وجود

... loading ...

وجود
وجود

برطانیہ ٹیکس چوروں کی نئی پناہ گاہ بن جائے گا؟؟

هفته 04 مارچ 2017 برطانیہ ٹیکس چوروں کی نئی پناہ گاہ بن جائے گا؟؟

برطانیہ کی شہریت کا حصول بظاہر بہت مشکل مسئلہ ہے لیکن برطانوی حکومت نے اسے بھی کاروباری اور تجارتی شے بنادیاہے اور اب برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے کئی طریقے موجود ہیں ، مثال کے طورپر اگر آپ برطانیہ میں رجسٹرڈ کسی کمپنی میں 1.24 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہوں تو آپ کی ویزا کی درخواست پر انتہائی تیزی سے کارروائی کی جائے گی جسے فاسٹ ٹریک پروسیسنگ کا نام دیاگیاہے۔یہ برطانیہ کی مکمل شہریت حاصل کرنے کاایک آسان طریقہ ہے۔اس طریقے سے برطانیہ آنے والے اور ڈومیسائل نہ رکھنے والے لوگوں کو ٹیکسوں کے حوالے سے حاصل سہولت سے استفادہ بھی کرسکتے ہیں۔اس طریقہ کار کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ رہیں گے تو برطانیہ میں لیکن ٹیکسوں کے نفاذ کے دوران یہ تصور کیاجائے گا کہ یہ برطانیہ میں نہیں رہتے مثال کے طورپر کے مین جزائر میں رہتے ہیں۔
مائیگرنٹ سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکسوں کے حوالے سے یہ سہولت برطانیہ کو بریگزٹ کے بعد سرمایہ کاری کی مشکلات سے نکالنے میں اہم حربہ ثابت ہوگی۔ دوسری جانب پانامہ کے حوالے سے ٹیکسوں کی عدم ادائیگی کے معاملات کی تحقیقات کرنے والی یورپی یونین کی کمیٹی کاکہناہے کہ اس سہولت کی بنیاد پر برطانیہ جلد ہی دنیا بھر کے ٹیکس چوروں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔اس حکمت عملی کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے دولت مندوں کواپنی دولت لے کر برطانیہ آنے کی ترغیب دینا اور پھر ان کو برطانیہ میں سرمایہ کاری خاص طورپر سرکاری بانڈز وغیرہ جیسی اسکیموں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیناہے۔ماہرین کا کہناہے کہ یہ دوراندیشی نہیں ہے ، ماہرین کاکہناہے کہ ماہر ورکرز کو برطانیہ سے باہر رکھنے اور دولت مندوں کو سرمایہ کاری کے نام پر برطانیہ کی شہریت دینے کی اس حکمت عملی سے برطانیہ کے مسائل کم نہیں ہوں گے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی مائیگریشن آبزرویٹری کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق امیگریشن قوانین میں کی جانے والی تبدیلیوں کے بعد غیر یورپی ممالک سے برطانیہ آنے والے ہنر مند ورکرز اور ماہرین کی تعداد میں کم وبیش دوتہائی کی کمی ہوگئی ہے یعنی غیر یورپی ممالک سے برطانیہ آنے والے ہنر مند ورکرز اور ماہرین کی تعداد اب کم ہوکر 33 فیصد کے قریب رہ گئی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ٹیکس چوروں کو برطانیہ آنے اور یہاں قیام کرنے کی سہولت سے برطانیہ کو کوئی طویل المیعاد فائدہ نہیں پہنچے گا۔اس سے پیداواری منصوبوں پر سرمایہ کاری کا بہت ہی کم امکان ہے اور نہ ہی اس سے برطانیہ میں ماہرین کی کمی کا کوئی حل نکلے گا۔ماہرین کے مطا بق سرکاری بانڈز کی فروخت کبھی بھی اتنا مشکل کام نہیں رہاہے جس کے لیے ٹیکس چوروں کو برطانیہ کی شہریت کالالچ دیا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے صرف ایک فائدہ ہوگا وہ یہ کہ اس سے لندن اور دیگر بڑے شہروں میں پراپرٹی کی قیمتیں آسمان کوچھونے لگیں گی اور برطانوی شہریوں کے لیے اپنے مکان کا مالک بننے کے خواب کی تعبیر کا حصول اور زیادہ مشکل ہوجائے گا۔
مائیگریشن کا نیا اور جدید اصول یہ ہے کہ غریب مائیگرنٹس کا راستہ روکا جائے اور دولت مند ٹیکس چوروں کو اندر آنے کی سہولت دینے کے لیے چور دروازے فراہم کئے جائیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غریب مائیگرینٹس خواہ وہ بے ہنر اور ناخواندہ ہی کیوں نہ ہو اپنی محنت کے ذریعہ ملک کی ترقی میں اپنا ہاتھ بٹاتے ہیں جبکہ دولت مند اپنی دولت کے سہارے ملک کے وسائل میں حصہ بٹاکر حکومت اور کونسلوں کے کاموں کو اور زیادہ مشکل بنادیتے ہیں۔اب اس کے ساتھ ہی برطانیہ میں معاشی سٹیزن کی اصطلاح کے ساتھ ایک نئی کلا س تیزی سے ابھر رہی ہے جو سرمایہ کاری کے ذریعہ برطانوی پاسپورٹ خرید رہے ہیں۔ برطانیہ سرمایہ کاری کی بنیاد پر شہریت کی پیشکش کرنے والا پہلا ملک نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی دنیا کے کئی چھوٹے چھوٹے ممالک ایک مقررہ حد تک سرمایہ کاری کرنے والوں کوشہریت کی پیشکش کرتے رہے ہیں اور اب بھی ان ملکوں میں ایسا قانون موجود ہے جس سے مختلف ممالک کے سرمایہ کار فائدہ اٹھارہے ہیں۔مثال کے طورپر کوئی بھی روسی سرمایہ کار2.1 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے قبرص کی شہریت حاصل کرسکتا ہے اور اس طرح وہ پوری یورپی برادری کا شہری تصور کیاجائے گا اور تمام یورپی ممالک میں قیام کرنے اور کاروبار کرنے کا اہل تصور کیاجائے گا۔
دنیا بھر میں شہریت کو کاروباری شے بنانے کا یہ پہلا مرحلہ ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہوسکتاہے کہ ایک مقررہ رقم خرچ کر کے کسی بھی ملک کاپیدائشی شہری ہونے کاحق حاصل کرنے کاکوئی قانون بھی سامنے آجائے جس کے بعد کسی بھی ملک کے اصل پیدائشی شہری خود کو مائیگرنٹ تصور کرنے پر مجبور ہوجائیں۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا یہ 21ویں صدی کے سرمایہ دارانہ نظام کی پہلی جھلک ہے۔اب چونکہ سرمایہ داری پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اب سرمایہ داروں کے لیے ملکوں کی سرحدوں کی پابندیاں بھی ختم کردی جائیں بس اپنے سرمایہ دار ہونے کاثبوت پیش کریں اور دنیا میں جہاں چاہیں رہائش اختیار کرلیں۔
امیگرینٹس مخالف جذبات ایک طبقاتی حقیقت ہے، اسے مفاد پرست عناصر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے غریبوں ہی کو استعمال کرتے ہیں وہ غریبوں کو امیگرنٹ کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کو درپیش مشکلات جن میں علاج معالجے کی ناکافی سہولتیں، پینے کے پانی کی کمی، جرائم میں اضافہ، امراض میں اضافہ، فحاشی میں اضافہ ،صفائی ستھرائی کے فقدان کے ذمہ دار امیگرینٹس ہیں، یہ نہیں ہوں گے تو وہ سہولتیں بھی اصل شہریوں کو حاصل ہوجائیں گی جو یہ امیگرنٹس حاصل کرلیتے ہیں لیکن ایسا تاثر دینے والے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ اگر امیگرنٹس نہیں ہوں گے تو سڑکوں اور گٹروں کی صفائی جیسے چھوٹے چھوٹے اور غلیظ کام بھی خود ان ہی کو انجام دینا ہوں گے، ہسپتالوں میں ان کی دیکھ بھال کے لیے نرسیں اور معاون عملے کی مناسب تعداد موجود نہیں ہوگی جس کی وجہ سے جان بہ لب مریضوں کو دوا اور دیکھ بھال کے لیے طویل انتظار کرناہوگا اور انتظار کی یہ طویل گھڑی ان کی زندگی کا آخری لمحہ بھی ثابت ہوسکتی ہے، ظاہر ہے کہ اگر مفادپرست عناصر لوگوں کو امیگرنٹس کی ان خدمات سے آگاہ کریں گے تو پھر امیگرنٹ مخالف جذبات کن بنیادوں پر ابھاریں گے۔(بشکریہ الجزیرہ/تلخیص وترجمہ: ایچ اے نقوی)
٭٭


متعلقہ خبریں


اسرائیل کی بدمعاشیاں برطانیا تک پہنچ گئیں وجود - منگل 10 جنوری 2017

اسرائیل نے برطانیہ میں اسرائیل مخالف ایک وزیر کو ہٹانے کے لیے اپنا دباؤ کس طرح استعمال کیا ہے اْس کی سنسنی خیز تفصیلات نے سب کو چونکا دیا ہے۔ یہ تفصیلات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب اسرائیل نے اقوام متحدہ کے حوالے سے بھی نہایت سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ قطر کے مشہور نشریا...

اسرائیل کی بدمعاشیاں برطانیا تک پہنچ گئیں

مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر