وجود

... loading ...

وجود
وجود

سندھ کا تاریخی قلعہ رنی کوٹ ۔۔ صدیوں بعد بحالی کی راہ پر گامزن

منگل 04 جولائی 2017 سندھ کا تاریخی قلعہ رنی کوٹ ۔۔ صدیوں بعد بحالی کی راہ پر گامزن

سندھ میں حیدرآباد کے قریب ضلع جام شورو میں سندھ کے قوم پرست سیاستدان اور تحریک پاکستان میں قائد اعظم کا ساتھ دینے والے عظیم سندھی رہنما جی ایم سید کے آبائی گائوں سن سے کم وبیش 30 کلومیٹر کے فاصلے پر سندھ کا عظیم تاریخی قلعہ رنی کوٹ واقع ہے۔
یہ قلعہ اپنے اندر پراسراریت کی ایک داستان چھپائے ہوئے ہے ، اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع موجود نہیں ہے کہ یہ قلعہ کس دور میں اور کس نے تعمیر کرایا ہے ،بس اس کے بارے میں مختلف حلقوں میں مختلف باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔مورخین کے ایک طبقے کاکہناہے کہ یونانیوں نے جب سندھ پر حملہ کیاتو خود کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے انھوںنے اس قلعہ کی تاریخی دیوار تعمیر کرائی تھی ،جبکہ مورخین کے ایک دوسرے طبقے کاخیال ہے کہ یہ دیوار ساسانیوں نے اپنی حفاظت کے لیے تعمیر کرائی تھی۔جبکہ مورخین کے ایک تیسرے طبقے کاخیال ہے کہ یہ قلعہ اتنا زیادہ قدیم نہیں ہے اور یہ قلعہ تالپوروں نے اپنے دور حکومت میں اپنے تحفظ کے لیے تعمیر کرایاتھا۔قطع نظر اس کے کہ یہ قلعہ اور اس کی وسیع وعریض دیوار کس دور میں تعمیر ہوئی اور کس نے تعمیر کرائی، یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ قلعہ سندھ کے ان چند تاریخی مقامات میں شامل ہے جو طویل عرصے تک سیاحوں کا مرکز نگاہ بنا رہاہے اور لوگ دور دور سے اس تاریخی قلعہ کو دیکھنے کے لیے جامشورو ضلع میں واقع سن پہنچاکرتے تھے۔ بعد ازاں برسراقتدار آنے والی حکومتوں کی چشم پوشی کی وجہ سے یہ قلعہ بوسیدہ ہوتاگیا اور سیاحوں کے لیے اپنی کشش کھوتا چلاگیا جس کے بعد اس قلعہ کو دیکھنے کے لیے آنے والے لوگوںکی تعداد بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔اور یہ تاریخی قلعہ موئن جودڑو کا منظر پیش کرنے لگا لیکن بعد میں حکومت نے اپنے اس تاریخی ورثے کی جانب توجہ دینا شروع کی اور بعد از خرابی بسیار اس کی بحالی کاکام شروع کیاگیا۔اس کی تعمیر ومرمت اور بحالی کے لیے ایک انڈوومنٹ فنڈ قائم کیاگیا اور اس فنڈ کے ذریعے اس کی تعمیرومرمت اور بحالی کاکام بتدریج آگے بڑھتاگیا یہاں تک کہ آج صدیوں سے نظر انداز کیاگیا یہ تاریخی قلعہ ایک دفعہ پھر کسی حد تک پرانی شکل میں بحال ہوگیاہے۔
اس تاریخی قلعہ کی بحالی کے کام کے نگراں سندھ ہیری ٹیج سے متعلق انڈوومنٹ فنڈ ٹرسٹ کے سیکریٹری عبدالحمید اخوند زادہ کا کہناہے کہ اگرچہ اس قلعہ کی تاریخ کے بارے میں کوئی بھی مستند تاریخ موجود نہیں ہے لیکن خیال اغلب ہے کہ یہ قلعہ ساسانیوں نے تعمیر کرایاتھا اور بعد میں1819 میں تالپور دور حکومت میں اس قلعہ میں توسیع واضافے کے ساتھ اس کی تزئین آرائش کاکام کرایاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قلعہ کی دیوار اور بعض مقامات پر تالپور دور کے فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے جس کی بنیادپر بعض مورخین نے یہ قیاس کرلیا کہ یہ قلعہ تالپور دور ہی میں تعمیر کرایاگیاہوگا۔جبکہ ایک سندھی ادیب اورماہر آثار قدیمہ کلیم اللہ لاشاری کافلسفہ ان سب سے جدا ہے۔ اُن کااصرار ہے کہ یہ قلعہ 1819 میں تالپور دور میں ہی تعمیر کرایاگیا ہے اور اس کی تعمیر کاسہرا عربوں، ساسانیوں یا یونانیوںکے سر نہیں باندھا جاسکتا تاہم اس کے ساتھ ہی ان کایہ بھی اصرار ہے کہ یہ قلعہ تعمیر تو بڑے شوق سے کرایاگیا لیکن اس میں کسی بھی دور حکومت میں کسی نے بھی رہائش اختیار نہیں کی اور یہ خیال کرنا کہ چھوٹے قلعہ شیر گڑھ میں حکمرانوںکی بیگمات اور بڑے قلعہ میں مرد قیام پزیر رہے، محض قیاس آرائیاں ہیں۔ اُنھوںنے بتایا کہ وہ اس قلعے کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب لکھ رہے ہیں جو اگلے سال تک مارکیٹ میں آجائے گی اس کتاب میں قلعہ کے حوالے سے تمام تفصیلات موجود ہوں گی اور حقائق سے پردہ اٹھ جائے گا۔
اخوند زادہ کاکہناہے کہ اس قلعہ کی دیوار مجموعی طورپر 30 کلومیٹر رقبے پر محیط ہے اور اس کے اندر ایک نہیں بلکہ دو قلعے ہیں،ان میں سے ایک نام میری کوٹ ہے جوزیریں علاقے میں تعمیر کیاگیاتھا اور دوسرے کے مقابلے میں زیادہ بڑا ہے،جبکہ دوسرا قلعہ بالائی علاقے میں واقع ہے تاہم وہ زیریں علاقے میں واقع میری کوٹ کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔ بالائی علاقے میں واقع قلعہ شیر گڑھ کہلاتا ہے اور خیال کیاجاتاہے کہ سابق ساسانی حکمرانوں اور اس کے بعد تالپور دور کے حکمرانوں کی بیگمات اسی قلعہ میں رہتی تھیں۔
اس تاریخی قلعہ کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں کمی کے حوالے سے اخوند زادہ کا کہنا تھا کہ قلعہ دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں کمی کا سبب اس قلعہ کی زبوں حالی نہیں تھی کیونکہ سیاح تو ایسے مقامات کو نوادرات تصور کرتے ہوئے اس کی تصویریں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔اُن کاکہنا تھا جو بڑی حد تک صحیح بھی معلوم ہوتاہے کہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد میں کمی کاسبب اس علاقے تک ٹرانسپورٹ کے نظام کافقدان اوریہاں تک پہنچنے کے لیے مناسب سڑکوں کی عدم موجودگی ہے۔ہموار سڑکوںکی عدم موجودگی کے باعث نجی ٹرانسپورٹرز بھی اس علاقے میں گاڑیاں چلانے کوتیار نہیں ہوتے اور علاقے کے لوگوں کو قریبی شہر تک جانے کے لیے عام طورپر پیدل ہی سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑتاہے۔انھوں نے بتایا کہ رنی کوٹ تک پہنچنے کے لیے سن سے رنی کوٹ تک صرف ایک ہی سڑک ہے لیکن اس سڑک کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور اسے موجودہ حالت میں سڑک کہنا بھی سڑک کی توہین کے مترادف ہے۔انھوں نے بتایا کہ میں نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو ایک خط لکھاتھا جس میں ان کی توجہ اس سڑک کی زبوں حالی اور اس کی دوبارہ تعمیر کی ضرورت کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی تھی اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ ہائوس نے مجھے اس طرف توجہ دلانے پر شکریے کا خط بھی لکھا لیکن اس سڑک کی تعمیر کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیاجاسکا ہے۔
اس تاریخی قلعہ کی بحالی کے کام کے نگراں سندھ ہیری ٹیج سے متعلق انڈوومنٹ فنڈ ٹرسٹ کے سیکریٹری عبدالحمید اخوند زادہ کا کہناہے کہ رنی کوٹ تک پہنچنے کے لیے ماضی میں اس علاقے میں دو پل ہوا کرتے تھے،لیکن اب یہ دونوں پل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر انتہائی فرسودہ ہوچکے ہیں ۔اُن میں سے ایک تو قصۂ پارینہ بن چکاہے اور دوسرا جو موجود ہے اس پر سفر کرنا بھی مشکل تھا۔ تاہم انڈوومنٹ ٹرسٹ نے اس کی مرمت کراکے اسے استعمال کے قابل بنادیاہے۔
رنی کوٹ قلعہ کاشمار سندھ کے تاریخی ورثے میں ہوتاہے لیکن سابقہ حکومتوں کی چشم پوشی اور اس قلعہ کی دیکھ بھال اور تعمیر ومرمت کے لیے فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ قلعہ بتدریج کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا جارہاتھا۔ اس کی دیواروں کی اینٹیں گر رہی تھیں اور غائب ہورہی تھی اور دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس قلعہ تک پہنچنا بہت مشکل ہوگیاتھا، لیکن 4 سال قبل انڈوومنٹ فنڈ ٹرسٹ کے ذریعہ اس کی بحالی کے کام کا آغاز کیاگیا اور ٹرسٹ کو اس میں بڑی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ اخوندزادہ کاکہناہے کہ اس قلعہ کی تعمیر ومرمت کے کام میں سب سے بڑی دشواری اس پورے علاقے میں پانی کی کمیابی بلکہ نایابی ہے جس کی وجہ سے قریبی علاقوں سے پانی لانا پڑتاہے جو انتہائی مشکل اور دقت طلب کام ہے۔ اخوندزادہ نے بتایا کہ قلعہ کو اس کی پُرانی شکل میں ڈھالنے کے لیے پہلے کچی مٹی سے اس کی دیواریں تعمیر کی گئیں اور اس کے بعد اس پر چونے کاپلاسٹر کیاگیاہے جس کے بعد اس کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بھی چونے کاسہارا لیاگیاہے۔اُنھوں نے بتایا کہ چونکہ اس قلعہ پرصدیوں سے کوئی توجہ نہیں دی گئی اس لیے اس کی دیواروں میں جگہ جگہ سے دراڑیں پڑ گئی تھیں،اس لیے اس کی بحالی کاکام بظاہر بہت مشکل بلکہ ناممکن نظر آرہاتھا لیکن بحالی کاکام کرنے والوں نے انتہائی لگن اور محنت کے ساتھ کام جاری رکھا اور دوسال کی کوششوں کے نتیجے میں قلعہ کاایک بڑا حصہ اور اس کاگیٹ پرانی شکل میں بحال کردیاگیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ قلعہ پر آہنی گیٹ لگائے گئے ہیں لیکن اب علاقے میں بھاری گاڑیوں کاداخلہ ممنوع قرار دے دیاگیاہے کیونکہ بھاری گاڑیوں کی آمدورفت اور دھمک سے قلعہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ انھوںنے بتایا کہ لوگ یہاں اپنی فیملیز کے ساتھ آکر پکنک مناسکتے ہیں اور اس تاریخی قلعہ کے کروفر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں،لیکن قلعہ کے اندر ویڈیو بنانے اور موسیقی کے پروگرام منعقد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قلعہ کی بحالی اور تعمیر ومرمت کاکام مکمل ہونے میں مزید کتنا وقت لگتاہے اور اس کام کی تکمیل کے بعد اس کی مستقل دیکھ بھال کاکوئی انتظام کیاجاتاہے یا اسے ایک دفعہ پھر حوادثِ زمانہ کے حوالے کردیاجاتاہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر