... loading ...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز سعودی سرزمین پر کھڑے ہوکر امریکا عرب اسلامی سربراہ کانفرنس سے خطاب کے دوران ایران کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینے پر پورا زور صرف کیا جبکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے اپنی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات کی مکمل تائید اور تصدیق کرتے ہوئے امریکا اورڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مکمل وفاداری کا ثبوت دیا۔ انہوں نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان آپ کے خیالات کی تائید کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا عرب اسلامی سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران دہشت گردی کا مرکز ہے‘ لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک ایران نہ صرف دہشت گردی کے لیے فنڈز فراہم کررہا ہے بلکہ وہ دہشت گردوں کی تربیت کرنے سمیت انہیں اسلحہ بھی فراہم کررہا ہے۔ ریاض میں منعقدہ امریکا‘ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے ایران پر یہ بھی الزام عاید کیا کہ ایران خطے میں افراتفری پھیلانے اور عدم استحکام لانے کے لیے انتہا پسند گروپ بنا رہا ہے۔ انہوں نے تمام مسلم ممالک سے اپیل کی کہ جب تک ایرانی حکومت امن کے لیے ساتھ دینے پر رضامند نہیں ہوتی‘ اسے عالمی طور پر تنہاکردیں۔ ان کے بقول ایران اسرائیل کو تباہ کرنے اور امریکا مردہ باد کی بات کرتا ہے۔ امریکا نائن الیون اور بوسٹن حملوں جیسے واقعات کا نشانہ بنتا رہا اور یورپی اقوام نے بھی ناقابل یقین خوف برداشت کیا جبکہ افریقی ممالک حتیٰ کہ سائوتھ امریکا‘ بھارت‘ روس‘ چین اور آسٹریلیا بھی دہشت گردی کا شکار ہیں اور دہشت گردی سے متاثر ہونیوالے مسلمان خود بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان فورسز بہادری سے دہشت گردی کا مقابلہ کررہی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں دہشت گردی کاشکار ہونے والے دنیا کے مختلف ممالک کے نام لیتے ہوئے پاکستان کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیںسمجھا اور کہا کہ دنیا میں قیام امن اولین ترجیح ہے۔ تاہم انہوں نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دہشت گردی کیخلاف مسلم ممالک کو متحد کیا ہے اوراب اس سلسلہ میں نئے دور کا آغاز ہورہا ہے‘ وہ امریکا سے دوستی‘ محبت اور امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور امن ان کی پہلی ترجیح ہے۔ قبل ازیں سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعمیری تعاون سے انتہاپسندی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دہشت گردی اور انتہاپسندی کیخلاف متحد ہونا ہوگا۔ اسلام رواداری کا دین ہے اور شریعت کا سب سے اہم مقصد انسانی جان کا تحفظ ہے‘ بدی کی قوتوں سے لڑنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران دیگر ملکوں کے معاملات میں مداخلت کررہا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب طویل عرصے سے دہشت گردی سے متاثر ملک ہے‘ ہم نے دہشت گردی کی بہت سی کوششیں ناکام بنائی ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ دیگر ممالک بھی اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ہونگے۔ عرب اور مسلمان ملکوں کے رہنما امریکی صدر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایران دنیا میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مضبوط خارجہ پالیسی کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے اورپاکستان کے لیے یہی امریکا عرب،اسلامی کانفرنس کا سبق ہے۔کیونکہ کانفرنس میں پاکستان سے مکمل بے اعتنائی،دہشت گردی کیخلاف فرنٹ لائن اتحادی کا عدم تذکرہ اوررقیب روسیاہ بھارت سے ہمدردری جیسے معاملات وزیر خارجہ نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی لہر میں سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا جس نے امریکی نائن الیون کے بعد افغان دھرتی پر امریکی نیٹو فورسز کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکی اتحادی افواج سے بھی زیادہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں جبکہ امریکی ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پاکستان نے اپنے تین ایئربیسز امریکا کے حوالے کرکے اسے پاکستان ہی کی سرزمین پر دہشت گردوں کے تعاقب کے نام پر ڈرون حملوں اور دوسرے زمینی و فضائی آپریشنز کا موقع فراہم کیا تو اس کے ردعمل میں بھی پاکستان کو بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان ہنوز دہشت گردی کی جنگ کے الائو میں دہک رہا ہے اور اپنی سیکورٹی فورسز کے ذریعے دہشت گردوں کیخلاف برسرپیکار ہے اور دہشت گردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑنے کے عزم پر کاربند ہے۔ اس تناظر میں بجاطور پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی کسی مشترکہ حکمت عملی کے تعین کے لیے سعودب عرب کی میزبانی میں منعقد کی جانیوالی عرب امریکا اسلامی سربراہی کانفرنس میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو فوکس کیا جائیگا اور اس کے لیے کانفرنس میں شریک وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی رائے سنی جائیگی اور انہیں دہشت گردی کے خاتمے کی ممکنہ حکمت عملی کے لیے پاکستان کے تجربات کی روشنی میں تجاویز پیش کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائیگا جس کے لیے وزیراعظم پاکستان مکمل تیاری بھی کرکے گئے تھے مگر یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کی جنگ میں بے پناہ قربانیاں دینے والے اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کا نام لینا بھی گوارا نہ کیا اور قربانیوں کے حوالے سے نہ صرف بھارت کا بطور خاص تذکرہ کرکے پاکستان کے زخموں پر نمک پاشی کی بلکہ انہوں نے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے ممالک میں مصر‘ چین‘ روس اور آسٹریلیا تک کا ذکر کردیا۔ اگر کسی ملک کا نام ان کی زبان پر نہیں آیا تو وہ پاکستان تھا جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے ہوئے اے پی ایس پشاور‘ واہگہ بارڈر‘ گلشن اقبال پارک لاہور اور دربار سخی لال شہباز قلندر میں ہونیوالی دہشت گردی جیسے بدترین سانحات سے دوچار ہوچکا ہے اور جسے اس کا ازلی دشمن بھارت اپنے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن اور اس قبیل کے دوسرے دہشت گردوں کے ذریعے مسلسل اپنے ہدف پر رکھے ہوئے ہے جبکہ پاکستان بھارت کی ایسی گھنائونی سازشوں سے اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ کو ایک ڈوزیئر کے ذریعے مکمل طور پر آگاہ بھی کرچکا ہے۔ اسی طرح کانفرنس میں مصر‘ ملائشیااور انڈونیشیا تک کو خطاب کا موقع فراہم کیا گیا اور نظرانداز ہوئے تو صرف وزیراعظم پاکستان۔
اس حقیقت حال کے باوجود ٹرمپ کا دہشت گردی سے متاثر ہونیوالے ممالک کے حوالے سے پاکستان کا تذکرہ نہ کرنا اور برادر سعودی عرب کی میزبانی میں منعقدہ سعودی‘ امریکا سربراہ کانفرنس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرگرم اور اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک پاکستان کے وزیراعظم کو اپنے ملک کی نمائندگی کے قابل بھی نہ سمجھنا ہلکے سے ہلکے الفاظ میں بھی پاکستان کی توہین سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس طرز تغافل میں ’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے‘‘ والا معاملہ ہی نظر آتا ہے۔ یقیناً اس سے بڑی منافقت اور ریاکاری اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ امریکی صدر ٹرمپ کی زبان مبارک پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کے حوالے سے افغانستان‘ متحدہ عرب امارات‘ ترکی اور بحرین تک کا نام آگیا‘ اگر کسی ملک کا نام ان کی زبان پر نہ چڑھ سکا تو وہ دہشت گردی کی جنگ میں ان کا فرنٹ لائن اتحادی پاکستان تھا۔ اور تو اور‘ کانفرنس کے میزبان برادر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے بھی دہشت گردی کی
جنگ میں پاکستان کا تذکرہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور اس کے برعکس انہوں نے ایران کو دہشت گردی کے فروغ کے لیے موردالزام ٹھہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس سے مسلم دنیا میں لامحالہ منافرت اور کشیدگی کی ایک نئی صورتحال پیدا ہوگی۔
ایران نے اسی تناظر میں ریاض کانفرنس میں اپنے فوری اور سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ سعودی عرب اپنے ملکی‘ علاقائی اور یمن کے حوالے سے پیدا ہونیوالے مسائل کے باعث تنہائی محسوس کررہا ہے‘ جس نے اس کانفرنس کے ذریعے انتہاپسند نظریات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے اس سلسلہ میں گزشتہ روز تہران میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاض سعودی سربراہ کانفرنس علاقے میں یہودی پالیسیوں اور منصوبوں کی عکاس ہے اور اس سے مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایران کے اس مؤقف کو یقیناً امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر سے بھی تقویت حاصل ہوئی ہے جنہوں نے دہشت گردی کے فروغ کے حوالے سے براہ راست ایران کو موردالزام ٹھہرایا اور بالخصوص بھارت کو دہشت گردی کا شکار قرار دیا۔ اس کانفرنس کے بعد اب سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے اسلامی فوجی اتحاد کے اصل مقاصد و محرکات پر بھی ازسرنو انگلیاں اٹھیں گی کیونکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ایران کو دوسرے ممالک میں مداخلت کا موردالزام ٹھہرا کر اور دہشت گردی کے فروغ کے الزامات میں بھی ایران ہی کو فوکس کرکے یہ واضح عندیہ دے دیا ہے کہ اسلامی نیٹو اتحاد کو ایران کیخلاف بروئے کار لایا جائیگا جس کے لیے انہوں نے امریکا کی سرپرستی حاصل ہونے کا بھی عندیہ دے دیا۔ اس حوالے سے اسلامی نیٹو اتحاد میں پاکستان کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں اور اس پر ایران کیخلاف جانبداری کا الزام لگ سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف حکومت پاکستان کی جانب سے باضابطہ طور پر این او سی ملنے کے بعد اسلامی نیٹو اتحاد کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں جو گزشتہ روز سعودی‘ امریکا اسلامی سربراہی کانفرنس میں موجود بھی تھے اور اس کانفرنس کے شرکاکی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔
جب کچھ عرصہ قبل جنرل راحیل شریف کے اسلامی نیٹو افواج کے سربراہ بننے کی افواہیں گرم ہوئیں تو پاکستان کے مختلف حلقوں کی جانب سے اسی تناظر میں اسلامی اتحادی افواج کے لیے جنرل راحیل شریف کی قیادت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ افواج ایران یا کسی دوسرے برادر مسلم ملک کی سلامتی کیخلاف استعمال ہوئیں تو پاکستان قطعی طور پر جانبدار ہو جائیگا اور اس کا ایٹمی ملک ہونے کے ناطے اسلامی دنیا کی قیادت والا تشخص جانبداری کے لیبل کے نیچے دفن ہو جائیگا۔ یہ صورتحال یقیناً حکومت پاکستان کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی بے پناہ قربانیوں اور جاندار کردار کے باوجود اور بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی گھنائونی بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرکے بھی ہم ایک جانب عرب امریکا سربراہی کانفرنس میں عالمی اور عرب قیادتوں کی بے اعتنائی کا شکار ہوئے اور اسلامی نیٹو افواج کی سربراہی کی بنیاد پر ہم پر جانبداری کا لیبل لگنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رہی۔ یقیناً اس سے قوم کے ذہنوں میں مزید تجسس اور استفسارات پیدا ہونگے،ریاض میں ہونے والی امریکا عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں پاکستان کو جس رسوائی کاسامنا کرناپڑا اور واحد ایٹمی اسلامی ریاست کے سربراہ کے ساتھ جس طرح بے اعتناعی برتی گئی اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وزیر اعظم گزشتہ4سال کے دوران ملک کے لیے کسی کل وقتی وزیر خارجہ کا انتخاب کرنے میں ناکام رہے اور وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری کوئی واضح خارجہ پالیسی نہیں بلکہ صورتحال اور ضرورت کے مطابق ہم مختلف ممالک کے ساتھ معاملات میں پالیسی بنالیتے ہیں ،ریاض کی امریکا عرب اسلامی سربراہ کانفرنس وزیر اعظم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونی چاہیے اور انہیں وطن واپس آکر اپنی واضح خارجہ پالیسی کے اعلان کے ساتھ اپنے کسی بااعتماد ساتھی کو وزارت خارجہ کا قلمدان سونپنے پر غور کرناچاہیے۔وزیر اعظم نواز شریف کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ریاض میں جو کچھ ہوا پوری قوم نے اسے بری طرح محسوس کیاہے اور پوری قوم اسے اپنی اجتماعی بے عزتی تصور کرتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اپنی پہلی فرصت میں عرب امریکا اسلامی سربراہ کانفرنس کے حوالے سے اصل حقائق سے قوم کو پارلیمنٹ کے ذریعے آگاہ کریں اور قومی خارجہ پالیسیاں ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کی جائیں۔ اگر قوم کے سامنے تمام حقائق کھول کر بیان نہیں کیے جائیں گے توپھر قوم کو اپنے حکمرانوں کے کڑے احتساب اورمواخذے کا بھی مکمل حق حاصل ہوگا۔وزیر اعظم نواز شریف کو یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ اگر عوام اس مسئلے پر اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر پاناما کیس اور ڈان لیکس سب کچھ دھرے کادھرا رہ جائے گا اور وزیر اعظم کے وہ بڑبولے وزیر اور ارکان پارلیمنٹ جو ہر بات پر بلند بانگ دعوے کرتے اور زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں ، اپنی شکل چھپانے پر مجبور ہوجائیں گے۔
ابن عماد بن عزیز
بھارت کی جانب سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہے ،پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے پاکستان کی 24 کروڑ آبادی متاثر ہوگی ، جنوبی ایشیا میں عدم استحکام میں اضافہ ہوگا پاکستان کے امن اور ترقی کا راستہ کسی بھی بلاواسطہ یا پراکسیز کے ذریعے نہیں روکا ...
پاکستان نے گزشتہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بڑی قربانیاں دی ہیں، بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو پہلگام واقعے سے جوڑنے کے بے بنیاد بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہیں پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا اور خطے میں دہشت گردی کے ہر واقعے کی مذمت کرتا ہے ،وزیراعظم...
بھارتی حکومتی تحقیقات کے مطابق لیک فائلز جنرل رانا کے دفتر سے میڈیا تک پہنچیں لیک دستاویز نے ’’را‘‘ کا عالمی سطح پر مذاق بنا دیا، بھارتی حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا پہلگام واقعے پر ’’را‘‘ کی خفیہ دستاویز لیک ہونے کے بعد بھارت کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (ڈی آئی ا...
متعدد مریض کی صحت نازک، علاج مکمل کیے بغیر پاکستان واپس آنے پر مجبور ہوئے خاندانوں کے بچھڑنے اور بچوں کے ایک والدین سے جدا ہونے کی اطلاعات بھی ہیں پاکستانی شہریوں کی بھارت سے واپسی کے لیے واہگہ بارڈر کی دستیابی سے متعلق دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ متعلقہ بارڈر آئندہ بھی پاکس...
کراچی کی تینوں ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز دودھ کی قیمت کے تعین میں گٹھ جوڑ سے باز رہیں، ٹریبونل تحریری یقین دہانی جمع کرانے کی ہدایت،مرکزی عہدیداران کی درخواست پر جرمانوں میں کمی کر دی کمپی ٹیشن اپلیٹ ٹربیونل نے ڈیری فارمرز کو کراچی میں دودھ کی قیمتوں کا گٹھ جوڑ ختم کر...
صدراور وزیراعظم کے درمیان ملاقات میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے ساتھ کشیدگی کے پیشِ نظر موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال، بھارت کے جارحانہ رویہ اور اشتعال انگیز بیانات پر گہری تشویش کا اظہار بھارتی رویے سے علاقائی امن و استحکام کو خطرہ ہے ، پاکستان اپنی علاقائ...
پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے ، کوئی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہ رہے، بھارت کے کسی بھی مس ایڈونچر کا فوری اور بھرپور جواب دیں گے ، پاکستان علاقائی امن کا عزم کیے ہوئے ہے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے منگلا اسٹرائیک کور کی جنگی مشقوں کا معائنہ اور یمر اسٹر...
دستاویز پہلگام حملے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے ، رپورٹ دستاویز ثابت کرتی ہے پہلگام بھی پچھلے حملوں کی طرح فالس فلیگ آپریشن تھا، ماہرین پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' کا کردار بے نقاب ہوگیا، اہم دستاویز سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹی...
نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق زیرِ التوا کیسز کو نمٹایا جائے گا اپیل پر پہلے پیپر بکس تیار ہوں گی، اس کے بعد اپیل اپنے نمبر پر لگائی جائے گی ، رپورٹ رجسٹرار آفس نے 190ملین پاؤنڈ کیس سے متعلق تحریری رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔تحریری رپورٹ...
تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ خطاب سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، آپ حیران ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ انصاف تو ا...
پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...
پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...