطابق حیدرآباد میں کسٹم انسپکٹر مومن شاہ کے گھر سے سڑسٹھ لائسنس یافتہ ہتھیار ملے۔تصدیق کرائی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس...

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف

مجھے جیل میں رکھ لیں باقی رہنمائوں کو رہا کردیں، عمران خان وجود - بدھ 27 مارچ 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے جیل میں رکھ لیں مگر باقی رہنماں کو رہا کردیں۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے کہنا چاہتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی 25 مئی کی پٹیشن کو سنا جائے اور نو مئی واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل...

مجھے جیل میں رکھ لیں باقی رہنمائوں کو رہا کردیں، عمران خان

شانگلہ میں گاڑی پرخودکش دھماکا،5چینی انجینئرسمیت 6افراد ہلاک وجود - بدھ 27 مارچ 2024

خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ میں بشام کے مقام پرچینی انجینیئرز کی گاڑی پر خودکش حملے کے نتیجے میں 5 چینی باشندوں سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ ڈی آئی جی مالاکنڈ کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی مسافروں کی گاڑی سے ٹکرائی، گاڑی پر حملے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔بشام سے پ...

شانگلہ میں گاڑی پرخودکش دھماکا،5چینی انجینئرسمیت 6افراد ہلاک

تربت میں پاک بحریہ ائیربیس پر حملہ ناکام، 4 دہشت گرد ہلاک، ایک سپاہی شہید وجود - بدھ 27 مارچ 2024

سیکیورٹی فورسز نے تربت میں پاک بحریہ کے ائیر بیس پی این ایس صدیق پر دہشتگرد حملے کی کوشش ناکام بنادی، فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گرد ہلاک کر دیا جبکہ ایک سپاہی شہید ہوگیا ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب دہشت گردوں نے تربت میں پ...

تربت میں پاک بحریہ ائیربیس پر حملہ ناکام، 4 دہشت گرد ہلاک، ایک سپاہی شہید

اسرائیل نے سلامتی کونسل قرارداد کو پیروں تلے روند دیا،مزید 81فلسطینی شہید وجود - بدھ 27 مارچ 2024

اسرائیل نے سلامتی کونسل کی غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو ہوا میں اڑاتے ہوئے مزید 81فلسطینیوں کو شہید کردیا۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے آٹھ واقعات میں مزید 81 فلسطینی شہید اور 93 زخمی ہوگئے۔الجزیرہ کے مطابق رفح میں ایک گھ...

اسرائیل نے سلامتی کونسل قرارداد کو پیروں تلے روند دیا،مزید 81فلسطینی شہید

کراچی یونیورسٹی میں ناقص سیکیورٹی انتظامات، طلبا کی موٹرسائیکلیں چوری ہونے لگیں وجود - بدھ 27 مارچ 2024

جامعہ کراچی میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث چوریوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا اور دو روز میں چوروں نے 4طالب علموں کو موٹرسائیکلوں سے محروم کردیا۔تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے سبب نہ صرف جامعہ کی حدود میں چوریوں کی وارداتوں میں اضافہ ہورہ...

کراچی یونیورسٹی میں ناقص سیکیورٹی انتظامات، طلبا کی موٹرسائیکلیں چوری ہونے لگیں

سلامتی کونسل اجلاس، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور وجود - پیر 25 مارچ 2024

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 7اکتوبر کے بعد پہلی مرتبہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی۔پیر کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پر امریکا نے اپنے سابقہ موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا۔سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے قرارداد کے ...

سلامتی کونسل اجلاس، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور

ملک میں یومیہ 4ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ وجود - پیر 25 مارچ 2024

ملک میں یومیہ چار ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ کا انکشاف ہوا ہے-تیل کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو ماہانہ تین کروڑ چھپن لاکھ ڈالرزکا نقصان ہورہا ہے۔ آئل کمپنیز نے اسمگلنگ کی روک تھام اورکارروائی کیلئیحکومت اور اوگرا سیمدد مانگ لی ہے۔آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نیسیکریٹری پیٹرولیم کو ...

ملک میں یومیہ 4ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ

مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر