وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان کو خوددار ملک بنانے کے لیے معیشت کومستحکم کرنا ہوگا

بدھ 04 اکتوبر 2017 پاکستان کو خوددار ملک بنانے کے لیے معیشت کومستحکم کرنا ہوگا

تہمینہ حیات نقوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ تقریر کے بعد جس میں انھوں نے انتہائی طوطا چشمی کامظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کے لیے پاکستان کی تمام قربانیوں اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے بے پناہ جانی ومالی نقصانات کونظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی امداد بند کرنے اور دیگر پابندیاں عاید کرنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے بھارت کے کردار کو حقوق انسانی کی پامالی اور امن مخالف جارحانہ سرگرمیوں کی وجہ سے پوری دنیا کے امن پسند عوام اور حقوق انسانی کی تنظیمیںجس پر لعن طعن میں مصروف ہیں ، پاکستان میں امریکا پر سے ہی نہیں بلکہ تمام مغربی ممالک پر سے انحصار کم کرنے او ر ایک خوددار قوم کی حیثیت سے قوموں کی برادری میں اپنی شناخت پیدا کرنے کے مطالبات زور پکڑتے جارہے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا ایک خوددار ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت پیدا کرنے کے مطالبات اور خواہشات کاتعلق ہے تو اس کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی بھی ذی ہوش او ر محب وطن پاکستانی انکار نہیں کرسکتا، لیکن یہ مقصدصرف سیمینارز میں تقریریں کرنے اور مذاکروں اور مباحثوں کے ذریعہ حاصل نہیں کیاجاسکتا،اس مقصد کے لیے مربوط حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ انتہائی استقامت کی ضرورت ہے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری حکومت عوام کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ پیش رفت پر غور کریں،کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عوام کی صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھایا جائے تو ہم اپنے ملک کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے پاس بیش بہا وسائل ہیںجن کے ذریعے ہم اپنی معاشی حالت بہتر بنا سکتے ہیں۔ خودداری کے لیے خودکفالت بہت ضروری ہے۔ ہمیں غیر ملکی امداد ترک کر کے خود انحصاری پر بھروسہ کرنا چاہیے۔خوددار ملک بننے کی خاطر ہمیں غیر ملکی امداد اور قرضوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور خود کفالت‘ کفایت شعاری اور سادگی کو اپنے قومی کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔
پاکستان کو ایک خوددار ملک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں دنیا کے سامنے خود کو بھکاری بناکر پیش کرنے کاوطیرہ تبدیل کریں ہم اپنی خارجہ اور داخلی پالیسیاں اپنی ضرورت کے مطابق تیار کریں اور کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے کسی ملک کے خواہ وہ امریکا ہی کیوں نہ ناراضگی اور خوشی کا خیال کئے بغیر اپنی ضرورتوں کو ترجیح دیں،مثال کے طورپر ایک خوددار ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ہمارے وزیراعظم کو امریکا کے ڈرون حملے کے بعد امریکا جانے سے پہلے امریکی سفیر سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ یہ طرز عمل قومی خودداری کے خلاف ہے۔ قومی غیرت مندی کے لیے ہمیں قائداعظم کے رویے کو سامنے رکھنا ہوگا۔
یہاںیہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ جب ہمیں کوئی ملک امداد دیتا ہے تو وہ اپنی شرائط بھی عائد کرتا ہے۔ اکثر یہ شرائط ہماری خودداری اور غیرت کے خلاف ہوتی ہیں۔ اس صورتحال میں امداد کا بڑا حصہ واپس چلا جاتا ہے۔ غیر ملکی امداد کے ساتھ کئی مشورے بھی آتے ہیں اوربعض اوقات بلکہ بسااوقات ہمیں امدادی رقم استعمال کرنے کے لیے ایڈوائزرز اور کنسلٹنٹس بھی امداد دینے والے ملک کی مرضی اورہدایت کے مطابق رکھنا پڑتے جنھیں بھاری فیس ادا کرنا پڑتی اس طرح کڑی شرائط پر ملنے والی امدادی رقم ہم آزادی سے استعمال نہیں کر سکتے۔
اس حوالے سے ایک پرانا واقعہ ہمارا سامنے ہے بیگم رعنا لیاقت علی خان ہالینڈ میں سفیر مقرر ہوئیں۔ ایک محل انہیں تحفے میں ملا تو انہوں نے وہ محل پاکستانی سفارت خانے کو دے دیا ہمارے وزرا، وزیراعظم اور سفارتکاروں کو بھی ان ہی کی تقلید کرنی چاہئے۔ہمیں اس قو م کو حقیقی معنوں میں خود دار قوم بنانے کے لیے دولت کی اس انتہائی غیر مساوی تقسیم کاخاتمہ کرنا ہوگا اور اس ملک کے ہر شہری کو زندگی کے لیے ضروری کم از کم سہولتوں کی بآسانی فراہمی کا انتظام کرنا ہوگا جبکہ اس وقت ہماری معاشی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہاںبیشتر لوگوں کی ماہانہ آمدنی 20 ہزار روپے بھی نہیں ہے جبکہ بعض لوگ ایک وقت کے کھانے کے لیے 20 ہزار روپے اڑادیتے ہیں۔
یہ بات یقینا خوش آئند ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اب پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھی جرات ایمانی پر مبنی ردِعمل سے پاکستانی قوم کی حقیقی امنگوں کی ترجمانی کی ہے نیز ایک خوددار ملک اور غیور قوم کی حیثیت سے پاکستان کا تاثر مضبوط کیا ہے۔ مفکر پاکستان نے مسلمانوں کو خودی یا خودشناسی کا جو درس دیا تھا‘ آج کا پاکستان اس کی عملی تعبیر دکھائی دے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جذبے اور عزم کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیاجائے،اور ایک خوددار قوم اور خودمختار ملک ہونے کے حوالے سے عوام کا شعور بیدار کیاجائے اور انہیں خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال سے پیدا شدہ چیلنجز سے عہدہ برآہونے کے لیے تیار کیا جائے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان کے عوم فطری طورپر خوددار ہیں ،پاکستان کے عوام بھوک پیاس برداشت کرسکتے ہیں مگر اپنی خودداری اور حاکمیت اعلیٰ پر کبھی سمجھوتہ کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوں گے ۔ قدرت نے ہمیں بیش بہا مالی وسائل عطا فرمائے ہیں جن کے منصفانہ استعمال کے ذریعے ہم پاکستان کو معاشی لحاظ سے انتہائی مستحکم ریاست بناسکتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہم بحیثیت قوم خودداری کا مظاہرہ اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے گریز کریں گے تو دنیا ہماری عزت کرے گی اور افغانستان و بھارت کے حوالے سے ہمارے موقف کی تائید کرے گی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ‘ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو بعض کامیابیوں کے باوجود سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ، زر مبادلہ ذخائر میں کمی اور سرکاری اداروں کے نقصانات ترقی کو خطرے سے دوچار کر سکتے ہیں،پاکستانی حکومت کو مستقبل قریب میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے توازن میں جس مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کی ایک جھلک ایشیائی ترقیاتی بینک کی اس رپورٹ میں نظر آ رہی ہے اس لیے حکومت پاکستان کو اپنے دستیاب مالی وسائل کو نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی ضروریات پر خرچ کرنا ہونگے۔ اس کے علاوہ ہمیں ملک میں مالی مسابقت اور مالیاتی استحکام کے لیے میکرواکنامک اورا سٹرکچرل اصلاحات بھی کرنا ہوں گی، تاکہ ملکی معیشت کو صحیح راہ پر گامزن رکھا جا سکے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو سرمایہ کاری کے منصوبوں کے لیے 800ملین ڈالر کا جو قرضہ دیا ہے وہ اقتصادی رابطہ اور علاقائی تجارت میںا ضافہ کے منصوبوں پر خرچ کیا جا سکتاہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے پاکستانی حکومت فوری طور پر بیرونی ادائیگیوں جیسے مسئلہ کو حل کرنے پر بھرپور توجہ دے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے جس پر غور کرنا بے حد ضروری ہے جس کے لیے ہمیں کرنٹ اکائونٹ خسارے، زر مبادلہ میں کمی اور سرکاری نقصانات جیسے بڑے بڑے مسائل پر قابو پانا ہوگا۔ہمارے حکمرانوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ قرضے اور بھیک لینے والے ممالک کبھی خوددار نہیں ہو سکتے۔‘‘ ان کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہوتی۔ بھکاری کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم خود اپنی معیشت کومضبوط نہیں بنائیں گے عالمی برادری میں ہماری کوئی عزت نہیں ہوسکتی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر