... loading ...
مہذب معاشروں میں پولیس کو کرمنل جسٹس سسٹم کاچوکیدار تصور کیاجاتاہے اورپولیس کی بنائی ہوئی تحقیقاتی رپورٹوں کی بنیاد پر اہم ملزمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام ہی ممالک کی پولیس کوکچھ صوابدیدی اختیارات بھی دئے جاتے ہیں جن میں سے ایک اختیار اس بات کابھی ہے کہ کوئی بھی پولیس افسر یااہلکار کسی بھی شخص کو روک کر پوچھ گچھ کرسکتاہے اور اگر ضروری ہوتو اس کی تلاشی بھی لے سکتاہے ،لیکن کسی بھی شخص کو روک کر پوچھ گچھ کرنے اور تلاشی لینے کا یہ اختیار اس بات سے مشروط ہے کہ متعلقہ شخص کی نقل وحرکت مشکوک ہو اور پولیس اہلکار کو یقین کی حد تک اس بات کا شبہ ہو کہ وہ جس شخص کو تلاشی اور پوچھ گچھ کے لیے روک رہاہے وہ جرائم پیشہ فرد یا ان کاآلہ کار ہوسکتاہے۔دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی پولیس کو یہ صوابدیدی اختیار حاصل ہے لیکن ہمارے ملک کے گلی کوچوں ، بازاروں اور چوراہوں میں پولیس اہلکار اپنے ان اختیارات کا جس بہیمانہ طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ان اختیارات کو غریب شہریوں کی جیبیں خالی کرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اس نے پورے پولیس کے نظام ہی کو مشکوک اور پوری پولیس فورس کو بدنام کرکے رکھ دیاہے۔
دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں پولیس اہلکار عام طورپر تنہا ہی ڈیوٹی دیتے ہیں اور اس ڈیوٹی کے دوران میں بعض اوقات ایسے حالات پیداہوجاتے ہیں کہ پولیس اہلکار کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے ،اس لیے پولیس اہلکار ایسی صورتحال پیش آنے کی صورت میں اپنے یہ اختیارات استعمال کرتاہے،اب ایسی صورت حال میں پولیس افسر کی اپنی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کسی کی صرف تلاشی لے، یا اپنا اسلحہ اٹھا کر اسے تلاشی دینے پر مجبور کرے یا اسے گرفتار کرے یا اسے فرار سے روکنے کے لیے گولی چلائے یا کسی اور کو اپنی مدد کے لیے طلب کرے یا اگر معاملہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا ہے تو اسے جرمانے کاچالان جاری کردے ۔دنیا کے بیشتر ممالک میں اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے پولیس یہی اختیارات استعمال کرتی ہے اور عام طورپر کامیاب رہتی ہے ۔
پولیس اہلکاروں اورافسران کو یہ صوابدیدی اختیارات دینے کے بہت سے فوائد بھی ہیں، اول یہ کہ ان اختیارات کے ہوتے ہوئے پولیس اہلکاروں اورافسران میں خوداعتمادی پیداہوتی ہے اور وہ موقع کی مناسبت سے کارروائی کرتے ہیں، اس کے لیے انھیں اپنے اعلیٰ افسران یا عدلیہ سے فوری کسی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ اس طرح کے اختیارات نہ ہونے کی صورت میں پولیس اپنے افسران اور عدلیہ کے چکر میں ہی پھنس کر رہ جائے جس سے نہ صرف یہ کہ پولیس فورس پر دبائو اور اخراجات بڑھیں گے بلکہ عدلیہ پر بھی کام کا دبائو بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
کسی کو روک کر پوچھ گچھ کرنے کے لیے جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا یہ ضروری ہے کہ پولیس اہلکار یا افسرکو متعلقہ شخص کی نقل وحرکت ،چال ڈھال یا کسی اور وجہ سے اس کے جرائم پیشہ ہونے کا قوی شبہہ ہو جبکہ اس اختیار کو بلاسوچے سمجھے محض اپنے اختیارات اور قو ت کے اظہار یا شریف اور معصوم شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کرنے کے انتہائی منفی اور بعض اوقات تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں، اور چند پولیس اہلکاروں یا افسران کی جانب سے ان اختیارات کے استعمال میں لاپرواہی کی سزا پوری پولیس فورس کو شدید بدنامی اور عوام کی نظروں میں وقعت کھودینے کی صورت میں بھگتناپڑتی ہے۔ اس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ کسی جائز اور قانونی کام میں بھی عام آدمی پولیس کی مدد کو سامنے نہیں آتا، ملزموں کی گرفتاری کے حوالے سے پولیس کو عام شہریوں کی مدد اور اعانت حاصل نہیں ہوتی اور گرفتار کئے جانے والے شخص کو معاشرے میں بدنامی کا خوف نہیں رہتا کیونکہ وہ پولیس کی حراست سے واپس آنے کے بعد تمام الزام پولیس اہلکاروں پر لگا کر اور پولیس کو رشوت دے کر رہائی حاصل کرنے کی کہانیاں سنا کر الٹا لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے ہر شہر میں گلی کوچوں، بازاروں اورشاپنگ مالز کے قریب ہمیں پولیس اہلکار ناکے لگائے نظر آتے ہیں بظاہر ان ناکوں کا مقصد جرائم پیشہ عناصر کو روکنا اور عام شہریوں کو جان ومال کے تحفظ کے احساس کے ساتھ معمولات زندگی جاری رکھنے کی سہولت فراہم کرنا ہے لیکن پولیس ان ناکوں کے ذریعے کیاکارنامے انجام دے رہی ہے اور تلاشی اورپوچھ گچھ کی آڑ میں معصوم شہریوں کی جیبیں کس طرح خالی کرائی جارہی ہیں، اس کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ملک کا ہر شہری یہاں تک کہ بچہ بچہ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔اس سے نہ صرف یہ کہ عام آدمی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں بلکہ عام آدمی کیاجرائم پیشہ عناصرکے دلوں سے بھی پولیس کاخوف ختم ہوکر رہ گیاہے اور یہ عام تاثر تقویت پکڑ گیاہے کہ ہر ایک اپنے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے رقم پولیس کو ادا کرکے دوبارہ ایسے ہی جرم کرنے کے لیے آزاد ہوسکتاہے۔
اس صورتحال کے بظاہر دو بڑے اسباب ہیں۔ اول یہ کہ ہمارے شہروںمیںپولیس لوگوں کو روک کر ان سے پوچھ گچھ اور تلاشی کاکام کسی انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر بہت کم ہی کرتی ہے بلکہ عام تاثر یہ ہے کہ تھانے میں موجود اہلکار اپنی جیبیں بھرنے کے لیے اپنے تھانے کی حدود میں مختلف مقامات کا خود ہی انتخاب کرکے ناکے لگالیتے ہیں اور ہدف کے مطابق رقم جمع کرنے کے بعد واپس تھانوں یا گھروں کو چلے جاتے ہیں، دوسرے یہ کہ سڑکوں، بازاروں اور شاپنگ مالز پر لوگوں کی حفاظت کے نام پر لگائے جانے والے ان ناکوں پر موجود پولیس اہلکاروں کے احتساب اور ان سے پوچھ گچھ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ انھوں نے ڈیوٹی کے دوران کتنے لوگوں کو روکا اور ان میں سے کتنے جرائم پیشہ ان کے ہاتھ آئے،یہاںتک کہ کوئی ان سے یہ بھی پوچھنے والا نہیں کہ ڈیوٹی پر خالی ہاتھ آنے کے باوجود وہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں روپے لے کر گھر کیسے جارہے ہیں یعنی یہ رقم ان کے پاس کہاں سے آئی؟ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے شہروں ،بازاروں اور شاپنگ مالز میں پولیس جو ناکے لگاتی ہے تو ان کے ساتھ کہیں بھی کوئی لیڈی سرچر نہیں ہوتی جو خواتین کی باعزت طریقے سے تلاشی لے سکے ،اس لیے بعض شاطرجرائم پیشہ عناصر عام طورپر کسی بھی خاتون کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور اپنا اسلحہ وغیرہ اس کے پاس رکھوادیتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتاہے کہ پولیس کے ناکوں پران کی تلاشی کاکوئی انتظام نہیں ہوتا۔
جہاں تک لوگوں کو روک کر پوچھ گچھ کرنے اور تلاشی لینے کا تعلق ہے تو یہ بات پوری دنیا میں ثابت ہوچکی ہے کہ اس طریقے سے جرائم پر قابو پانے میں کوئی خاص مدد نہیں ملتی، برطانیا جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں پولیس نہ صرف تربیت یافتہ ہے بلکہ اس میں وہ خرابیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جو ہماری پولیس میں عام ہوچکی ہیں،وہاں بھی ناکے پر روک کر لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے اور تلاشی لینے کا طریقہ قطعی ناکام ثابت ہواہے جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ 2006کے بعد سے پورے برطانیا میں سالانہ کم وبیش 10 لاکھ افراد کو روک کر پوچھ گچھ کرنے اور تلاشی لیے جانے کاریکارڈ موجود ہے لیکن اس کے نتیجے میں 2011-12 کے ریکارڈ کے مطابق صرف 9 فیصد مشکوک افراد گرفتار کئے جاسکے،جبکہ پاکستان میں کسی کو روک کر پوچھ گچھ کرنے یاتلاشی لینے کے حوالے سے کوئی اعدادوشمار ہی دستیاب نہیں جس سے یہ پتہ چل سکے کہ پولیس کے یہ ناکے جو بعض اوقات عام شہریوں کے لیے وبال جان ثابت ہوتے ہیں جرائم کی بیخ کنی میں کس حد تک موثر ثابت ہورہے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ اگر پولیس کو ناکے سے واپس آکر اپنی کارکردگی رپورٹ جمع کرانے کا پابند بنادیاجائے تو یہ اندازہ ہوسکتاہے کہ اپنی ڈیوٹی کا ایک بڑا وقت ان ناکوں پر موجود رہنے کے باوجود ان کو جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کتنی کامیابی حاصل ہوئی اور اگر کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے تو اس کے اسباب پر غور کے ساتھ ہی ان ناکوں کی نوعیت تبدیل کرنے کی حکمت عملی بھی تیار کی جاسکتی ہے۔
پولیس کے اس طرح کے ناکوں اور پوچھ گچھ کے طریقہ کار سے چھوٹے موٹے جرائم سے نمٹنے میں تو کسی حد تک مدد مل سکتی ہے اور وہ بھی اس وقت جب پولیس اہلکار ان ناکوں کو اپنی ذاتی آمدنی کا ذریعہ بنانے کے بجائے حقیقی معنوں میں اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دیں لیکن ان سے بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری اور ہولناک جرائم پر کنٹرول میں کوئی مدد ملنے کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ آج تک ایسا کوئی ریکارڈ سامنے نہیں آیا ہے۔ مختلف شہروں میں اسلحہ سے بھری گاڑیوںیا جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فراہم کردہ اطلاعات پر ہی ممکن ہوسکی ہے، اس طرح کی اچانک ناکا بندی کے ذریعے کسی بڑے جرائم پیشہ فرد کی گرفتاری کاکوئی ریکارڈ نہیں ہے۔بلکہ جیسا کہ میں نے اوپر لکھاہے کہ اس سے لوگوں میں پولیس کے حوالے سے منفی تاثرات پیداہوتے ہیں اور اس طرح کے ناکے عام لوگوں میں پولیس کی ساکھ خراب کرنے کا باعث ثابت ہورہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس عوام میںاپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اشتہارات کاسہارا لینے کے بجائے اپنے قول وعمل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ وہ واقعی عوام کی دوست اور جرائم پیشہ عناصر کی دشمن ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہلا حیات
خوارج باجوڑ میں آبادی کے درمیان رہ کر دہشت گرد اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں،رپورٹ اگر قبائل خوارج کو خود نہیں نکال سکتے تو ایک یا دو دن کیلئے علاقہ خالی کردیں،دوٹوک انداز میں پیغام سکیورٹی ذرائع کی جانب سے دوٹوک انداز میں واضح کیا گیا ہے کہ باجوڑ میں ریاست کی خوارج سے...
21 سے 23 نومبر کواجتماع میں دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے قائدین کو شرکت کی دعوت دیں گے گلے سڑے نظام سے جان چھڑوانے کیلئے طویل جدوجہد کرکے بڑی ٹیم تیار کی ہے،حافظ نعیم الرحمٰن جماعت اسلامی پاکستان نے 21 سے 23 نومبر کو لاہور میں اجتماع عام کا اعلان کر دیا۔منصورہ لاہور میں پریس...
ہمارے جو لوگ نااہل ہوئے ہیں ان کی نشستوں پر کسی کو کھڑا نہیں کیا جائے ناجائز طریقے سے لوگوں کو نااہل کیا گیا،ظلم و زیادتی دباؤ کے باوجود لوگوں کے احتجاج پر خوشی کا اظہار خیبر پختونخوامیں آپریشن پی ٹی آئی کیخلاف نفرت پیدا کرنے کیلئے کیا جارہا ہے،علی امین گنڈاپور آپریشن نہیں ر...
ملک ریاض کے ہسپتال پر چھاپا، ایک ارب 12 کروڑ کی منی لانڈرنگ بے نقاب، عملے کی ریکارڈ کو آگ لگانے کی کوشش ایف آئی اے نے ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کیخلاف کرپش کیس میں اہم دستاویزات اور ناقابل تردید ثبوت حاصل کر لیے ، سفاری ہسپتال کو بطور فرنٹ آفس استعمال کر رہا تھا حوالہ ہنڈی کے...
سیلابی پانی میں علاقہ مکینوں کا تمام سامان اور فرنیچر بہہ گیا، لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے نیو چٹھہ بختاور،نیو مل شرقی ،بھارہ کہو، سواں ، پی ایچ اے فلیٹس، ڈیری فارمز بھی بری طرح متاثرہیں اسلام آبادمیں بارش کے بعد برساتی نالے بپھرنے سے پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔اسلا...
بیرسٹر گوہر کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس،موجودہ سیاسی حالات میںبیانیے کو مزید مؤثر بنانے پر اتفاق عدالتی فورمز پر دباؤ بڑھانے اور عوامی حمایت کیلئے عدلیہ کی توجہ آئینی اور قانونی امور پر مبذول کرائی جا سکے،ذرائع پی ٹی آئی نے اپنے اراکین اسمبلی و سینیٹ کی نااہلی کے...
یہ ضروری اور مناسب فیصلہ ہے کہ بھارت سے درآمدات پر ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے ،امریکی صدر بھارت کی حکومت روس سے براہ راست یا بالواسطہ تیل درآمد کر رہی ہے، جرمانہ بھی ہوگا،وائٹ ہاؤس سے جاری اعلامیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت سے درآمدات پر مزید 25 فی...
دونوں ٹیموں کے درمیان تین ٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز کا دوسرا میچ 8اگست کوہوگا دلچسپ مقابلے کی توقع ،ویمنز ٹیم کو فاطمہ ثنا لیڈ کریں گی ، شائقین کرکٹ بے چین آئرلینڈ اور پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین ٹی ٹونٹی بین الاقوامی میچوں پر مشتمل سیریز کا پہلا میچ آج (بدھ کو...
بمباری ، بھوک سے ہونے والی شہادتوں پر یونیسف کی رپورٹ 7 اکتوبر 2023 ء سے اب تک 18 ہزار بچوں کی شہادتیں ہوئیں غزہ میں اسرائیلی بمباری اور انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں کے باعث بچوں کی ہلاکتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کے مطا...
ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگا عوام کی نمائندگی اور ان کے ووٹ کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے،سربراہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا پارلیمنٹ میں دو ٹوک مؤقف آئین کے پرخچے اُڑائے جا رہے ہیں اور بدقسمتی سے پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت اس عمل میں شریک ہے، قومی اسمبلی اجلاس میں جذباتی خطاب ...
سیاسی کارکنان اور عوام انہیں نئے پاکستان کا بانی قرار دے رہے ہیں ، وہ طاقت کے مراکز سے سمجھوتہ کیے بغیر عوام کی آزادی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں بانی پی ٹی آئی پاکستان میں ایسی جمہوری سیاست کے داعی ہیں جہاں اقتدار کا سرچشمہ عوام ہوں، اور ادارے قانون کے تابع رہیں،سیاسی مبصرین عمران...
قومی اسمبلی اراکین اور سینیٹرز کو اسلام آباد بلالیا،احتجاج تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہوگا،صوبائی صدور اورچیف آرگنائزرزسے مشاورت مکمل ارکان صوبائی اسمبلی اپنے متعلقہ حلقوں میں احتجاج کریں گے، نگرانی سلمان اکرم راجا کریں گے، تمام ٹکٹس ہولڈرز الرٹ، شیڈول اعلیٰ قیاد...