وجود

... loading ...

وجود
وجود

انسانوں پر سواری

بدھ 12 جولائی 2017 انسانوں پر سواری

وزیراعظم نوازشریف نے بآلاخر وہی فیصلہ کیا جس کی اُن سے توقع تھی۔ وہ اپنے لمحۂ عظمت سے دور رہے۔ انیسویں صدی کے وسط کو اپنی چھاپ دینے والے امریکی شاعر ایمرسن نے کہا تھا کہ
’’ہر ہیرو کی کارکردگی میں اُس وقت کمی آتی رہے گی جب تک وہ مناسب موقع پر یہ نہ طے کر لے کہ اب
اُسے منظر سے ہٹ جانا چاہئے۔‘‘
نوازشریف ایسے کوئی ہیرو بھی نہ تھے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے اُن کا بیانیہ اُن کی کارکردگی کا ویسا آئینہ دار بھی نہیں جیسا کہ ایمرسن کے ذہن میں رہا ہوگا۔ مگر پھر بھی وہ اپنے اُن چاہنے والوں کے لیے ایک اخلاقی ڈھال تو (سوراخ زدہ ہی سہی) چھوڑ سکتے تھے جنہیں اب عمر بھر ایک ملال کے ساتھ اپنے ماضی کا دفاع کرنا پڑے گا۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے عدالتِ عظمیٰ کے سامنے اپنی تحقیقات کی جمع تفریق اور لیکھا جوکھا پیش کردیا۔ 256 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے صفحات اُلٹتے جائیں، کپڑا تو کیا کپڑے کی معمولی دھجی بھی حکمران خاندان کے جسم پر دکھائی نہیں دیتی۔ مگر خوشامدیوں نے اُن کے گرد گھیرا ڈالا اور کہا کہ اُنہیں استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ معلوم نہیں کب استغفار کریں گے۔ اُنہوںنے فرمایا کہ جے آئی ٹی کے ارکان نے نوازشریف کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو’’ عیسیٰؑ کے ساتھ جودا نے کیا تھا۔‘‘(اناللہّ وانا الیہ راجعون)انسان کا علم کبھی خود اُس پر ہی ایک عذاب بن جاتا ہے۔
بیرسٹر ظفر اللہ حالات کی درست تصویر دیکھ نہیں سکے۔ اقتدار کی اپنی لذتیں ہیں جو آنکھوں ، کانوں اور ناکوں تک محیط رہتی ہیں۔ اسی لیے انسان کی ساری حسیات کام چھوڑتی جاتی ہیں۔زیادہ درست تھا کہ وہ دہائیوں پر محیط طویل اقتدار کی اُس تیرہ تر، محیط تر اور دراز تر شب کو دیکھتے جس کے بعد خلق خدا عباسی سلطنت کے مظالم کے بعد عرب شاعر کی زبان میں چیختی ہے کہ
فھلا یا بنی العباس مھلا
لقد کویت بغدر کماالصدور
(اے بنی عباس اپنا ظلم چھوڑ دو تمہاری غداری سے سینے داغدار ہو چکے)
اگر تاریخ سے موجودہ حالات کی کوئی مماثلت ومناسبت تلاش کی جاسکتی تھی تو وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ جودا کا سلوک نہیں بلکہ عرب شاعر کایہ درد تھا۔بیرسٹر ظفر اللہ بھی نوازشریف کے ساتھ بے نقاب ہوئے۔ دانشور نہیں غلام یہ کرتے ہیں۔ قصیدہ خواں اور مدح سرا۔ خوشامدی اور ٹوڈی جو غلاموں کی نفسیات رکھتے ہیں۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
سب ایسے گویا ہیں جیسے آسمان واقعی محل پر ٹوٹنے والا ہے۔ اگر چہ ’’غلام ‘‘ انکاری ہیں۔ مگر تاریخ کی بے رحم لگامیں ہاتھوں سے چھوٹ گری ہیں۔ اور روح ِ عصر نے اپنی منشاء ظاہر کردی ۔ پھر بھی جناب نوازشریف استعفیٰ کیوں دیں؟وہ تو ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں ملک بس اُن کے دور میں ہی محفوظ ہیں، اور سب سے بڑھ کر جمہوریت نامی اس دوشیزہ کا کیا ہوگا جس کی چادر ِ حرمت آپ جناب کے استعفیٰ سے تار تار ہوسکتی ہے۔بس اسی لیے فیصلہ یہی ہے کہ وہ استعفیٰ نہ دیں گے اور ملک کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا کشٹ اُٹھاتے رہیں گے۔ جیمز اے گار فیلڈ زیادہ نہیں صرف چار ماہ تک امریکی صدارت کے منصب پر فائز رہ سکا مگر اُس نے اقتدار کے بھوکوں پر فقرہ چُست کیا کہ
’’اوہ میرے خدا۔۔۔۔۔۔ اس جگہ ایسا کیا ہے جو لوگوں کو یہاں آنے کے لیے اتنا بے قرار رکھتا ہے۔‘‘
وزیراعظم نوازشریف کے لیے الفاظ کچھ یوں تبدیل ہوں گے۔’’اوہ میرے خدا۔۔۔ اس جگہ ایسا کیا ہے جو لوگوں کو یہاں سے نکلنے نہیں دیتا۔ ‘‘
لیو ٹالسٹائی نے اس صورتِ حال کی درست عکاسی کی تھی کہ
’’ میں ایک انسان کی کمر پر سوار ہوں۔ اس کا گلا گھونٹتا ہوں تاکہ وہ مجھے اٹھائے رکھے۔ بایں ہمہ، خود
کو اور دوسروں کو یہ یقین دلاتا رہتا ہوں کہ مجھے اس پر ترس آتا ہے۔ اور میں ہر طرح سے اُس کی بدنصیبی
دور کرناچاہتا ہوں۔ البتہ کمر پر سوار ہی رہوں گا، اُتروں گا نہیں۔ ‘‘
وزیرا عظم نوازشریف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد دراصل یہی فرما رہے ہیں۔ اُن کی زبان سے نکلنے والے یہ الفاظ اجنبی نہیں کہ ’’میں استعفیٰ نہیں دوں گا‘‘۔ تب صدر غلام اسحق خان تھے۔ مگر اب ممنون حسین ہیںجن کی زبان سے یہ الفاظ بے ساختہ نکلے تھے کہ پاناما لیکس اللہ کی پکڑ ہے۔ اُن کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ جن کے ممنونِ احسان ہیں ، اللہ کی پکڑ میں وہ آنے والے ہیں۔ مگر اب بھی وہ انسانوں پر سواری جاری رکھنا چاہتے ہیں۔پہلا مطالبہ عمران خان کا تھا کہ نوازشریف کو اب استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ مگر ایک روز بعد اب یہ تمام جماعتوں کا مطالبہ بننے لگا ہے۔ اتنا ہی نہیں مسلم لیگ نون کے رہنما بدلتے موسم کی خوشبو سونگھتے پھر رہے ہیں۔ کسبی کی حیا رکھنے والے ذرائع ابلاغ اور صحافت کے تاجر بھی رات کے ٹھکانوں کے لیے نئی راہ ورسم بڑھا رہے ہیں۔اُن میں خجالت و لجاجت نام کو نہیں۔ رکاکت و خباثت نے اُن کو بنا ہی ایسا دیا ہے۔ وہ کچھ بھی مختلف نہیں کر رہے۔
ایک بات آشکار ہے کہ وزیراعظم اور اُن کا خاندان آخری حد تک جانے کو تیارہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے دو روز قبل اور بعد وفاقی وزراء جس زبان وبیان کے ساتھ بروئے کار آئے، اُس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اُن کے نزدیک پاکستان بھی ممنون حسین کی طرح خود اُن کا مرہونِ منت ہے۔ مگر بے رحم وقت تیزی سے سب کچھ سمیٹ رہا ہے۔ نوازشریف کا پگھلتا اقتدار اور سکڑتا اختیار اُنہیں اپنے جانشین کے انتخاب کے بھی قابل نہ چھوڑے گا۔ ہر گزرتا دن اُن کے خاندان کی گرفت کو کمزور کرتا جائے گا۔ وہ چڑھتا نہیں ڈوبتا سورج ہیں۔ اور اُن کے گرد گھیرا رکھنے والے لوگ سفید بالوں والی ایک ایسی مخلوق ہے جنہیں اگلی نسلوں کے درد اور غصے دونوں کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ اور ہاں ایمرسن منظر سے ہٹنے کے لیے جس نکتے کو اجاگر کرتے ہیں وہ کامیاب آدمیوں کے لیے ہے ناکام لوگوں کے لیے نہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر