وجود

... loading ...

وجود

بھارت کی کئی ریاستوں میں ’’انتخابی موسم ‘‘ مسلمانوں اوردلتوں کو رام کرنے کی کوششیں

هفته 11 فروری 2017 بھارت کی کئی ریاستوں میں ’’انتخابی موسم ‘‘ مسلمانوں اوردلتوں کو رام کرنے کی کوششیں

بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں اسمبلی کے انتخابات آج سے شروع ہونگے جو 7مراحل میں8 مارچ تک جاری رہیں گے جبکہ منی پور میں انتخابات2مرحلوں میں 8 فروری سے شروع ہوگئے ہیں،اگلا مرحلہ 4 مارچ کو منعقد ہوگا۔یہ انتخابات اترپردیش (403 سیٹوں)، پنجاب (117)، گوا (40)، اترکھنڈ (70) اور شمال مشرقی ریاست منی پورمیں 60نشستوں پر ہو رہے ہیں۔منی پور ہر چند کہ چھوٹی ریاست ہے لیکن شورش کے سبب وہاں 2 مرحلوں میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں۔گو ا میں سب سے کم نشستوں پر انتخابات ہیں اس لیے 4فروری کو ابتدائی طور پہ گوا میں انتخابی عمل مکمل کر لیا گیا ہے ۔چیف الیکشن کمیشن نسیم زیدی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخوں اور دوسری تفاصیل کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اتراکھنڈ میں ووٹنگ ایک مرحلے میں ہوگی اور 15 فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔تمام ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی 11 مارچ کو ہوگی۔
یہ ریاستی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اترپردیش اور پنجاب جیسی ریاستوں کے نتائج 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے سمت کا تعین کریں گے۔یہ انتخابات اس لیے بھی اہم ہیں کہ دہلی میں اقتدار میں آنے کے بعد اروند کیجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی پہلی بار پنجاب اور گوا میں انتخابات میں حصہ لیں گے جہاں وہ ایک بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔یہ انتخابات اس لیے بھی دلچسپ ہو گئے ہیں کہ 20 کروڑ سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کی حکمراں جماعت سماج وادی پارٹی آپس کی پھوٹ کا شکار ہے اور جہاں باپ بیٹے آمنے سامنے ہیں۔گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے انتخاب سے متعلق اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ انتخاب ایک سیکولر عمل ہے اور اس میں مذہب کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی امیدوار مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ مانگتا ہے تو اسے نااہل قرار دیا جائے گا۔جبکہ نسیم زیدی نے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔
انتخابات قریب آتے ہی مختلف سیاسی جماعتوںکے رہنمائوں نے جن میں حکمراں بی جے پی کے رہنمابھی شامل ہیں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھارت کے نامور اور طاقتور مدرسوں کے چکر کاٹنا شروع کردیے ہیں، بھارتی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنومیں واقع دارالعلوم ندوۃ العلما کا دنیا کے مشہور تعلیمی مراکز میں شمار ہوتا ہے اور مسلمانوں میں بہت قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔شاید اسی لیے بی جے پی کے علاوہ بھی تمام سیاسی پارٹیاں ندوہ کے وائس چانسلر سے مدد مانگنے کے لیے سب سے پہلے ان کے پاس پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر ستیش چندر مشرا اسی ارادے سے گزشتہ دنوں وائس چانسلر مولانا رابع حسنی ندوی سے ملنے مدرسہ پہنچے تھے تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا جا سکے۔
ندوہ میں 5ہزارطالب علم ہیں۔ پہلے تو انڈونیشیا، ملائشیا اور سعودی عرب سے بھی طالب علم یہاں آتے تھے۔خود کو ندوۃ العلما کا خادم کہنے والے ہارون رشید کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برس سے غیر ملکی طالب علموں کویہاں آنے کے لیے ویزا نہیں دیا جاتا۔ہارون کہتے ہیں کہ ندوے کے علما سیاسی معاملات سے دور رہتے ہیں۔ آج تک صرف ایک بار ندوے کے کسی بھی وائس چانسلر یا مہتمم نے کھل کر کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کی مخالفت کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بعض حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ سے نتائج بہت حد تک متاثر ہوتے ہیں۔
1992 میں جب بابری مسجد شہید گئی، اس وقت یہاں کے وائس چانسلر مولانا علی میاں نے کانگریس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن ظفریاب جیلانی نے ایک دوسرے واقعے کا ذکر کیا جب مولانا علی میاں نے سیاسی مسئلے میں اپنی رائے دی تھی۔جیلانی کے مطابق جس وقت ملائم سنگھ یادو کلیان سنگھ کے ساتھ مل کر انتخابات میں آئے تھے تو مسلمان ان سے کافی ناراض تھے۔لیکن پرسنل لا بورڈ کی ایک میٹنگ کے بعد علی میاں نے باتوں باتوں میں صرف اتنا کہا کہ اس شخص (ملائم سنگھ) کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا، ان کا اتنا کہنا ہی کافی تھا۔
اسلامی تعلیم کا ایک بڑا مرکز دارالعلوم دیوبند بھی ہے۔ اس کا قیام 1866 میں سلطنت برطانیہ کے روز افزوں اثرات اور عیسائی مذہب سے لڑنے کے لیے ہواتھا۔ندوے کے اساتذہ کے مقابلے میں یہاں کے اساتذہ سیاست میں زیادہ دخل رکھتے ہیں۔ لیکن گجرات سے تعلق رکھنے والے مولانا وستانوی کو دیوبند اس لیے چھوڑنا پڑا کیونکہ انھوں نے نریندر مودی کے حق میں بیان دیا تھا۔
بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ لکھنو سے امیدوار ہیں اور انھوں نے گزشتہ روز شیعہ عالم مولانا کلب جواد سے ملاقات کی ہے۔جبکہ حال ہی میں عام آدمی پارٹی کے منیش سیسودیا نے دیوبند کے مولانا خالق سنبھلی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد دیوبند کی طرف سے بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ دیوبند سیاست سے دور رہتا ہے۔
ان کے علاوہ حیدرآباد کا جامعہ نظامیہ بھی مسلمانوں کا ایک قدیمی تعلیمی مرکز ہے۔ انتخابات کا موسم آتے ہی ان تمام مراکز میں سیاسی رہنمائوں کی آمد و رفت بڑھ جاتی ہے۔تاہم فی الحال ستیش چندر مشرا کے علاوہ ابھی دیگر کسی پارٹی کے لیڈر نے مولانا رابع سے ملاقات نہیں کی ہے۔شاید ملائم سنگھ یادو کو وہاں جانے کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ ان دنوں ظفریابجیلانی سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ جیلانی کی رائے بھی مسلم دانشوروں میں اہمیت کی حامل ہے۔ ملائم سنگھ کے وہاں نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ پہلے ہی دیوبند کی حمایت حاصل کر چکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سماجوادی پارٹی کو گزشتہ انتخابات میں مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
عام طور یہ کہا جاتا ہے کہ کانگریس کے لیڈروں کو ندوے جانے یا نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پارٹی اب بھی مکمل طور پر ان کا اعتماد حاصل نہیں کر پائی ہے۔دوسری جانب یہ خیال ظاہرکیا جاتا ہے کہ شیعہ مذہبی رہنما مولانا کلب جواد سے بی جے پی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ کی ملاقات کے بعد شیعہ مسلمانوں کا ووٹ بی جے پی کو جائے گا۔لیکن یہ کہنا توآسان ہے کہ لکھنئو کے مسلمان صرف ظفریاب جیلانی اور مولانا کلب جواد کے کہنے کے مطابق ہی اپنا ووٹ دیں گے،لیکن ایسا ضروری نہیں ہے ،جہاں تک عباس جیلانی کاتعلق ہے تووہ کہتے ہیں کہ اس برادری کا بنیادی مقصد بی جے پی کو روکنا ہے۔ اس کے لیے ووٹنگ سے ایک دن پہلے بھی وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے اور ووٹ اسی کو جائے گا۔
جیلانی کے مطابق لکھنوسے کانگریس کی امیدوار ریتا بہوگنا جوشی ’مقابلے میں نہیں ہیں‘، اس لیے سماج وادی پارٹی کے ابھیشیک مشرا کی حمایت کی جا رہی ہے۔راج ناتھ اور جواد کی ملاقات کو بھی وہ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مسلمان کسی بھی صورت میں بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی کو اگر آپ ٹوئٹر پر تلاش کریں تو کچھ مایوسی اور کچھ فرضی اکائونٹ ہی ہاتھ لگیں گے لیکن جن لوگوں کے بل بوتے پر وہ چار مرتبہ بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ بنیں، ان کے پاس سوشل میڈیا پر گزارنے کے لیے زیادہ وقت نہیں۔یہ سماج کا وہ انتہائی غریب طبقہ ہے جسے دلت کہا جاتا ہے، وہ لوگ جنھیں صدیوں سے بھید بھائو کا سامنا رہا ہے اور جن کی آواز بلند کرنے کا بیڑا مایاوتی نے اٹھا رکھا ہے۔اتر پردیش کی تقریباً بیس فیصد آبادی دلت ہے، اور اس کی ایک بڑی اکثریت مایاوتی کا ووٹ بینک مانی جاتی ہے۔ مایاوتی کی ہمیشہ سے کوشش مسلمانوں اور دلتوں کا ساتھ حاصل کرنے کی رہی ہے۔ ریاست میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً دلتوں کے برابر ہی ہے اور اس مرتبہ مایاوتی نے انھیں اپنی طرف راغب کرنے کے لیے 403 میں سے 97 ٹکٹ مسلمان امیدواروں کو دیے ہیں۔
لیکن مسلمانوں کی محبتوں کے دعویدار اور بھی ہیں، خاص طور پر سماج وادی پارٹی، جس کے بانی ملائم سنگھ یادو کو رام مندر کی تحریک کے دوران مولانا ملائم سنگھ کہا جاتا تھا، اور کانگریس جو بابری مسجد کی مسماری تک زیادہ تر مسلمانوں کی پہلی پسند ہوا کرتی تھی۔ مایاوتی کا کام کرنے کا انداز دوسرے سیاستدانوں سے مختلف ہے۔ ان سے انٹرویو حاصل کرنا تقریباً ناممکن مانا جاتا ہے۔ وہ انتخابی جلسوں میں بھی لکھی ہوئی تقریریں پڑھتی ہیں، کوئی شعلہ بیانی نہیں کرتی، بس تقریر پڑھی ہاتھ ہلایا اور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر دوسرے جلسے کے لیے روانہ ہوگئیں۔ ان کی پارٹی کے ترجمان مشکل سے ہی ٹی وی پر نظر آتے ہیں، انھیں بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے لیکن عام طور پر مانا جاتا ہے کہ وہ ایک موثر ناظم ہیں، ان کے دور اقتدار میں امن و قانون کا سختی سے نفاذ کیا جاتا ہے۔
سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے اتحاد کے بعد ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کا براہ راست نقصان بہوجن سماج کو ہوگا، لیکن ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں، جہاں حلقے چھوٹے ہوتے ہیں اور عام طور پر چند ہزار ووٹوں سے ہار جیت کا فیصلہ ہوجاتا ہے، سہ فریقی مقابلوں میں کوئی پیش گوئی کرنا خطرے سے خالی نہیں۔میڈیا میں اس وقت ذکر سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کا زیادہ ہے، لیکن ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اس دوڑ میں بی ایس پی ’ڈارک ہارس‘ ہے، وہ خاموشی سے دوڑ رہی ہے اور اس سے نظر ہٹانا غلط ہوگا۔
ایک طرف بھارت میں انتخابی شیڈول کااعلان ہونے کے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتوںکے رہنما خواب غفلت سے جاگ اٹھے ہیں اور اب مسلمانوں او ر دلتوں کومنانے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دوسری طرف ان انتخابات میں کالے دھن کے استعمال کے حوالے سے بھی ایک طویل بحث چھڑ گئی ہے اور عام طورپر کہاجارہاہے کہ ان انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر کالا دھن استعمال کیاجائے گا،کیونکہ اس کاحساب کتاب اور آڈٹ کرنے کاکوئی طریقہ کار الیکشن کمیشن یا حکومت کے پاس نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کی زیادہ تر آمدن کے ذرائع کا علم نہیں،انڈیا میں نیشنل الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کا کہنا ہے کہ گزشتہ 11 سال میں سیاسی جماعتوں کی تقریبا 70 فیصد آمدنی نامعلوم ذرائع سے رہی ہے۔حال ہی میں دہلی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2004 سے لے کر مارچ2015 تک تمام قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کی کل آمدنی 11،367 کروڑ روپے تھی جس میں سے تقریبا 30 فیصد آمدنی کے ذرائع کا پتہ دیا گیا ہے۔
بھارت میں موجودہ ضابطے کے مطابق اگر کسی سیاسی جماعت کو کسی شخص یا ادارے سے 20 ہزار روپے سے کم کا چندہ ملتا ہے تو ایسی صورت میں اس شخص یا ادارے کے نام کے اندراج کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران بہت سے ماہرین نے اس ضابطے میں فوری طور پر تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس سے انتخابی اخراجات اور سیاسی جماعتوں کے کام کاج میں مزید شفافیت آ سکے۔سابق چیف الیکشن کمشنر شہاب الدین یعقوب قریشی نے اپنے دور اقتدار میں اس کے متعلق سخت تبصرے بھی کیے تھے۔انھوں نے کہا تھا: ہماری تو کوشش رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں کیش (نقد) لینے کے چلن کو بند کریں مگر اس پر بہت کام کرنا ابھی باقی ہے۔
پنجاب میں اکالی دل اور بی جے پی اتحاد کی حکومت ہے،علاقائی جماعتوں میں سماج وادی پارٹی کا ریکارڈ قدرے حیرت انگیز ہے کیونکہ تازہ رپورٹ کے مطابق سماجوادی پارٹی کی کل آمدن کا 94 فیصد جو 766 کروڑ 27 لاکھ روپے ہے اس کے ذرائع کا علم نہیں جبکہ پنجاب کی اہم پارٹی شرومنی اکالی دل کی 86 فیصد آمدن یعنی 88 کروڑ 6 لاکھ روپے کے ذرائع کا علم نہیں۔تاہم سماجوادی پارٹی ان دنوں باپ بیٹے کے درمیان انتشار کا شکار نظر آتی ہے۔ بھارت میں سیاسی جماعتوں اور انتخابات پر نظر رکھنے والے ان دونوں اداروں کے مطابق نامعلوم ذرائع میں کوپن کی فروخت، تاحیات امداد، اور ریل آف فنڈ سے ہونی والی آمدن وغیرہ بھی شامل ہوتی ہیں۔جبکہ سیاسی جماعتوں کی آمدنی کے معلوم ذرائع میں نقد رقم اور جائیداد، رکنیت کی فیس اور بینک سے ملنے والے منافع وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔


متعلقہ خبریں


استنبول میں جاری پاک-افغان مذاکرات میں ڈیڈلاک وجود - هفته 08 نومبر 2025

پاکستان اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانا افغانستان کی ذمہ داری ہے،پاکستان نے مذاکرات میں ثالثی پر ترکیے اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے، وزیراطلاعات افغان طالبان دوحا امن معاہدے 2021 کے مطابق اپنے بین الاقوامی، علاقائی اور دوطرفہ وعدوں کی تکمیل...

استنبول میں جاری پاک-افغان مذاکرات میں ڈیڈلاک

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت وجود - هفته 08 نومبر 2025

اگر آرٹیکل 243 میں ترمیم کا نقصان سول بالادستی اور جمہوریت کو ہوتا تو میں خود اس کی مخالفت کرتا، میں حمایت اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے،بلاول بھٹوکی میڈیا سے گفتگو آئینی عدالتیں بھی بننی چاہئیں لیکن میثاق جمہوریت کے دوسرے نکات پربھی عمل کیا جائے،جس ...

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت

27 ترمیم کا نتیجہ عوام کے استحصال کی صورت میں نکلے گا،حافظ نعیم وجود - هفته 08 نومبر 2025

اپوزیشن ستائیسویں ترمیم پر حکومت سے کسی قسم کی بات چیت کا حصہ نہ بنے ، امیر جماعت اسلامی جو ایسا کریں گے انہیں ترمیم کا حمایتی تصور کیا جائے گا،مردان میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے ستائیسویں ترمیم پر اپوزیشن حکومت سے کس...

27 ترمیم کا نتیجہ عوام کے استحصال کی صورت میں نکلے گا،حافظ نعیم

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا گرفتار وجود - هفته 08 نومبر 2025

صاحبزادہ حامد رضا پشاور سے فیصل آباد کی طرف سفر کر رہے تھے کہ اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی مقدمہ میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی،قائم مقام چیئرمین کی تصدیق سنی اتحاد کونسل کے چیٔرمین صاحبزادہ حامد رضا کو گرفتار کر لیا گیا۔سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی ...

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا گرفتار

وفاقی کابینہ اجلاس طلب، 27ویں ترمیم کی منظوری کا امکان وجود - جمعه 07 نومبر 2025

27ویں آئینی ترمیم کا ابتدائی مسودہ تیار، آئینی بینچ کی جگہ 9 رکنی عدالت، ججز کی مدت 70 سال، فیلڈ مارشل کو آئینی اختیارات دینے کی تجویز، بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا،ذرائع این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیٔر کم کرکے وفاق کا حصہ بڑھانے، تعلیم و صحت کے شعبے وفاقی حکومت کو دینے ک...

وفاقی کابینہ اجلاس طلب، 27ویں ترمیم کی منظوری کا امکان

قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت 27ویںآئینی ترمیم سے باز آ جائے ، مولانا فضل الرحمن وجود - جمعه 07 نومبر 2025

اپوزیشن سے مل کر متفقہ رائے بنائیں گے،معتدل ماحول کو شدت کی طرف لے جایا جارہا ہے ایک وزیر تین ماہ سے اس ترمیم پر کام کررہا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ ترمیم کہیں اور سے آئی ہے ٹرمپ نے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کرتے کرتے بھارت کے ساتھ دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا،اسرائیل ک...

قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت 27ویںآئینی ترمیم سے باز آ جائے ، مولانا فضل الرحمن

ایم کیو ایم نے بلدیاتی حکومتوں کیلئے اختیارات مانگ لیے وجود - جمعه 07 نومبر 2025

وزیراعظم سے خالد مقبول کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 رکنی وفد کی ملاقات وزیراعظم کی ایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے کو 27 ویں ترمیم میں شامل کرنیکی یقین دہائی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے 27 ویں ترمیم میں بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات دینے...

ایم کیو ایم نے بلدیاتی حکومتوں کیلئے اختیارات مانگ لیے

27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم وجود - جمعه 07 نومبر 2025

اب تک ترمیم کا شور ہے شقیں سامنے نہیں آ رہیں،سود کے نظام میں معاشی ترقی ممکن نہیں ہمارا نعرہ بدل دو نظام محض نعرہ نہیں، عملی جدوجہد کا اعلان ہے، اجتماع گاہ کے دورے پر گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اب تک ستائیسویں ترمیم کا شور ہے اس کی شقیں سامنے نہیں ...

27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم

کراچی میں سندھ حکومت کے ای چالان کا نظام بے قابو وجود - جمعه 07 نومبر 2025

موصول شدہ چالان پر تاریخ بھی درج ،50 ہزار کے چالان موصول ہونے پر شہری نے سر پکڑ لیا پانچوں ای چالان 30 اکتوبر کو کیے گئے ایک ہی مقام پر اور2 دوسرے مقام پر ہوئے، حکیم اللہ شہر قائد میں ای چالان کا نظام بے قابو ہوگیا اور شہری کو ایک ہی روز میں 5 چالان مل گئے۔ حکیم اللہ کے مطابق...

کراچی میں سندھ حکومت کے ای چالان کا نظام بے قابو

27ویں ترمیم وفاق کیلئے خطرہ ، موجودہ حکومت 16 سیٹوں پر بنی ہے،آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے ،پی ٹی آئی وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

پورے ملک میں ہلچل ہے کہ وفاق صوبوں پر حملہ آور ہو رہا ہے، ترمیم کا حق ان اراکین اسمبلی کو حاصل ہے جو مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ، محمود اچکزئی ہمارے اپوزیشن لیڈر ہیں،بیرسٹر گوہر صوبے انتظار کر رہے ہیں 11واں این ایف سی ایوارڈ کب آئے گا،وزیراعلیٰ کے پی کی عمران خان سے ملاقات کیلئے قو...

27ویں ترمیم وفاق کیلئے خطرہ ، موجودہ حکومت 16 سیٹوں پر بنی ہے،آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے ،پی ٹی آئی

27 ویں ترمیم کی منظوری کا معاملہ ،وزیراعظم نے ایاز صادق کو اہم ٹاسک دے دیا وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

اسپیکر قومی اسمبلی نے اتفاق رائے کیلئے آج تمام پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاسشام 4 بجے بلا لیا،ذرائع پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایف ، اتحادی جماعتوں کے چیف وہپس اورپارلیمانی لیڈرز کو شرکت کی دعوت پارلیمنٹ سے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے اتفاق...

27 ویں ترمیم کی منظوری کا معاملہ ،وزیراعظم نے ایاز صادق کو اہم ٹاسک دے دیا

پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

اسد قیصر، شبلی فراز، عمر ایوب، علی نواز اعوان کے وارنٹ گرفتاری جاری انسداددہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے وارنٹ گرفتاری جاری کئے انسداددہشت گردی عدالت اسلام آباد نے تھانہ سی ٹی ڈی کے مقدمہ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئ...

پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم

مضامین
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم وجود هفته 08 نومبر 2025
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم

پاک۔ افغان استنبول مذاکرات کی کہانی وجود هفته 08 نومبر 2025
پاک۔ افغان استنبول مذاکرات کی کہانی

2019سے اب تک 1043افراد شہید وجود هفته 08 نومبر 2025
2019سے اب تک 1043افراد شہید

جموں کے شہدائ۔جن کے خون سے تاریخ لکھی گئی وجود جمعه 07 نومبر 2025
جموں کے شہدائ۔جن کے خون سے تاریخ لکھی گئی

خیالی جنگل راج کا ڈر اور حقیقی منگل راج کا قہر وجود جمعه 07 نومبر 2025
خیالی جنگل راج کا ڈر اور حقیقی منگل راج کا قہر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر