وجود

... loading ...

وجود
وجود

سندھ میں گورنر کی تبدیلی

پیر 14 نومبر 2016 سندھ میں گورنر کی تبدیلی

وزیر اعظم نواز شریف نے اپنا وعدہ نبھا دیا۔ سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کو صدر مملکت کے عہدے پر تو براجمان نہ کرسکے‘ سندھ کا گورنر ضرور بنا دیا۔ صدر کے عہدے کے لئے جس دن ممنون حسین کی ممنونیت کام کرگئی اس دن سے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اداس اور آذردہ تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے بھی ان کی خدمات بہت محدود رہ گئی تھیں۔ سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 ءکو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے ججوں کو نیا حلف اٹھانے پر مجبور کیا تو جسٹس سعید الزماں کوانکار کی پاداش میں ملازمت سے سبکدوش کردیا گیا تھا۔ 2013 ءمیں میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے اور آصف علی زرداری صدارت سے سبکدوش ہوئے تو صدر کے لئے قرعہ فال جسٹس صاحب کی بجائے ممنون حسین کے نام کھل گیا تھا ۔ اب گورنر سندھ کے عہدہ جلیلہ پر فائز کرکے تاریخ کا قرض ادا کردیا گیا ہے۔ 80 سالہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے جس پیرانہ سالی میں گورنری کا عہدہ قبول کیا ہے اس پر بڑی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان نے تبصرہ فرمایا کہ قائم علی شاہ (سابق وزیر اعلیٰ سندھ) کو موئنجودڑو کا وزیر اعلیٰ کہنے والوں کو ہڑپہ کا گورنر مبارک ہو۔ کسی نے تبصرہ کیا کہ گورنر ہاﺅس سے ڈاکٹر (عشرت العباد) نکل گیا اور مریض (سعید الزماں صدیقی) داخل ہوگیا ہے۔ حلف برداری کے بعدطبیعت کی خرابی کے سبب مزار قائداعظم پر حاضری نہ دینے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا گیا کہ گورنر کا حلف اٹھاتے ہوئے ناف اتر گئی۔ اس قسم کا ظالمانہ تبصرہ کرنے والے عدلیہ کی آزادی اور آئین و قانون کی بالادستی کے لئے جسٹس (ر) سعید الزماں کی اعلیٰ خدمات یکسر بھلا بیٹھے۔ جن لوگوں کو تازہ گورنر سندھ باسی اور بوسیدہ لگ رہے ہیں‘ انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ماضی کے چاق و چوبند اور جوان گورنر بھی اسی طرح سے مفلوج تھے۔ گورنر عشرت العباد نے ڈیڑھ ماہ کم 14 برس اس عہدے پر براجمان رہتے ہوئے گزارے انہیں سندھ کی شہری (مہاجر) آبادی کا نمائندہ تصور کیا جاتا تھا ایم کیو ایم سے ان کی پکی وابستگی تھی لیکن انہوں نے اس شہری آبادی کے لئے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ 1971 ءمیں لیفٹیننٹ جنرل (ر)رحمان گل سندھ کے گورنر تھے انہوں نے ایک آرڈر کے ذریعے صوبائی ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کے سلسلے میں شہری اور دیہی علاقوں کی بنیاد پر سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا تھا۔ دیہی علاقوں کو 60 فیصد اور شہری علاقوں کو 40 فیصد حصہ دیا گیا۔ شہری علاقوں میں کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر کو شامل کیا گیا تھا تب سے یہ سسٹم آج تک نافذ العمل ہے۔ سبکدوش گورنر عشرت العباد اس عہدے پر 14 سال براجمان رہے لیکن کوٹہ سسٹم ختم نہ کراسکے، جبکہ سندھ کی شہری آبادی گزشتہ 45 برس کے دوران کئی گنا زائد بڑھ چکی ہے۔ صدر ایوب خان مرحوم نے 1959ءمیں وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا تھا۔ دو سال بعد 1961 ءمیں مردم شماری کرائی گئی تو کراچی کی آبادی 60 لاکھ تھی لیکن 1972 ءکی مردم شماری میں ڈنڈی ماری گئی اور کراچی کی آبادی صرف 35 لاکھ شمار کی گئی جبکہ 11 سال کے دوران قدرتی افزائش اور نقل مکانی کے باعث کراچی کی آبادی کم از کم 65 لاکھ شمار ہونی چاہئے تھی۔ اس زیادتی کا سبب یہ تھا کہ اسمبلیوں میں کراچی کی نشستیں نہ بڑھیں اور کوٹے میں بھی اضافہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کے لئے وفاقی ملازمتوں میں دو فیصدکوٹہ بھی ختم کردیا گیا ۔ 1998 ءکے بعد نئی مردم شماری سے مسلسل گریز کی وجہ بھی یہی ہے کہ کراچی کو اس کے حقیقی سیاسی‘ اقتصادی اور تعلیمی حقوق سے محروم رکھا جائے۔ عالمی بینک نے حال ہی میں کراچی کو سنگین مسائل کی بنا پر 10 ٹاپ ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ میں ”کراچی سٹی ڈائیگناسٹک“ کے عنوان سے خصوصی تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ کراچی کی آبادی میں تیز ترین پھیلاﺅ کے مقابلے میں شہری سہولتوں کی فراہمی اور بروقت اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ 50 فیصد سے زائد آبادی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے جہاں آبادی میں دوگنی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے۔ بے ہنگم تعمیرات مسائل کا سبب بن رہی ہیں۔ واٹر بورڈ پانی کی طلب کا صرف 55 فیصد ہی فراہم کررہا ہے‘ پانی کا ضیاع اور چوری عام ہے۔ 43 فیصد پانی کی قیمت وصول نہیں کی جاتی۔ سیوریج کا نظام فیل ہوچکا ہے۔ یومیہ 475 ملین گیلن فضلہ سمندر میں پھینک کر اسے بھی آلودہ کیا جارہا ہے اس میں کارخانوں سے نکلنے والا صنعتی کچرا بھی شامل ہے۔ گلیوں اور سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر جمع ہیں جو آلودگی اور موذی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔ قدرتی آفات اور حادثات سے بچنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ منصوبہ بندی اور نقشوں سے بالا بننے والی عمارات زیادہ شدت کے ممکنہ زلزلے سے ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔ عالمی بینک نے کراچی میں ٹریفک کی بدنظمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان کو بھی بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ گاڑیوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد کے باعث ٹریفک جام کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ سرکاری پبلک ٹرانزٹ سسٹم کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ انفرااسٹرکچر کی تباہی کاروبار پر بھی خراب اثر ڈال رہی ہے۔ سیاسی بے یقینی ‘ بجلی کا تعطل اور طویل لوڈشیڈنگ‘ کرپشن اور بھتہ خوری کے باعث کراچی میں کاروبار کرنا دشوار ہوگیا ہے، یہ وہ مسائل ہیں جنہیں گزشتہ 14 سالہ گورنری کے دوران ڈاکٹر عشرت العباد حل نہ کراسکے۔ ایم کیو ایم کے ایک رہنما خواجہ اظہار الحسن نے سندھ حکومت کو وزیر اعلیٰ کی ”بادشاہت“ قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر عشرت العباد ”جوان“ ہونے کے باوجود اسی قدر ”مفلوج“ اور ”مجبور“ نظر آتے ہیں جتنا کہ جسٹس (ر) سعید الزماں ہیں۔ دراصل سندھ حکومت کا نقشہ ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں شہری سیاسی قیادت خدمات کی انجام دہی سے قاصر ہے۔ بالخصوص 18 ویں آئینی ترمیم نے تو وزیر اعلیٰ کو خودمختار بادشاہ کے درجے پر فائز کردیا ہے۔ سندھ اسمبلی‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دیہی علاقوں سے زیادہ نشستوں کے سبب شہری علاقے ان کے دست نگر ہیں ۔ سندھ کے اقتدار پر قابض دیہی سیاسی قیادت کی کوشش ہوتی ہے کہ شہری قیادت ”غفلت“ کی ”نیند“ سوتی رہے یا پھر ”کرپٹ“ ہوجائے اور شہری عوام کی بخوبی خدمت نہ کرسکے۔ ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفےٰ کمال نے ڈاکٹر عشرت العباد پر جو رکیک حملے کئے‘ راز فاش ہوئے اور کردار کشی کرکے گورنری ختم کرنے کی بنیاد ڈالی‘ ان الزامات کو درست تسلیم کرلیا جائے تو ڈاکٹر عشرت کو اس راہ پر ڈالنے والی سندھ کی دیہی قیادت ہی تھی جس نے کراچی کے وسائل اور اداروں پر قبضہ کرکے اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے ڈاکٹر عشرت العباد کو اس راستے پر ڈالا۔ اس راہ پر چل کر وہ نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ اپنے عوام سے بھی بیگانے ہوگئے۔ دیہی قیادت اور افسر شاہی مزے لوٹتے رہے۔ جھوٹ‘ مکر‘فریب اور استحصال پر مبنی سیاسی نظام درحقیقت ملکی وسائل اور عوام کو لوٹنے کی سازش ہے۔ منصفانہ اور عادلانہ سیاسی و معاشی نظام ہی ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ گورنر کی تبدیلی تو عوام کو بہلانے کا ایک بہانہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ میں گورنر کی تبدیلی کے ساتھ ہی چاروں صوبوں میں (ن) لیگ کے گورنر مقرر ہوگئے ہیں۔ پنجاب میں رفیق رجوانہ‘ خیبر پختونخواہ میں اقبال ظفر جھگڑا‘ بلوچستان میں اچکزئی اور اب سندھ میں جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی کی تقرری نے چاروں صوبوں میں (ن) لیگ کے چاروں پائے مضبوط کردیئے ہیں۔ کسی بھی صوبے میں گڑبڑ کے نتیجے میں گورنر راج نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔ مرکز میں صدر ممنون حسین بھی وزیر اعظم نواز شریف کے ”ممنون“ ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف فوج سے خوفزدہ ہیں۔ شاید اسی لئے وزیر اعظم خود کو مضبوط کرتے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور پارٹی کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری سید نہال ہاشمی نے گورنر ہاﺅس سے ڈاکٹر عشرت العباد کے اخراج کو گورنر ہاﺅس میں الطاف دور کا خاتمہ قرار دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین اور ان کی زیر قیادت پارٹی اس وقت سخت آزمائش سے گزر رہی ہے۔ سندھ کی گورنری کا چھن جانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

قیدی کا ڈر وجود منگل 21 مئی 2024
قیدی کا ڈر

انجام کاوقت بہت قریب ہے وجود منگل 21 مئی 2024
انجام کاوقت بہت قریب ہے

''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1) وجود منگل 21 مئی 2024
''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1)

انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب وجود منگل 21 مئی 2024
انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر