وجود

... loading ...

وجود
وجود

کاش،مشتاق سکھیرا ایسے نہ کرتے ۔۔۔!!

بدھ 12 اپریل 2017 کاش،مشتاق سکھیرا ایسے نہ کرتے ۔۔۔!!


یہ درست ہے کہ شخصیات کے مقابلے میں ادارے اہم ہوتے ہیں مگر بعض شخصیات بھی ایسی ہوتی ہے کہ ان کی پرفارمنس اور اعمال کی وجہ سے ان کا قد ادارے سے بھی بڑا لگنے لگتا ہے بلکہ ایسی شخصیات یا ایسے لیڈر اپنے اپنے ادارے کی پہچان، وقار اور عزت بن جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اپنی کار کردگی اور اپنے اعمال کی وجہ سے نہ صرف پوری قوم کے ہیرو بن گئے بلکہ انہوں نے پاک فوج کا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کیا حالانکہ جن حالات میں ان کو پاک فوج کی کمان ملی تھی اس سے قوم کا بچہ بچہ واقف ہے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان سے پہلے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ذاتی مفادات کو ادارے کی نسبت زیادہ ترجیح دی جس سے ان کی ذاتی ساکھ کے ساتھ ساتھ ادارے کی ساکھ بھی شدید متاثر ہوئی۔ اب جنرل راحیل شریف بطور آرمی کے سربراہ ادارے کا جو معیار چھوڑ کر گئے ہیں، ان کے قد اور امیج تک پہنچنے کے لیے ان کے پیشرو جنرل قمر جاوید باجوہ کو کافی محنت کرنی پڑ رہی ہے اور آنے والے وقت میں اس سے بھی زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ اسی طرح ناصر خان درانی نے بطور سربراہ پولیس خیبر پختونخوا اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر نہ صرف اپنی شخصیت کا لوہا منوایا بلکہ دہشت گردی اور کرپشن کی ماری سپاہ کو نئے سرے سے اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا اور راحیل شریف کی طرح عزت کے ساتھ رخصت ہونے کو ترجیح دی۔ دوسری طرف آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا 24 گھنٹے قبل سابق ہوگئے۔ انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے محکمہ پولیس کی سربراہی کی مگر ان کو دوران ملازمت اور رخصت ہوتے وقت جس قدر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس کی شائد ہی ڈسپلن فورس میں ایسی کوئی مثال ملتی ہو۔ موصوف نے دوران ملازمت نہ اپنی اور نہ ہی ادارے کی عزت کی پروا کی، شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے فارمولے کے عین مطابق مراعات سے بھر پور وی وی آئی پی نوکری کے پروٹوکول میں موصوف یہ بھی بھول گئے کہ کل کو ریٹائرمنٹ کے مرحلے سے بھی گزرنا ہے اور بادشاہ سلامت کی نوکری کے بعد پھر کبھی عام شہری کی حیثیت سے بھی زندگی گزارنی ہے۔ سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کے کارناموں میں سانحہ ماڈل ٹائون ، چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کے دوران بے گناہ پولیس اہلکاروں کی شہادتوں سمیت کئی واقعات شامل ہیں۔ موصوف نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی نوکری پکی کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سمیت پی ٹی آئی کے کارکنوں پر تاریخ کی بدترین شیلنگ کی اور سینکڑوں کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر جیلوں میں بند کر دیا۔ ان کے بھائیوں کی طرف سے جائیدادوں پر قبضے کی شکایت عام تھی، کرپشن ، کمیشن کے الزامات بھی ان کے لیے نئی بات نہ تھی۔ آخر میں اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ممتاز صنعتکار میاں منشاء کو پولیس کی وردیوں کا ٹھیکہ دیکر موصوف نے جو نیک نامی کمائی ہے، اس سے تو الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے بعد پورا سوشل میڈیا ان کو اور ٹھیکہ لینے والوں کو جن الفاظ میں خراج تحسین پیش کررہا ہے اگر کوئی عزت دار شخص یہ گفتگو ،فقرے سن لے اور تحریریں پڑھ لے وہ شرم سے ڈھوب مرے۔ مگر یہاں تو پیسہ چاہئے، شرم کون سی شے ہے؟ اور کہاں سے ملتی ہے۔ سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کے خلاف مختلف ادوار میں عدالتوں میں ہونے والی رٹوں اور ان کے خلاف اور ان کے خاندان کے خلاف شکایات کی اگر کتابیں مرتب کی جائیں تو درجن کے لگ بھگ کئی سو صفحات کی کتابیں چھپ سکتی ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ کی تمام تر غیر اخلاقی حرکات اور ایک سو سے زائد مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود امریکی صدر منتخب ہو جانے اور پاکستان میں حکمرانوں پر پاناما کیس کے بعد بھی ان کی پاپولیرٹی کم ہونے کی بجائے بڑھ جانے جیسے معجزوں کے بعد مشتاق سکھیرا سمیت کئی دیگر حضرات نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ جس قدر ہاتھ مارا جا سکتا ہے مار لیا جائے۔ روایات ، اخلاقیات نام کی چیزیں ہماری سوسائٹی سمیت دنیا بھر سے رخصت ہوتی جا رہی ہیں۔ مشتاق سکھیرا کو تاریخ جہاں ان کے بعض ذاتی اور نجی نوعیت کے اعمال پر معاف نہیں کریگی وہاں پر ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد ان کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسا موقع دیا تھا کہ وہ اگر قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے تولیڈر بنتے ، پوسٹنگ، ٹرانسفر اور مراعات سے اوپر اٹھ کر سوچتے تو وہ اپنی سپاہ کو مکمل طور پر غیر سیاسی اور بہترین فورس بنا سکتے تھے کیونکہ سانحہ ماڈل ٹائون میں پولیس کے سیاسی استعمال کے خلاف میڈیا، سول سوسائٹی اور زیادہ تر سیاسی جماعتیں با آواز بلند مطالبہ کر رہی تھیں کہ پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی ہونا چاہئے مگر مشتاق سکھیرا نے وہ موقع ضائع کر دیا اور محکمہ پولیس کو مزید سیاسی بنا دیا۔اور محکمہ پولیس میں پہلے سے موجود گلوئوں میں اضافہ کر دیا ۔ہو سکتا ہے مشتاق سکھیرا کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری نوکری مل جائے مگر اس نوکری اور ذاتی چھوٹے موٹے مفادات کے لیے انہوں نے جو پاپڑ بیلے ہیں اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بہت بہتر ہوتا۔ کاش! وہ ایسا نہ کرتے ۔۔۔تو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے اب ان کی جگہ آنے والے نئے کپتان کو محکمہ کے لیے غیر معمولی طور پر نہ صرف کام کرنا پڑے گا بلکہ اپنی لیڈر شپ کے ذریعے پولیس کے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر