وجود

... loading ...

وجود

امریکا کے ساتھ تعلقات ۔سخت اورواضح رویہ اپنانے کی ضرورت

هفته 19 اگست 2017 امریکا کے ساتھ تعلقات ۔سخت اورواضح رویہ اپنانے کی ضرورت

امریکا کی آرمی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈنگ جنرل لیفٹننٹ جنرل مائیکل گیریٹ نے اپنے پہلے دورہ پاکستان کے دوران کہا کہ پاکستان خطے میں امریکا کے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے اور ان کا دورہ دونوں ملکوں اور افواج کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں اہمیت رکھتا ہے۔امریکا کی آرمی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈنگ جنرل لیفٹیننٹ جنرل مائیکل گیریٹ کی قیادت میں 6 رکنی وفد نے رواں ہفتے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا، یہ امریکی جنرل کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔اسلام آباد میں قیام کے دوران لیفٹننٹ جنرل مائیکل گیریٹ نے وفد کے ہمراہ جنرل ہیڈ کوارٹرز میں پاک فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف، ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری ٹریننگ اور ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز سے ملاقاتیں کی۔مائیکل گیریٹ نے ڈائریکٹر جنرل آف جوائنٹ اسٹاف اور ڈائریکٹر جنرل آف جوائنٹ ویلفیئر اینڈ ٹریننگ سے بھی ملاقات کی اور آپریشنز، تربیت اور دیگر شعبوں میں امریکا اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔امریکی جنرل نے پنجاب میں پبی کے مقام پر انسداد دہشت گردی کے قومی تربیتی مرکز کا بھی دورہ کیا۔تربیتی مرکز کے دورے کے دوران سینٹر کے ڈائریکٹر نے وفد کو دہشت گرد گروپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجیوں کی تربیت سے متعلق پاکستان کے اقدامات سے آگاہ کیا۔لیفٹننٹ جنرل مائیکل گیریٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا دورہ کرنا ان کے لیے ایک منفرد اعزاز تھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں امریکا کے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے اور ان کا دورہ دونوں ملکوں اور افواج کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں اہمیت رکھتا ہے۔امریکا کی آرمی سینٹرل کمانڈ بنیادی طور پر فوجی سطح کے معلوماتی تبادلوں ، علاقائی کانفرنسوں اور کثیر الطرفہ اور دوطرفہ مشقوں کے ذریعے پاکستان کی فوجی قیادت اور اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ان سرگرمیوں سے دونوں ممالک کو خطے میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری شراکت قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
امریکا کی آرمی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈنگ جنرل لیفٹننٹ جنرل مائیکل گیریٹ کے اس بیان کو اگر پاکستان کے حوالے سے امریکی حکومت کے حالیہ اقدامات اور فیصلوں سے موازنہ کیاجائے تو پاکستان کے حوالے امریکی حکومت کادوغلا پن کھل کر سامنے آجاتاہے ، پاکستان کی اہمیت کے حوالے سے امریکی جنرل کامذکورہ بیان بلاوجہ نہیں ہے بلکہ امریکا کی فوجی قیادت اس طرح کے بیانات دے کر امریکی انتظامیہ کی جانب سے کئے گئے پاکستان مخالف بلکہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف اقدامات پر پاکستان کی برہمی اور غصے میں کمی کرنا چاہتی ہے، کیونکہ امریکا کی حکومت اور فوجی قیادت کو اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کاتعاون از حد ضروری ہے اور پاکستان کو کھڈے لائن لگاکر افغانستان میں امن کاقیام اور افغانستان میں موجود امریکی فوج کے تحفظ کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہوسکتا، امریکی انتظامیہ اور فوجی قیادت16برس تک ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ سپر پاور ہونے کے دعویدار امریکا کے لیے اعتراف شکست نہایت مشکل کام ہے، اس لیے وہ اپنی ناکامی کا الزام پاکستان کے سر تھوپنے کی کوشش کرتارہا ہے لیکن اس کوشش کے جواب میں پاکستان کے سخت ردعمل اور پاکستان کی جانب سے امریکا کے درشت اور سرد رویے کے جواب میں پہلے جیسا عاجزانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے بے رخی کے رویئے نے امریکی انتظامیہ کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے، امریکی حکام کاخیال تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے انتہاپسند اور ماضی میں تسلیم شدہ دہشت گرد وزیراعظم مودی کو گلے لگانے پر پاکستان تلملا اٹھے گا اور امریکا کے پیر پکڑنے پر تیار ہوجائے گا اورپھر امریکا پاکستان پر ڈومور کے مطالبات مسلط کرسکے گا ۔ امریکا کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا حالیہ دورہ پاکستان بھی پاکستان کو امریکا کی ناراضگی اور سخت پالیسی کا پیغام دینے کے لیے تھا لیکن اس کے جواب میں پاکستان نے جس رویئے کااظہار کیا اس نے امریکی حلقوں میں ہلچل مچادی۔
امریکا کی جانب سے پاکستان پر افغانستان میں عدم استحکام کی ذمہ داری ڈالنا حقیقت پسندی سے نظریں چرانے کے مترادف ہے، کیونکہ پاکستان بار بار یہ واضح کرچکاہے اور پوری دنیا بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ افغانستان کا امن و استحکام پاکستان کے قومی مفادمیں بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار قیام امن کا نہ صرف متمنی ہے بلکہ اس کے لیے اپنے تمام تر سفارتی و اخلاقی ذرائع بھی بروئے کار لا رہا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیئے کیونکہ پاکستان کی ترقی، داخلی استحکام ا ور امن امان کے لیے افغانستان میں پائیدار امن ناگزیر ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کو پاکستان کی اس ضرورت کا بخوبی ادراک ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت افغانستان میں قیام امن کی ہر کاوش کو نہ صرف سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے بلکہ پاکستان کی مغربی سرحد کو بھی مصروف رکھنے کے لیے ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے ذریعے وطن عزیز میں اندرونی مداخلت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔امریکی تائید و حمایت سے بھارت پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کررہا ہے،جس کے ناقابل تردید شواہد پاکستان میں دہشتگردی کے کئی سانحات کی صورت میں سامنے آچکے ہیں اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو اپنے اعترافی بیان میں بھی بتاچکاہے کہ بھارت پاکستان کوعدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کس طرح دہشت گردوں کومالی اورمادی امداد فراہم کررہاہے اورنوجوانوں کوورغلا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتاہے۔ اس حقیقت کے باجود امریکا افغانستان سمیت خطے میں بھارتی کردار اور اثررسوخ بڑھانے پر مصر ہے۔یہ امریکی تعاون اور آشیر باد کا ہی نتیجہ ہے کہ بھارت بیک وقت کئی جگہوں پہ جارحانہ حکمت عملی کا مرتکب ہوکر پورے خطے کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے پہ کمر بستہ ہے۔
بھارت ایک طرف چین کے ساتھ سرحدی تناعات کو بڑھاوا دے رہا ہے ،دوسری جانب کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزی کررہاہے اورمشرقی سرحد پہ جنگی نقل و حمل اور پاکستان کی مغربی سرحد پر دہشت گردوں کی سرپرستی کررہاہے‘ یہی نہیں بلکہ خطے کے معاشی و انرجی کوریڈور سمجھے جانیوالے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بھی بدامنی اور انتشار کو ہوا دینے کے لیے درجنوں تنظیموں اور تحریکوں کی باقاعدہ سرپرستی کررہا ہے۔ بھارتی فوجی افسر کلبھوشن اس حوالے سے اپنی زیرنگرانی دہشتگردی کا پورا منصوبہ بھی بے نقاب کرچکا ہے۔ ان حقائق کے سامنے لائے جانے کے باوجود بھارت اور امریکا کے تعاون میں مسلسل اضافہ ہوا ہورہاہے، جو کہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ اسی جنگ میں جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوا، جس نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور جو ملک تاحال اسی جنگ کو ہر قیمت پہ جیتنے کی بنیاد پر لڑ رہا ہے، پاکستان دہشتگردی کے فروغ یا پھیلاؤکا موجب نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہے۔ ایسی دہشت گردی جس میں وہ اب تک60 ہزار سے زائد انسانی زندگیاں قربان اور سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھا چکا ہے۔اس کی مسلح افواج بیک وقت ضرب عضب، ردالفساد، خیبر فور جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ سرحدوں کی حفاظت بھی یقینی بنائے ہوئے ہیں ۔ ایک ایسے موقع پر جب دہشت گردوں کے خلاف جاری فیصلہ کن آپریشن میں پاکستان کو تعاون اور حمایت کی ضرورت ہے تو امریکا تعاون میں کمی اور دباؤ میں اضافہ کئے ہوئے ہے۔ یہ بالکل وہی پالیسی ہے جو نیٹو نے پاک افغان سرحد پہ پاکستان کیخلاف اپنائی تھی۔ ایک جانب پاک افغان سرحد کو عبور کرکے دہشتگرد آکر پاکستانی فوجی چیک پوسٹو ں پر حملے کرتے اور اگلے دن افغان ادارے دراندازی کا شور مچاتے جبکہ پاکستان اسی سرحد پہ غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لیے جب باڑ کی تنصیب کی کوشش کرتا تو اس باڑ کی تعمیر کیخلاف بھی نیٹو اور افغان حکومت مشترکہ موقف اپناتی ہیں ۔ نتیجے میں پاکستان کو دوطرفہ مسائل کا سامنا رہتا،یہپالیسی تاحال جاری ہے۔
امریکی کانگریس نے حال ہی میں ایک بل کی منظوری دی ہے کہ جسکے تحت پاکستان کی فوجی امداد میں کمی اور پاکستان کے ساتھ جاری تعاون کو ماضی کی طرح ڈومور پالیسی سے مشروط کیا گیا ہے۔ قبل ازیں امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے پہلے دورہ پینٹاگان کے دوران جو بریفنگ دی گئی ، اس میں نہ صرف دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا بلکہ اس بریفنگ میں افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے باقاعدہ سفارش کی گئی کہ افغانستان میں طالبان کیخلاف جنگ جیتنے کے لیے پاکستان کیخلاف کارروائی ناگزیر ہے۔اسی طرح وائٹ ہاؤس کے اجلاس میں جب افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھانے کے معاملے پہ مشاورت جاری تھی تو اس وقت بھی پاکستا ن کے تعاون اور حمایت کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق اسی اجلاس میں امریکی صدر نے افغانستان کے معدنی ذخائر میں سے ایک بڑا حصہ حاصل کرنے کی بھی بات کی ، جس کے جواب میں امریکی صدر کو بتایا گیا کہ افغانستان کے معدنی وسائل پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے لیے افغان حکومت کا ملک پہ کنٹرول ضروری ہے، جس کی راہ میں پاکستان حائل ہے۔ اسی اجلاس میں امریکی صدر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ پھر چینی کمپنیاں افغانستان میں کیسے کان کنی کے شعبے میں مسلسل فوائد حاصل کررہی ہیں ؟علاوہ ازیں امریکی صدر جنہوں نے پہلے روس کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اب روس ، ایران اور شمالی کوریا پہ متعدد پابندیوں کے بل پر دستخط بھی کرچکے ہیں ۔ پاکستان پہ بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ کا اندازہ ایلس ویلز کے حالیہ دورہ پاکستان سے بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ قائم مقام امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی وسط ایشیائی امور ‘ اور قائم مقام خصوصی ایلچی برائے افغانستان و پاکستان‘ ایلس ویلز جب اپنے پہلے دورے پر پاکستان آئیں تو انہوں نے بھی پاکستان کو تنبیہہ کی کہ پاکستان کی زمین کسی پڑوسی ملک کیخلاف ہرگز استعمال نہیں ہونی چاہیے جوکہ بالواسطہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام تھا۔
امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے یہ حقیقت نظر اندا ز کررہا ہے کہ داعش جس نے مشرق وسطٰی کے کئی ممالک کے امن کو تہہ و بالا کر رکھاہے اب افغانستان میں مسلسل زور پکڑ رہی ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے جو اندوہناک خونی واقعات ہوئے ، ان کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، جبکہ ماضی قریب میں ان دہشتگردوں نے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا تھا جو بھارت کے زیراثر تھے۔ ان حالات کاتقاضہ ہے کہ پاکستان خطے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیکر امن و اعتماد کی بحالی کے لیے جاری کوششوں کو مزید فروغ دے۔ داعش کی صورت میں خطے میں ابھرنے والے نئے فتنے سے نمٹنے کے لیے روس، چین ، ایران اور ترکی کے ساتھ ہم آہنگی ، تعاون اور ہم کاری کی پالیسی اپنائے۔ سی پیک کے ثمرات سے فقط پاکستان یا چین ہی نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک مستفید ہوں گے، چنانچہ اسکے خلاف جاری سازشوں سے نمٹنے کے لیے جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انتشار یا عدم استحکام کسی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں ، حکومت اور اپوزیشن قوتیں قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں اور ذاتی یا فی الوقتی مفاد پر پاکستان کے روشن مستقبل پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں ۔
امید کی جاتی ہے کہ ہمارا دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ اس حوالے سے واضح اور بے لچک پالیسی اپنانے اور امریکا کے سامنے ہر وقت جھکے رہنے کی پالیسی تبدیل کرکے تن کر کھڑا ہونے کی کوشش کریں گے ،اور امریکا پر یہ واضح کردیاجائے گا کہ اگر اسے پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے دوستی کوترجیح دیتاہے توپاکستان کو بھی امریکا سے دوستی اتنی زیادہ عزیز او ر ضروری نہیں ہے اور تونہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کے مصداق پاکستان بھی امریکا کے مقابلے میں اس کے مدمقابل ممالک سے دوستی کی پینگیں بڑھانے بلکہ مستحکم کرنے کاحق رکھتاہے۔

 


متعلقہ خبریں


جنگ مسلط کرنے کی کوشش کا فیصلہ کن جواب دیں گے، کور کمانڈرز کانفرنس وجود - هفته 03 مئی 2025

  بھارت کی جانب سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہے ،پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے پاکستان کی 24 کروڑ آبادی متاثر ہوگی ، جنوبی ایشیا میں عدم استحکام میں اضافہ ہوگا پاکستان کے امن اور ترقی کا راستہ کسی بھی بلاواسطہ یا پراکسیز کے ذریعے نہیں روکا ...

جنگ مسلط کرنے کی کوشش کا فیصلہ کن جواب دیں گے، کور کمانڈرز کانفرنس

برادر ممالک کشیدگی میں کمی کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالیں،وزیراعظم کی سفراء سے بات چیت وجود - هفته 03 مئی 2025

  پاکستان نے گزشتہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بڑی قربانیاں دی ہیں، بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو پہلگام واقعے سے جوڑنے کے بے بنیاد بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہیں پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا اور خطے میں دہشت گردی کے ہر واقعے کی مذمت کرتا ہے ،وزیراعظم...

برادر ممالک کشیدگی میں کمی کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالیں،وزیراعظم کی سفراء سے بات چیت

پہلگام پر’ را‘کی خفیہ دستاویز لیک ،بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ برطرف وجود - هفته 03 مئی 2025

  بھارتی حکومتی تحقیقات کے مطابق لیک فائلز جنرل رانا کے دفتر سے میڈیا تک پہنچیں لیک دستاویز نے ’’را‘‘ کا عالمی سطح پر مذاق بنا دیا، بھارتی حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا پہلگام واقعے پر ’’را‘‘ کی خفیہ دستاویز لیک ہونے کے بعد بھارت کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (ڈی آئی ا...

پہلگام پر’ را‘کی خفیہ دستاویز لیک ،بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ برطرف

واہگہ بارڈر پاکستانی شہریوں کے لیے کھلا رہے گا، دفتر خارجہ وجود - هفته 03 مئی 2025

متعدد مریض کی صحت نازک، علاج مکمل کیے بغیر پاکستان واپس آنے پر مجبور ہوئے خاندانوں کے بچھڑنے اور بچوں کے ایک والدین سے جدا ہونے کی اطلاعات بھی ہیں پاکستانی شہریوں کی بھارت سے واپسی کے لیے واہگہ بارڈر کی دستیابی سے متعلق دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ متعلقہ بارڈر آئندہ بھی پاکس...

واہگہ بارڈر پاکستانی شہریوں کے لیے کھلا رہے گا، دفتر خارجہ

ڈیری فارمرز کو دودھ کی قیمتوں کا گٹھ جوڑ ختم کرنے کا حکم وجود - هفته 03 مئی 2025

  کراچی کی تینوں ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز دودھ کی قیمت کے تعین میں گٹھ جوڑ سے باز رہیں، ٹریبونل تحریری یقین دہانی جمع کرانے کی ہدایت،مرکزی عہدیداران کی درخواست پر جرمانوں میں کمی کر دی کمپی ٹیشن اپلیٹ ٹربیونل نے ڈیری فارمرز کو کراچی میں دودھ کی قیمتوں کا گٹھ جوڑ ختم کر...

ڈیری فارمرز کو دودھ کی قیمتوں کا گٹھ جوڑ ختم کرنے کا حکم

عالمی برادری پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لے، صدر ، وزیراعظم وجود - جمعه 02 مئی 2025

  صدراور وزیراعظم کے درمیان ملاقات میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے ساتھ کشیدگی کے پیشِ نظر موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال، بھارت کے جارحانہ رویہ اور اشتعال انگیز بیانات پر گہری تشویش کا اظہار بھارتی رویے سے علاقائی امن و استحکام کو خطرہ ہے ، پاکستان اپنی علاقائ...

عالمی برادری پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لے، صدر ، وزیراعظم

بھارت کی کسی بھی کارروائی کا منہ توڑ جواب دیں گے آرمی چیف وجود - جمعه 02 مئی 2025

  پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے ، کوئی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہ رہے، بھارت کے کسی بھی مس ایڈونچر کا فوری اور بھرپور جواب دیں گے ، پاکستان علاقائی امن کا عزم کیے ہوئے ہے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے منگلا اسٹرائیک کور کی جنگی مشقوں کا معائنہ اور یمر اسٹر...

بھارت کی کسی بھی کارروائی کا منہ توڑ جواب دیں گے آرمی چیف

پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں را ملوث نکلیں،خفیہ دستاویزات بے نقاب وجود - جمعه 02 مئی 2025

دستاویز پہلگام حملے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے ، رپورٹ دستاویز ثابت کرتی ہے پہلگام بھی پچھلے حملوں کی طرح فالس فلیگ آپریشن تھا، ماہرین پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' کا کردار بے نقاب ہوگیا، اہم دستاویز سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹی...

پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں را ملوث نکلیں،خفیہ دستاویزات بے نقاب

190ملین پاؤنڈکیس ،سزا کیخلاف بانی کی اپیل اس سال لگنے کا امکان نہیں، رجسٹرار وجود - جمعه 02 مئی 2025

نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق زیرِ التوا کیسز کو نمٹایا جائے گا اپیل پر پہلے پیپر بکس تیار ہوں گی، اس کے بعد اپیل اپنے نمبر پر لگائی جائے گی ، رپورٹ رجسٹرار آفس نے 190ملین پاؤنڈ کیس سے متعلق تحریری رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔تحریری رپورٹ...

190ملین پاؤنڈکیس ،سزا کیخلاف بانی کی اپیل اس سال لگنے کا امکان نہیں، رجسٹرار

میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل وجود - جمعه 02 مئی 2025

تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ خطاب سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، آپ حیران ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ انصاف تو ا...

میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

مضامین
بھارتی جنگی جنون وجود هفته 03 مئی 2025
بھارتی جنگی جنون

چکر اور گھن چکر وجود هفته 03 مئی 2025
چکر اور گھن چکر

سندھ طاس معاہدہ کی معطلی وجود جمعه 02 مئی 2025
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی

دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے وجود جمعه 02 مئی 2025
دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے

بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر