... loading ...
توبہ توبہ حکومت کا کیا حال ہو گیا ہے؟ حکومت مسلسل اشتہار شائع کررہی ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں، کئی روز سے اشتہار بعنوان ’’چھوٹاخاندان، زندگی آسان‘‘ آرہا ہے ۔مگرمائیں اتنی باغی ہوچکی ہیں کہ وہ اب اپنا دودھ پلانے پر راضی نہیں ہو رہی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حکومت کو علماء کرام کی مدد لینا پڑ رہی ہے۔ کئی روز سے روزانہ اخبارات میں داڑھی والے مذہبی اشخاص کی مدد لی جارہی ہے۔ آدھے آدھے صفحے کے اشتہار شائع ہو رہے ہیں۔ پردہ دار خواتین سے بھی اپیل کروائی گئی ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں۔ مگر مائیں، اب نہیں آتیں قابو، وہ اور ہی عورتیں تھیں، جو بچوں کو اپنا دودھ پلاتی تھیں، آج کی عورت آزاد ہے، ترقی کرنا اس کاخواب اور مشن ہے۔ وہ دودھ پلائے؟ یہ کسی معجزے جیسا ہوگا۔ اورحیرت کیجئے کہ حکومت اتنی بدمعاش ہے کہ دودھ پلانے کی مہم میں سادہ لوح علماء کرام کو لے آئی ہے۔ حکومت دودھ پلانے کے اشتہار میں عاطف اسلم، وسیم اکرم، شان کو کیوں نہیں لائی؟ اور ماہرہ خان، شرمین عبید چنائے یا ثناء میر کو کیوں نہیں لائی؟ حکومت ان عورتوں کو یہاں اس لیے استعمال نہیں کرتی ہے کیونکہ حکومت کو معلوم ہے کہ پاکستانی عوام ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اسی طرح عاطف اسلم ،وسیم اکرم،اورشان کی بات بھی اس معاملے میں نہیں سنیں گے۔ لہٰذا پاکستانی قوم جتنی بھی لبرل ہوجائے بہرحال وہ اندر سے بڑی کٹر مسلمان ہے۔ اس لیے علماء کرام کی خدمات لی گئی ہیں کیونکہ ابھی لوگ عزت کرتے ہیں۔ ماؤں کو دودھ پلانے کی ترغیب دلانے کے لیے علماء کرام کا سہارا لیا گیا۔ کوئی علماء کرام سے پوچھے کہ انہوں نے حکومت سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ حضرت مائیں دودھ پلانا چاہتی کیوں نہیں ہیں؟ دودھ تو جانور بھی اپنے بچوں کو پلاتے ہیں، جب کہ جانوروں کو تو ہم جنگلی کہتے ہیں پھر اشرف المخلوقات کو کیا ہو گیا ہے؟ اس مسئلے کابہت سادہ سا جواب ہے۔ وہ جواب یہ کہ ماؤں کاترقی کرنے اور آزادی کے عقیدے پر ایمان قائم ہوچکاہے۔ اوریہ ا یمان بھی اسی حکومت نے میڈیا کے وسیلے سے بنایاتھا۔ اور یہ ایمان اب تک بنارہی ہے۔ اشتہارمیں درج ہے کہ چھوٹا خاندان زندگی آسان۔ اسی حکومت نے بتایا تھا کہ مرد اور عورت مل کر محنت کریں تو زندگی آسان گزرتی ہے۔ دونوں کو کام کرنا چاہیے، عورت گھر پر کام کرے تو وہ کام نہیں ہوتا، وہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت نے عورتوں کی آزادی کے تحفظ کے لیے اور ان کو رسم و رواج، خاندان سے آزادی دلانے کے لیے کئی سال ڈرامے اورفلمیں بنائی ہیں۔ جن میں پڑھی لکھی نوکری کرنے والی عورتوں کو کامیاب دکھایا گیا، اور گھر پر رک کر بچے پالنے والی عورتوں کو جاہل، مظلوم، ان پڑھ، بے چارگی کی تصویر دکھایا گیا۔ حکومت نے بھی یہ شعور خود امریکا اور یورپ سے سیکھا تھا۔ ہماری حکومت اتنی قابل نہیں تھی کہ خود سے کچھ سیکھ لیتی۔ حکومت نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کے مطابق عورت کو آزادی دی۔ ان کے نوکری کرنے کے ذرائع پیدا کیے۔ ان کو گھر سے باہر تحفظ فراہم کیا جس کے نتیجے میں عورت بیچاری سڑک پر آگئی، عورت نے ملازمت اختیار کرلی۔ اب وہ مسائل حکومت کے سامنے آئے کہ ریاست کو اب تک ادراک ہی نہیں کہ، آنے والے عرصے میں ریاست کے ساتھ ہونے والا کیا ہے؟ جب ایک عورت اور مرد ترقی کو اپنا نصب العین بناتے ہیں۔ توان کی تباہی اور بربادی اسی روز سے ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ مگر یہ احساس ان دونوں کو ہو جائے تو اللہ پاک کا فضل وکرم ہے۔ ورنہ عمومی طور پر مرد اور عورت کو احساس تک نہیں ہوتا۔ ایک عورت جو نوکری کرتی ہے، وہ بچے کو چاہ کر بھی اپنا دودھ نہیں پلا سکتی۔ دودھ پلانے کے لیے عورت کو بار بار پردے میں جانا پڑے گا۔ کسی بینک کے استقبالیہ پرکھڑی لڑکی اگر 6 گھنٹوں میں تین مرتبہ دودھ پلانے چلی گئی؟ تو کیا بینک چلے گا؟ یا اس کا مامتا کا رشتہ چلے گا؟ بینک کہے گا بی بی تم بچہ پال لو ہمیں معاف کرو۔ اب عورت نوکری کیسے چھوڑے؟ وہ تو اسے حکومت نے کئی سالوں کی محنت سے سمجھایا ہے کہ ترقی کرنی ہے، تو نوکری کرنی ہے۔ اب عورت سوچے گی کہ بچہ تو ڈبے کے دودھ سے بھی بڑا ہوجائے گا؟ لہذاوہ ڈبے کا دودھ پانی میں ملا کرفیڈر بچے کے منہ میں ڈال دے گی۔ لیکن جدید سرمایہ داری نظام اس کی اس قدر مت (سوچ) مار دیں گے کہ وہ یہ نہیں سوچے گی کہ یہ دودھ مفت تو نہیں آتا؟ لیکن عورت سے اس کی جدید اشتہاری صنعت نے یہ بات سوچنے کی حس چھین لی ہے۔ وہ نوکری کرے گی اوراپنے بچے کو ڈبے کا دودھ ہی دے گی۔ کیا ڈبے کا دودھ ماں کے دودھ کا متبادل ہوسکتاہے؟ یہ سوال آج کی آزاد عورت کے لیے غیر اہم ہوچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 38 فیصد عورتیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ اب حال ہی میں سپریم کورٹ کے ذریعے معلوم ہوا کہ ڈبے میں دودھ ہے ہی نہیں۔ یہ تو کوئی کیمیکل تھا۔ دودھ نہ پلانے کی سب سے بڑی وجہ عورت کا آزادی پرایمان ہے۔ نوکری نہ کرنے والی عورتیں بھی دودھ نہیں پلاتی ہیں۔ اورکون کہتا ہے عورت کو کہ آسانی اورآزادی دودھ پلانے میں ہے؟ عورت سمجھتی ہے ،آسان زندگی دودھ نہ پلانے میں ہے۔ بچہ بار بار دودھ مانگتا ہے، عورت کو بار بار گوشہ نشین ہو کر اپنا فرض ادا کرنا پڑتا ہے۔ اب، آج کی عورت سب ضروری کام (بازار جانا، TV پر ڈرامے دیکھنا، باہر گھومنا) چھوڑ کربس یہ کرتی رہے؟ کتنا ظالم انسان ہوں نا میں؟ میں کتناغلط سوچتا ہوں؟ آج کی’’ ترقی زدہ‘‘ عورت میرے جیسے لکھاری کے لیے یہی سوچ سکتی ہے۔ اور صدقے جاؤں نیک اور معصوم علماء کرام کے جو یہ تو فتوی دیتے ہیں کہ عورت کاتعلیم حاصل کرنا اسلام میں جائز ہے۔ مگریہ فتوی نہیں دیتے کہ عورت کا محرم کے بغیرسفر تک کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ ماں باپ کا بیٹی کے بالغ ہونے کے بعد پہلا اسلامی فریضہ اس کی شادی ہے۔ اس کی پڑھائی یا نوکری نہیں؟ اور اگر علماء کرام یہ فتویٰ دے بھی دیں تو اب کون سا عورتوں نے مان لیناہے؟ ہائے ہائے کیسا ظلم ہوگیا ہماری نسل سے۔ یہ دن بھی دیکھنے کوملے کہ اسلامی ملک کی مائیں دودھ پلانے پرراضی نہیں؟
ابھی کہاں لوگو! ابھی تو آنے والے 60,70سالوں میں یہاں آبادی کامسئلہ بھی پیدا ہوگا۔ جو عورت نوکری کرے گی، یااعلی تعلیم حاصل کرے گی، وہ عورت کم بچے پیدا کرے گی اور بچوں کودودھ بھی نہیں پلائے گی۔ یہ تحقیق سے ثابت ہے کہ نوکری پیشہ یا اعلی تعلیم یافتہ خواتین کی، اول شادیاں نہیں ہوتیں، اگر شادیاں ہوجائیں تو بچے پیدا نہیں ہوتے۔ اگر بچے ہو ں بھی تو دو یا تین، وہ بھی بہت تیر مارا تو، ورنہ ایک ہی کافی ہوتاہے۔ یہ جو بہت منتوں، مرادوں سے ایک یا دو ہو جاتے ہیں مائیں ان کو بھی اپنادودھ نہیں پلاتیں، یہ مائیں ان کو پیمپر پہناتی ہیں، یہ ان بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ کر جاتی ہیں، یہ مائیں ان کی تربیت سے بالکل فارغ ہوجاتی ہیں البتہ اعلی تعلیم ضرور دلوا سکتی ہیں۔ جب کسی لڑکی کی شادی اعلی تعلیم کے حصول کے بعد، 28سال،32سال کی عمرمیں ہوگی، تو کیا وہ 9 بچے پیدا کرے گی؟ کیا وہ چھ یا سات بچے پیدا کرے گی؟ وہ دو، تین پر ہی الحمد اللہ کہہ دے گی۔ کوئی ان ترقی اور آزادی کی ماری عورتوں سے پوچھے کہ یہ دودھ کاڈبہ ،پیمپر اور ڈے کیئر سینٹر مفت میں آتا ہے؟ جو عورت آزادی اورنوکری کو اپنائے گی وہ عورت سب کچھ کما کر،ان ہی چیز پرخرچ کرے گی۔ اس شب و روز کے نتیجے میں جو عورت کو صحت کے مسائل لاحق ہونگے، ابھی میں اس پر بات نہیں کر رہا، میں نوکری پیشہ عورتوں کو، جن سماجی اوراخلاقی مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے ، ان پر بات نہیں کر رہا، نوکری پیشہ عورتوں کے گھر سے اللہ پاک جو مہمان کی نعمت اٹھا لیتا ہے اس پر بات نہیں کر رہا۔ کسی نوکری کرنے والی خاتون کے گھرمیں مہمان ہفتے کو نہیں آسکتا، کیونکہ ہفتہ کو نوکری پیشہ خواتین گھروں میں واشنگ مشین لگاتی ہیں۔ اور اتوار کو امی کے یا کسی رشتہ دار کی مہمان بنتی ہیں تاکہ ایک دن تو کھانا بچے؟ میں نے خود ایک نوکری پیشہ عورت کو سنا کہ وہ کہہ رہی تھی’’بندہ پوراہفتہ کام کرے تو کیا اتوار کو بھی دوسروں کو کھانے بنا کرکھلائے؟‘‘ اس سے اچھا ہے کہ خود مہمان بن کر کسی گھر چلا جائے؟ یہ اخلاقیات پروان چڑھتی ہیں، جہاں عورت نوکری کرتی ہے۔ آج میں صرف اس پر بات کررہا ہوں کہ مائیں دودھ کیوں نہیں پلارہی ہیں۔ آزادی اورترقی ایک عقیدہ ہے۔ عقیدہ وہ عمل ہوتاہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ بس عقیدے پرایمان ہوتا ہے۔ میرا نوکری کرنے کی تمام خامیاں بتادینے کے باوجود کیا ہوگا؟ جس عورت کا عقیدہ آزادی اور زیادہ ترقی کا ہوچکا ، وہ صرف ایک جملے’’فضول باتیں ہیں سب‘‘ میں اپنے عقیدے پر اپنے ایمان کا ثبوت پیش کردے گی۔ آج پاکستانی حکومت کو احساس ہوا کہ اگر یہ نسل ماں کا دودھ پیے بغیر جوان ہوئی توان کو اتنی بیماریاں لاحق ہونگی، کہ اس کا تصور رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور حکومت کے پاس اتنی بڑی بیمار قوم کے علاج کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس لیے حکومت آج سے ہی اس مسئلے کے آگے بند باندھ رہی ہے۔ مگر دیر ہوگئی حکومت والو! اب قوم کی بیٹیاں کائنات مسخر کرنے، K.2 کی چوٹی سرکرنے، چاند پر کمند ڈالنے، ورلڈکپ فتح کرنے ، گولڈ میڈل لانے، بڑی ڈگریاں لینے، ایوارڈ لانے، ستاروں سے آگے سفر کرنے، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا عزم لے کر نکل چکی ہیں، اور ان کے ساتھ مرد نام کی ایک مخلوق بھی موجود ہے جوسوچ کی سطح تک ان کے غلام بن چکے ہیں، یہ بیٹیاں اب نہ رکیں گی، تم لاکھ علماء کرام کو لے آؤکچھ اثر نہ ہوگا۔ لاکھ بار سپریم کورٹ کہے کہ دودھ کے ڈبوں میں زہر ہے، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم سے پہلے مغرب میں آزادی اورترقی کی قدروں نے مذہب کا یہی حال کیا تھا۔ ان کی عورتیں اور مرد بھی، ایک وقت کے بعد علماء کی بھی سننا چھوڑ گئے تھے۔ ہمارے ہاں بس تھوڑا سا عرصہ رہ گیا ہے۔ جیسے جیسے ہر بچہ اسکول جاکر سائنس میں دلیل اور وجہ پڑھ رہا ہے، وہ دن دورنہیں جب ہر بچہ خدا کے ہونے کی دلیل مانگے گا ، اور خدا دلیل سے نہیں ایمان سے ہے۔ جب معصوم بچہ اسکول میں پڑھتا ہے کہ ہر ردعمل سے پہلے کوئی عمل ہوتا ہے۔ اوراس عمل کو تجربے سے ثابت بھی کیا جانا چاہیے، تو وہ یہ سوال کرے گا ناں کہ’’ اماں حوا علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے کیا تھا؟‘‘ اماں حوا علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے ایمان تھا۔ مگر آپ جناب تو آج بس بچوں کو اسکول بھیج رہے ہیں، ان کے ایمان کی فکر کہاں آپ کو؟ کل ان کے سوالات کا سامنا کرنے اور منہ چھپانے کے لیے تیار ہوجائیں۔ رہی بات ماؤں کا اولاد کو اپنا دودھ پلانے کامسئلہ، توجب تک عورتیں سادہ زندگی اور چادر چار دیواری کو بطور قدر، بطورعقیدہ، بطور ایمان قبول نہیں کرتیں ،ماؤں کادودھ پلانا ممکن نہیں۔
یہ پاکستان ہے۔ یہاں زندگی رقص کرتی تھی،راتیں جاگتی تھیں اور کاروبار پھلتے پھولتے تھے۔ اب دہائیاں بیت گئیں، پاکستان بدل گیا، مگر کل کا پاکستان کیسا تھا اُس میں جھانکنے کے لئے اُس دور کے اشتہارات کی کچھ جھلکیاں دیکھتے ہیں، جو اُس دور کی کاروباری اور سماجی زندگی کا ایک نفسیاتی تاثر ...