... loading ...
پاکستان کے 44 فیصد رقبے اور صرف 7 فیصد آبادی کے ساتھ صوبہ بلوچستان بہت سے حوالوں سے سرخیوں کا موضوع رہا ہے۔تیل، گیس، تانبے اور سونے جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کا محل وقوع انتہائی حساس اور اہم ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان ملک کے سب سے غریب اور پسماندہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔تاہم شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل بلوچستان 1876 میں برطانوی راج کے تحت آ گیا اور اسے تقسیم کر کے اس کا مغربی حصہ ایران کے حوالے کر دیا گیا۔ مشرقی حصے کو بھی برطانوی بلوچستان اور بلوچستان کی چار خود مختار ریاستوں قلات، خاران، لسبیلہ اور مکران میں تقسیم کر دیا گیا جبکہ اس کے علاقے سیستان کا کچھ حصہ افغانستان میں شامل کر دیا گیا۔یوں ان علاقوں کی حد بندی کر کے ڈیرہ جات اور جیکب آباد برٹش بلوچستان کا حصہ بنے۔برطانوی حکومت نے بلوچستان کو محض روس کی توسیع پسندی کے خلاف ایک فوجی چوکی کے طور پر استعمال کیا اور یہ تمام علاقہ اْس معاشی اور معاشرتی ترقی سے یکسر محروم رہا جو انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز سے غیر منقسم ہندوستان کے دوسرے علاقوں کا مقدر بنی۔
الگ انتظامی یونٹ ہونے کے باوجود برطانوی راج میں بلوچستان کو وہ حیثیت نہیں دی گئی جو باقی ریاستوں کی تھی۔ انتظامی طور پر بلوچستان کے لیے گورنر جنرل کا نمائندہ ہی سرکاری کام چلاتا ہے۔ محمد علی جناح کو بلوچستان سے خصوصی دلچسپی تھی اور اْنہوں نے اپنے مشہور 14 نکات میں بھی خاص طور پر بلوچستان کا ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان کو ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح مساوی حیثیت دی جائے اور وہاں مناسب اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے۔ تاہم 1920 کی دہائی کے دوران برطانوی حکومت نے بلوچستان میں اظہار رائے پر پابندی عائد کردی۔اْس وقت تک بلوچستان میں کوئی اخبار موجود نہیں تھا۔ 1929 میں بلوچستان کے مگسی قبیلے کے سردار یوسف علی خان مگسی نے لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں ’فریاد بلوچستان‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اْس کے دس برس بعد اْنہوں نے ایک پمفلٹ نکالا۔ ’بلوچستان کی آواز‘ سے موسوم اس پمفلٹ کا مقصد بلوچستان کی حالت زار کے بارے میں برطانوی پارلیمان کو آگاہ کرنا تھا۔سردار یوسف علی خان مگسی اس مقصد کے لیے 1934 میں برطانیہ بھی گئے اور وہاں جاتے اور واپس آتے ہوئے دونوں بار اْنہوں نے بمبئی میں محمد علی جناح سے ملاقات کی۔بلوچستان کے ایک نوجوان وکیل قاضی عیسیٰ 1938 میں لندن سے اپنی تعلیم مکمل کر کے جب ہندوستان لوٹے تو اْنہوں نے بھی بمبئی میں جناح سے ملاقات کی۔ وہ اْن کی شخصیت اور لگن سے بہت متاثر ہوئے اور بلوچستان پہنچتے ہی اْنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بلوچستان شاخ کی بنیاد رکھی۔ اْس کے بعد جناح نے متعدد بار بلوچستان کا دورہ کیا۔ 1934 میں بھی جناح بلوچستان گئے اور وہاں دو ماہ تک قیام کیا۔اس دوران مسلم لیگ کانفرنس کے ایک عوامی سیشن میں قاضی عیسیٰ نے جناح کو ایک خاص تلوار کا تحفہ پیش کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ تلوار احمد شاہ ابدالی کی تھی۔
اس موقع پر قاضی عیسیٰ نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔’’ تاریخ کے دوران یہ تلوار ہمیشہ مسلمانوں کا ساتھ دیتی آئی ہے۔ جب مسلمانوں کو قیادت میسر نہیں تھی، یہ محفوظ ہاتھوں میں رہی۔ اب جبکہ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت سنبھال لی ہے، میں یہ تلوار آپ کے سپرد کر رہا ہوں ۔ یہ تلوار ہمیشہ دفاع کے لیے استعمال کی گئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے محفوظ ہاتھوں میں یہ اسی مقصد کے لیے استعمال ہو گی۔‘‘
اس دورے کے دوران جناح خان آف قلات میر احمد یار خان کی خاص دعوت پر چار روز کے لیے قلات پہنچے۔ اْنہی دنوں جناح کی ہدایت پر نوابزادہ لیاقت علی خان نے مرکزی اسمبلی میں بلوچستان کے لیے آئینی اصلاحات کا مطالبہ پیش کر دیا۔ بالآخر مرکزی اسمبلی نے مارچ 1944 میں لیاقت علی خان کی قرارداد کو منظور کر لیا۔ہندوستان کی تقسیم سے قبل جناح نے بلوچستان میں جمہوری نظام کا مطالبہ کیا تھا لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قبائلی سرداری نظام کی وجہ سے جمہوری نظام کی کامیابی کی توقعات کم ہیں ۔ تاہم جناح کے مشورے پر بلوچستان میں ریفرنڈم کروانے پر اتفاق کر لیا گیا تاکہ بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکے۔ 30 جون ، 1947 کو ہونے والے شاہی جرگے کے تمام کے تمام 54 ارکان اور کوئٹہ میونسپلٹی نے مکمل اتفاق رائے سے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں فیصلہ کر دیا۔تاہم برطانوی راج کے خاتمے کے بعد خان آف قلات نے آزاد قلات ریاست کا اعلان کر دیا۔ لیکن بقیہ تین آزاد ریاستوں خاران، لسبیلہ اور مکران نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔
11 فروری 1948 کو پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح بلوچستان کے شہر سبی پہنچے جہاں خان آف قلات نے اْن سے ملاقات کی۔ اگلے روز ایک اور ملاقات قلات کے سرمائی دارالحکومت ڈاڈر میں ہوئی لیکن ان دونوں ملاقاتوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ تاہم 28 مارچ، 1948 کو خان آف قلات نے اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ اْن کے بھائی پرنس عبدالکریم نے اْن کے فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے ہتھیار اْٹھا لئے لیکن بلوچستان بھر میں اْنہیں کوئی خاص حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔قائد اعظم محمد علی جناح اور اْن کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے احمد یار خان کو خان آف قلات کا خطاب برقرار رکھنے کی اجازت دی۔ 1955 میں جب ون یونٹ بحال کیا گیا تو باقی صوبوں کی طرح بلوچستان کی صوبائی حیثیت بھی تحلیل ہو گئی۔لیکن 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں چاروں صوبے ایک بار پھر بحال ہو گئے۔ یوں بلوچستان کو بھی اپنی صوبائی حیثیت دوبارہ مل گئی۔ تاہم قوم پرست بلوچ شہریوں نے مختلف وقتوں میں داخلی خود مختاری کے لیے مسلح تحریک چلائی لیکن اس تحریک کو عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔
بلوچستان کے معروف صحافی صدیق بلوچ نے ایک خصوصی گفتگو میں ہمیں بتایا کہ شروع میں بلوچستان کے چند گروہوں میں پاکستان سے الحاق کے بارے میں کچھ مزاحمت پائی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ صوبے کی سیاسی قیادت نے پاکستان کا حصہ بننے کو دل سے قبول کر لیا تھا۔ 1955 میں بلوچستان کی دو قد آور شخصیات گل خان نصیر اور غوث بخش بزنجو نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔صدیق بلوچ کہنا ہے کہ اب بلوچستان میں کوئی بھی آزادی کی حمایت نہیں کرتا اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی بقا کا دارومدار متحدہ اور مضبوط پاکستان میں ہے۔تاہم بلوچستان کے بیشتر لوگ اب بھی زندگی کی بنیادی ضروریات اور اقتصادی ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں ۔
امریکہ میں مقیم معروف بلوچ صحافی اور انگریزی اخبار ’’بلوچ ہل‘‘ کے مدیر اعلیٰ ملک سراج اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت نے حقیقی طور پر اب بھی بلوچ عوام کا خاطر خواہ خیال نہیں رکھا ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں میں جو بھی وزرائے اعظم اقتدار میں آئے ہیں ، اْنہوں نے بلوچستان کا برائے نام ہی دورہ کیا ہے۔ ان حالات میں بلوچ عوام میں مایوسی پیدا ہونا فطری بات ہے۔تاہم اب پاکستان چین اقتصادی راہداری اور اس سے ملحقہ بنیادی ڈھانچے، مواصلات اور توانائی کے منصوبے شروع ہونے کی توقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی گوادر کی بندرگاہ بھی بھی ترقی کی ضمانت دے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان اقدامات سے بلوچستان کے عام شہری کس حد تک مطمئن ہو پائیں گے۔
تحریر :۔شبّیر جیلانی
پرچی سے وزیر اعلیٰ نہیں بنا، محنت کر کے یہاں پہنچا ہوں، نام کے ساتھ زرداری یا بھٹو لگنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا،خیبرپختونخواہ میں ہمارے لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر آپریشن نہیں ہوگا بانی پی ٹی آئی کو فیملی اور جماعت کی مشاورت کے بغیر ادھر ادھر کیا تو پورا ملک جام کر دیں گے، ...
سیکیورٹی اداروں نے کرین پارٹی کے کارکنان کو منتشر کرکے جی ٹی روڈ کو خالی کروا لیا، ٹی ایل پی کارکنوں کی اندھا دھند فائرنگ، پتھراؤ، کیل دار ڈنڈوں اور پیٹرول بموں کا استعمال کارروائی کے دوران 3 مظاہرین اور ایک راہگیر جاں بحق، چالیس سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی،شہر...
سربراہ سعد رضوی مذاکرات کیلئے تیار تھے،مظاہرین سے بات چیت کیوں نہیں کی؟ امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین پر پولیس فائرنگ اور بہیمانہ تشدد کی پرزورمذمت کی ہے اور اسے ظالمانہ، انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ قرار دیا ہے۔ منصورہ سے جاری بیا...
حکومت نے ظالمانہ اقدام اٹھایا، واقعہ کی شفاف تحقیقات کی جائیں،امیرجماعت سربراہ سعد رضوی مذاکرات کیلئے تیار تھے،مظاہرین سے بات چیت کیوں نہیں کی؟ امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین پر پولیس فائرنگ اور بہیمانہ تشدد کی پرزورمذمت کی ہے اور ا...
امریکی صدرٹرمپ اور مصری صدر سیسی کی خصوصی دعوت پر وزیرِاعظم شرم الشیخ پہنچ گئے وزیرِاعظم وفد کے ہمراہ غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میںشرکت کریں گے شرم الشیخ(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیرِاعظم محمد شہباز شریف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی خصوصی دعوت پر شرم ال...
ٹی ایل پی کی قیادت اورکے کارکنان پر پولیس کی فائرنگ اور شیلنگ کی شدیدمذمت کرتے ہیں خواتین کو حراست میں لینا رویات کے منافی ، فوری رہا کیا جائے،چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ مہاجر قومی موومنٹ (پاکستان) کے چیئرمین آفاق احمد نے تحریک لبیک پاکستان کے مارچ پر پولیس کی جانب سے شیلنگ اور...
نیو کراچی سندھ ہوٹل، نالہ اسٹاپ ، 4 کے چورنگی پر پتھراؤ کرکے گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے پولیس کی شہر کے مختلف مقامات پر دھرنے اور دکانیں بند کرنے سے متعلق خبروں کی تردید (رپورٹ : افتخار چوہدری)پنجاب کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی ٹی ایل پی نے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی ...
طالبان کو کہتا ہوں بھارت کبھی آپ کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا، بھارت پر یقین نہ کریں بھارت کبھی بھی مسلمانوں کا دوست نہیں بن سکتا،پشاور میں غزہ مارچ سے خطاب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے افغانستان کے حکمران طالبان کو بھارت سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانس...
پاک فوج نے فیلڈ مارشل کی قیادت میں افغانستان کو بھرپور جواب دے کر پسپائی پر مجبور کیا ہر اشتعال انگیزی کا بھرپور اور مؤثر جواب دیا جائے گا، ہمارا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بے باک قیادت میں پاک فوج نے افغانستان...
دشمن کو پسپائی پر مجبور ،اہم سرحدی پوسٹوں سے پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا متعدد افغان طالبان اور سیکیورٹی اہلکار پوسٹیں خالی چھوڑ کر فرار ہوگئے،سیکیورٹی ذرائع افغانستان کی جانب سے پاک افغان بارڈر پر رات گئے بلااشتعال فائرنگ کے بعد پاک فوج نے بھرپور اور مؤثر جواب...
افغان حکام امن کیلئے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، پاکستان خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے پاک افواج نے عزم، تحمل اور پیشہ ورانہ مہارت سے بلااشتعال حملے کا جواب دیا،چیئرمین چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا کہ افغان حکام علاقائی امن کے لیے تحمل اور ذمہ داری کا مظاہر...
افغان فورسزنے پاک افغان بارڈر پر انگور اڈا، باجوڑ،کرم، دیر، چترال، اور بارام چاہ (بلوچستان) کے مقامات پر بِلا اشتعال فائرنگ کی، فائرنگ کا مقصد خوارج کی تشکیلوں کو بارڈر پار کروانا تھا پاک فوج نے متعدد بارڈر پوسٹیں تباہ ، درجنوں افغان فوجی، خارجی ہلاک ، طالبان متعدد پوسٹیں اور لا...