وجود

... loading ...

وجود
وجود

مذہبی اورلبرلزکاجھگڑاکیاہے ؟

هفته 11 مارچ 2017 مذہبی اورلبرلزکاجھگڑاکیاہے ؟

الفاظ کی بھی حرمت ہوتی ہے ۔ہم جس عہدمیں جی رہے ہیں اس عہدمیں جیتے جاگتے انسان کی حرمت نہیں رہی وہاں الفاظ کی حرمت کا رونا، رونا کیا معنی رکھتاہے ۔چندروزقبل ملک کی مشہورمعروف اوربے شرم بدنام رقاصہ آنٹی شیماکرمانی حضرت عثمان مروندی المعروف لال شہبازقلندؒرکے مزارپہنچ گئی ۔اوروہاں ناچناشروع کردیاکہ اس طرح سے میں امن کاپیغام دے رہی ہوں ۔کیونکہ یہ ایک قومی ریاست ہے لہٰذابے شرم شیماکرمانی نے خوب مزے سے اپناناچ دکھایا۔یہ سب کچھ اس مبارک ہستی کی قبرپرہورہاتھا،جنہوں نے سندھ میں سیہون کی دھرتی پراپنے مبارک قدم رکھے تواپنی رہائش کے لیے جس محلے کاانتخاب کیا وہ محلہ شیماکرمانی کی روحانی بہنوں کامحلہ تھا۔مگرماضی کی ہندوطوائفوں ،گائیکائوں ،رقاصائوں نے اپنے عمل سے ثابت کیاتھاکہ وہ آج کی شیماکرمانی سے کتنی اچھی تھیں ۔لعل شہبازقلندرؒنے طوائفوں کے محلے میں رہائش اختیارکی اوردعوت وتبلیغ کاکام شروع کردیا۔شروع شروع میں تولوگ حیران ہوئے کہ ایک قلندؒراوربزرگ ہستی نے کہاں ڈیرے ڈالے ہیں ؟مگربزرگوں کی روحانیت کے الگ ہی رموز ہوتے ہیں ۔لال شہبازقلندرؒاپناکام کرتے رہے اورلوگوں کواللہ پاک کی طرف بلاتے رہے ۔رفتہ رفتہ تماش بینوں نے اس طرف آنا چھوڑ دیا۔ لوگوں کوشرم آنے لگی کہ طوائفوں کے محلے میں آتے جاتے ٹکرائولعل شہبازقلندؒریاان کے مریدوں سے ہوگیاتویہ کس قدرشرمندگی اورندامت کاباعث ہوگا۔لہٰذاتھوڑے ہی عرصے میں سیہون کایہ بازارویران ہونے لگا۔ایسے میں تمام ہندو طوائفوں اوررقاصائوں نے سیہون کے ہندو حکمران راجہ جیرجی کوشکایت کی کہ ایک قلندؒرنے آکران کے علاقے میں ڈیرے ڈالے ہیں اوران کاکاروبار بند ہونے کے قریب پہنچ چکاہے ۔راجہ جیرجی نے لال شہبارقلندؒرصاحب سے کہا کہ وہ کہیں اورتشریف لے جائیں ۔کیونکہ یہ تمام کام ہندوراجہ کی سرپرستی میں چلتاتھااس لیے اس نے جب دیکھاکہ قلندؒربادشاہ جانے پرراضی نہیں ہو رہے تواس نے سختی کرناشروع کردی مگرلال شہباز قلندؒراستقامت سے ڈٹے رہے ۔بزرگوں کی سنت ہے کہ وہ کسی علاقے کواپنی مرضی سے منتخب نہیں کرتے، حضرت عثمان مروندی المعروف لال شہبازقلندؒر اپنے پیراوراستادحضرت بوعلی قلندؒرکے حکم پرہندسے سندھ تشریف لائے تھے ۔حضرت عثمان مروندیؒ افغانستان کے علاقے مروندمیں پیداہوئے تھے اس نسبت سے مروندی کہلاتے ہیں ۔راجہ کی بدمعاشی جب حد سے بڑھنے لگی تو ایک روززلزلہ آیااوراس زلزلے میں راجہ جیرجی ماراگیا۔راجہ جیرجی کی موت دیکھ کرتمام ہندو طوائفوں رقاصائوں اورگائیکائوں نے کلمۂ حق تسلیم کرلیااورحضرت لعل شہبازقلندؒرکے ہاتھ پر مسلمان ہوگئیں اوراپنی باقی زندگی ان عورتوں نے پردے اور شریعت کی اطاعت میں گزاری ۔ اگر آج لعل شہبازقلندؒرزندہ ہوتے یاان کاکوئی سچا جانشین زندہ ہوتاتووہ شیماکرمانی کے سر پر چادر رکھتااورشیماکرمانی کوسمجھاتاکہ بیٹی یہ سب چھوڑ دے ۔ یہ تیرے تمام گندے کام تجھے جہنم میں لے جارہے ہیں ۔ناچنے سے آزادی نہیں ملتی، اگر ناچنے سے آزادی ملتی توتمام ہیجڑے آزادہوچکے ہوتے ۔اگرناچنے سے حقوق ملتے توہیجڑے آج سب سے زیادہ خوشحال ہوتے ۔وہ سمجھاتے کہ بیٹی یہ ناچناچھوڑگھرجا،گھرجاکرشادی کر،بچے پیدا کر، اللہ کی عبادت کر۔توبہ کر۔دردرآوارگی نہ کر،دیکھ بیٹی اب توتیرے سرکے بال بھی سفیدہوگئے ہیں ۔ اب توبازآجا۔جابیٹی گھرجا۔مجھے یقین ہے کہ قلندؒر سائیں کے یہ الفاظ شیماکرمانی کورابعہ بصری بنادیتے مگرآج نہ لعل بادشاہ ہیں نہ ان کاکوئی سچامرید،اب یہ کرامت کہاں ممکن ہے؟اب تو حال یہ ہے کہ مذہبی لوگ پی ایس ایل کافائنل دیکھنے کھیل کے میدان جاپہنچے ہیں ۔ جہاں چھکوں ، چوکوں پررقاصائوں نے ٹھمکے لگائے ۔اور ہر چھکے چوکے پرلڑکے لڑکیوں نے تالیاں بجائیں اور گلے لگے ۔کیاایک مذہبی آدمی کوزیب دیتاہے کہ وہ اسی طرح کے ہجوموں میں گھسے ؟مجھے کامل یقین ہے کہ یہ مذہبی لوگ اس لیے میچ دیکھنے گئے کہ اس طرح یہ عوام کو بہلا پھسلاکرووٹ لے لیں گے اورجب ووٹ لے کر یہ اقتدارمیں آئیں گے تب وہ ان تمام خرافات کاخاتمہ کردیں گے۔ بہت بھولے اور سادہ لوح ہیں مذہبی رہنماء جس روز ان مذہبی رہنمائوں نے عوام پراصل ،خالص اور کھرا اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی اسی روزعوام مذہبی رہنمائوں کو اٹھا کر اقتدار سے باہرکردینگے ۔ مصر میں مرسی صاحب کا حال دیکھ لیں ۔اورشام میں اخوان المسلمین سے کچھ سیکھ لیں ۔سہولتوں کے لیے ترستے، تڑپتے اورکڑہتے عوام صرف آج دنیا کے مزے میں اضافے کے خواہش مند ہیں ۔ اور یہ توویسے بھی بددیانتی ہے کہ آپ آج توعوام کو سبز باغ دکھائیں اورکل ان سے کہیں کہ اہرام مصرکے باہر کسی طوائف کوناچنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کرکٹ میچ میں کوئی موسیقی نہیں بجائے گا،نہ سنے گا، مرداورعورتیں ایک ساتھ نہیں بیٹھیں گے ۔کسی عورت کوبغیرپردے کے کھیل کے میدان آنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔نمازکے اوقات میں وقفہ ہوگااورجونمازنہیں پڑھے گاوہ امام ابوحنیفہ ؒکے عقیدے کے مطابق تمام عمرجیل میں رہے گا۔ جب تک وہ نمازی نہ بن جائے ۔باقی امام توکہتے ہیں بے نمازی کاقتل جائز ہے مگریہ کام ریاست کے لیے ہے ۔کسی گروہ یافردکے لیے نہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کرکٹ کی بین الاقوامی تنظیم کیوں کھیل کے دوران نمازکاوقفہ کرنے دے گی؟ اور کیا کھیل کے لیے کافراسلامی ریاست میں رہائش اختیارکرسکتے ہیں ؟کیاکافراسلامی ریاست میں ہوٹلوں میں سرِ عام شراب پی سکتے ہیں ؟اورجب مسلمان کھلاڑی نماز پڑھیں گے تب کافر کھلاڑی کیوں ان کے انتظار میں بیٹھیں ؟ اور اگر کرکٹ ان اصولوں پر ہوگی تو کون دیکھے گا کرکٹ؟ کھیل توہوتاہی لطف ،عیاشی اورآوارگی کا مزہ لینے کے لیے ہے ۔کیایہ تمام اسلامی احکامات مذہبی لوگوں کو معلوم نہیں جوکرکٹ میچ دیکھنے لاہورپہنچے تھے ؟ کل اگرانہوں نے اصل اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی توریاست اور عوام ان کاحال مصرکے مرسی صاحب جیسے مرد قلندر سے کم برا نہیں کرینگے، تب لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ یہ سب آپ نے الیکشن میں تو ہمیں نہیں بتایا تھا۔ہم اپنی روزی روٹی اورلطف کی سرگرمیوں میں کوئی کمی کیسے برداشت کریں ؟آج ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم بس کسی نہ کسی طرح اقتدارمیں آناچاہتے ہیں ۔ہم طاقت حاصل کرناچاہتے ہیں ۔جبکہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ جمہوریت میں طاقت صدر،وزیراعظم یاکسی بھی ادارے کے سربراہ کے پاس ہوتی ہی نہیں ہے ۔یہ تمام اداروں کے سربراہ ایک خاص طے شدہ اصول کے مطابق چلتے رہتے ہیں ۔ذراساکوئی پٹری سے اترانہیں کہ اس کا جہاز گرانہیں ۔ہم آج تک اس نظام کوتوسمجھ نہیں سکے ہم اس نظام کوپلٹنے کے خواب خداجانے کیسے اورکیوں دیکھتے ہیں ۔نہ یہ میدان وہ ہے نہ یہ جنگ وہ ہے ۔اب ٹیکنالوجی بمقابلہ ایمان ہے ۔اورایمان کی مضبوطی کی کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ امریکہ اوریورپ نے لوگوں کو سہولتوں کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا کرکے اقتدار قائم کر رکھا ہے ۔بش نے کہا تھااگرہم نے افغانستان پرحملہ نہ کیاتوطالبان آکر امریکیوں کو پرانے دور میں لے جائیں گے ۔اورہم لوگوں کو سہولتوں کی فراہمی پراکھٹاکررہے ہیں ۔کل ہم کراچی کومدینہ بنانے کی بات کرتے تھے پھرہم نے جاکردیکھاکہ مدینہ تو2017ء میں استنبول کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہے اب ہم کراچی کواستنبول بناناچاہتے ہیں ؟خداجانے کب ہم سمجھیں گے کہ جب کسی نے ووٹ اس شرط پر دینا ہوگا کہ اس نے ترقی کرنی ہے تووہ مذہبی آدمی کی 2 نمبردنیاکیوں لے گا؟ وہ لبرل آدمی کی 1 نمبر خالص دنیا کیوں نہیں لے گا۔جب دنیامیں مزے ہی کرنے ہیں تومکمل مزے کریں ۔یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کیوں ہے۔ عورت لبرل کی بھی گھرسے باہرہے، عورت مذہبی آدمی کی بھی گھرسے باہر ہے۔ کبھی کسی جمعہ بازار،ہفتہ بازار جاکر دیکھیں عورتیں اس طرح خریداری کررہی ہوتی ہیں جیسے آج بس آخری دن ہے کل سے جنگ شروع ہوجائے گی ۔ فضول خرچی ،اسراف سب پرانے زمانے کی باتیں ہوگئی ہیں ۔اب توبس خریداری کرنااورباربار خریداری کرنااصل قدرہے ۔جو جتنا زیادہ خریداری کرتاہے وہ اتنااپنے آپکو اچھا سمجھتا ہے۔ جبکہ ہماری تہذیب ،تاریخ اورروایت میں جو جتنازیادہ خریدتاتھاوہ شیطان کابھائی ہوتا تھا۔ اور جو جتنی کم دنیالیتاتھاوہ ولی ہوتاتھا۔اگرہم جائزہ لیں تو شب وروزترقی پسندوں اوراسلام پسندوں کے تقریباًایک جیسے ہونگے ۔ترقی کی رفتارمیں کمی کرنے پرکوئی راضی نہیں ہے ۔سادہ زندگی کولوگ شرم کاباعث سمجھتے ہیں ۔معلوم ہوتاہے جوامیرہے اس سے خداراضی ہے اورجوغریب ہے اس سے خداناراض ہے ۔لوگ کہتے ہیں ہم دنیامیں مزے کررہے ہیں ،ہم آخرت میں بھی کامیاب ہونگے ۔جبکہ سنت سے ایساثابت نہیں ہوتا۔مذہبی لوگ سیاست میں اس بنیاد پرحصہ لینے آئے تھے کہ اس طرح یہ لوگوں کو بدل ڈالیں گے مگر2017ء تک یہ خودبدل رہے ہیں لیکن ان کوذرابھراس تبدیلی کااحساس نہیں ہے ۔جدیدنظام ان کوان کے اسلاف کے طریقوں سے دورلے گیاہے ۔یہ آج اپنی تاریخ اورتہذیب کوحکمت عملی کے نام پرروزچھوڑتے جارہے ہیں ۔مگردعویٰ ہے کہ ہم لوگوں کوبیوقوف بناکر اقتدارمیں آجائیں گے۔ پھرہم سب لوگوں کواصل اسلام میں لے آئیں گے۔ خداکرے کہ اصل اسلام خود ان کو یاد رہے اس روزتک میرے سامنے میزپرانگریزی اخبار میں شیماکرمانی کی دھمال ڈالتی تصویرہے اور دوسری طرف پی ایس ایل کے فائنل میں مذہبی لوگوں کی تالیاں بجانے کی تصاویریں ہیں ۔ اور مجھے سمجھ نہیں آرہاکہ 2017ء تک آتے آتے لبرل اورپاکستانی مذہبی جماعتوں کاجھگڑارہ کیا گیا ہے ؟


متعلقہ خبریں


مضامین
نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

قیدی کا ڈر وجود منگل 21 مئی 2024
قیدی کا ڈر

انجام کاوقت بہت قریب ہے وجود منگل 21 مئی 2024
انجام کاوقت بہت قریب ہے

''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1) وجود منگل 21 مئی 2024
''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1)

انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب وجود منگل 21 مئی 2024
انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر