وجود

... loading ...

وجود
وجود

طلاق جہالت سے پارلیمنٹ تک

منگل 02 مئی 2017 طلاق جہالت سے پارلیمنٹ تک

طلاق کا لفظ کاٹ میںدودھاری تلوار سے زیادہ تیز ثابت ہواہے ۔اس کا زخم خنجرکے زخم کی طرح غیر مندمل ہوتا ہے ۔یہ رشتوں کے کاٹنے کے لیے اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح استرا بالوں کو مونڈھنے کا کام انجام دیتا ہے ۔یہ شوہر کوبیوی سے کاٹتا ہے اور بیوی کو شوہر اور بچوں سے جدا کرتا ہے ۔یہ خوشحالی اور شادمانی کوغم و اندوہ میں بدل دیتا ہے ۔یہ معصوم سی پری اور کلی کے خوابوں کو چکناچور کرتا ہے ۔یہ بااولاد ماں کو بے اولاد عورت کے مقام پر لا کھڑا کرتا ہے ۔یہ ماں کے سایہ شفقت سے بچوں کو محروم کردیتا ہے اور شوہر کو بے بیوی اور بیوی کو بغیر شوہر بنا دیتا ہے ان تمام ترکراہتوں کے باوجوداسلام نے اسے ’’جائز‘‘ قرار کیا دیا ہے کہ گویا نعوذباللہ کوئی ’’جرم‘‘انجام دیا ہو !بھارت بھر میں ہندوتواکے علمبرداروں نے اس مسئلے کو ’’پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا‘‘میں انتہائی مکروہ صورت میںشور و غوغہ کی نذر کرکے گویا اسلام کے ’’غلط‘‘ہونے کی سند حاصل کر لی ہو اورتو اور ’’تسلیمہ نسرین اور طارق فتح‘‘جیسے فتورزدہ اشخاص کے ذریعے اسلام کے اس قانون کے خلاف بدتمیزی کا طوفان کھڑا کر کے یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلام کی جو ’’کمزوری‘‘ہمارے ہاتھ میں لگی ہے وہ گزشتہ چودہ سو برس میں کسی بھی دانشور اور محقق کی نگاہ میں نہیں آئی ہے حتیٰ کہ اسلام کی عداوت میں دن رات جلنے والے’’ مستشرقین ‘‘کی بھی اس پر نظر نہیں پڑی ہے بس اب اسلام کی اس ’’غلطی‘‘کی ایجادوانکشاف کا اعلان باقی ہے !
بھارت کا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا جو دورِ حاضر میں انسانیت کا بدترین دشمن قرار دیے جانے کے لائق ہے ، نے ’’ہندؤ تجزیہ نگاروں ‘‘کے ذریعے مسئلہ طلاق کو موضوع بحث بنا لیاہے اور تو اور جن ’’للو پنجو دانشوروں‘‘کو اس نازک ایشو پر بات کرنے کے لیے ٹیلی ویژن چینلز میں اکٹھا کیا جاتا ہے وہ شور شرابہ برپا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے ہیں ۔بھارتی میڈیایہ منفی تاثر دینے میں کامیاب ہو چکا ہے کہ وہ ’’سیکولر اور جمہوری میڈیا ‘‘نہیں بلکہ مسلم اور اسلام دشمن میڈیا ہے اس لیے کہ کسی بھی مذہبی ایشو پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کا خود پورے نظام یا مذہب اور سماج سے کیااور کیسا تعلق بن رہاہے؟سطحی مطالعہ یا سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ٹیلی ویژن چینلز کے اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر شیخی بگھارنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا ہے کہ مسلم سماج کسی کی باتوں سے متاثر ہو کر دین کی توضیح و تشریح کے لیے بھی آمادہ ہو جائے ۔ المیہ کا یہی ایک رُخ ہوتا تو شاید مسلم دانشور برداشت کر لیتے مگر ’’دینِ مظلوم‘‘کو خود مسلمانوں نے اپنی کم علمی ،جہالت ،بے عملی اور بد اخلاقی سے جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ہے ۔
طلاق کو اسلام نے جائز کیوں رکھا ہے، پر بات بعد میں ہوگی پہلے ہم ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیں کہ دورِحاضر کے لکھے پڑھے مسلمانوں میں اس کی شرح انتہائی تیزی کے ساتھ پہلے کے مقابلے میں بڑھ کیوں رہی ہے اور یہ مسئلہ مسلم سوسائٹی کے دائرے سے باہر نکل کر ٹیلی ویژن سے لیکر عدالت اور پارلیمنٹ تک کیوں پہنچ رہا ہے ؟ہمارا اجتماعی قصور یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہو چکے ہیں ۔ہم انہیں دوسروں کی نقالی میں صرف پیسہ کمانے والی مشینیں بنا رہے ہیں ۔گرچہ ہندوستان کا مسلمان تعلیم میں اس قدر پسماندہ اور معیشت میں پچھڑا ہوا ہے کہ ’’سچر کمیٹی ‘‘کی سرکاری رپورٹ شائع ہو نے کے بعدغربت وافلاس کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے ۔تھوڑی سی لاج اہل مدارس نے بنیادی تعلیم دیکر رکھی تو ضرور ہے مگر پچیس کروڑ کو نبھانا ان کے بس کی بات نہیں ہے ۔بچے جب لڑکپن میں بھی قدم رکھتے ہیں تو ہم انہیں حلال و حرام ،حق و ناحق اور جائز و ناجائز سے بے خبر رکھتے ہیں ۔جب یہ شادی کی عمر میں پہنچ جاتے ہیں تو انہیں یہ تک نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اصول و ضوابط اور واجبات و سنن کیا ہیں ؟اور تو اور میں نے ایک ’’شہید‘‘کے گھر میں جب ’’مجلسِ نکاح‘‘میں اس کی آسانیوں اور دورِ حاضر کی ستم رانیوں پر بات کی تو مجلس میں موجود بعض بزرگ تک حیرت میں ڈوب گئے اور یہ انکشاف کرنے سے بھی نہیں چوکے کہ ہمیں تو یہ باتیں ہی معلوم نہیں تھیں کہ نکاح کیسے منعقد ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ باپ ہی نہیں باپوں کے باپ بھی بن چکے تھے!
موضوع سے ہٹ کر برسبیل تذکرہ یہ عرض کر ہی دوں کہ نکاح عُرف کا لحاظ رکھتے ہو ئے جائز اور مروجہ طریقوں سے پیغام کے بعد صرف اور صرف ’’ایجاب و قبول ‘‘کا نام ہے ۔ تجارت یا لین دین کا نہیں۔اگر کسی وجہ سے سینکڑوں رسوم اور بدعات میں سے ایک بھی پوری کیے بغیر صرف قریب ترین اولیاء کی رضامندی اورموجودگی میں ایجاب و قبول کر کے’’ اعلانِ نکاح‘‘ کیا جائے تویہ نکاح مکمل اور اکمل ہے ۔رسوم اور جہیز کی لعنت نے ہماری سوسائٹی کوشرمناک المیہ سے دوچار کردیا ہے ۔غریب بچیوں کا استحصال پہلے جہیز کا مطالبہ کر کے کیا جاتا تھا اور اب بعض بے شرموں نے ایک نیا طریقہ یہ ایجاد کر لیا ہے کہ مطلوبہ لڑکی کے گھر پیغام کے ساتھ ساتھ یہ جھوٹی خبر بھی پہنچادی جاتی ہے کہ ہمیں تو کچھ بھی نہیں چاہیے ۔جہیز تو درکنار کوئی ادنیٰ سی چیز بھی اگر ہمارے گھر بھیجی گئی تو رشتہ منسوخ ۔بے چاری لڑکی اور اس کے گھر والے اپنے رشتہ داروں میں اس نایاب کردار پر قصیدہ خوانی شروع کرتے ہیں کہ ایسا با اخلاق اور شریف لڑکا شاید ہی کسی ماں نے اسے پہلے جنا ہو جیسا دلاراہمارے نصیب ہوا! دلہن کے راج دُلارے کے گھر پہنچنے کے چندروز بعد ماحول یکسر بدل جاتا ہے ۔ساس کی شکل میں ’’ڈائین ‘‘خالی ہاتھ آنے کے طعنوں کا آغاز کرتے ہی نئی نویلی دلہن کا جینا حرام کردیتی ہے ۔بہو نہ ہی یہ سہہ پاتی اور نہ ہی والدین سے شرم کے مارے ’’جہیز‘‘کامطالبہ کر پاتی ہے اور نتیجہ آہستہ آہستہ اس کولڑائی جھگڑوں تک پہنچا دیتا ہے ۔ شوہراور ساس ایک روز بہو کی شکایتوں کا انبار لگا کر طیش میں آکر’’ تین طلاق کی تلوارہاتھ میں لیکر‘‘لڑکی والوں پر بجلی گرا دیتا ہے اور اس طرح ایک ادھ کھلا پھول عمر بھر کا روگ لیکر مرجھاجاتاہے۔
طلاقوں کی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی شرح خوفناک حدود کو چھونے لگی ہے۔رنگین مزاج مردوں کی طرح لکھی پڑھی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی سماج کو بربادی کی جانب دھکیل رہی ہے ۔حُسن پرست مردوزن نے معیار اور اقدار کو ہی تبدیل کر دیا ہے ۔بعض لوگ ازدواجی زندگی میں بھی غیر شائستہ حرکتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ایک مرد نکاح کے ساتھ ساتھ کئی کئی لڑکیوں کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے اور سوشل میڈیا کے ناسور کے ساتھ ساتھ یہ مرض اب مغربی خواتین کی طرح مشرقی خواتین میں بھی پھیلنے لگا ہے ۔اس سارے میں صرف والدین ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ پورا سماج اوروہ تعلیمی نظام بھی جہاں سے جان بوجھ کر ’’اخلاقی تعلیم‘‘کا جنازہ نکال کر نئی نسلوں کو پیسہ کمانے کی مشینوں میں تبدیل کر کے ’’ناانسان‘‘بنا دیا جاتا ہے ۔ ایسے میں یہ نوجوان لڑکا اور لڑکی نہ ہی نکاح کے واجبات و لوازمات سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی طلاق کی بربادی اور جواز اور عدم جواز سے !پھر جب زندگی کبھی تلخ رُخ پر چل پڑتی ہے تو یہ برداشت کر لینے کے بجائے ’’طلاق یا خلع‘‘کا سہارا لیکر زندگی کے موافق اور ناموافق سفر سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایسے میں ایک جاہل سماج کو ’’طلاق اور خلع‘‘کے جواز یا فوائد کو کیسے سمجھایا جاسکتا ہے ۔
بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں میں ’’طلاق‘‘کی کوئی جائز صورت موجود نہیں ہے ۔برعکس اس کے تمام آسمانی مسلم مذاہب نے اس کی گنجائش ضرور رکھی ہے ۔آخر کیوں؟مرد اور عورت بالغ ہوکر جب نکاح کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو اس سے پہلے یہ ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی اورغیرہوتے ہیں ۔نکاح اور رخصتی کے تک نہ ہی یہ ایک دوسرے کے مزاجوں سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی تصورات،افکاروخیالات اور خواہشات سے۔یہ ہر چیز میںایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہو تے ہیں اور ہم آہنگی پیدا ہونے میں ’’وقت‘‘لگتا ہے اور خدا کی رحمت اکثر کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کردیتی ہے مگر بسااوقات اس کے برعکس بھی ہو جاتا ہے اور ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔اس ناموافقت اور دوری سے بعض خطرناک مسائل جنم لیتے ہیں ۔ جدائی کے دروازے بند ہونے کی صورت میں ’’زنا‘‘جیسا بدترین فحاشیانہ عمل بھی سرزدہو سکتا ہے جو ایک سماج کے لیے کسی ناسور سے کچھ کم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ۔قلبی اور ذہنی ناموافقت کے سبب دوری اور شدیدنفرت کاباعث بنتا ہے۔اور تواور جدائی کے برعکس سماجی یا خاندانی دباؤ کے پیش نظر یہ موافقت بسااوقات خودکشی اور قتل تک معاملات کو دراز کردیتا ہے ۔گناہوں اور قتل و غارتگری سے پاک رکھنے اور دیکھنے کے خواہش مند مذہب اسلام نے اسے بچنے کی ایک صورت ’’طلاق‘‘ضروررکھی ہے مگر اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی ہے جس کی وضاحت خودحضورﷺ نے اپنے ارشاد مبارک سے اس طرح فرمائی ہے کہ ’’ابغض الحلال الی اللہ تعالیٰ الطلاق :یعنی اللہ تعالی کے نزدیک طلاق وہ حلال چیز ہے جو حلال ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو خود ناپسند ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک چیز اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے تو اس نے اس کو جائز کیوں قرار دیا ہے ؟یہ ایک اہم سوال ہے، اس کے سمجھنے سے طلاق سے متعلق تمام تر اشکالات دور ہوتے ہیں ۔تخلیق انسان کے بعد جب اس کے رشتوں کی بات آتی ہے تو ’’احترام ماں ،بہن ،بیٹی،پھوپھی،ممانی،ماسی،نانی،دادی اور بہو وغیرہ‘‘میںاپنوں کو نکاح کے لیے حرام قرار دینے کے بعد غیر مانوس کے ساتھ نکاح کرنے کو جائز قرار دیکرمزاجی ،فطری ،فکری اور طبعی ناموافقت اور اختلاف کا خیال رکھتے ہو ئے گھریلو ماحول میں ممکنہ بگاڑ ،فحاشی ،زنا،خون خرابہ اور جنگ و جدال سے بچنے اور محفوظ رکھنے کے لیے نکاح کے بندھن کو توڑنے کی ایک صورت ’’طلاق اور خلع‘‘کی شکل میں باقی رکھی ۔ رشتوں کو توڑنے کا اختیار صرف مردوں کو ہی نہیں ہے بلکہ یہ ’’خلع‘‘کی شکل میں عورتوں کے پاس بھی محفوظ ہے، فرق بس اتنا ہے کہ طلاق کے الفاظ مرد کی زبان سے نکلنے کے بعد مؤثر ہیں جبکہ خلع یعنی عورت کی جانب سے نکاح توڑنے کی خواہش کو فریقین یا عدالت تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔ طلاق کا اختیارعورت کے مقابلے میںمردکو تفویض کرنے کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں کم صابر ہوتی ہے اور اگر کہیں کوئی عورت مردوں جیسی صابر ہو اور مرد عورتوں کی طرح بے صبر ہو تو یہ ’’دائرہ شذوز ‘‘میں داخل ہے عموم میںنہیں اور دنیامیں شذوز کو دیکھ کر فیصلے نہیں ہوتے ہیں بلکہ عموم کو دیکھ کر قوانین بنائے جاتے ہیں ۔
مسلم سماج آج بھی ’’طلاقوں‘‘کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور کرنی چاہیے جیسا کہ’’ خود نبی کریم ﷺ کے دورِ مبارک کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے اور امام نسائیؒ نے اپنی ’’سُنن،جلددوم‘ ‘میں اس کو درج کیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کو ایک ایسے شخص کے متعلق خبر پہنچائی گئی جس نے اپنی بیوی کو بہ یک وقت ’’تین طلاقیں‘‘دیں تھیں تو آپﷺ یہ سنتے ہی غضبناک ہو گئے اور فرمایا کیا آپ لوگ میری موجودگی میں ہی کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنے لگے ہو۔ ایک شخص(حضورﷺ کا غصہ دیکھ کر)کھڑا ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا میں اس کو قتل کر دوں؟‘‘۔یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ،حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ،حضرت ابن مسعودؓ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت امام ابو حنیفہؒ،حضرت امام مالک ؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒکے نزدیک بہ یک وقت ’’تین طلاق ‘‘دینا حرام اور بدعت ہے (بحوالہ درسِ ترمذی ،جلد سوم،صفحہ نمبر 468)اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود یہ مرد کے کہنے سے نافذ کیوں ہو جاتا ہے؟اس لیے کہ یہ بحیثیت بیوی ہی نہیںبلکہ ماں ،بہن اور بیٹی کی حیثیت سے اس کی توہین ہے اور اسلام مرد کا دیا ہوا سب کچھ عورت کے حوالے کر کے اس کو نافذ قراردیتا ہے چاہے مرد نے پوری سلطنت بیوی کے مہر میں رکھی ہو یا ہدیہ کیا ہو ،وہ اب عورت کی ملکیت ہے مرد کی نہیں ۔
یہاں ہمارے غیر مسلم دوست اور سیکولر مسلمان حضرات دھوکا کھا جاتے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ یہ عورت کو سزا ملتی ہے مرد کو نہیں ۔اس کے پیچھے دراصل خالص عجمی ذہن کام کرتا ہے جہاں بے شمار غیر فطری چیزیں معیوب نہ ہو کر معیوب اور بے شمار معیوب چیزیں معیوب ہوکر غیر معیوب ہی کہلاتی ہیں ۔ہمارے ہاں نکاح میں مہر نہ ہونے کے برابر مقرر کیا جاتا ہے جبکہ عرب مہر اچھی خاصی مقرر کرتے ہیں ۔عجم میں مہر کے بجائے دوسری مدات میں روپیہ اور سونا جمع تو کیا جاتا ہے تاکہ طلاق کی صورت میں سبھی اشیاء اور رقوم واپس لینے کی صورت نکل آئے جبکہ عرب ایسا نہیں کرتے ہیں اور قرآن طلاق کے وقت واپس لینا تو درکنار بلکہ اور بھی عنایات و اکرامات سے نوازنے کا حکم دیتا ہے۔ ہم طلاق کی سہولیات کے لیے راستہ خود ہموار رکھ کر الزام اسلام پر دھرنے والوں کو مواد فراہم کرتے ہیں ۔ طلاق کے بعد کشمیر میں نکاح ثانی عورتوں کے بجائے مردوں کے لیے کافی مشکل بلکہ مشکل ترین بن چکا ہے مگر رونے دھونے والے اس کو صرف عورت کے حقوق کی تلفی کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہ دونوں کے لیے برابر کا چیلنج ہوتا ہے ۔رہی بات یہ کہ ’’جہالت ‘‘عام ہے اور اس کا فائدہ دور حاضر میں ملنا چاہیے بالکل احمقانہ دلیل ہے دنیا کا کوئی بھی مذہب اور ریاست کسی بھی شہری کو جرائم کے بعد عدم علمیت کا فائدہ نہیں دیتا ہے بلکہ عدالتیں حکومتوں کی سرزنش کرتی ہیں کہ آپ عوام میں قوانین کی آگاہی مہم کیوں نہیں چلاتے ہیں ۔برعکس اس کے غیر مسلم دانشور اور سیکولر اور لبرل مسلمان اسلام کے قوانین میں ہی ترمیم کا مشورہ دیتے ہیں ۔
پدرم سلطان بود کے زعم میں مبتلا مسلمانانِ ہند ابھی تک غلامی کے بعد کے چلینجز کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ان کی قیادت جن مادہ پرست سیکولر لیڈروں کے ہاتھوں میں ہے ان کے قلوب کا قبلہ پیسہ ہے کعبہ نہیں !رہے مسلمان علماء وہ روایت پسند ہیں اور وقت کی رفتار کے ساتھ تقاضوں کے بدلاؤ اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور جن میں صلاحیت ہے وہ’’اجتہاد اور جہادباالقلم‘‘پر ذاتی اصلاح و احوال کو ترجیح دیکر ملت کو اپنے حال میں چھوڑ کر ایک طرح کی ’’رہبانیت ‘‘میں گرفتار ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق بھارت کے سینکڑوں ٹیلی ویژن چینلز سے لیکرہزاروں اخبارات تک طلاق اور وندے ماترم کے مسئلے پر ’’اسلام یکہ طرفہ طور پر تختہ مشق‘‘بنایا جا رہا ہے اور مسلم سماج کے
ساتھ ساتھ غیر مسلم سوسائٹی بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو رہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلاق ہو یا نکاح پر عدالت یاپارلیمنٹ میں بحث ومباحثے کے بجائے تمام تر اشکالات علماء کے سامنے رکھے جائیں اور ان کی نوٹس میں نئے ایشوز اور چیلنجز کو لا کر ان کے حل کی رہنمائی حاصل کی جائے ۔اس لیے کہ بعض ایشوز ہندو مذہب ،عیسائیت یا یہودیت کے ایسے ضرور ہیں جو مسلمانوں کے نزدیک غیر فطری اور غیر انسانی ہو سکتے ہیں جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بعض اعتراضات کی آڑ میں مذہب اس کے شعائر و علامات اور علماء کی ہی توہین کر بیٹھیں۔ بالکل اسی طرح دوسروں کو بھی اسلام ،مسلمانوں ،ان کے شعائر ، علامات اور علماء کی توہین کرنے کی بھی اجازت نہیں ہو سکتی ہے ۔یہ عدالت اور پارلیمنٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ خالصتاََ مذہبی اشو ہے جس پر اگر بعض اشکالات مسلمانوں یا غیر مسلموں کو ہیںبھی توعلماء انہیں رفع کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں لہٰذا ضدِ اسلام یا مسلمان میں اسلام کو عدالت یا پارلیمنٹ میں گھسیٹنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اس کو مسلمانوں پر چھوڑ کر ملک میں انارکی اور عداوت کو فروغ دے کر پہلے سے خراب حالات کو خون خرابے تک نہ پہنچایا جائے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر