وجود

... loading ...

وجود
وجود

مینڈیٹ کا مسئلہ

بدھ 12 جولائی 2017 مینڈیٹ کا مسئلہ

کراچی میں گزشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخاب نے آئندہ انتخابات کا منظرنامہ واضح کردیا ہے کہ اب کراچی کے بیدار مغز اور باشعور عوام کیا سوچ رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 114 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو اگرچہ پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا لیکن کراچی کی سوچ کے دائروں میں جو فرق آ رہا ہے یہ اس فرق کا عکاس ضرور ہے۔ لیکن اس عکس کو حقیقی سمجھنا بھی حقیقت کے برخلاف ہو گا کہ حقائق ابھی دھند میں چھپے ہوئے ہیں۔ ٹرن آؤٹ کے حساب سے مناسب تعداد میں ووٹ ڈالے گئے ہیں کہ پاکستان میں عام انتخابات جو پورے ملک میں ایک ساتھ منعقد ہوتے ہیں اور پورے ملک میں ایک خاص فضاء ہوتی ہے اس میں بھی ٹرن آؤٹ 40 سے50 فیصد تک رہتا ہے اس طرح ایک حلقہ کے ضمنی انتخابات اور وہ بھی وہ حلقہ جہاں کے عوام کی اکثریت روزانہ کمانے اور کھانے والوں پر مشتمل ہے، یوں اس حلقہ میں ضمنی انتخابات میں 30/32 فیصد ٹرن آؤٹ مناسب ہے ۔
اس حلقہ میں تمام معروف جماعتیں شریک مقابلہ تھیں اور پیپلزپارٹی کا میدان مارلینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس حلقہ میں بلوچ کالونی،چنیسر گوٹھ وغیرہ کے علاقے ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا گڑھ رہے ہیں ،پھر کچھ علاقوں میں جے یو پی اور کچھ میں جے یو آئی (ف) کا بھی اثر ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ملنے والے تقریباً24 ہزار ووٹ ایک ایسا ہندسہ ہے جو پیپلزپارٹی ماضی میں بھی حاصل کرتی رہی ہے لیکن ایم کیو ایم کو ملنے والے 18 ہزارووٹ اس بات کے غماض ہے کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کی گرفت اس حلقہ پر کمزور ہوئی ہے اور اس کی وجوہات بھی سامنے ہیں کہ پاکستان میں ایم کیو ایم (لندن) سے تعلق رکھنے والے عناصر خود کو وفاپرست کے نام سے متعارف بھی کراتے ہیں اور ان کی جانب سے اس الیکشن کے بائیکاٹ کی سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلائی گئی جس کا ردعمل بھی سامنے آیا کہ ایم کیو ایم جو اس حلقہ میں ماضی میں بڑے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کرتی رہی ہے وہ ناصرف کامیابی حاصل نہ کر سکی بلکہ مقابلہ بھی اتنا سخت نہیں تھا جتنے سخت مقابلے کی توقع کی جارہی تھی ۔
یوں تو چند ایک پارٹیوں کے علاوہ تمام نے ہی حلقہ سے باہر کے افراد کو انتخابی میدان میں اُتارا تھا اور جن میں کروڑ پتی ہی نہیں ارب پتی امیدوار بھی شامل تھے۔ ان میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کو متوسط طبقہ کا امیدوار قرار دیا جا سکتا ہے کہ سعید غنی اگرچہ وڈیروں ،صنعتکاروں اور جاگیرداروں کی پارٹی کا حصہ ہیں لیکن سعید غنی کی زندگی عملی جدوجہد پر مشتمل ہے۔ انہوں نے مسلم کمرشل بینک اسٹاف یونین سے اپنے جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ سفر آج بھی جاری ہے۔ وہ خود غریب نہ ہوں لیکن مزدور یونین میں رہ کر غریبوں کے مسائل کو بخوبی جاننے لگے ہیں۔یہ سعید غنی کا وہ پلس پوائنٹ ہے جس کی بنیاد پر وہ اسمبلی میں اپنی کارکردگی کے ذریعہ غریبوں کے مسائل حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں ۔یوں بھی توقع کی جارہی ہے کہ اسمبلی کا رکن بننے کے بعد انہیں سندھ کا صوبائی وزیرمحنت بھی بنا دیا جائے کہ ماضی میں وہ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے محنت رہ چکے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجہ میں اس منصب سے دستبردار ہوئے تھے ۔
اس حلقہ میں سب سے مالدار امیدوار ایم کیو ایم کے کامران ٹیسوری تھے پھر مسلم لیگ کے علی اکبر گجراور پی ٹی آئی کے نجیب ہارون بھی کم نہ تھے لیکن اس حلقہ نے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ۔پیپلزپارٹی کو اس کامیابی پر یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس نے کراچی فتح کر لیا ہے بلکہ اب کراچی میں اس کا اصل امتحان شروع ہوا ہے کہ وہ اس کامیابی کے بعد عوام کو خصوصاً اس حلقہ کے عوام کو کیا ریلیف دیتی ہے۔ پی ٹی آئی کو غور کرنا ہو گا کہ عام انتخابات کی بات اور تھی، جب بلا بہت مطلوب تھا۔ اب اس حلقہ میں عوام نے یہ احساس دلایا ہے کہ مقامی امیدوار ہی زیادہ بہترہوتا ہے۔ مسلم لیگ جب بھی اس حلقہ سے کامیاب ہوئی تو وہ عرفان اللہ مروت کی شخصیت کا اثر تھا، اگرچہ عرفان اللہ مروت نے پی ٹی آئی کے نجیب ہارون کی حمایت کی لیکن ووٹر اس سے متاثر نہیں ہوا ۔
اگر کوئی انہونی نہ ہو تو عام انتخابات میںاب ایک سال کا عرصہ بھی باقی نہیں رہا ہے اور یہ عرصہ تو انتخابی تیاریوں کا عرصہ ہے جن کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے پنجاب اور کے پی کے میں مورچے لگائیں ہیں تو نواز شریف نے بھی سندھ پر خاص نظرکرم کا آغاز کر دیا ہے۔ عمران خان نے پنجاب کو اپنا ہدف بنایا ہے اور فتح کے ممکنہ امیدواروں کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سے پی ٹی آئی میں داخل کرنے کے عمل میں تیزی پیدا کی ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے درمیان عمران خان نے پنجاب میں مسلم لیگ اور پی پی پی کے کئی بڑے ناموں کو پی ٹی آئی میںشامل کیا ہے جن میںڈاکٹر بابر اعوان، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان،نظر محمد گوندل اور دیگر شامل ہیں سندھ میں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ پر نقب لگائی ہے تو پی ٹی آئی نے بھی مسلم لیگ سے ناراض رہنماؤں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ دادو کے لیاقت جتوئی پی ٹی آئی میں جا چکے، اب ارباب غلام رحیم اور دیگر سے معاملات جاری ہیں۔ اسی طرح سے خبریں ہیں کہ دادو کے ملک اسد سکندر بھی آصف زرداری سے ناراض ہیں اور شنید ہے کہ ان کے بھی کپتان سے رابطے ہو رہے ہیں ۔یوں بھی ملک اسد سکندر پارٹیاں بدلنے کے معاملے میں اچھی شہرت رکھتے ہیں اور وہ اسی درخت پر گھونسلہ بناتے ہیں جس کے سائے میں اسلام آباد کا اقتدار نظرآئے ۔
ایم کیو ایم (لندن) نے اس ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیا ہم اس کی قانونی الجھنوں کی طرف نہیں جانا چاہتے کہ وہ ابھی الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہے اور اگر وہ درخواست بھی دیتے ہیں تو رجسٹریشن ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وفا پرست گروپ جس کو ایم کیو ایم (لندن) کی حمایت حاصل ہے وہ اس حلقہ میں آزاد امیدوار لا کر بھی اپنا وجود منوا سکتا تھا جیسا کہ گزشتہ دنوں حیدرآباد میں ایک یوسی کے چیئرمین شپ کے ہونے والے انتخابات میں ہوا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا حق پرست امیدوار ایک آزاد امیدوار جو خود کو وفاپرست کہہ رہا تھا کے سامنے اس حالت میں شکست کا شکار ہوا کہ ایک یوسی کے چیئرمین شپ کے لیے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی جوکہ حیدرآباد سے ایم این اے بھی ہیں سمیت ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت نے اس کی مہم چلائی تھی ،جن میں کئی موجودہ ایم این اے شامل تھے اور علاقے کے ایم این اے بھی اس کی مہم میں پیش پیش تھا لیکن اس کے باوجود وفاپرست کی خاموش مہم کامیاب رہی اور حق پرست امیدوار ایسی بھرپور مہم کے باوجود شکست سے دوچار ہوا ۔یہ ممکن ہے کہ کراچی کے صوبائی حلقہ میں ایسا نہ ہوپاتا لیکن اگر وفاپرست آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر بھی رہتا تو ایم کیو ایم (پاکستان) کے وجود کی عوامی پزیرائی پر لگا ہوا سوالیہ نشان مزید گہرا ہونا تھا۔ بہرحال ایم کیو ایم (پاکستان) کو اپنے معاملات پر نظرڈالنی چاہیے بصورت دیگر دعویٰ اپنی جگہ کراچی کا مینڈیٹ ایک سے زائد پارٹیوں میں تقسیم ہوتا نظرآرہا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر