وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیر اور سوات کی سرحد پر واقع خوبصورت ’’سیدگئی جھیل‘‘

پیر 10 جولائی 2017 دیر اور سوات کی سرحد پر واقع خوبصورت ’’سیدگئی جھیل‘‘


سطح سمندر سے ساڑھے گیارہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ایک کلومیٹر طویل اور آدھا کلومیٹر چوڑی سید گئی جھیل کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ یہ حسین اور پرکشش جھیل ہمیشہ سے دنیا بھر کے مہم جو سیاحوں کامرکز نگاہ رہی ہے اورجولائی کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی مہم جوئی کے شوقین افراد ملک بھر سے دیر اور سوات کی سرحد پر واقع خوبصورت سیدگئی جھیل کا رخ کرتے ہیں۔ اس جھیل کے اردگرد گلیشیئرز ساراسال موجود رہتے ہیں۔یہاں تک پہنچنے کا راستہ طویل اور مشکل ہوسکتا ہے مگر علاقے کی خوبصورتی اس سفر پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس جھیل تک تین راستوں کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے، یعنی بالائی سوات کے علاقوں ساتنڑر روڑینگار اور لالکو سخرہ جبکہ دیر کی وادی ہوشیرائی تاہم بیشتر افراد تحصیل مٹہ کی وادی روڑینگار کی ساتنڑ ٹریل کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اسے سب سے مختصر راستا تصور کیا جاتا ہے۔اس ٹریل کا سفر بھی سیاحوں کو مسحور کردیتا ہے کیونکہ یہاں گنجان جنگلات اور سرسبز علاقے موجود ہیں جہاں رنگا رنگ پھول اور ہجرت کرکے آنے والے پرندے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دنوںاپنے دوستوں کے ساتھ یہاںآنے والے ایک سیاح امجد علی نے بتایا کہ طویل عرصے سے سیدگئی جھیل پر جانا میرا خواب تھا، کیونکہ اس کی اپنی کشش اور جادو ہے، میں نے کئی مرتبہ اس خوبصورت جھیل تک جانے کا ارادہ کیا مگر جانا ممکن نہیں ہوسکا۔ اس بار میں کامیاب ہوا، یہاں کی خوبصورتی اور فطری نظاروں نے میرے دل اور روح کو بھردیا ہے’۔اس جھیل کی جانب جانے والے افراد کہتے ہیں کہ وہ تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ ٹریل کافی نیچے اترتی ہوئی اور دشوار گزار ہے، مگر ارگرد کے نظارے لطف دیتے ہیں۔
قدرتی نظاروں کو پسند کرنے والے حمزہ خان کے مطابق ‘ہم نے ساتنڑ سے اس پہاڑی راستے پر چڑھنا شروع کیا اور جھیل کی جانب جاتے ہوئے ایک رات بھی بسر کریں گے، اگرچہ یہ چڑھائی تھکادینے والی ہے، مگر یہاں کی مسحورکن خوبصورتی تھکے ہوئے جسموں میں نئی جان ڈال دیتی ہے۔
سیدگئی جھیل تک پہنچنے سے قبل سیاحوں کا استقبال ایک چھوٹی سی جھیل کرتی ہے، مینگورہ سے یہاں آنے والے ایک شخص فیصل سعید نے بتایا ‘میں راستے میں اس چھوٹی جھیل کو دیکھ کر حیران رہ گیا، یہ بالکل شفاف اور خوبصورت ہے۔
جھیل کی جانب جاتے ہوئے ٹریکرز اکثر خود کو سفید بادلوں سے گھرا ہوا پاتے ہیں، جیسے سوات کی جھیلوں کو دیکھنے کے لیے اکثر آنے والے اکرام خان بتاتے ہیں ‘ہم نے ایک مختصر وقفہ لیا تاکہ بادل چھٹ جائیں اور راستہ صاف ہوجائے۔جب لوگ آخری پہاڑی سلسلے پر چڑھتے ہیں تو جادوئی جھیل کی پہلی جھلک ان پر سحر طاری کردیتی ہے۔سیدو شریف سے جھیل دیکھنے کے لیے آنے والے ظفر علی کاکا اپنا تجربہ بتاتے ہیں ‘جھیل کی پہلی جھلک، یعنی پہاڑیوں کے درمیان شفاف پانی، انتہائی پرسکون کردینے والا ہوتا ہے جس نے مجھے گنگ
کردیا۔انہوں نے مزید کہا کہ سوات کی اصل خوبصورتی پہاڑوں میں چھپی ہے جو اب تک دریافت نہیں ہوسکی۔
سوات کے ایک اور رہائشی محمد کرم کئی بار اس جھیل کو دیکھنے آچکے ہیں، ان کا کہنا تھا، ‘جب میں اپنے دوستوں کو یہاں لے کر آتا ہوں، تو اس جھیل کی خوبصورتی کو دیکھ کر ان پر طاری ہونے والی حیرانگی سے لطف اندوز ہوتا ہوں، مگر جو لوگ پہاڑ سر نہیں کرپاتے اور جھیل تک نہیں پہنچتے وہ مجھے مایوس کردیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایک اچھا ٹریک تعمیر کرنا چاہیے جہاں رہائشی جگہیں بھی ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس علاقے میں آکر وادی کے قدرتی عجوبے کو دیکھ سکیں۔
اس جھیل کے ساتھ تاریخی وادی ساتنڑ ہے جسے بدھ مت والوں کے لیے ایک اہم مقام کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔یہاں کے ایک معمر رہائشی پائندہ محمد کے مطابق ‘کبھی یہاں متعدد تاریخی کھنڈرات موجود تھے، جہاں سنسکرت کی تحریریں بھی موجود تھیں، بزرگوں کے مطابق بدھ مت کے ماننے والے اور ہندو یہاں عبادت کے لیے اکھٹا ہوتے تھے۔وادی ساتنڑ کے رہائشی متعدد دیومالائی داستانیں بیان کرتے ہیں جو اس جھیل سے جڑی ہیں جیسے پائندہ محمد بتاتے ہیں ‘بدھ مت کے عہد میں ایک طلائی برتن اس جھیل کی سطح پر نمودار ہوا، جو آسمان سے آنے والی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔
ثقافتی ماہرین کے مطابق لفظ سیدگئی سنسکرت کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے، سید کا لفظ سیدھا یا سادھو سے آیا جس کا مطلب بھکشو ہوتا ہے جبکہ گئی کا مطلب گانا ہے۔ایک ماہر فضل نے بتایا ‘اس کا مطلب ہے کہ ایک بھکشو روحانی کلمات گاتا ہے، روایات ہیں کہ ایک بدھ بھکشو پدماسام بھاوا (Padmasambhava) کی پیدائش وادی سوات کی ایک جھیل میں کنول کے پھولوں میں ہوئی، ایسا سمجھا جاسکتا ہے کہ یہی وہ جھیل ہے جہاں آٹھویں صدی میں پدماسام بھاوا کی پیدائش ہوئی، جنھوں نے بدھ مت کو تبت، بھوٹان اور دیگر جگہوں تک پھیلایا۔
دنیا بھر میں اس طرح کے دلکش سیاحتی مقامات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے جسے کے نتیجے میں پوری دنیا کے سیاح انھیں دیکھنے اور سیر کرنے کے لیے کھنچے چلے آتے ہیں لیکن پاکستان میں محکمہ سیاحت کی جانب سے اس ملک میں موجود اس طرح کے دلکش اور دیدہ زیب سیاحتی مقامات کی تشہیر پر دھیان دینے والاکوئی نہیں ہے ،یہی نہیں بلکہ ان مقامات کو سیاحوں کے لیے پرکشش بنانے کے لیے ان مقامات تک آمدورفت کو آسان بنانے ملک کے مختلف علاقوں سے یہاں تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کامناسب انتظام کرنے اور اس جھیل کے ارد گرد سیاحوں کی رہائش کے لیے ہوٹلوں اور ریسٹ ہائوسز کے انتظامات پر بھی ابھی تک مناسب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہاں آنے والے سیاحوں کومختلف مشکلات کاسامنا کرنا پڑتاہے ، اور ان کاتفریحی سفر مہم جوئی کے آزمائشی سفر میں تبدیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ سیاحت اس طرح کے سیاحتی مقامات کو سیاحوں کے لیے پر کشش بنانے کے لیے ان تک آمدروفت کو آسان بنانے اور ایسے مقامات پر سیاحوں کے قیام وطعام کے مناسب انتظامات پر توجہ دے تاکہ یہاں سے واپس جانے والے سیاح پاکستان کے سیاحتی مقامات کا چلتا پھرتا اشتہار بن جائیں اور دوسروں کو بھی ان کادورہ کرنے کی ترغیب دے سکیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر