... loading ...
امریکا نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کارکن بنوانے کے لیے چوردروازہ پیدا کرلیاہے اورامریکی حکام کے اشارے پر این ایس جی کے سابق چیئرمین جو تنظیم کے موجودہ چیئر مین کی جگہ قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے،انہوں نے ایک نیا مسودہ تیار کیا ہے جس کا مقصد بھارت کو اس تنظیم کا رکن بنانے کی راہ ہموار کرنا اوراس میں پاکستان کی شمولیت کی راہ کو مزید کٹھن بناکر پاکستان کی رکنیت کو ناممکن بنانا ہے، امریکی تنظیم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن (اے سی اے) نے بھی اس مسودے کی مخالفت کرتے ہوئے اس خدشے کی تصدیق کی ہے کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں نئے ارکان کی شمولیت کے لیے تیار کردہ ڈرافٹ بھارت کی شمولیت کی راہ ہموار کرتا ہے مگر اس سے پاکستان کی شرکت کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن (اے سی اے) واشنگٹن کی جانب سے اس حوالے سے بھی خبردار کیا گیا کہ رکنیت کے قوانین آسان کرنے سے عدم پھیلائو کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی میڈیا کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ این ایس جی کے سابق چیئرمین رافیل ماریانو گروسی نے دو صفحوں پر مشتمل دستاویز تیار کی ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ غیر این پی ٹی ممالک جیسے کہ بھارت اور پاکستان کس طرح گروپ کی رکنیت حاصل کرسکتے ہیں۔
رافیل ماریانونے یہ مسودہ یاڈرافٹ ایک ایسے وقت تیار کیاہے جب وہ این ایس جی کے موجودہ چیئرمین سونگ یونگ وان کی جگہ قائم مقام چیئرمین مقرر تھے جبکہ اصولی اور اخلاقی اعتبار سے عارضی طورپر کسی ادارے کی سربراہی سنبھالنے والا فرد صرف ضروری روزمرہ کے معاملات ہی نمٹانے پر اکتفا کرتاہے اور کوئی ایساکام نہیں کرتا جو کسی بھی طرح متنازع ہو یاجس سے متعلقہ تنظیم یاادارے پر کسی بھی طرح جانبداری کاالزام لگ سکتاہو لیکن رافیل ماریانو نے تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض امریکا کی مبینہ خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک ایسی متنازع دستاویز تیار کردی جبکہ اب ان کی تیار کردہ دستاویزات نیم سرکاری اہمیت کی حامل بن گئی ہیں۔تاہم ایک جگہ رافیل ماریانو کی ڈرافٹ کردہ دستاویز میں بھارت کو یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ رکن بننے کی صورت میں غیر این پی ٹی رکن ملک کو دوسرے غیر رکن ملک کی شمولیت کے امکانات کو روکنے سے گریز کرنا چاہیے۔
اے سی اے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیرل کمبال کاکہناہے کہ پاکستان کے پاس اب بھی رافیل ماریانو کے فارمولے پر اعتراض کی گنجائش موجود ہے۔ڈیرل کمبال کے مطابق اس دستاویز کے تحت پاکستان کو رکنیت کے حصول کے لیے ان تمام شرائط کو پورا کرنا ہوگا جو بھارت کو کرنی ہیں لیکن این ایس جی ممالک کے ساتھ سول نیوکلیئر تجارت کا حصہ بننے کے لیے پاکستان کو استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے علیحدہ سے بھی شرائط پورے کرنے ہونگے۔ واضح رہے کہ 48 ملکوں پر مشتمل این ایس جی نیوکلیئر ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے کی تنظیم ہے جسے 1975 میں قائم کیا گیا تھا، انہیں برسوں کے دوران بھارت نے پہلی بار اپنے جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا، اس تجربے میں کینیڈا اور امریکا کی جانب سے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کردہ پلوٹونیئم کا استعمال کیا گیا تھا۔
این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنے کے موجودہ قوانین کے مطابق اس ملک کو جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کرنا پڑتا ہے، جس کے بعد ہی وہ اس خصوصی کلب کا حصہ بن سکتے ہیں اوربھارت ان ممالک میں شامل ہے جس نے تاحال اس پر دستخط نہیں کیے۔اگرچہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی)میں غیر این پی ٹی (معاہدہ جوہری عدم پھیلائو) ممالک کی رکنیت کے لیے باضابطہ اصول مقرر کیے جانے کے لیے رکن ممالک کی بڑھتی ہوئی حمایت پاکستان کے لیے حوصلہ افزا بات ہے لیکن امریکا اور بعض دوسرے مغربی ممالک کی جانب سے بھارت کو اس تنظیم کارکن بنانے کی پے درپے کوششیں پاکستان کے لیے باعث تشویش بھی ہیںکیونکہ عالمی قوتوں کی جانب سے چھوٹے ممالک پر بڑھتا ہوا دبائو بھارت کی خلافِ ضابطہ شمولیت کا راستہ صاف کردے گا۔
جنوبی ایشیا میں ڈیفنس، ڈیٹرنس اور اسٹیبلٹی پر منعقدہ ایک ورکشاپ کے دوران دفتر خارجہ میں تخفیفِ اسلحہ کے ڈائریکٹر جنرل کامران اختر کا کہنا تھا کہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جو مستثنیٰ قرار دیے جانے کے بجائے مروجہ اصول کے مطابق چلنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، تاہم اب بھی چھوٹے ممالک پر دبائو ڈالے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔اس ورکشاپ کا انعقاد اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سینٹر آف انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز (سی آئی ایس ایس) اور لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کی جانب سے کیا گیا تھا۔
این ایس جی ارکان گزشتہ مہینے ویانا اجلاس میں غیر این پی ٹی ممالک کی رکنیت سے متعلق اتفاقِ رائے قائم کرنے میں کامیاب نہیںہوسکے تھے۔اجلاس میں چند ممالک کی جانب سے این پی ٹی کے اصولوں پر عمل کرنے اور ایک بلاک کی جانب سے بھارت کو فوری اس تنظیم کاحصہ بنانے کی خواہش کی وجہ سے این ایس جی کے ارکان دو دھڑوں میں تقسیم رہے۔این ایس جی میں غیر این پی ٹی ممالک کی رکنیت کے لیے معیار کی تشکیل اور چین کے تجویز کردہ دو مراحل پر مبنی حکمت عملی پر حمایت بڑھتی جارہی ہے۔نئے ارکان کی شمولیت کے حوالے سے چین کی تجویز ہے کہ پہلے معیار کا تعین کیا جائے اور پھر رکنیت کے لیے درخواستیں طلب کی جائیں۔کامران اختر کے مطابق انہیں امید ہے کہ این ایس جی ممالک رکنیت کے لیے استثنیٰ قرار دیے جانے والے آپشن کا انتخاب نہیں کریں گے لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ نہ صرف پاکستان کو دھکیلے جانے کے مترادف ہوگا بلکہ جوہری اسلحہ نہ رکھنے والے دیگر ممالک بھی اس پر ایسا محسوس کرسکتے ہیں کہ انہیں جوہری توانائی کے پرامن استعمال سے غیر منصفانہ طور پر روکا گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اب این ایس جی ممالک پر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیاوہ چاہتے ہیں کہ گروپ سیاسی اور کمرشل مفاد کے مطابق چلے یا وہ جوہری عدم پھیلائو کے مقصد کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کی درخواست کو بھارت کے برابر نہیں لیا گیا تو اس سے جنوبی ایشیا کا اسٹریٹجک استحکام کمزور ہوگا۔آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنیٹ افیئرز (اے سی ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل خالد بنوری کے مطابق پاکستان امن کے لیے جگہ پیدا کرنا چاہتا ہے، پاکستان کے ہتھیار خطے میں امن برقرار رکھنے کے لیے ہیں۔دفترِ خارجہ کی ایڈیشنل سیکریٹری تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ این ایس جی میں غیر این پی ٹی ممالک کی رکنیت کا معاملہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام سے جڑا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ غیر این پی ٹی ممالک کی رکنیت کے حوالے سے آج این ایس جی ایک بار پھر دوراہے پر کھڑا ہے، اس مقام پر این ایس جی کا منصفانہ اور غیر امتیازی فیصلہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام اور عالمی جوہری عدم پھیلائو کی کوششوں کے لیے اہم ثابت ہوگا۔انہوں نے اس بات کو بھی دہرایا کہ این ایس جی نے 2008 میں بھی بھارت کو استثنیٰ کی بنیاد پر این ایس جی میں شمولیت کے لیے موزوں امیدوار قرار دے کر عدم پھیلائو کے اصول پر کاربند رہنے کے موقع کو کھودیا تھا۔ ان کے مطابق دنیا کی غیرحساسیت نے ہی بھارت کو پاکستان کے خلاف اس قسم کی پالیسی روارکھنے کا موقع فراہم کیا۔ان کا کہنا تھا کہ دو طرفہ معاملات میں پاکستان اور بھارت پیچھے ہٹتے جارہے ہیں جو کوئی اچھا اشارہ نہیں۔ ورکشاپ میں ’بھارت کے ساتھ کشیدگی‘ کے نام سے ہونے والے سیشن میں اسپیکرز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خطے میں جاری اس کشیدگی پر سرحد کی دونوں جانب موجود سیاسی لیڈرشپ کو حالات کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔سرکاری سطح پر روابط قائم نہ ہونے کی وجہ سے غلط فہمیوں میں اضافے کا امکان بڑھتا رہا اور صورتحال کشیدہ ہوئی۔آئی آئی ایس ایس میں جنوبی ایشیا کے سینئر رکن راہول رائے چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات 2008 میں ہونے والے ممبئی حملے کے بعد سے متاثر ہیں۔انہوں نے جوہری اسلحے کے استعمال کے اشاروں پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کشیدگی میں خاتمے کی امید اس وقت تک بہت کم ہے جب تک دہلی اور اسلام آباد دونوں سمجھوتہ نہیں کرلیتے۔راہوئے رائے چوہدری نے دونوں ممالک کے اعتماد میں اضافے کے لیے 8 نکاتی پروپوزل تیار کیا جس کے بعد دونوں ممالک مذاکرات کی واپسی پر آ سکتے ہیں۔ان کی تجاویز میں بیان بازی میں کمی ، جنگ بندی کا اطلاق، میڈیا کی جانب سے ذمہ دارانہ رویئے کا مظاہرہ، ممبئی اور پٹھان کوٹ میں مشتبہ افراد کے ٹرائل کی جلد تکمیل، کشمیر میں بھارت کی جانب سے سیکورٹی فورسز کی زیادتیوں کا خاتمہ، پاکستان کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کے دائرہ کار میں اضافہ، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دہلی کی پرامن قرارداد کی یقین دہانی اور خفیہ ایجنسیوں میں رابطے جیسے بیک چینل ڈائیلاگ کا آغاز شامل ہیں۔سابق سیکریٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ’براہ راست مذاکرات‘ کی اہمیت پر زور دیا، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بیک چینل رابطے سے مزید غلط فہمیاں پھیل سکتی ہیں اور دونوں ملکوں کے سربراہان کو سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔آئی آئی ایس ایس کے سینئر رکن برگ بین بیری نے اس کشیدگی میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے اثرورسوخ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر یا بھارت میں غیر ریاستی اداکاروں کی جانب سے ہونے والے حملے دونوں جانب کی فوجی کارروائیوں کو تیز کردیں گے۔تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے تعلقات میں بہتری کے لیے رویوں میں لچک کی اہمیت پر زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال کو سیاسی طور پر حل کیے جانے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن بھارتی قیادت کا مذاکرات کے لیے راضی نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میںبھارت کی جانب سے گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کی درخواست کی گئی تھی، جس کے بعد پاکستان نے بھی رکنیت کے لیے باقاعدہ درخواست دی، امریکا سمیت کئی طاقتور مغربی ممالک کی جانب سے بھارت کے گروپ کا حصہ بننے کی حمایت کی گئی تاہم چین اور دیگر 6 ممالک نے بھارت کی رکنیت پر اعتراض کیا۔بھارت رواں سال جون میں سیول میں ہونے والے این ایس جی کے آخری مکمل سیشن کے دوران گروپ کا حصہ بننے کے لیے پرامید تھا مگر اس اجلاس کا اختتام بھی نئی دہلی کی درخواست پر کسی فیصلے کے بغیر ہوگیا۔کئی ممالک کی جانب سے بھارت کے جوہری توانائی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کے بغیر گروپ میں شمولیت پر اعتراض کیا گیا جبکہ چین کی جانب سے نئی دہلی کی رکنیت کو روکنے کی بھرپور کوشش سامنے آئی۔سیول میں ہونے والے اجلاس کے بعد گروپ کے نئے چیئرمین کی جانب سے نئے ممبران کی شرکت کے لیے دستاویز تیار کی گئی، اس دستاویز میں انہوں نے پاکستان ہندوستان کی کشیدگی کا بھی ذکر کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری سیاسی وجوہات رکنیت کو روکنے کی اصل وجہ ہیں۔دوسری جانب ڈیرل کمبال اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چیئرمین کا پیش کردہ فارمولا بھارت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ رکنیت کے ضروری اقدامات کے مکمل ہونے کا دعویٰ کرے، جس سے بھارت کی رکنیت تک رسائی آسان ہوجائے گی جبکہ پاکستان اس حوالے سے ایک الگ مقام پر رہ جائے گا۔اس دستاویز کے تحت غیر این پی ٹی ملک کو اس بات کا اعلان کرنا ہوگا کہ اس نے موجودہ اور مستقبل میں ہونے والی سویلین نیوکلیئر سہولت کو غیر شہری نیوکلیئر سہولت سے واضح طور پر علیحدہ کردیا ہے اور وہ مستقبل میں بھی اس پر کاربند رہے گا۔اس کے علاوہ نئے رکن کو این ایس جی کو اس بات کا یقین بھی دلانا ہوگا کہ وہ بین الاقوامی جوہری توانائی کی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی تمام موجودہ اور مستقبل میں آنے والی شہری جوہری سہولیات کو سمجھتا ہے۔درخواست گزار کو این ایس جی کو اس بات کا بھی یقین دلانا ہوگا کہ وہ آئی اے ای اے کے معاہدے کو لاگو کرچکا ہے، جو تمام شہری سہولتوں کا احاطہ کرتا ہے اور آئندہ آنے والی شہری سہولت جو آئی اے ای اے کی جانب سے واضح کی جائیں گی، ان کی بھی حفاظت کرے گا۔
میری اپنی فیملی فوج میں ، فوج سے میری کوئی دشمنی نہیں بلکہ فوج کو پسند کرتا ہوں، فوج میری ، ملک بھی میرا ہے اور شہدا ہمارے ہیں،جس چیز سے مُلک کو نقصان ہو رہا ہو اُس پر تنقید کرنا فرض ہے ، غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بند ہونا چاہیے، افغانستان سے کشیدگی میں دہشت گردی بڑھنے کا خطرہ ہے...
ماضی میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا اب بھی کرسکتا ہوں، معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، افغان قیادت سے رابطے ہوئے ہیں،معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے افغان وزیر خارجہ کے کشمیر پر بیان پر واویلا کرنے کی بجائے کشمیر پر اپنے کردار کو دیکھنا چاہئے،کیا پاک...
انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے بانی پی ٹی آئی کی بہن عدالت میں پیش نہیں ہوئیں، حاضری معافی کی درخواست مسترد کردی 26 نومبر احتجاج کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے علیمہ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا۔انسداد دہشت گ...
چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں بچی، کارروائی قانونی دائرے میں رہے گی، گرفتاری ہر صورت ہو گی خود کو قانون کے حوالے کریں، زخمی ہیں تو ریاست طبی سہولیات فراہم کرے گی، پولیس ذرائع پولیس نے صرف ایک دن کی روپوشی کے بعد تحریک لبیک کے امیر حافظ سعد رضوی اور انکے بھائی انس رضوی کا سراغ ل...
میرے پاس تمام حقائق آ گئے ہیں، علی امین گنڈاپور مستعفی ہو چکے اس حوالے سے گورنر کے خط سے فرق نہیں پڑتا گورنر فیصل کریم نے حلف نہ لیا تو اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی حلف لیں گے، چیف جسٹس نے فیصلہ سنا دیا ہائی کورٹ نے گورنر خیبرپختونخوا کوآج شام چار بجے تک نومنتخب وزی...
پرچی سے وزیر اعلیٰ نہیں بنا، محنت کر کے یہاں پہنچا ہوں، نام کے ساتھ زرداری یا بھٹو لگنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا،خیبرپختونخواہ میں ہمارے لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر آپریشن نہیں ہوگا بانی پی ٹی آئی کو فیملی اور جماعت کی مشاورت کے بغیر ادھر ادھر کیا تو پورا ملک جام کر دیں گے، ...
سیکیورٹی اداروں نے کرین پارٹی کے کارکنان کو منتشر کرکے جی ٹی روڈ کو خالی کروا لیا، ٹی ایل پی کارکنوں کی اندھا دھند فائرنگ، پتھراؤ، کیل دار ڈنڈوں اور پیٹرول بموں کا استعمال کارروائی کے دوران 3 مظاہرین اور ایک راہگیر جاں بحق، چالیس سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی،شہر...
سربراہ سعد رضوی مذاکرات کیلئے تیار تھے،مظاہرین سے بات چیت کیوں نہیں کی؟ امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین پر پولیس فائرنگ اور بہیمانہ تشدد کی پرزورمذمت کی ہے اور اسے ظالمانہ، انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ قرار دیا ہے۔ منصورہ سے جاری بیا...
حکومت نے ظالمانہ اقدام اٹھایا، واقعہ کی شفاف تحقیقات کی جائیں،امیرجماعت سربراہ سعد رضوی مذاکرات کیلئے تیار تھے،مظاہرین سے بات چیت کیوں نہیں کی؟ امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین پر پولیس فائرنگ اور بہیمانہ تشدد کی پرزورمذمت کی ہے اور ا...
امریکی صدرٹرمپ اور مصری صدر سیسی کی خصوصی دعوت پر وزیرِاعظم شرم الشیخ پہنچ گئے وزیرِاعظم وفد کے ہمراہ غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میںشرکت کریں گے شرم الشیخ(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیرِاعظم محمد شہباز شریف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی خصوصی دعوت پر شرم ال...
ٹی ایل پی کی قیادت اورکے کارکنان پر پولیس کی فائرنگ اور شیلنگ کی شدیدمذمت کرتے ہیں خواتین کو حراست میں لینا رویات کے منافی ، فوری رہا کیا جائے،چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ مہاجر قومی موومنٹ (پاکستان) کے چیئرمین آفاق احمد نے تحریک لبیک پاکستان کے مارچ پر پولیس کی جانب سے شیلنگ اور...
نیو کراچی سندھ ہوٹل، نالہ اسٹاپ ، 4 کے چورنگی پر پتھراؤ کرکے گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے پولیس کی شہر کے مختلف مقامات پر دھرنے اور دکانیں بند کرنے سے متعلق خبروں کی تردید (رپورٹ : افتخار چوہدری)پنجاب کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی ٹی ایل پی نے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی ...