وجود

... loading ...

وجود

حکومت کے بے لگام قرضے،قومی آمدن کا 66فیصد سودخور ڈکار گئے

پیر 26 دسمبر 2016 حکومت کے بے لگام قرضے،قومی آمدن کا 66فیصد سودخور ڈکار گئے

موجودہ حکومت کی جانب سے آنکھ بند کر کے لیے جانے والے بھاری ملکی اورغیر ملکی قرضوں کی وجہ سے ملک کی معیشت اور قومی وسائل پر پڑنے والے منفی نتائج اب نظر آنا شروع ہوگئے ہیں اور اب یہ ظاہر ہونا لگاہے کہ ان قرضوں کی وجہ سے اس ملک کے عوام کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
ملک پر قرضوں کے بھاری بوجھ کی وجہ سے ملکی وسائل پر پڑنے والے سنگین منفی نتائج کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ خود حکومت کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواںمالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی سے ستمبر کے دوران میں عوام پر عاید کردہ بھاری ٹیکسوں کے ذریعہ جمع ہونے والی رقم کا دوتہائی حصہ ملک پر واجب الادا سود یا سروسز اسے جوبھی نام دے لیں کی ادائیگی پر خرچ ہوگئی ،اور 34 فیصد سے بھی کم رقم خزانے میں باقی بچی ۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی تاستمبر کے دوران میں 414 ارب یعنی 4کھرب 14 ارب روپے قرضوں پر سود یا سروسز کی مد میں ادا کیے گئے۔اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران میں ٹیکسوں کی مد میں مجموعی طورپر 625 ارب روپے یعنی6 کھرب 25 ارب روپے جمع کیے جاسکے تھے جس میں سے کم وبیش 66 فیصد رقم قرضوں پر سود کی نذر کرنا پڑی۔
سود یاسروسز کی مدمیں ادا کی جانے والی اس رقم میں سے 392.7 ارب روپے یعنی 3 کھرب92 ارب 70 کروڑ روپے ملکی قرضوں پر منافع یا سود کی مد میں ادا کیے گئے جو سود کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کا کم وبیش94.9 فیصد حصہ بنتاہے، جبکہ اس مدت کے دوران میں غیر ملکی قرضوں کی مدمیں 21.6 ارب روپے یعنی 21ارب 60 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں یہ اعتراف کیاگیاہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی اور غیرملکی ذرائع سے قرض حاصل کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے اور اگر ملکی وسائل میں قابل ذکر اضافے کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہوئی تو آگے چل کر یہ قرضے اور ان پر واجب الادا سود کی رقم ہمارے گلے میں ہڈی بن کر اٹک سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں یہ بھی اعتراف کیاگیاہے کہ قرضوں پر سود کی اونچی شرح ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ اور ملکی وسائل پر بڑا بوجھ ہے۔قرضوں پر سود یامنافع کی اونچی شرح کی وجہ سے ایک طرف ملک کے ترقیاتی منصوبے متاثر ہورہے ہیں اور وسائل کی کمی کی وجہ سے حکومت کو بجٹ میں اعلان کردہ ترقیاتی منصوبوں میں بار بار کٹوتی کرنے پر مجبور ہونا پڑتاہے جس کااندازہ پنجاب میں میٹرو اور اورنج لائن منصوبوں کا خرچ پورا کرنے کیلیے تعلیم اور صحت کے بجٹ میںمبینہ طورپر کی گئی بھاری کٹوتیوں سے لگایاجاسکتاہے۔دوسری جانب سود کی مدمیں بھاری ادائیوںں کی وجہ سے ملک کے مالی خسارے میں بھی مسلسل اضافہ ہورہاہے اورحکومت کی جانب سے عوام سے رقم کی وصولی کے لیے اختیار کیے گئے نت نئے ہتھکنڈوں جن میں پیٹرول ،پیٹرولیم کی مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے مالی خسارے کا یہ جن قابو میں نہیں آرہاہے۔
اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حکومت اب تک مجموعی طورپر ایک کھرب روپے مالیت کے قرضے حاصل کرچکی ہے ،جس کی وجہ سے ملک میں مالیاتی خلیج میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے 2015-16 کے دوران میں یعنی گزشتہ مالی سال کے دوران میں قرضوں پر سود کی مد میں مجموعی طورپر 12 کھرب 63 ارب روپے ادا کیے تھے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکس وصولی کی مجموعی مالیت 31 کھرب 12 ارب روپے کے مساوی تھی جبکہ مالیاتی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس سال حکومت کو گزشتہ سال کے مقابلے میں سود کی مد میں زیادہ رقم اداکرنا پڑے گی ،کیونکہ اس سال حکومت نے گزشتہ سال کی نسبت زیادہ رقم کے قرض حاصل کیے ہیں۔ ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ اب اگر حکومت قرض لینا بالکل بند کردے اور اگلے 10 سال تک کوئی قرض نہ لے تو بھی ملک پر واجب الادا قرضوں پر سود کی ادائی کاسلسلہ جاری رہے گا اور اس دوران آنے والی ہر حکومت کو قرضوں پر سود کی مد میں اس سے کہیں زیادہ رقم ادا کرتے رہنے پر مجبور ہونا پڑے گا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی اب تک لیے گئے قرضوں پر بھی سود اور سروسنگ کی رقم واجب الادا ہوتی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی پہلے سے لیے گئے بہت سے قرضوں کی مدت پوری ہونے کی صورت میںان کی ادائی بھی قومی خزانے پر بھاری بوجھ ثابت ہوگی اوران کی ادائی کے لیے حکومت کو لامحالہ نئے قرضوں کا طوق گلے میں ڈالنے پر مجبور ہونا پڑے گا جبکہ اس دوران ٹیکس وصولی کی مد میں بہت زیادہ فرق پڑنے کی بظاہر کوئی توقع نظر نہیں آتی۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت ملک کے زرمبادلے کے ذخائر میں اضافہ کرنے کاجو ڈھنڈورا پیٹ کر اس کا کریڈٹ اپنے سر لینے کی کوشش کررہی ہے وہ زرمبادلہ ملکی وسائل سے جمع نہیں ہوا بلکہ حکومت کے پاس موجود 27 ارب ڈالر مالیت کے زرمباد لہ کے ذخائر کی تمام رقم غیر ملکی قرض سے حاصل ہونے والی رقم ہے، اگر یہ قرض نہ ملتے تو اس وقت ملک کے پاس زرمبادلہ نام کی پھوٹی کوڑی بھی نہ ہوتی۔غیر ملکی قرضوں کے علاوہ حکومت ملکی بینکوں اوردیگر مالیاتی اداروں سے بھی 8 کھرب روپے سے زیادہ مالیت کے قرض حاصل کرچکی ہے جن پر سود یا منافع ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کے 50 فیصد سے بھی زیادہ ہوتاہے۔
ایک طرف حکومت کو ملک پر قرضوں کے بوجھ کے سبب سود اور سروسز کی مد میں قیمتی زرمبادلہ ادا کرنا پڑرہاہے دوسری جانب ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے والے ادارے بھی منافع اور اصل رقم کی مد میں بھاری زرمبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ 5 ماہ کے دوران یعنی جولائی سے نومبر کے دوران ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی اداروں نے منافع اور اصل رقم کی مد میں مجموعی طورپر 591 ملین ڈالر یعنی59 کروڑ10 لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیے ،جبکہ اس مدت کے دوران ملک میں مجموعی طورپر 460 ملین ڈالر یعنی46 کروڑڈالر کے مساوی رقم لائی گئی اس سے ظاہرہوتاہے کہ اس مدت کے دوران بیرون ملک منتقل کی گئی رقم ملک میں لائے جانے والے زرمبادلہ کی رقم سے بھی28 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ حکومت کے ان دعووں کے برعکس کہ بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آکر سرمایہ کاری کررہے ہیں اور اس طرح بھاری زرمبادلہ ملک میں آرہاہے گزشتہ 5 ماہ کے دوران ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کی شرح میں45 فیصد تک کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ملکی خزانے پر دبائو میں اضافہ ہواہے۔
ملکی خزانے کی یہ صورتحال حکومت خاص طورپر ہمارے وزیر خزانہ کی فوری توجہ کی متقاضی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت آمدنی اور خرچ میں توازن پیدا کرنے کے ساتھ ہی برآمدات کی راہیں تلاش کرے تاکہ ملک کے زرمبادلے کے ذخائر پر بڑھتاہوادبائو کم کیا جاسکے کیونکہ اس وقت ہماری برآمدات کی صورتحال نہ صرف یہ کہ اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ برآمدات میںمسلسل کمی تشویشناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔


متعلقہ خبریں


پاک فوج کا قندھار، کابل میں فضائی حملہ وجود - جمعرات 16 اکتوبر 2025

افغان طالبان کے کئی بٹالین ہیڈ کوارٹر تباہ،فوج نے ہیڈکوارٹر نمبر 4 اور 8 سمیت بارڈر بریگیڈ نمبر 5 کے اہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا، تمام اہداف باریک بینی سے منتخب کئے،سیکیورٹی ذرائع پاکستان نے صوبہ قندھار اور کابل میں خالصتاً افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پر کارروائ...

پاک فوج کا قندھار، کابل میں فضائی حملہ

عمران خان نے احتجاج کی کال دیدی،مرید کے واقعے پرتحقیقات کا مطالبہ وجود - جمعرات 16 اکتوبر 2025

جوڈیشل کمیشن قائم کرکے آئی جی اسلام آباد اور محسن نقوی کو شامل کیا جائے، امن صرف بات چیت سے آتا ہے،ہم اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ ہوگئے ہیں،سب کو اس ملک کیلئے کھڑا ہونا چاہیے پیرول پر رہا کیا جائے، پاک افغان کے درمیان امن کراسکتا ہوں،دو مسلم اور ہمسایہ ممالک میں لڑائی کسی کے مف...

عمران خان نے احتجاج کی کال دیدی،مرید کے واقعے پرتحقیقات کا مطالبہ

بھارتی اشتعال انگیزی سے امن کوسنگین خطرات ہیں،پاک فوج وجود - جمعرات 16 اکتوبر 2025

دنیا بھارت کو سرحد پار دہشت گردی کا حقیقی چہرہ اور علاقائی عدم استحکام کا مرکز تسلیم کرتی ہے غیرضروری گھمنڈ اور غیر مناسب بیانات شہرت پر مبنی جارحانہ ذہنیت کو جنم دے سکتے ہیں ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دنیا بھارت کو سرحد پار دہشت گردی کا حقیقی چہرہ اور علاقائی عدم استحکام کا...

بھارتی اشتعال انگیزی سے امن کوسنگین خطرات ہیں،پاک فوج

تحریک لبیک کیخلاف کریک ڈاؤن کی تیاریاں، منتظمین کی نشاندہی، فہرست تیار وجود - جمعرات 16 اکتوبر 2025

قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ڈیٹا فراہم ، کال ڈیٹا ریکارڈ سے ماسٹر مائنڈز کی شناخت ہوگئی ملک گیر نیٹ ورک اور کمانڈ پوائنٹس کی نشاندہی،بڑے شہروں میں چھاپوں کی منصوبہ بندی مکمل مذہبی جماعت کے پرتشدد احتجاج کے منتظمین کی نشاندہی کرنے کے بعد تمام مشتعل عناصر کی فہرست تیار کر لی ...

تحریک لبیک کیخلاف کریک ڈاؤن کی تیاریاں، منتظمین کی نشاندہی، فہرست تیار

فوج کا دشمن نہیں ہوں، بطور سیاستدان پالیسی پر تنقید کرتا ہوں ، عمران خان وجود - بدھ 15 اکتوبر 2025

میری اپنی فیملی فوج میں ، فوج سے میری کوئی دشمنی نہیں بلکہ فوج کو پسند کرتا ہوں، فوج میری ، ملک بھی میرا ہے اور شہدا ہمارے ہیں،جس چیز سے مُلک کو نقصان ہو رہا ہو اُس پر تنقید کرنا فرض ہے ، غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بند ہونا چاہیے، افغانستان سے کشیدگی میں دہشت گردی بڑھنے کا خطرہ ہے...

فوج کا دشمن نہیں ہوں، بطور سیاستدان پالیسی پر تنقید کرتا ہوں ، عمران خان

پاک افغان کشیدگی ،مولانافضل الرحمن کی ثالثی کی پیشکش وجود - بدھ 15 اکتوبر 2025

ماضی میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا اب بھی کرسکتا ہوں، معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، افغان قیادت سے رابطے ہوئے ہیں،معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے افغان وزیر خارجہ کے کشمیر پر بیان پر واویلا کرنے کی بجائے کشمیر پر اپنے کردار کو دیکھنا چاہئے،کیا پاک...

پاک افغان کشیدگی ،مولانافضل الرحمن کی ثالثی کی پیشکش

26نومبر احتجاج، علیمہ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم وجود - بدھ 15 اکتوبر 2025

انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے بانی پی ٹی آئی کی بہن عدالت میں پیش نہیں ہوئیں، حاضری معافی کی درخواست مسترد کردی 26 نومبر احتجاج کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے علیمہ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا۔انسداد دہشت گ...

26نومبر احتجاج، علیمہ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم

تحریک لبیک امیرسعد اور انس رضوی کا سراغ مل گیا، پولیس کا گھیرا تنگ وجود - بدھ 15 اکتوبر 2025

چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں بچی، کارروائی قانونی دائرے میں رہے گی، گرفتاری ہر صورت ہو گی خود کو قانون کے حوالے کریں، زخمی ہیں تو ریاست طبی سہولیات فراہم کرے گی، پولیس ذرائع پولیس نے صرف ایک دن کی روپوشی کے بعد تحریک لبیک کے امیر حافظ سعد رضوی اور انکے بھائی انس رضوی کا سراغ ل...

تحریک لبیک امیرسعد اور انس رضوی کا سراغ مل گیا، پولیس کا گھیرا تنگ

نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی آج حلف اٹھائیں گے ،پشاور ہائیکورٹ کا گورنر کو حکم وجود - بدھ 15 اکتوبر 2025

میرے پاس تمام حقائق آ گئے ہیں، علی امین گنڈاپور مستعفی ہو چکے اس حوالے سے گورنر کے خط سے فرق نہیں پڑتا گورنر فیصل کریم نے حلف نہ لیا تو اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی حلف لیں گے، چیف جسٹس نے فیصلہ سنا دیا ہائی کورٹ نے گورنر خیبرپختونخوا کوآج شام چار بجے تک نومنتخب وزی...

نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی آج حلف اٹھائیں گے ،پشاور ہائیکورٹ کا گورنر کو حکم

سہیل آفریدی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا منتخب، اپوزیشن کابائیکاٹ وجود - منگل 14 اکتوبر 2025

پرچی سے وزیر اعلیٰ نہیں بنا، محنت کر کے یہاں پہنچا ہوں، نام کے ساتھ زرداری یا بھٹو لگنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا،خیبرپختونخواہ میں ہمارے لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر آپریشن نہیں ہوگا بانی پی ٹی آئی کو فیملی اور جماعت کی مشاورت کے بغیر ادھر ادھر کیا تو پورا ملک جام کر دیں گے، ...

سہیل آفریدی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا منتخب، اپوزیشن کابائیکاٹ

تحریک لبیک کیخلاف رات کے اندھیرے میں آپریشن (تصادم میں ایس ایچ اوسمیت 5 افراد جاں بحق، 48 اہلکار زخمی) وجود - منگل 14 اکتوبر 2025

سیکیورٹی اداروں نے کرین پارٹی کے کارکنان کو منتشر کرکے جی ٹی روڈ کو خالی کروا لیا، ٹی ایل پی کارکنوں کی اندھا دھند فائرنگ، پتھراؤ، کیل دار ڈنڈوں اور پیٹرول بموں کا استعمال کارروائی کے دوران 3 مظاہرین اور ایک راہگیر جاں بحق، چالیس سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی،شہر...

تحریک لبیک کیخلاف رات کے اندھیرے میں آپریشن (تصادم میں ایس ایچ اوسمیت 5 افراد جاں بحق، 48 اہلکار زخمی)

حکومت نے ظالمانہ اقدام اٹھایا، واقعہ کی شفاف تحقیقات کی جائیں،امیرجماعت وجود - منگل 14 اکتوبر 2025

سربراہ سعد رضوی مذاکرات کیلئے تیار تھے،مظاہرین سے بات چیت کیوں نہیں کی؟ امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین پر پولیس فائرنگ اور بہیمانہ تشدد کی پرزورمذمت کی ہے اور اسے ظالمانہ، انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ قرار دیا ہے۔ منصورہ سے جاری بیا...

حکومت نے ظالمانہ اقدام اٹھایا، واقعہ کی شفاف تحقیقات کی جائیں،امیرجماعت

مضامین
بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک

دُکھ ہے ۔۔۔ وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
دُکھ ہے ۔۔۔

بھارتی و افغانی، باہم شیروشکر وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
بھارتی و افغانی، باہم شیروشکر

پاکستان میں معاشی بحران:وجوہات، اثرات اور حل وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
پاکستان میں معاشی بحران:وجوہات، اثرات اور حل

آپ کی پہچان آپ کا دماغ ہے! وجود بدھ 15 اکتوبر 2025
آپ کی پہچان آپ کا دماغ ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر