... loading ...
شاعر نے کہا تھا کہ بچوں کی دنیا میں موت نہیں ہوتی۔ بچوں کی دنیا میں امنگیں ہوتی ہیں، خواب ہوتے ہیں، کھلکھلاہٹ ہوتی ہے، مسکراہٹ ہوتی ہے، کھلندڑاپن ہوتا ہے۔ بچپن تو معصوم ہوتا ہے، بھولا اور دنیاوی برائیوں سے پاک۔مگر کشمیر کے بچوں کی دنیا الگ سی لگتی ہے۔ ان کی دنیا سے بھولپن لاپتہ ہو گیا ہے۔ ان کی معصوم مسکراہٹ کہیں گم ہوتی جا رہی ہے۔ان بچوں نے ایک تصویری مقابلے کے لیے اپنے ہاتھوں سے اپنی دنیا کی جو تصاویر بنائی ہیں، ان میں تشدد، سڑکوں پر بکھرے پتھروں اور بند گھروں کی جھلک ملتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ کشمیر کا درد ان معصوموں کی فنکاری سے چھلک رہا ہو۔کشمیری بچوں نے اپنے ہاتھوں سے کشمیریوں کے دلوں میں بیٹھی موجودہ حالات کی دہشت کو بیان کیا ہے۔ مستقبل کے بارے میں جو ڈر ان کے ذہن میں ہے، اسے بھی بچوں نے اپنی تصاویر میں اتارا ہے۔ ان بچوں کے پورے کینوس پر سرخ رنگ غالب ہے۔ کبھی وہ آگ کی شکل میں دکھائی دیتا ہے تو کبھی خون کی۔ سرخ کے بعد سیاہ رنگ کا بھی بہت استعمال ہوا ہے۔ کہیں سیاہ آسمان ہے تو کہیں کالی زمین اور یہ سیاہی بچوں کے مستقبل پر، ان کے ذہن پر تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کشمیر کو برف سے ڈھکے بلند وبالا پہاڑوں، چراگاہوں، باغات اور دریاؤں کی وجہ سے جانا جاتا تھا جو اس جگہ کو ‘جنت نظیر’ بناتے تھے لیکن یہ جنت آج کے کشمیری بچوں کی مصوری میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔آج کشمیری بچوں کے کینوس پر خون پھیلا ہے۔ لاشیں بچھی ہیں۔ گولیاں چل رہی ہیں۔ یہ بچے آج پتھراؤ کرنے والے مظاہرین، بندوقیں تانے سکیورٹی اہلکاروں، مسلح جھڑپوں، جلتے ہوئے اسکولوں اور ملبے سے بھری سڑکوں کی تصاویر بنا رہے ہیں۔بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ سال حریت پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے تشدد کا جو دور شروع ہوا اس میںبھارتی سیکورٹی اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں 100 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔پرتشدد مظاہروں میں9 ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے جن میں 15 سال سے کم عمر کے قریب 1200 بچے بھی تھے۔سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے داغے جانے والے چھرّوں کی وجہ سے بہت سے مظاہرین کی بینائی چلی گئی اور ان میں بھی بچے شامل تھے۔
جب حالات بے قابو ہوئے تو اسکول بند کر دیے گئے۔ کشمیر کے بچے اپنے گھروں میں قیدی بن کر رہ گئے۔ ان کا زیادہ تر وقت ٹی وی پر تشدد کی خبریں دیکھتے ہوئے گزرتا تھا۔گھروں میں بند بچوں کو پڑھانے کے لیے اساتذہ آیا کرتے تھے۔ بہت سے بچوں نے گھروں پر ہی امتحان دیے۔ ایک اسکول نے تو ایک اِن ڈور اسٹیڈیم میں بچوں کا امتحان لیا۔آخرکار موسم سرما میں اسکول کھلے، مہینوں بعد جب بچے اسکول پہنچے تو کچھ مشتعل تھے ،تو کچھ پریشان لیکن سب اپنے مستقبل کے بارے میں انتہائی فکرمند تھے۔یہ بچے اپنے اساتذہ سے بس یہی سوال کر رہے تھے کہ آخر اتنے دن ان کے اسکول کیوں بند کیے گئے تھے؟کچھ بچوں کا رویہ تو انتہائی عجیب تھا۔ وہ بلاوجہ چیخنے لگتے تھے۔ میزوں پر مکّے مارتے تھے اور کلاس میں فرنیچر توڑنے لگتے تھے۔ایک اسکول کے پرنسپل نے مجھے بتایا کہ، ‘بچوں کے اندر بہت غصہ تھا۔مہینوں بعد اسکول واپس آنے والے ان بچوں میں سے تقریباً تین سوا سکول کے ہال میں جمع ہوئے۔ انھوں نے کاغذ اور رنگ نکالے اور تصاویر بنانے لگے۔پرنسپل نے بتایا کہ ‘پہلے دن بچے سارا دن ڈرائنگ کرتے رہے، جو دل چاہا بناتے رہے۔ وہ بیحد خاموشی سے اپنا کام کر رہے تھے۔
زیادہ تر بچوں نے رنگین پینسلوں یا پیسٹل رنگوں سے تصاویر بنائیں۔ بہت سے بچوں نے ان پر شہ سرخیوں اور جملوں کی شکل میں پیغام لکھ کر اپنے جذبات بیان کیے۔ان تصاویر میں وادی میں لگی آگ صاف نظر آتی ہے۔ سڑکوں پر پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ کچھ تصاویر میں سیاہ ملبہ دکھائی دیتا ہے جبکہ آسمان پر جلتا ہوا سورج ہے۔ فضا میں پرندے نظر آتے ہیں مگر زمین پر تشدد کے نشانات ہی دکھائی دیتے ہیں۔بچوں نے جو تصاویر بنائیں ان میں زخمی چہرے ہیں۔ پیلیٹ گن سے اپنی آنکھیں گنوا چکے لوگ ہیں۔ زیادہ تر بچوں کی تصاویر میں یہی منظر ہے۔ایک تصویر میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ، ‘میں پھر دنیا نہیں دیکھ سکوں گا۔ میں اپنے دوستوں کو اب کبھی نہیں دیکھ سکوں گا۔ میں اب اندھا ہو گیا ہوں۔’بچوں کی وہ دنیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں تشدد اور موت کے لیے جگہ نہیں ہوتی، ان تصاویر میں خون اور اندھیرے سے بھری دکھائی دیتی ہے۔کچھ بچوں کی بنائی گئی تصاویر میں سڑکوں پر بکھری لاشیں ہیں تو کہیں مظاہرے کرتے لوگ بھی ہیں۔اننت ناگ کے ایک بچے نے اپنی تصویر کو کچھ اس طرح بیان کیا، ‘یہ کشمیر کے پہاڑ ہیں۔ یہ بچوں کا ایک سکول ہے۔ بائیں طرف فوج کے جوان ہیں اور ان کے سامنے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین ہیں، جو آزادی مانگ رہے ہیں۔بچہ آگے کہتا ہے کہ ‘جب مظاہرین پتھر پھینکتے ہیں تو فوج کے جوان گولیاں چلانے لگتے ہیں۔ اس فائرنگ میں ایک بچہ مارا جاتا ہے اور پھر اس کا دوست تنہا رہ جاتا ہے۔’
ایک تصویر میں ایک اسکول میں آگ لگی ہے اور اس میں ایک بچہ پھنسا ہوا ہے۔ وہ چیخ رہا ہے کہ ہماری مدد کریں۔ مدد۔۔۔ ہمارے اسکول کو بچا لو۔ ہمارے مستقبل کو بچا لو۔کچھ تصاویر میں غصہ ہے تو کسی میں سیاسی پیغام بھی ہے۔ بہت سی تصاویر آزادی کی حمایت میں ہیں اور کئی میں برہان وانی کی تعریف اور بھارت مخالف نعرے ہیں۔
کچھ بچوں نے کشمیر کا نقشہ بنایا ہے جس سے خون بہہ رہا ہے۔ایک مصور کے مطابق جنوبی کشمیر کے ایک گاؤں میں کچھ بچوں نے اپنے گھروں کی تصاویر بنائیں جن پربھارت کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔
ایک بچے نے ایک ایسے انسان کی تصویر بنائی جس کا چہرہ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔یہ کشمیر کے بارے میںبھارت اور پاکستان کے تعلقات کو ظاہر کر رہی تھی اور اس میں پھنسے کشمیر کی تکلیف تصویر کے ذریعے بیان کی گئی تھی۔ایک اور تصویر ہے جو پنسل سے بنائی گئی تھی جس میں ایک ماں اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہے۔ یہ تصاویر آپ کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔کشمیری بچوں نے پرتشدد مظاہروں کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل فون پر عائد پابندیوں پر بھی تصاویر کے ذریعے اپنا غصہ نکالا۔پانچ سال پہلے آسٹریلیا کی آرٹ تھیراپسٹ ڈینا لارنس نے کشمیری نوجوانوں اور بچوں کے لیے کچھ کلاسز کا اہتمام کیا تھا۔انھیں معلوم ہوا کہ ان نوجوانوں کی تصاویر میں سیاہ رنگ غالب ہے اور زیادہ تر تصاویر میں بچوں نے غصے، اشتعال اور ڈپریشن کے جذبات بیان کیے تھے۔کشمیری مصور مسعود حسین چار سے 16 برس کی عمر کے بچوں کے آرٹ کے مقابلوں میں جج بنتے رہے ہیں۔ مسعود کہتے ہیں کہ ان بچوں کے لیے موضوع اب تبدیل ہوگئے ہیں۔مسعود کے مطابق ‘ماضی کی تصاویر میں قدرتی مناظر کا حسن جھلکتا تھا۔ آج اس کی جگہ تشدد نے لے لی ہے۔ آج وہ سرخ آسمان بناتے ہیں، جلتے ہوئے گھر بناتے ہیں۔ بندوقوں، ٹینکوں اور سڑکوں پر تشدد کی تصاویر بناتے ہیں۔ آج کے کشمیری بچے مرتے ہوئے لوگوں کی تصاویر اپنے کینوس پر اتار رہے ہیں۔’
سری نگر سے تعلق رکھنے والے ماہرِ نفسیات ارشد حسین کہتے ہیں کہ بچوں کے فن میں ان کی تکلیف کی جھلک ملتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں لگتا ہے کہ بچے کچھ نہیں سمجھتے، ایسا نہیں ہے۔ ان پر آس پاس کے ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ وہ حالات کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ پھر اسے اپنے اپنے طریقوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ان کے مطابق پرتشدد حالات کی تصاویر بنانے والے بچے وہ ہیں جو مہینوں تک گھروں میں قید رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ذرا سوچیے، وہ بچے کیسی تصویر بنائیں گے جو سڑکوں پر جاری تشدد کا شکار رہے ہیں۔
کشمیری بچوں کی یہ تصاویر نائن الیون حملے کے بعد امریکی بچوں کی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں۔امریکی بچوں نے اس حملے کے بعد روتے ہوئے بچوں اور آگ میں جھلستے ٹوئن ٹاورز کی تصاویر بنائی تھیں۔ اس وقت امریکی بچوں نے بھی سرخ، جلتے ہوئے آسمان کو اپنے کینوس پر اتارا تھا۔کشمیر میں پریوں کی کہانیاں، ڈراؤنے خوابوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ لیکن حالات ابھی اتنے نہیں بگڑے کہ سنبھالے نہ جا سکیں۔ایک بچے کی تصویر میں ایک بچی گزارش کرتی نظر آتی ہے کہ ہمارا مستقبل روشن بنائیں۔ ہمیں تعلیم دیں اور موجودہ حالات کے بہانے ہمارے مستقبل کو تاریک نہ کریں۔یعنی اب بھی بچوں کو امید ہے۔ اب بھی ان ذہنوں میں سنہرے خواب ہیں اور ان آنکھوں میں بسے خوابوں کو تعبیر دینے کی ضرورت ہے۔کشمیر کو ضرورت ہے، امن کے پیغام کی اور یہ بچے بے صبری سے اس پیغام کے منتظر ہیں۔
سوتک بسواس
ہمیں کہا گیا بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہوسکتی جب تک عاصم مُنیر کا نوٹیفکیشن نہیں آتا، ایک شخص اپنے ملک کے لوگوں کیلئے قربانی دے رہا ہے اور اسے سیاست کہا جارہا ہیعلیمہ ، عظمیٰ ، نورین خان کیا یہ مقبوضہ پاکستان ہے؟ ہم پر غداری کے تمغے لگا دیے جاتے ہیں،9 مئی ہمارے خلاف پلان ک...
78سال سے ظلم و جبر کے نظام نے عوام کے ارمانوں کا خون کیا،امیر جماعت اسلامی 6ویںاور 27ویں ترمیم نے تو بیڑا غرق کردیا ،مینار پاکستان پر پریس کانفرنس سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ 78سال سے ظلم و جبر کے نظام نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے لوگوں ک...
عین الحلوہ پناہ گزینوں کے کیمپ پر ڈرون کی وحشیانہ بمباری ، متعدد زخمی ہوگئے شہدا کیمپ کے اپنے نوجوان ہیں، حماس نے اسرائیل کے دعوے کو مسترد کردیا جنوبی لبنان کے شہر صیدا میں واقع عین الحلوہ کیمپ پر قابض اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں13فلسطینی شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ واق...
جمعہ کی نماز میں ہم سب اس ترمیم کی مذمت کرینگے،ہمارا قانون ہر اس چیز کی مخالفت کرتا ہے جو اسلام کیخلاف ہو، ترمیم نے قانون کو غیر مؤثر کر دیا،ہر کوئی سیاہ پٹیاں باندھے گا،اپوزیشن اتحاد ہم ایک بڑی اپوزیشن اتحاد کانفرنس بلا رہے ہیں جس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوں گے، بدتمیزی نہیں ہ...
92 بینک اکاؤنٹس سمیت تمام ڈیجیٹل اکاؤنٹس جام کر دیے گئے، 9 فنانسرز کے خلاف مقدمات درج ، ٹھکانوں سے جدید اسلحہ، گولیاں، بلٹ پروف جیکٹس اور دیگر سامان برآمد ، ترجمان پنجاب حکومت دیگر صوبوں میں کارروائی کیلئے وفاق سے درخواست کرنے کا فیصلہ،سوشل میڈیا پر ملکی سلامتی کیخلاف مواد پر...
28ویں 29 ویں اور 30ویں ترامیم کے بعد حکمران قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے ترامیم ملک و قوم کیلئے نہیں چند خاندانوں کے مفاد میں لائی گئیں،میٹ دی پریس سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت 27ویں ترمیم کی گونج ہے، اس کے بعد 28ویں 29 وی...
موٹر سائیکل سواروں کابھاری چالان ظلم ،دھونس ، دھمکی مسئلے کا حل نہیں،جرمانوں میں کمی کی جائے ہیوی ٹریفک چالان اور بندش احسن اقدام ، لیکن یہ مستقل حل نہیں،چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ مہاجر قومی موومنٹ (پاکستان) کے چیئرمین آفاق احمدنے کہا کہ کسی قانون کا بننا اور اسکے نفاذ کا طر...
نئی تحریک شروع پارلیمنٹ نہیں چلنے دینگے،حزب اختلاف کی نئی تحریک کا مقصد موجودہ حکومت کو گرانا ہے،حکومت نام کی کوئی چیز نہیں رہی ہے عوام کی بالادستی ہونی چاہیے تھی،محمود خان اچکزئی حکومت نے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا تو پھر بیٹھ کر اس کا علاج کریں گے ،تحریک اقتدار کیلئے نہیں آئین...
پیپلزپارٹی نے بلدیاتی بل پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی، بلدیات سے متعلق ترمیم آئے گی اور منظور ہوگی، کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اسے چارہ نہیں دو گے تو کیسے چلے گا،مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے بلدیاتی نظام سے متعلق ب...
36 اراکین نے فیصل ممتاز کے حق میں جبکہ 2 اراکین نے مخالفت میں ووٹ دیا پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ سولہویں وزیراعظم ہوں گے،حلف آج بروز منگل متوقع تحریک عدم اعتماد کامیاب، فیصل ممتاز راٹھور نئے وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب ہو گئے۔آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں اراکین کی تعداد 54...
وفاقی حکومت ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں کی اپ گریڈیشن کو یقینی بنائے گی،شہباز شریف وزیر ریلوے حنیف عباسی نے اپنی کارکردگی سے مخالفین کے منہ بند کردیے،تقریب سے خطاب (رپورٹ: افتخار چوہدری)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ریلوے کی ڈیجیٹائزیشن اور جدید سہولیات کی فراہم...
بھارتی پروردہ نے اقتدار کے پندرہ برسوں میں جھوٹے مقدمات کی سیاست کو فروغ دیا عدالتی فیصلوں کو انتقام کا ہتھیار بنایا اور فسطائیت پر مبنی طرزِ حکمرانی اپنائی،ردعمل کا اظہار امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے حسینہ واجد کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے پر اپنے ردعمل...