... loading ...
وزیر خزانہ نے قومی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے انسانی استعمال کی کم وبیش ہر شے پر سیلز ٹیکس نافذ کردیا ہے جو ہر شہری سے اس کی خریداری کے ساتھ ہی وصول کرلیاجاتاہے لیکن اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ ریونیو بورڈ میں سیلز ٹیکس اداکرنے والوں کی حیثیت سے اپنی رجسٹریشن کرانے والے تاجروں کی بہت کم تعداد باقاعدگی سے سیلز ٹیکس ادا کررہی ہے،فیڈرل ریونیو بورڈ کے پاس موجود اعدادوشمار اور ریکارڈ کے مطابق2016-17 کے دوران ایف بی آر کے پاس سیلز ٹیکس جمع کرانے والوں کی حیثیت سے ناموں کا اندراج کرانے والے تاجروں اور صنعت کاروں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ27 ہزار268 تھی لیکن ان ایک لاکھ 27 ہزار سے زاید رجسٹرڈ تاجروں ،ٹھیکیداروں اور صنعت کاروں میں سے صرف 20 ہزار 700 نے سیلز ٹیکس جمع کرایا جبکہ بقیہ 80 فیصد سے زیادہ رجسٹرڈ افراد نے سرکاری خزانے کی مد میں ایک روپیہ بھی جمع نہیں کرایا،جس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ ہمارے ایف بی آر کے حکام سیلز ٹیکس کی وصولی کا کوئی موثر اور جامع طریقہ کار وضح کرنے میں ناکام رہے ہیں جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ قومی خزانے کو اس کی اس آمدنی سے محروم کررہے ہیں جو وہ عوام سے پہلے ہی وصول کرچکے ہیں ۔ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطا بق2016-17 کے دوران مجموعی طورپرایک لاکھ 27 ہزار268 رجسٹرڈ سیلز ٹیکس ادا کرنے والوں میں سے صرف ایک لاکھ 14 ہزار102 افراد یافرموں نے اپنے سیلز ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے یعنی 13 ہزار166 رجسٹرڈ فرموں یعنی 11 فیصدنے سرے سے اپنے گوشوارے ہی جمع نہیں کرائے سیلز ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے والے 40 ہزار اداروں افراد یا ٹھیکیداروں نے اپنے گوشواروں میں سیلز ٹیکس صفر میں ظاہر کیا یعنی انھوں نے کسی طرح کا سیلز ٹیکس واجب الادا ہونے سے ہی انکار کیا،اور اپنے گوشواروں میں لکھ دیا کہ زیر نظر سال کے دوران انھوں نے کوئی ایسا کاروبار نہیں کیا یا خدمات انجام نہیں دیں جن پر سیلز ٹیکس نافذ کیاجاسکتاہو،ایف بی آر کے اندرونی ذرائع کاکہناہے کہ یہ ممکن ہے کہ سیلز ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے والے بعض اداروں نے واقعی ایسا کوئی کاروبار نہ کیا ہو یا ایسے سیکٹر میں خدمات انجام نہ دی ہوں جہاں سیلز ٹیکس واجب الادا ہوتاہو لیکن ایف بی آرکے ریجنل ٹیکس افسران اور لارج ٹیکس پیئر یونٹ کے افسران کافرض ہے کہ وہ جمع کرائے گئے گوشواروں کی چھان بین کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ سیلز ٹیکس نافذ العمل نہ ہونے کے اس دعوے میں حقیقت کتنی ہے، اسی طرح جن لوگوں نے گوشوارے جمع نہیں کرائے ان کے معاملات کی بھی چھان بین کی جائے کہ ان کی جانب سے گوشوارے جمع نہ کرائے جانے کی بنیا دی وجہ کیاہے۔
ایف بی آر کے اعدادوشمار کے مطابق55 ہزار یونٹس یعنی مجموعی طورپر 48 فیصد اداروں نے یہ ظاہر کیاہے کہ زیر نظر سال کے دوران انھوں نے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ان میں سے بعض کاسبب ادارے بندکردئے جانے یعنی کاروبار ختم کردیاجانا بھی ہوسکتاہے لیکن ایف بی آر کی جانب سے تفصیلی چھان بین اور انکوائری کے بعد ہی ان کی اصلیت کاعلم ہوسکتاہے ۔ایف بی آر کے ذرائع کاکہناہے کہ جو ادارے یا لوگ گوشوارے جمع نہیں کراتے وہ دراصل قومی خزانے میں کوئی رقم جمع نہیں کرارہے ہوتے ہیں ۔ایف بی آر کے موجود اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ ٹیکس بیس کو وسعت دینا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ایک مشکل کام ہے اس کے لیے بھرپور توجہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے،صرف تجارتی اداروں کی رجسٹریشن کرلینے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ ٹیکس نیٹ میں شامل کیے جانے والے اداروں کے جمع کردہ گوشواروں کی چھان بین اور ان کی اصل آمدنی اور قابل ادا ٹیکس کاتعین کرنا بھی ایف بی آر کے متعلقہ حکام کاہی فرض ہے لیکن ایف بی آر کے گزشتہ مالی سال کے ریکارڈ سے ظاہرہوتا ہے کہ ایف بی آر کے حکام نے اب تک اس حوالے سے کاغذی خانہ پری کے سوا عملا ً کچھ نہیں کیا۔جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا اور ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی تخمینے سے بہت کم رہی ، یہی وہ صورت حال تھی جس کی وجہ سے وزارت خزانہ کو جاریہ اخراجات پورے کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا سہارالینے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق 2016-17 کے دوران ٹیکسوں کے گوشوارے جمع کرانے والوں میں بڑی تعداد ایسے اداروں اور افراد کی ہے جنھوں نے زیر نظر سال کے دوران اپنے کاروبار اورکام سے ہونے والی آمدنی کو قابل ٹیکس قرار نہیں دیاہے جبکہ ان میں سے بہت سوں نے زیر نظر سال کے دوران کسی طرح کی کاروباری سرگرمی سے ہی انکار کیاہے اور یہ ظاہر کیاہے کہ زیر نظر سال کے دوران انھوں نے کوئی کاروبار ہی نہیں کیا۔تاہم اس کے باوجود یہ بات خوش آئند ہے کہ رجسٹرڈ ٹیکس پیئرز کی اتنی بڑی تعداد کی جانب سے قابل ٹیکس ہونے سے انکار اور ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرائے جانے کے باوجود زیر نظر سال کے دوران سیلز ٹیکس کی وصولی کی شرح اس سے قبل والے سال کے مقابلے میں کچھ بہتر رہی ہے اور اعدادوشمار کے مطابق2016-17 کے دوران مجموعی طورپر سیلز ٹیکس کی مد میں 628.63 بلین یعنی 628 ارب 63 کروڑ روپے وصول کیے گئے تھے جبکہ اس سے قبل والے سال کے دوران اس مد میں وصول کی جانے والی رقم میں 624.1 بلین روپے یعنی 624 کروڑ 10 لاکھ روپے تھی اس طرح زیر نظر سال کے دوران کاروباری سرگرمیاں تیز رہنے کے باوجود سیلز ٹیکس کی مد میں وصولی کی شرح میں صرف 0.74 فیصد کااضافہ کیاجاسکا،خیال کیاجاتاہے کہ اگر ایف بی آر نے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کے گوشواروں کی چھان بین اور گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے بارے میں تفتیش کاموثر اور جامع نظام وضح کرلیاہوتاتو یہ وصولی تصور سے کہیں زیادہ ہوتی۔
ایف بی آر کے پاس موجود ریکارڈ سے پتہ چلتاہے کہ سیلز ٹیکس کی مد میں سب سے زیادہ رقم کراچی سے وصول کی گئی جبکہ سیلز ٹیکس میں لاہور میں کاحصہ محض28 فیصد رہا جبکہ بقیہ رقم 13 شہروں سے وصول کی گئی جن میں کوئٹہ،پشاور ، اسلام آباد ، راولپنڈی، فیصل آباد ، گوجرانوالہ،ملتان، ایبٹ آباد، سکھر، حیدرآباد اور سیالکوٹ سے وصول کی گئی۔اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہرہواہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی وصولی کے لیے صرف چند مخصوص اشیا کواپنا ہدف بنایاہواہے جس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ زیر نظر سال کے دوران وصول ہونے والے سیلز ٹیکس کا بڑا حصہ یعنی کم وبیش73 فیصد حصہ 10 اشیا پر وصول کیے جانے والے سیلز ٹیکس سے حاصل ہوا ہے جس میں پیٹرولیم مصنوعات سے 43.8 فیصد،قدرتی گیس سے 8.9 فیصد، کھاد سے 4.8 فیصد،سیمنٹ سے 2.8 فیصد،بجلی سے 2.4 فیصد ، سگریٹ سے 2.6 فیصد،چینی سے 2.1 فیصد،چائے سے 1.3 فیصداور اشیائے خوراک سے 0.8 فیصد وصول کیاگیا۔
ایف بی آر کے ایک سینئر افسر کاکہنا ہے کہ سیلز ٹیکس وصولی کاکوئی موثر نظام تشکیل نہ دیے جانے کے سبب سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا ہے تاہم اگر اس نظام کو زیادہ موثر بنادیاجائے تو اس مد میں وصولی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوجائے گا جس سے اس ملک کے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے رقم کی کمی پوری کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اب دیکھنایہ ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ کو خود کو نیب عدالتوں سے متوقع سزاؤں سے بچانے کی سرگرمیوں سے کب وقت ملے گا اور وہ ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنانے پر کب توجہ دیں گے ، تاہم واقف حال حلقوں کاکہناہے کہ وزار ت خزانہ کے ارباب اختیار ملک میں ٹیکس وصولی کاکوئی ایسا موثر نظام قائم کرنا ہی نہیں چاہتے جس کے شکنجے میں ہر ایک پھنس جائے اور کسی استثنیٰ کے بغیر ہر ایک کو واجب الادا ٹیکس ادا کرنا پڑے کیونکہ اس طرح کے نظام سے تمام بڑے سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کو مالی امداد فراہم کرنے والے بڑے سرمایہ داروں ،تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی پورا پورا ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا اور جب ان کے پاس کالا دھن باقی نہیں بچے گا تو وہ سیاسی جماعتوں کو اس فراخدلی کے ساتھ چندے فراہم نہیں کرسکیں جن کی بنیاد پر سیاسی رہنما اپنی انتخابی اور عوام رابطہ مہم کے دوران لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں ۔
بین المذاہب ہم آہنگی اور اتحاد پاکستان کی اصل طاقت ہے، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ پاکستان کے نظریے کی بنیاد ہے،کرسمس تقریب سے خطاب، مسیحی برادری کے رہنماؤں کا اظہار تشکر چیف آف ڈیفنس فورسز کی کرائسٹ چرچ میں کرسمس کی تقریبات میں شرکت، مسیحی برادری کو کرسمس کی دلی مبارکباد، امن، ہ...
وادی تیراہ میں شہریوں سے زبردستی معاہدے لکھوائے گئے،میں نے کسی ملٹری آپریشن کی اجازت نہیں دی، مذاکرات یا احتجاج، بانی نے اختیارات اچکزئی اور ناصر عباس کو دیدیے قبائل تجربہ گاہ نہیں، ملٹری آپریشن معاملے پر عمران خان کے موقف پر قائم ، کمسن زینب کے دل کا آپریشن، زینب کے نام پر ٹ...
اڈیالہ میں بیٹھا شخص مغرورہے ، تحریک انصاف سے مذاکرات بند کر دینے چاہئیں، کامران ٹیسوری بہترین عسکری حکمت عملی نے پاکستان کا اعتماد بحال کر دیا،مزار قائد پر حاضری کے بعد میڈیا سے گفتگو گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا ہے کہ اڈیالہ میں بیٹھا شخص مغرور ہے اور میں کہتا ہوں پی...
غریبوں کا خیال رکھنا ہی ہمارا منشور ہے، سندھ حکومت عوام کی صحت سہولت کیلئے کام کررہی ہے شعبہ صحت میں سندھ کا مقابلہ صوبوں سے نہیں ،دنیا سے ہے، مسیحی برداری کو کرسمس کی مبارکباد چیٔرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ غریبوں کا خیال رکھنا ہی ہمارا منشور ہے،روٹی، کپڑا ا...
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور آئی ایل ایف کے ضلعی صدر کے درمیان شدید تلخ کلامی انصاف لائرز فورم پشاور کے صدر مبشر منظور نے احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا پشاور(بیورورپورٹ) علیمہ خان کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے رویے پر ناراضی کے اظہار کے بعد ایک نیا تنازع...
حکومت، پاک فوج کی کوششوں اور عوام کی ثابت قدمی سے پاکستان استحکام، عزت ووقار کی طرف بڑھ رہا ہے، غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، فلسطینی ریاستکیلئے ایک قابل اعتماد راستے کا مطالبہ آرمی چیف کی کمانڈرز کو میدان جنگ میں پیشہ ورانہ مہارت کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھنے کی ہدایت...
عمران خان کا حکم آئے تو تیاری ہونی چاہیے، ہمارے احتجاج میں ایک گملا تک نہیں ٹوٹا ہمارے لیے لیڈر کا اشارہ کافی ، اسی دن لبیک کہا تھا، آئی ایس ایف کارکنان سے خطاب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل افریدی نے آئی ایس ایف کو اسٹریٹ موومنٹ کی تیاری کرنے کی ہدایت کردی، انہوں نے ک...
مئی کی جنگ میں آزاد کشمیر کے لوگ افواج پاکستان کی کامیابی کیلئے دعاگو تھے مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائی بہن قربانیاں دے رہے ہیں، تقریب سے خطاب وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مئی کی جنگ میں افواج پاکستان نے بھارت کو وہ سبق سکھایا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔مظفرآباد میں ط...
ہم خوشامدی سیاست کے قائل نہیں، حق بات کریں گے،ہماری پاکستان سے وفاداری اور دوستی کو تسلیم کیا جائے حکمران امریکا کی سوچ کو بغیر سمجھے اپناتے ہیں، حکمران اسلام کی پیروی کریں،دستار فضیلت کانفرنس سے خطاب جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ او...
نااہلی، بدترین گورننس، سیاسی بھرتیوں اور غلط انتظامی فیصلوں سے ادارے کو تباہ کیا قومی ائیرلائن کو برباد کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے،ایکس پراظہار خیال امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پی آئی اے ایک شاندار اور بے مثال ادارہ، پاکستان کا فخر اور کئی بی...
سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہونا عوام اور سیاست دانوں کا حق ہے، فلسطین فوج بھیجنے کی غلطی ہرگز نہ کی جائے،نہ 2018 نہ 2024 کے الیکشن آئینی تھے، انتخابات دوبارہ ہونے چاہئیں کوئی بھی افغان حکومت پاکستان کی دوست نہیں رہی،افغانی اگر بینکوں سے پیسہ نکال لیں تو کئی بینک دیوالیہ ہوجائیں،...
ایف بی آر نے کسٹمز قوانین میں ترامیم کیلئے 10فروری تک سفارشات طلب کرلی فیلڈ فارمیشن کا نام، تجاویز، ترامیم کا جواز، ریونیو پر ممکنہ اثرات شامل ،ہدایت جاری نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع کر دی گئیں، ایف بی آر نے نئے بجٹ کے حوالے سے ٹیکس تجاویز مانگ لیں۔ایف بی آر کے مطابق...