وجود

... loading ...

وجود

اسمگلنگ اور انڈر انوائسنگ مقامی صنعتیں دم توڑنے لگیں، ہزاروں افراد کی بیروزگاری کاخطرہ

جمعه 26 مئی 2017 اسمگلنگ اور انڈر انوائسنگ مقامی صنعتیں دم توڑنے لگیں، ہزاروں افراد کی بیروزگاری کاخطرہ

تیار شدہ ، نیم تیار شدہ اور خام مال کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ اور انڈر انوائسنگ کی روک تھام میں حکومتی ناکامی کی وجہ سے ملکی صنعتوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور بہت سی درمیانے اور چھوٹے پیمانے کی صنعتیں جاں بہ لب ہوچکی ہیں اور ان کے مالکان اپنی صنعتوں کو بند کرنے پر سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں کی ایک سروے رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی۔صنعت کاروں کاکہناہے کہ چین اور دیگر ممالک یہاں تک کہ بھارت سے اسمگل ہوکر پاکستان پہنچنے والی اشیا کامقابلہ کرنا پاکستانی صنعت کاروں کے لیے مشکل ہے کیونکہ چین اور بھارت سمیت دنیا کے دیگر بیشتر ممالک میں صنعت کاروں کو بجلی گیس کی بلاتعطل فراہمی اور ان کی قیمتوں میں سبسڈی کی فراہمی کا اصول رائج ہے جبکہ پاکستان میں صنعت کاروں کو نہ صرف یہ کہ ایسی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے بلکہ پاکستان میں اشیائے صَرف کی گرانی کی وجہ سے افرادی قوت بھی چین اور بھارت کے مقابلے میں مہنگی ہے،ایسی صورت میںاسمگل شدہ اشیا کامقابلہ، جس پر کسی طرح کاکوئی ٹیکس نہیں ادا کرناپڑتا، پاکستانی صنعت کاروں کے لیے ناممکن ہے اور انہیں جلد یا بہ دیر اپنی صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہونا ہی پڑے گا جس کے نتیجے میں ان صنعتوں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کابیروزگار ہونا یقینی ہوگا جس سے ملک میں بیروزگاری، جو پہلے ہی بے قابوہوچکی ہے،اس میں مزید اضافہ ہوگا۔
لاہور میں فٹبال، جوتوں، اسٹیشنری کی اشیا ، ٹیکسٹائل کی پیکیجنگ ، مختلف اقسام کے بیگز اور پی وی سی فلورنگز وغیرہ کا بنیادی خام مال فراہم کرنے والے تاجروں کاکہنا ہے کہ ملک کی صنعتوں کا پہیہ چلتے رہنے کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت معیشت کے تمام شعبوں کی ڈاکومنٹیشن کو یقینی بنائے، جب تک ایسا نہیں کیا جائے گاخام، نیم خام مال اور تیار شدہ اشیا کی اسمگلنگ کی روک تھام ممکن نہیںہوگی اور اگر اسمگلنگ کا یہ کاروبار اسی طرح جاری رہا تو ملکی معیشت کا بیٹھ جانا یقینی ہوگا۔
صنعتکاروں کاکہناہے کہ اب یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ ہم اپنی صنعتوں کو سہارا دے کر اپنے نوجوانوں کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں یا اس معاشرے کو صارفین کے معاشرے میں تبدیل کرکے اپنے نوجوانوں کو روزگار کے لیے بیرون ملک جانے پرمجبور کرنا ہے۔صنعت کاروں کاکہنا ہے کہ گزشتہ کئی سال سے چھوٹے صنعتکاروںکیلیے حکومت کی بے اعتنائی اور صنعتکاروںکی پشت پناہی کے لیے کوئی مناسب اور مضبوط پالیسی نہ بنائے جانے کے سبب اب صنعت کار اپنی صنعتیں بند کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ صنعتکارروں کاکہناہے کہ نہ تو حکومت کی پالیسیاں ایسی ہیں جنہیں سرمایہ کار دوست کہاجاسکے اور نہ ہی حکومت کا رویہ ایسا ہے جس سے سرمایہ کاروں کو صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب مل سکے ، ایسی صورت میں کوئی ایسی صنعتوں میں سرمایہ کیوں لگائے گا جس میں سخت محنت کے باوجود نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آناہے،پھر سرمایہ کار ریئل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرے گا جہاں سرمایہ کاری کرنا بھی آسان ہے اور اس پر منافع کی واپسی بھی فوری شروع ہوجاتی ہے اور ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی صورت میںٹیکسوں کے زیادہ چکر میں بھی نہیں پڑنا پڑتا۔
صنعت کاروں کاکہناہے کہ معیشت کی ترقی کادعویٰ کرنے والے حکمرانوں کو کیا یہ نظر نہیں آتا کہ گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان سے برآمدات میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور گزشتہ تین سال کے اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ ملکی برآمدات میں مجموعی طورپر 20 فیصد تک کمی ہوچکی ہے جبکہ درآمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ، جس کے نتیجے میں ادائیگیوں کاتوازن مسلسل بگڑتا جارہاہے۔
صنعت کاروں کاکہناہے کہ ملک میں صنعتوں کی بدحالی کااندازہ اس طرح لگایا جارہاہے کہ رواں مالی سال کے دوران صنعتی ترقی کی شرح کااندازہ 5 فیصدسے کچھ زیادہ لگایاگیاہے جبکہ رواں سال کے بجٹ میں صنعتی ترقی کا ہدف 6.1 فیصد مقرر کیاگیاتھا۔
اعدادوشمار کے مطابق بڑے پیمانے کی صنعتوں میں توسیع کا ہدف رواں مالی سال کے بجٹ میں 5.9 فیصد مقرر کیاگیاتھا لیکن اب تک یہ حد 4.93 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے ،جبکہ چھوٹے پیمانے کی صنعتوں میں توسیع 8.1 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔صنعت کاروں کاکہناہے کہ ملک میں صنعتوں کی بدحالی کا بڑا سبب معیشت کو دستاویزی بنانے سے گریز ہے ، معیشت کو دستاویزی نہ بنائے جانے کے سبب صنعتی شعبہ سکڑتاجارہاہے جبکہ آج کی دنیا میں پاکستان جیسا کوئی بھی تیزی سے ابھرتا ہوا صنعتی ملک صرف خام مال اور نیم تیار شدہ اشیا کی برآمدات کے ذریعے اپنی درآمدی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ صنعت کاروں کاکہناہے کہ اگر ہماری ملکی معیشت کودستاویز ی بنادیاجائے اور ایسی پالیسی تیار کی جائے جس میں برآمدات پر قدغن لگائی جائے تو اس سے صنعتوں کے قیام میں بے پناہ اضافہ ہوسکتاہے اور ہمارے نوجوانوں کو ملازمتوں کے لیے بیرون ملک جانے یا غیر ملکی کمپنیوں کے دروازے کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔صنعت کاروں کاکہناہے کہ ملک میں صنعتیں بدحالی کا شکار ہیں اور صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کاسازگار ماحول دستیاب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ابھی بھی حالات مکمل طورپر ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلے ہیں،پاکستان میں صنعتوں کی ترقی کی مضبوط بنیادیں موجود ہیں پاکستان میں صنعتوں کوچلانے کے لیے محنتی ،قابل اور ذہین افرادی قوت دستیاب ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں صنعتکاری کے شعبے کی پوری طرح بحالی ، نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے اور برآمدات میں اضافے کی کوششوں میں کامیابی کا انحصار حکومت کی پالیسیوں پر ہے ، اب حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا اسے اس صورت حال میں آگے بڑھنا ہے۔صنعت کاروں کاکہناہے کہ موجودہ صورت حال میں نئی صنعتوں کا قیام نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے اور برآمدات میںاضافے کا انحصار اس بات پر ہے کہ خود حکومت اور ارباب حکومت اس مقصد کے لیے ضروری ترغیبات اور سہولتوں کی فراہمی کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔ اگر حکومت سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی پالیسیوں میں تبدلی کرنے کو تیار ہے اور چھوٹی ،درمیانے درجے اور بڑی تمام قسم کی صنعتوں میں تیار ہونے والی تمام تر اشیا پر یکساں انداز اور شرح سے ٹیکس عاید کرنے کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا اور ٹیکسوں کے نفاذ اور چھوٹ کے لیے الگ الگ صنعتوں کے انتخاب کی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی ،اس کے ساتھ ہی حکومت کو دیگر ممالک سے تیار شدہ اور نیم تیارشدہ اشیا کی بڑے پیمانے پر برآمد اور ان اشیا کا بھاری ذخیرہ کرنے کی پالیسی پر قدغن لگانا ہوگی تاکہ ملکی صنعتوں کوتحفظ مل سکے اور وہ ترقی کرسکیں۔ملکی صنعت کاروں کے خسارے میں کمی ہوسکے اور خسارے کے خدشات سے انہیں نجات مل سکے۔
ایوان صنعت وتجارت لاہور کے سابق صدر کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کی بڑی حد تک ذمہ داری خود تجارتی اداروں کی تنظیموں پر بھی عاید ہوتی ہے ،ان کاکہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ تجارتی اداروں کی نمائندہ تنظیموں کے عہدیدار اور خاص طورپر ایوانہائے صنعت وتجارت پاکستان کے عہدیدار صنعتی اور تجارتی اداروں کے ارکان کے مسائل حل کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے بلکہ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ اس پر بالکل ہی توجہ نہیں دیتے اوراس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے اکثر گریزاں رہتے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیم کے عہدوں پر ایسے لوگ فائز ہوچکے ہیں جو تاجر اور صنعت کار برادری کی نمائندگی کرنے کے بجائے حکمرانوں کی زبانیں بولنے لگے ہیں، تجارتی اور صنعتی برادری کے نمائندہ اداروں کے عہدیداروں کا یہ رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کاکہناہے کہ پاک چین اقتصادی کوریڈور پاکستان کی میعشت میں انقلاب برپا کرسکتا ہے لیکن حکومت مختلف علاقوں کو ملانے کے لیے جس حکمت عملی یا ترجیحات پر عمل پیرا نظر آتی ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس سے صر ف چینی سرمایہ کاروں ہی کو فائدہ پہنچے گا اور مقامی تاجر اس کے ثمرات سے محروم رہیں گے۔ان کاکہناہے کہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ چین کے تجارتی اور صنعتی اداروں کو پاکستانی اداروں پر ترجیح دی جارہی ہے لیکن اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔
پاکستان کی تاجر اور صنعت کار برادری کے رہنما اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر ملکی کمپنیوں کو سی پیک سے متعلق پراجیکٹس میں شریک کار بننے کی سہولت فراہم نہیں کی گئی تو سی پیک پاکستان پر قرضوں اور اس کے سود کے بوجھ مین اضافے اور چینی کمپنیوں کی ترقی کا ذریعہ ثابت ہونے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ مقامی تاجروں اور صنعت کاروں کو اس پروجیکٹ میں شراکت کے برابر کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی صنعت کاروں اورتاجروں کو وہی ترغیبات اور ٹیکسوں میں چھوٹ کی وہی سہولت فراہم کی جائے، چینی سرمایہ کاروں کو جس کی پیشکش کی جارہی ہے یا چینی سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو جو سہولتیں حاصل ہیں۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو یہ عظیم منصوبہ پاکستان کے عوام کی زندگی میں کوئی خوشگوار تبدیلی لانے کا ذریعہ ثابت ہونے کے بجائے ان کے مصائب ومشکلات میں اضافے کا سبب بن جائے گا ۔


متعلقہ خبریں


استنبول میں جاری پاک-افغان مذاکرات میں ڈیڈلاک وجود - هفته 08 نومبر 2025

پاکستان اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانا افغانستان کی ذمہ داری ہے،پاکستان نے مذاکرات میں ثالثی پر ترکیے اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے، وزیراطلاعات افغان طالبان دوحا امن معاہدے 2021 کے مطابق اپنے بین الاقوامی، علاقائی اور دوطرفہ وعدوں کی تکمیل...

استنبول میں جاری پاک-افغان مذاکرات میں ڈیڈلاک

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت وجود - هفته 08 نومبر 2025

اگر آرٹیکل 243 میں ترمیم کا نقصان سول بالادستی اور جمہوریت کو ہوتا تو میں خود اس کی مخالفت کرتا، میں حمایت اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے،بلاول بھٹوکی میڈیا سے گفتگو آئینی عدالتیں بھی بننی چاہئیں لیکن میثاق جمہوریت کے دوسرے نکات پربھی عمل کیا جائے،جس ...

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت

27 ترمیم کا نتیجہ عوام کے استحصال کی صورت میں نکلے گا،حافظ نعیم وجود - هفته 08 نومبر 2025

اپوزیشن ستائیسویں ترمیم پر حکومت سے کسی قسم کی بات چیت کا حصہ نہ بنے ، امیر جماعت اسلامی جو ایسا کریں گے انہیں ترمیم کا حمایتی تصور کیا جائے گا،مردان میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے ستائیسویں ترمیم پر اپوزیشن حکومت سے کس...

27 ترمیم کا نتیجہ عوام کے استحصال کی صورت میں نکلے گا،حافظ نعیم

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا گرفتار وجود - هفته 08 نومبر 2025

صاحبزادہ حامد رضا پشاور سے فیصل آباد کی طرف سفر کر رہے تھے کہ اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی مقدمہ میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی،قائم مقام چیئرمین کی تصدیق سنی اتحاد کونسل کے چیٔرمین صاحبزادہ حامد رضا کو گرفتار کر لیا گیا۔سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی ...

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا گرفتار

وفاقی کابینہ اجلاس طلب، 27ویں ترمیم کی منظوری کا امکان وجود - جمعه 07 نومبر 2025

27ویں آئینی ترمیم کا ابتدائی مسودہ تیار، آئینی بینچ کی جگہ 9 رکنی عدالت، ججز کی مدت 70 سال، فیلڈ مارشل کو آئینی اختیارات دینے کی تجویز، بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا،ذرائع این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیٔر کم کرکے وفاق کا حصہ بڑھانے، تعلیم و صحت کے شعبے وفاقی حکومت کو دینے ک...

وفاقی کابینہ اجلاس طلب، 27ویں ترمیم کی منظوری کا امکان

قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت 27ویںآئینی ترمیم سے باز آ جائے ، مولانا فضل الرحمن وجود - جمعه 07 نومبر 2025

اپوزیشن سے مل کر متفقہ رائے بنائیں گے،معتدل ماحول کو شدت کی طرف لے جایا جارہا ہے ایک وزیر تین ماہ سے اس ترمیم پر کام کررہا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ ترمیم کہیں اور سے آئی ہے ٹرمپ نے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کرتے کرتے بھارت کے ساتھ دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا،اسرائیل ک...

قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت 27ویںآئینی ترمیم سے باز آ جائے ، مولانا فضل الرحمن

ایم کیو ایم نے بلدیاتی حکومتوں کیلئے اختیارات مانگ لیے وجود - جمعه 07 نومبر 2025

وزیراعظم سے خالد مقبول کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 رکنی وفد کی ملاقات وزیراعظم کی ایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے کو 27 ویں ترمیم میں شامل کرنیکی یقین دہائی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے 27 ویں ترمیم میں بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات دینے...

ایم کیو ایم نے بلدیاتی حکومتوں کیلئے اختیارات مانگ لیے

27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم وجود - جمعه 07 نومبر 2025

اب تک ترمیم کا شور ہے شقیں سامنے نہیں آ رہیں،سود کے نظام میں معاشی ترقی ممکن نہیں ہمارا نعرہ بدل دو نظام محض نعرہ نہیں، عملی جدوجہد کا اعلان ہے، اجتماع گاہ کے دورے پر گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اب تک ستائیسویں ترمیم کا شور ہے اس کی شقیں سامنے نہیں ...

27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم

کراچی میں سندھ حکومت کے ای چالان کا نظام بے قابو وجود - جمعه 07 نومبر 2025

موصول شدہ چالان پر تاریخ بھی درج ،50 ہزار کے چالان موصول ہونے پر شہری نے سر پکڑ لیا پانچوں ای چالان 30 اکتوبر کو کیے گئے ایک ہی مقام پر اور2 دوسرے مقام پر ہوئے، حکیم اللہ شہر قائد میں ای چالان کا نظام بے قابو ہوگیا اور شہری کو ایک ہی روز میں 5 چالان مل گئے۔ حکیم اللہ کے مطابق...

کراچی میں سندھ حکومت کے ای چالان کا نظام بے قابو

27ویں ترمیم وفاق کیلئے خطرہ ، موجودہ حکومت 16 سیٹوں پر بنی ہے،آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے ،پی ٹی آئی وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

پورے ملک میں ہلچل ہے کہ وفاق صوبوں پر حملہ آور ہو رہا ہے، ترمیم کا حق ان اراکین اسمبلی کو حاصل ہے جو مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ، محمود اچکزئی ہمارے اپوزیشن لیڈر ہیں،بیرسٹر گوہر صوبے انتظار کر رہے ہیں 11واں این ایف سی ایوارڈ کب آئے گا،وزیراعلیٰ کے پی کی عمران خان سے ملاقات کیلئے قو...

27ویں ترمیم وفاق کیلئے خطرہ ، موجودہ حکومت 16 سیٹوں پر بنی ہے،آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے ،پی ٹی آئی

27 ویں ترمیم کی منظوری کا معاملہ ،وزیراعظم نے ایاز صادق کو اہم ٹاسک دے دیا وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

اسپیکر قومی اسمبلی نے اتفاق رائے کیلئے آج تمام پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاسشام 4 بجے بلا لیا،ذرائع پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایف ، اتحادی جماعتوں کے چیف وہپس اورپارلیمانی لیڈرز کو شرکت کی دعوت پارلیمنٹ سے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے اتفاق...

27 ویں ترمیم کی منظوری کا معاملہ ،وزیراعظم نے ایاز صادق کو اہم ٹاسک دے دیا

پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

اسد قیصر، شبلی فراز، عمر ایوب، علی نواز اعوان کے وارنٹ گرفتاری جاری انسداددہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے وارنٹ گرفتاری جاری کئے انسداددہشت گردی عدالت اسلام آباد نے تھانہ سی ٹی ڈی کے مقدمہ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئ...

پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم

مضامین
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم وجود هفته 08 نومبر 2025
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم

پاک۔ افغان استنبول مذاکرات کی کہانی وجود هفته 08 نومبر 2025
پاک۔ افغان استنبول مذاکرات کی کہانی

2019سے اب تک 1043افراد شہید وجود هفته 08 نومبر 2025
2019سے اب تک 1043افراد شہید

جموں کے شہدائ۔جن کے خون سے تاریخ لکھی گئی وجود جمعه 07 نومبر 2025
جموں کے شہدائ۔جن کے خون سے تاریخ لکھی گئی

خیالی جنگل راج کا ڈر اور حقیقی منگل راج کا قہر وجود جمعه 07 نومبر 2025
خیالی جنگل راج کا ڈر اور حقیقی منگل راج کا قہر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر