وجود

... loading ...

وجود
وجود

گڈانی کے بارے میں حکومت کی جنبش

هفته 11 فروری 2017 گڈانی کے بارے میں حکومت کی جنبش

بلوچستان کے ساحلی مقام گڈانی میں واقع شپ بریکنگ یارڈ میں مردم کش حادثات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس مقام پر بڑے بڑے جہازوں کی کٹائی کرکے اسکریپ کیا جاتا ہے۔ آئل ٹینکرز اور ایل پی جی کنٹینر توڑنے کے دوران ہولناک حادثات ہوچکے ہیں۔ قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس صنعت سے وابستہ مزدوروں کے تحفظ کا کوئی معقول بندوبست موجود نہیں۔ اس غفلت ، لاپروائی سے ہمہ وقت مزدوروں کی جان دائو پر لگی رہتی ہے۔ کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کو فقط کمانے کی پڑی رہتی ہے۔ یکم نومبر2016ء کے سانحے نے حکومتوں کی توجہ حاصل کرلی۔ شپ بریکنگ یارڈ میں ایک بحری جہاز کو توڑا جارہا تھا اور اس دوران دھماکے ہوئے ، آگ بھڑک اٹھی، جس نے ستائیس محنت کشوں کو بھسم کردیا ، درجنوں بری طرح جھلس گئے۔ ستم یہ ہے کہ آگ پر فوراً قابو پانے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بیدار تو ہوئیں پر یہ بیداری ہمیشہ وقتی ہوا کرتی ہے ۔ کچھ عرصہ گزرتا ہے تو سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے۔ بلوچستان حکومت نے متعلقہ محکموں کے چند ذمہ داروں کو معطل کردیا تھا ،یقینا گرفتاریاں بھی ہوئیں ۔ وزیراعلیٰ نے رپورٹ طلب کرلی تھی جو کچھ عرصہ بعد پیش کردی گئی تھی۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر رانا تنویر کی سربراہی میں قائم کمیٹی گڈانی بھیجی۔ کمیٹی نے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی۔ یہ معاملہ گرم تھا کہ 21دسمبر2016ء کو پھر آتشزدگی ہوئی ۔کوئی نقصان البتہ نہ ہوا۔ اس کے بعد 9 جنوری 2017ء کو ایک اور واقعہ ہوا جس میں پانچ مزدور جاں بحق ہوگئے چنانچہ 2فروری2017ء کو حکومت بلوچستان نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں آئل ٹینکر اور ایل پی جی کنٹینرز توڑنے پر عارضی پابندی عائد کردی اور گڈانی شپ بریکنگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کرلیا۔ اس بابت وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی موجودگی میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں شپ بریکنگ صنعت سے متعلق مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا ۔ حادثات کا تدارک کیسے کیا جائے اس پر غور ہوا ۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ شپ بریکنگ اہم صنعت ہے۔ سینکڑوں افراد اس صنعت سے روزی روٹی کماتے ہیں لیکن محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے انتظامات موجود نہیں، ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی بندوبست نہیں۔ ماحولیات کا بگڑا ہوا مسئلہ الگ موجود ہے۔ چنانچہ اب حکومت بلوچستان نے کچھ جنبش کی ہے۔ آئل ٹینکرز اور ایل پی جی کنٹینرز کی کٹائی پر تا حکم ثانی پابندی رہے گی۔ تاہم پہلے سے لنگر انداز آئل ٹینکرز اور ایل پی جی کنٹینرز کی مکمل صفائی کے بعد کٹائی کی اجازت ہوگی۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ اتھارٹی کے قیام کے لیے ایک ماہ کے اندر قانون سازی کی جائے گی۔ جب تک کمشنر قلات ، ڈپٹی کمشنر لسبیلہ اور متعلقہ اداروں کے حکام اور شپ بریکنگ ایسوسی ایشن کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی۔ یہ کمیٹی گڈانی میں لنگر انداز جہازوں کا از سرنو جائزہ لے گی۔ بریکرز کو اپنے دفاتر گڈانی یا حب میں قائم کرکے ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ کرانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جی ایس ٹی کی مد میں بلوچستان کو آمدنی ہوسکے۔ یہ بھی طے کیاگیا ہے کہ توڑنے کے لیے لائے جانے والے بحری جہاز کھلے سمندر میں لنگر انداز ہوں گے۔ جب متعلقہ اداروں کی جانب سے معائنہ ہوگا اس کے بعد این او سی دی جائے گی۔ یعنی اجازت ملنے کے بعد ہی جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوسکیں گے۔ حفاظتی اقدام کے تحت شاہراہ اور ٹراما سینٹر کی تعمیر، آر ایچ ای سی کی اپ گریڈیشن ، فائر بریگیڈ اسٹیشن کا قیام زیر غور ہے۔مزید برآں ایڈووکیٹ جنرل نے شپ بریکنگ کے لیے نافذ العمل قوانین اور ضوابط سے آگاہ کیا ۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ جہاز توڑنے کے دوران آتشزدگی کی صورت میں ہونیوالے نقصان کی ایف آئی آر ایکسپلوزیو ایکٹ کے تحت درج کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ قرار دے چکے ہیں کہ آئندہ کسی بھی حادثے کی صورت میں این او سی جاری کرنے والے ادارے اور جہاز کے مالک ذمہ دار ہوں گے۔ اور صنعت کار محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنے کے بھی پابند ہوں گے۔ گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت سے بلوچستان کو رتی برابر آمدنی ہورہی ہے، آمدنی میں بلوچستان کو بڑا حصہ لینا چاہیے۔ نیز اس صنعت پر مافیا کا تسلط قائم ہے جو محنت کشوں کا خون پسینہ چوس کر جائز اور ناجائز طریقوں سے کمارہے ہیں۔ مالکوں اور ٹھیکیداروں کے ساتھ ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتائوں کی ملی بھگت بھی قائم ہے۔ آتشزدگی کے مذکورہ بڑے سانحے کے بعد یہ بات بھی کہی گئی کہ اس جہاز میں 200ٹن تیل موجود تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گڈانی کی اس صنعت کے ذریعے پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کا دھندا بھی بڑے پیمانے پر ہورہا ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے۔ حکومت بلوچستان کو یہ پہلو مد نظر رکھنا چاہیے اور حالیہ آتشزدگی میں مالک ، ٹھیکیدار اور باقی وہ لوگ جو کسی نہ کسی طور پر ذمہ دار ہیں کے خلاف لازماًایسی قانونی گرفت ہو کہ جس کے نتیجے میں وہ سزائوں سے بچ نہ پائیں ۔ محض عارضی اقدامات اور چند معطلیوں سے حق ادا نہیں ہوگا۔ نواب زہری گڈانی کی صنعت پر ہمہ پہلو نگاہ رکھیں تاکہ محنت کشوں کی سلامتی یقینی ہو اور اس صنعت سے بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل ہو۔
٭٭


متعلقہ خبریں


حکومت، بیورو کریسی اور تنظیم میں خواتین نظرانداز الیاس احمد - جمعه 10 مارچ 2017

دو روز قبل پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا اور خواتین حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔پاکستان میں بیشتر این جی اوز اور کئی سیاسی جماعتیں خواتین حقوق اور خواتین کو ہر میدان میں اعلیٰ مقام دینے کی باتیں توکرتی ہیںلیکن حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے۔آج ایسی ہی ایک معروف ق...

حکومت، بیورو کریسی اور تنظیم میں خواتین نظرانداز

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر