وجود

... loading ...

وجود
وجود

مزارات پر حملے :عالم اسلام کی تباہی کا ذمہ دار کون ملا یا مسٹر؟

اتوار 05 مارچ 2017 مزارات پر حملے :عالم اسلام کی تباہی کا ذمہ دار کون ملا یا مسٹر؟

پاکستان میں لال شہبازؒ کی درگاہ پر شرمناک خود کش حملے کے بعد بہت سارے سوالات کے جوابات تلاشنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگرچہ ا س سے پہلے پاکستان،شام اور عراق میںمزارات پراس طرح کے کئی خود کش حملے کئے جا چکے ہیں اور مستقبل میں بھی ان حملوں کے رُکنے کی فی الوقت کوئی امید نہیں ہے مگر پیچیدہ ترین مسائل میں سنگین ترین مسئلہ یہ اس لئے بن چکا ہے کہ حملہ آور اس کو اسلام سے جوڑ کر ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘کے زمرے میں لا کر مرنے اور مارنے پر کمربستہ نظر آتے ہیں جیسا کہ آج کل ایک و ڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے جو پاکستان کے ’’جیو ٹیلی ویژن نیوز چینل‘‘کے پروگرام ’’جرگہ‘‘میں سلیم صافی صاحب کے ساتھ گفتگو میں ایک اسی ذہنیت کے شخص کے انٹرویو پر مشتمل ہے جو اپنی تمام تر کارروائیوں کو جہاد اور ان کے حملوں میں ’’ننھے منھے بچوں‘‘ کی ہلاکت کوجائز قرار دیتے ہوئے انتہائی سنگدلانہ انداز میں یہ تک کہتا ہے کہ وہ بچے بے گناہ کیوں اور کیسے ہیں ؟ یہ موضوع بہت وسیع ہے اور ایک مضمون میں سمیٹنا گر چہ ناممکن ہے مگر ہماری کوشش ہوگی کہ موٹے طور پر یہ مسئلہ سمجھ میں آجائے جیسا کہ مسلمانوں کو دونوںطبقات ’’مذہبی اور لبرل‘‘اس کو ایک دوسرے کے سر تھونپ کراپنے آپ کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک روز حضرت جدیرؒسے پوچھا اے جدیر!بتاؤ اسلام کوکون سی چیز مٹا دے گی ؟انہوں نے عرض کیا امیر المؤمنین مجھے نہیں معلوم ہے تو آپؓ نے فرمایا تین چیزیں دین کو مٹادیں گی (1)عالم کی غلطی(2)منافق کا قرآن سے جھگڑنا(3)گمراہ حکمرانوں کا حکم(بحوالہ دارمی)اس طرح کی باتیں ایک صاحب فراست بزرگ ہستی ہی کہہ سکتی ہے اور آج ہم سر کی آنکھوں سے یہ تباہی دیکھ رہے ہیں ۔دین کے نام پر پورے عالم اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے پر وہ اسلام نہیں، جو نبی کریمﷺ لیکر آئے تھے، اور جس سے غیر مسلم متاثر ہو کر اس کے سایے میں پناہ لینے پر آمادہ ہو گئے ۔جو وحشتناک چہرہ مسلمانوں نے ’’غیر مسلم دنیا‘‘کے سامنے پیش کیا ہے، اس سے پوری غیر مسلم دنیا خوفزدہ ہو چکی ہے ۔ان سفاکانہ کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں’’دعوتِ دین‘‘ کا ’’نبویؐ کام‘‘جہاں کہیں بھی جاری تھا وہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنتا جا رہا ہے ۔غیر مسلم عوام خوف زدہ ہیں یا مثالیں دے دے کر انہیں خوف زدہ کیا جاتا ہے ۔حکمران مسلمانوں کو ایک مہلک مرض کی طرح اپنے ممالک کی سرحدوں سے باہر نکالنا چاہتے ہیں ۔ غیر مسلم ممالک میں جومسلمان مقیم ہیں وہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے سخت پریشان ہیں ۔ان کی عائلی زندگی پر سوالات کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ انہیں غدار تصور کیا جاتا ہے ۔مغربی ممالک میں اب اس شک اور مسلمانوں کے اخراج کی مہم کی سپہ سالاری خود امریکی صدر نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے ۔عام غیر مسلم اور مسلمان دونوں برابر خوف زدہ ہیں ۔
ہم میں ہر انسان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہ مرحلہ یک دم پیش نہیں آیا بلکہ اس صورتحال تک پہنچنے کے لئے بڑا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی ؟یہ آپ سے آپ پیدا ہوئی یا پیداکردی گئی ؟اس صورتحال میں کیا کیا عوامل کارفرما رہے ؟کن کن راستوں سے یہ صورتحال تخلیق کی گئی؟اس میں دوستوں کی سادگی کتنی ہے ؟اس میں دشمنوں کا کیا رول رہا ہے؟ اس میں دوست نما دشمنوں کا کردار کتنا مؤثر رہا اور دشمن نما دوستوں کا کتنا؟ یہ ایک مضمون نہیں ضخیم کتاب کا موضوع ہے مگر ہم نے اخبار کی تنگ دامنی مدِ نظر رکھ کر دوناموں ’’ملا یا مسٹر‘‘میں تقسیم کر کے’’ تسہیل الفہم ‘‘ کی کوشش کی ہے ۔مُلاسے مراد وہ مذہبی طبقہ ہے جن پر مسلمان آنکھ بند کر کے ’’دینِ اسلام کے ماہرین‘‘سمجھ کر ناقابل یقین حد تک بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیںرہے۔ مسٹر، تو اس سے مراد وہ لکھے پڑھے مسلمان ہیں جو مغربی علوم سے بہرہ ور ہو کر تمام تر تباہی اور بربادی کے لئے ذمہ دار صرف مذہبی طبقے کو سمجھتے ہیں ۔عنوان کی مناسبت سے پہلے مذہبی طبقے پر بات کی جائے گی اس لئے کہ حضرت فاروق اعظمؓ نے بھی اسلام کے مٹ جانے کے ذمہ داروں میں انہی کا ذکرپہلے فرمایا ہے ۔
علمائِ کرام کی اہمیت اور مرتبہ و مقام کے لئے اللہ تعالیٰ کی سند کافی ہے کہ ’’میرے بندوں میں مجھ سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہیں‘‘ (فاطر۔ 28) اور حضورﷺ کا یہ ارشاد کہ’’بلا شبہ علماء انبیاؑء کے وارث ہوتے ہیں‘‘(ترمذی)علماء کی اہمیت جاننے کے لئے اس سے بڑی اورکسی دلیل کی حاجت نہیں ہے۔اس امت کی عمر چودہ سو برس ہے ۔اسلاف پرا ٓپ نگاہ ڈالیے تو علماء نے اس امت کو کبھی بھی ذلیل نہیں ہونے دیا، چاہے انہیں اپنے جان کی بازی لگانا پڑی ۔انہوں نے دو باتیں کبھی بھی گوارا نہ کیں،ایک دین میں تحریف، دوم اتحادمیں رخنہ ۔صحابہؓ تو آسمانِ نبوتؐ کے درخشندہ ستارے ہیں ہی مگر بعد والوں نے ذرہ بھر غفلت نہیں برتی۔ چاہے انہیں امام زین العابدین ؓ کی طرح خوف و دہشت کا سامنا کرنا پڑایا امام ابو حنیفہؒ کی طرح جام شہادت نوش کرنا پڑا،یا چاہے حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی طرح وحشیانہ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ،یا امام الہند شیخ احمد سرہندی ؒکی طرح زینت زندان بننا پڑا یا سید قطب شہیدؒ کی طرح تختہ دار کو چومنا پڑا مگر نہ تحریف قبول کی اور نا ہی اتحاد میں رخنہ اندازی برداشت کی ۔
اختلاف صحابہؓ میں تھا اور بعض باتوں کو لیکر قیامت تک رہے گا، افسوس یہ ہے کہ اس کو’’ اختلاف دین‘‘ کامقام دیکروہ دروازہ کھولا گیا جس کے بند ہونے کے امکانات اب معدوم نظر آتے ہیں ۔ اسلاف کا اختلاف بسااوقات اتنا شدید ہوا کہ ’’جنگ و جدال‘‘تک نوبت پہنچی مگر ’’قاتل اور مقتول‘‘دونوں نے نا ہی ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی جسارت کی اور نا ہی مرتد۔یہ دورِ حاضر کا خاصہ ہے کہ قدیم ’’شیعہ سنی‘‘اختلاف کے بعد جب اہل سنت میں چار مسالک کے بعد مختلف افکار و آراء کے ساتھ نئے نئے فرقے اور تنظیمیں وجود میں آئیں تو ان فرقوں اور تنظیموں نے مسالک کی جگہ لینے کی کوشش کرتے ہو ئے اُمت میں ہر مسئلے میں اپنے بزرگوں کی آراء میں وہ شدت اختیار کی کہ گویا ان کا قول نعوذ باللہ قول نبیﷺ ہو کہ جو مانے وہ مسلمان جو نہ مانے وہ کافر ۔یہ نئے نئے فرقے اور تنظیمیں اب باضابطہ ناقابل انکار وجود بن چکا ہے ۔المیہ یہ کہ ’’بزرگ پرستی اور شخصیت پرستی کے کینسر‘‘کو شرک اور گمراہی قرار دیتے ہو ئے بھی لوگ اپنوں کی پرستش میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں اور ہمارایہ اعتقاد ہے کہ صحابی چاہیے صدیق اکبرؓ ہوں یاعلی المرتضیٰ،ؓ وہ نبی نہیں ہیں۔ صحابہؓ کے مقام اور مرتبے سے انکار نہیں مگر نبیٔ آخرالزماںؐ ہی نبیؐ ہیںکوئی اور نہیں۔صرف انہی کے حکم اور شریعت کے انکار کا منکرکافر ہو جاتا ہے ،کوئی اور نہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’ قولِ بزرگانِ دین‘‘کا کیا مرتبہ ہے ؟اگر ایک مسلک اور فرقے کا شخص دوسرے مسلک یا فرقہ کے بزرگ کی بات نہ مانے تو ’’حکمِ کفر‘‘کی تلوار کیوں سونت لی جاتی ہے ؟
گزشتہ دوسو سال میں جس طرح دین اور شریعت کے نام پر ’’مسالک و فرق‘‘کی ترویج و اشاعت پوری شدت و قوت کے ساتھ کی گئی اور مخالف ’’مسالک و فرق‘‘کو گمراہ اوربے دلیل قرار دینے کی کوششیں کی گئی، اور تو اور بسااوقات تہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑ کر ایک دوسرے کو کافر اور مرتد قرار دینے میں کوئی ہتک اور عار محسوس نہیں کی گئی اس روش نے صورتحال کو اس سطح تک پہنچا دیا کہ اب ہر مسلک کے درجنوں فرقے بن چکے ہیں اور وہ اب مخالفین کے بجائے ایک دوسرے کو ہی کافر اور مرتد قرار دینے لگے ہیں ۔پہلے یہ وبا ’’شیعہ سنی ‘‘مسائل کو لیکر اپنی آخری حدودپھلانگنے میں کامیاب ہوئی تھی، اب اس نے خود شیعوں اور سنیوں کواپنے اپنے دائرے میں برباد کر رکھا ہے ۔اس کے اسباب بہت سارے تو ہیں ہی، مگر جو سبب پہلا اور بنیادی ہے وہ ہے بعض مزاجاًاور طبیعتاًشدت پسند علماء کا ’’تفرد‘‘! اُمت نے ہمیشہ علماء کے تفردات کو نظرانداز کرتے ہو ئے جمہور علماء کی راہ کو ’’راہِ مستقیم‘‘قرار دیا ہے ۔مگر گزشتہ دوسو برس میں بعض جماعتوں اور فرقوں نے ان ’’تفرداتِ علماء‘‘کو اصول بنا کر اُمت میں ادھم مچا دیا ہے ۔ایک چھوٹی سی مثال سے آپ اس شرمناک جنگ کی نفسیات اور نفرت کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ سوال و جواب کی ایک چھوٹی سی کتاب میں کسی نوجوان نے عالم سے پوچھا ہے کہ کیا میں اپنے ان والدین کے لئے دعائِ مغفرت مانگ سکتا ہوں جن کا انتقال حنفی مسلک پر ہوا ہے ؟ جناب مولوی صاحب نے لکھا ہے ’’نہیں آپ ان کے لئے دعائِ مغفرت نہیں مانگ سکتے ہیں اس لئے کہ آپ کے والدین کا انتقال چونکہ شرک پر ہوا ہے اورمشرک والدین کے لئے دعائِ مغفرت مانگنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے لہٰذاآپ ان کے لئے مغفرت کی دعا نہ مانگا کریں ۔یہی نفسیات دوسری جانب بھی ہے سلفیوں اور جماعت اسلامی کے متعلق آپ علماء کے فتاویٰ اور ان کی زبان دیکھ لیں تو آپ کو وحشت محسوس ہو گی ۔یہی حال بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر کا ہے ہر مکتبۂ فکر دوسرے پر تنقید کرتے کرتے اس سطح تک آجاتا ہے کہ ’’مسٹر مسلمان‘‘مذہبی طبقے سے ہی وحشت اور خوف محسوس کرنے لگتا ہے ۔
پہلے ہم ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہیں جس کا سادہ سا مطلب ’’راہِ جمہور‘‘سے بھٹکا ہوا مراد ہوتا ہے ۔پھر محتاط علماء کے برعکس نیم محتاط علماء ’’گمراہ ‘‘لفظ پر عدم اطمینان محسوس کرتے ہو ئے دو قدم آگے بڑھکر ’’فاسق اور منافق‘‘جیسی سخت اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں ۔اس کے بعد متشدد علماء اسلاف کے جاری کردہ ماضی کے فتاویٰ پر بے یقینی کا شکار ہو کر ’’فسق و ضلال ‘‘کی سرحدوں کو پھلانگتے ہو ئے اس وادی میں قدم رکھتے ہیں جس میں قدم رکھتے ہو ئے ہمارے اسلاف خوف زدہ ہوتے تھے، اس لیے کہ کفر و شرک کے ارتکاب کے بعد کون کس طرح ’’اسلام کے اندر رہتا ہے یا خارج ہوتا ہے ‘‘ایک ایسا نازک مسئلہ ہے جس پر مجھ جیسا ایرا گیرا بات نہیں کرسکتا ہے بلکہ یہ جن کا مقام اور مرتبہ ہے وہ نہ دین چھپاتے ہیں نا ہی وہ حق بات کہنے میں تردد محسوس کرتے ہیں اور نا ہی اشتعال انگیز تقریروں سے متاثر ہو کر اپنے مناصب جلیلہ کی بے قدری کے مرتکب ہو جاتے ہیں، جیسے علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ،علامہ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ اورجسٹس تقی عثمانی صاحب وغیرہم ۔میں نے خود بعض حضرات کو اپنے اسلاف کو برابھلا کہتے ہو ئے نہ صرف سنا ہے بلکہ ان کی شرمناک توہین کرتے ہو ئے بھی دیکھا ہے ۔اب حالت اس المیہ سے یہ بنتی جا رہی ہے کہ ہر ہر مکتبۂ فکر میں متشدد نوجوان علماء اپنے ہی مکتبہ فکر کے بڑوں کو جاہل اور بزدل قرار دیتے ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک دوسرے مکاتب فکر کو عقائدافکار و اعمال میں اختلاف کے سبب فوراً کافر اور مرتد قرار نہ دینا جہالت اور بزدلی ہے اور یہ تک نہیں جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمان کو کافر قرار دینے کے مسئلہ پر کس قدر سخت تنبیہ فرمائی ہے ۔حضرت عبداللہ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان دونوں میں کوئی ایک اس کا مستحق ہو جاتا ہے (بخاری ومسلم)رہی بات کسی کے مسلمان ہونے کی تو شہادتین کے بعد اعمال میں کمزوریوں اور فسق کے باوجود آپ ﷺ نے خود ہی اس کی بھی وضاحت فرمادی کہ ’’جس نے ہماری طرح نماز پڑھی ،ہمارے قبلہ کو قبلہ جانااور ہمارا ذبح کردہ کھایا تو وہ مسلمان ہے، اس کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور اس پر وہی ذمہ داریاں ہیں جو ہم پر ہیں ‘‘ ۔میں سمجھتا ہوں اور میری یہ رائے غلط بھی ہو سکتی ہے کہ اب یہ تمام مکاتب فکر مکافات عمل کی زد میں ہیں۔ انہوں نے جس بے احتیاطی کے ساتھ مخالف مکاتب فکر کو اپنے تیر و تفنگ سے فنا کرنے کی کوشش کی اب ان کی اپنی ہی پود خود انہی کے وضع کردہ اصولوں اور ضابطوں کے تحت انہیں ختم کرنے پر کمر بستہ ہے، اس لیے کہ یہ بے احتیاطی مسلمانوں کے ایمان اور اسلام سے متعلق تھی اور شاید اللہ کی غیرت اس کو عرصہ دراز تک برداشت کرنے کے بعداب ’’سزا‘‘کا فیصلہ کر چکی ہے ۔۔اللہ ہم سب کو اس آفت سے محفوظ رکھے ۔
ہماری فتویٰ بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالم طاغوت نے لبرل اور سیکولر مسلمانوں کے ساتھ مل کر عالم اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔مغربی عیاروں کو اس جنگ کے لئے ’’انسانی مواد‘‘کی ضرورت تھی ،جو انہیں عالم اسلام میں صرف اسلام پسندوں سے ہی دستیاب ہو سکتا تھا ۔ہمارے مذہبی طبقے نے’’ شیعہ کفار‘‘اور’’ملحد سنی‘‘کے فتوے اس شدت اور تسلسل کے ساتھ دے رکھے تھے کہ ان فتووں سے متاثر عام مسلمان نوجوان ’’شعلہ آتش‘‘بن کر ’’مرنے مارنے‘‘پر کمر بستہ انتہائی بے صبری کے ساتھ’’ سراپا منتظرِ موت‘‘ نظر آتا تھا۔دو عالمی طاقتوں کی ہتھیار بیچنے اور مسلم ممالک پر کنٹرول کی رسہ کشی اور مسابقت میں حالات نے ایسی کروٹ لی یا اس سطح تک پہنچا دیے گئے کہ پورا عالمِ اسلام اس جنگ میں کود پڑا ۔اس کے لیے انہیں اپنی فوجوں کے برعکس غیر ریاستی فوج کی ضرورت تھی جو اسلامی تنظیموں نے پوری کردی ۔ اسلام پسندوں نے بصیرت کا مظاہرا کرنے کے بجائے اپنے فتووں سے یہ بھٹی اتنی بھڑکا دی کہ ایک درجن مسلم ممالک کی تباہی کے باوجود بھی یہ جنگ رکنے کا نام نہیں لیتی ہے ۔مذہبی طبقے کی غلطیاں اپنی جگہ درست مگر ان غلطیوں کو سیکولر اور لبرل مسلمان اس طرح پیش کرتا ہے کہ گویا عالم اسلام کی تباہی کا ذمہ دار صرف مذہبی طبقہ ہو حالانکہ ہر عقلمند جانتا ہے کہ ’’ملا‘‘کے ہاتھ میں ’’کچھ بھی ‘‘نہیں ہے سوائے چند مساجد اور مدارس کے ۔
ایک اور پہلوپر بھی غور کیجیے اور داد دیجیے ’’مدارس اور مُلاپر عالمِ اسلام کی تباہی ‘‘کا الزام لگانے والوں کی دیانت پر !دنیا کی قوموں کی ساتھ کھیلنے والے کون ہیں؟ ’’یو،این ،او‘‘میںکون ہیں مسٹر یا ملا؟’’نیٹو‘‘ کس کے ماتحت ہے یہ ادارہ ؟’’جی 8 ‘‘میںکس کا سکہ چلتا ہے مسٹر کا یا مُلا کا ؟دو سو ممالک میں ایک مولوی کا نام لیا جائے جو حکمران ،فوجی جرنیل یا بیوروکریٹ ہے ؟ چور بازاری میں ملوث کون ہیں ؟فیکٹریوں میں ملاوٹ کر کے انسانوں کو زہر کھانے پر مجبور کون کرتا ہے؟دفتروں میں رشوتیں کون لیتاہے ؟پولیس تھانوں سے لیکر اعلیٰ عدالتوں تک ظالم کو مظلو م اور مظلوم کو ظالم کا روپ عطا کرنے والا کون ہے ؟سودی کاروبار ،منشیات کے دھندے،’’اسقاط حملِ نسواں‘‘جیسے قبیح اور انسانیت کے لیے خوفناک جرائم کھلے عام کو ن انجام دیتا ہے، مسٹر یا مُلا؟کتنا لکھیں اور کس قدر ماتم کریں ان حضرات کی عقل پر جو خود کش حملوں کی آڑ میں سارے علماء اور مدارس کو ہی نشانہ بنانے پر بضد ہیں، حالانکہ دنیا بھر کی سراغرساں ایجنسیاں خوب جانتی ہیں کہ جہادی گروپوں میں ملاؤں کی تعداد انگلیوں پر گنانے کے برابر ہے جبکہ مسٹروں کی فہرست بہت طویل ہے، تو کیا یہی انصاف ہے کہ چند افراد کی ’’غیر انسانی حرکت‘‘کو بنیاد بنا کر پورے ایک نظام کو نشانہ بنایا جائے ؟حیرت یہ کہ پہلے عیسائیوں ،یہودیوں اور ہندوؤں کو مسلمانوں کے حلیہ اور داڑھی سے خوف آتا تھا اور اب مسلمانوں کو بھی آنے لگا ہے۔ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیرکی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حال ہی میں نوجوانوں کی بڑھتی داڑھیوں پر حیرت کا اظہار کیا ۔لمبی داڑھی تمام انبیاؑء ،صحابہؓ ،تابعین ؒ،تبع تابعینؒ اور اولیاؒء نے رکھی ۔ٹخنوں پر شلوار لٹکانے سے نبی کریمﷺ نے منع فرمایا تو اس میں وحشت اور خوف کی کونسی بات ہے؟اسلام مکمل دین ہے یہ صرف عقائدہی کی تعلیم نہیں دیتا ہے بلکہ لباس،رہن سہن ،تعلقات،راہ و رسم ،تجارت،تعلیم،عسکریت اور سیاست کے لیے مکمل رہنمائی کرتا ہے اب اگر اس کے برخلاف کوئی مسلمان کرتا ہے تو یہ قصور اسلام کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہے اور فرد کا قصور مذہب کے سر مڑا نہیں جاتا ہے ۔حیرت یہ کہ یہودیوں ،عیسائیوں ،بودھوں،ہندوؤں اور جینوں کے مذہبی لباس پر کوئی لب نہیں ہلاتا ہے نہ ہی مغربی اور مشرقی لادین حضرات کی فحاشی و عریانی پر چیں بہ جبیں دکھائی دیتا ہے مگر جب کوئی مسلمان ’’لباسِ شرافت‘‘ پہن لیتا ہے تو ہر طرف سے ’’انتہا پسندی اور رجعت پسندی‘‘ کی چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے کہیں یہ لبرل حضرات صرف ذات کے لیے ہی لبرل تو نہیں ؟کہ اپنے سوا ہر غیر دہشت گرد یا انتہا پسند!
حضرات مسٹران!سے گزارش ہے کہ جاپان پر ایٹم بم کس نے گرایا تھا؟افغانستان کے ملا نے کہ امریکی مسٹر نے ؟ویت نام پر حملہ کر کے لاکھوں انسانوں کو قتل کرنے والے کون تھے؟ خیبر پختون خواہ کے ملا یا نیویارک کے مسٹر؟امریکہ سے لیکر افریقہ تک (بلا مبالغہ)کروڑوںکالوںکو رنگ و نسل کی بنیاد پر قتل کرنے والا کون تھا ؟فلسطینیوں کو بے گھر کرنے ،عزتیں لوٹنے اور سرِبازار قتل کرنے والے کون ہیں عرب کا کوئی ملا یا امریکہ،برطانیہ اورجرمنی کی پشت پناہی پر کھڑا جارح اسرائیل کا مسٹر؟وسط ایشیا میں انسانی سروں کو کاٹ کر خون میں نہلانے والا کون تھا ماسکو کا مسٹر یا بخارا کا ملا؟برما میں روہنگیائی مسلمان بچوں کو بھون کر کھانے والا کون ہے کوئی خراسانی ملا یا برمی مسٹر؟افغانستان کے لاکھوں انسانوں کا قاتل کون ہے ’’لینن کا پوت‘‘ یا کسی امام مسلمؒ کا شاگرد؟شام ،عراق اور مصر میں سرخ بتیاں اور جھنڈے لگائی گاڑیوں اور کنکریٹ اونچی فصیلوں کے ذریعے محفوظ شدہ تھانوں ،کیمپوں اور جیلوں میں حیوانی ہوس کا شکار ہونے والی دس اور پندرہ برس کی بچیاں کن کے ہتھے چڑھ کر حاملہ ہوئیں ؟کیمیائی گیس کے ذریعے مخالفین کو قتل کرنے والے کون تھے اور کون ہیں ؟ایک ہزارمسلمانوں کو امریکیوں کے ہاتھوں بیچنے والے کون تھے ؟عافیہ کو نیلام کرنے والا کون تھاملا کہ مسٹر؟افغانستان کے مسلمانوں کے خون سے کس کے ہاتھ رنگین ہیں ؟ڈاکٹر مرسی کی حکومت گراکر جیلوں میں اخوانیوں کی بہو بیٹیوں کی عزتیں تارتار کرنے والے کون تھے ؟پاکستان کو دولخت کرنے والے کون تھے ؟مسئلہ کشمیر کا ناسور کس کی دین ہے ؟بابری مسجد گرانے والے کون تھے ؟گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کس نے کیا کسی بریلوی ،دیوبندی یا ندوی نے یا وندے ماترم کا وظیفہ ورد کرنے والے مسٹروں نے؟
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر