وجود

... loading ...

وجود
وجود

اپوزیشن نے اسحاق ڈارسے استعفیٰ کے لیے دبائو بڑھادیا،کرنسی کی قیمت میں کمی کی قیاس آرائیاں

منگل 03 اکتوبر 2017 اپوزیشن نے اسحاق ڈارسے استعفیٰ کے لیے دبائو بڑھادیا،کرنسی کی قیمت میں کمی کی قیاس آرائیاں

وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن پارٹیوں نے اسحاق ڈار پر وزارت سے استعفیٰ دینے کے لیے دبائو بڑھا دیا ہے ،اگرچہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شروع کی گئی مہم کی وجہ سے قومی اسمبلی میں باقاعدہ طورپر یہ مطالبہ نہیں اٹھایاگیاہے لیکن خیال کیاجاتا ہے کہ قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی فیصلہ ہوتے ہی تمام اپوزیشن جماعتیں اسحاق ڈار کومستعفی ہونے پر مجبور ہونے کے لیے متحد ہوجائیں گی، اگرچہ خیال غالب ہے کہ نواز شریف کی طرح اسحاق ڈار بھی آخر وقت تک اپنی کرسی سے چمٹے رہنے کی کوشش کریں گے اور آسانی سے وزارت چھوڑنے پر تیار نہیں ہوں گے ، لیکن اپوزیشن کے زبردست دبائو کو جس میں ملک کے تجارتی اور صنعتی حلقوں کے شامل ہوجانے کے امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتابرداشت کرنا بھی آسان نہیں ہوگا اور اسحاق ڈار وزارت کی کرسی پر براجمان رہنے کے باوجود کوئی اہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے اور اس طرح وزارت خزانہ عملی طورپر مفلوج ہوکر رہ جانے کے خدشے کونظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
دوسری جانب اسحاق ڈار پر فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد اب صنعتی اور تجارتی حلقوں میں یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ وزار ت خزانہ میں کسی بھی متوقع یا غیر متوقع تبدیلی کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی لازمی امر ہوگا۔اگرچہ حکومت کی جانب سے اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی جارہی ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کوئی ردوبدل نہیں کیاجائے گا لیکن معروف کرنسی ڈیلرز کاکہناہے کہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد اب پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کے امکانات میں اضافہ ہوگیاہے۔کرنسی ڈیلرز کاکہناہے کہ اسحاق ڈار پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کسی طرح کی کمی کے شدید مخالف تھے۔ اگرچہ کرنسی کی قیمت کم نہ کئے جانے کی وجہ سے ملک کی برآمدات اور درآمدات بڑی حد تک متاثر ہورہی تھیں اور بیرونی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے برآمدات میں مسلسل کمی کارجحان تھا اور اسحاق ڈار تمام تر کوششوں کے باوجود تجارتی خسارے کو کم کرنے اور درآمدات وبرآمدات میں توازن پیدا کرنے میں ناکا م رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کرنے پر تیار نہیں تھے۔جبکہ پاکستان کو قرض فراہم کرنے والے کم وبیش تمام بین الاقوامی مالیاتی ادارے ،غیر جانبدار ماہرین معاشیات اور تجزیہ کا ر اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے روپے کی قیمت اس کی اصل قدر سے کم وبیش 20 فیصد زیادہ شرح پر قائم رکھی گئی ہے ،ماہرین کاکہناہے کہ کرنسی کی قیمت میں کمی بیشی دنیا میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ اس وقت دنیا کی مضبوط ترین کرنسی کے حامل ممالک جن میں چین، جرمنی،بھارت اور فرانس شامل ہیں مختلف اوقات میں مارکیٹ کی ضرورت اور اپنی کرنسی کی اصل قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی کرنسی کی قیمت میں کمی کرتے رہے ہیں۔
نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد اپنے بیان میں یہ واضح کردیاتھا کہ پاکستان کی کرنسی کی قیمت میں کوئی کی بیشی نہیں کی جائے گی۔جبکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز کاکہنا ہے کہ ملک کے تجارتی خسارے میںکمی کرنے کے لیے پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کرنا ناگزیر ہے تاہم ان کاکہناہے کہ حکومت کو چاہئے کہ کرنسی کی قیمت میں اچانک کوئی بڑی کمی کرنے کے بجائے بتدریج اس عمل کو مکمل کرے اور کرنسی کی قیمت میں معمولی کمی کے ذریعے کرنسی کو اپنی اصل قدر پر مستحکم ہونے کاموقع دیاجانا چاہئے۔ماہرین معاشیات کاکہناہے کہ حکومت کی جانب سے کرنسی کی قیمت میں کمی نہ کئے جانے کے باوجود گزشہ کم وبیش 3 ماہ کے دوران کھلی منڈی میں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں بتدریج کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کم وبیش نصف فیصد کمی ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت کھلی منڈی میں105.42 روپے کے مساوی ہوگیاہے۔جبکہ اسٹیٹ بینک کے مطابق 4 جولائی 2017 کو انٹر بینک لین دین میںڈالر کی قیمت 104.90 روپے کے مساوی تھی۔
یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ پاکستانی معیشت میں متعدد مرتبہ اتھل پتھل اور اتار چڑھائو کے باجود پاکستانی کرنسی کی قیمت اپنی جگہ قائم رکھی گئی ہے جبکہ معیشت میں اتارچڑھائو کے اثرات کرنسی کی قیمت میں بھی ظاہر ہونے چاہئے تھے۔
ماہرین معاشیات کاکہناہے کہ حکومت نے مختلف ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بڑے پیمانے پر قرض حاصل کئے ہیں جن کی مالیت 75 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، حکومت کو اصل آزمائش کا سامنا ان قرضوں پر بھاری سود کی ادائیگی پر کرناپڑے گا کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں اورحکومتوں کو بھاری رقوم کی ادائیگی کے اثرات پاکستانی کرنسی پر بھی پڑیں گے اور پاکستانی کرنسی کی قیمت میں اچانک بڑی شرح سے کمی کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔دوسری جانب چین کی جانب سے سی پیک کے منصوبے اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جبکہ بعض منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اس لیے چین کی حکومت کے ساتھ کئے گئے سمجھوتوں کے مطابق حکومت کو مکمل ہوجانے والے منصوبوں پر خرچ ہونے والے قرض کی رقم اور اس پر منافع شکل میں اربوں ڈالر کی ادائیگی شروع کرناہوگی اور اتنی بھاری رقم کی ادائیگی کاانتظام کرنا موجودہ حالات میں حکومت کے بس میں نظر نہیں آتا۔
فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کاکہناہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی سے صاف انکار کے بعد اب پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کے حوالے سے قیاس آرائیاںاگرچہ بظاہر دم توڑتی نظر آرہی ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے پوری مارکیٹ اورخاص طورپر تاجر برادری گومگو اور غیر یقینی صورت حال کاشکار ہے جس سے مارکیٹ پر جمود کی سی کیفیت طاری نظر آرہی ہے۔
دوسری جانب وفاق ایوانہائے صنعت تجارت کے صدر زبیر طفیل کاکہناہے کہ حکومت کی جانب سے پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی نہ کرنے کافیصلہ دانشمندانہ ہے اور حکومت کو اس فیصلے پر قائم رہنا چاہئے کیونکہ ان کے بقول پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی سے حکومت کے لیے مزید مسائل پیداہوں گے اوراس سے معیشت کوزبردست جھٹکا لگ سکتاہے۔زبیر طفیل کاکہناہے کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی کئے جانے کی صورت میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوگا اور درآمدی اشیا کی قیمتیں موجودہ کے مقابلے میں دگنی بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہیں۔ان کاکہناہے کہ اگرپاکستان کی کرنسی کی شرح تبادلہ میں 10فیصد کمی کی جاتی ہے تو اس سے افراط زر کی شرح میں 15 فیصد اضافہ ہوگا جبکہ برآمدات میں صرف 5 فیصد ہی اضافہ ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر