وجود

... loading ...

وجود
وجود

جدید تعلیم اور امتحانات

اتوار 11 ستمبر 2016 جدید تعلیم اور امتحانات

education

جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جدید تعلیمی عمل کا قیام اور استناد ایک قانونی عمل ہے، اور جدید ریاست کی عملداری میں ہے، اور جسے امتحانات کے نفاذ اور ان کے نتائج سے عملی صورت دی جاتی ہے۔ امتحانی استناد جدید تعلیم کے پورے عمل کا مرکز ہے اور اس کے اہداف کو پیش نظر رکھتے ہوئے کریکیولم، نصاب، تدریس اور آموزش کی سرگرمیاں متعین ہوتی ہیں۔ استنادی امتحانات مکمل طور پر مقداری اور شماریاتی ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے علاوہ یہ کچھ اور ہو نہیں سکتے۔ جدید تعلیمی عمل میں امتحانات اور استناد کی مرکزی حیثیت کی وجہ سے ان پر گفتگو ایک اعادے کے ساتھ ضروری ہے۔ جیسا کہ گزشتہ مضمون میں بھی عرض کیا تھا کہ فی الوقت ہم اچھے برے یا صحیح غلط کی بات نہیں کر رہے۔ ہم چیزیں جیسی ہیں ان کو ویسے ہی دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امتحانات دراصل مطالبات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مطالبات کیا ہیں؟ ان مطالبات کو کون متعین کرتا ہے؟ ان مطالبات کو متعین کرتے ہوئے کیا ترجیحات پیش نظر ہوتی ہیں؟ اور یہ مطالبات کون سے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہیں؟ کریکیولم ان مطالبات کا فکری اور عملی بیان ہے جو دنیا میں ہر جگہ ریاست ہی مقرر اور متعین کرتی ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ کریکیولم قانونِ استناد کے فلسفے اور مقاصد کا بیان ہے۔ لیکن نفاذ کے وقت فلسفہ پیچھے رہ جاتا ہے اور کریکیولم استنادی قانون بن کر نافذ ہو جاتا ہے۔ کریکیولم تعلیم کے سفر پر روانہ ہونے والے بچے کے گلے میں بندھا ہوا امام ضامن ہے جو کامیاب تحصیل کے بعد تمغۂ سند بن کر اس کی جیب میں منتقل ہو جاتا ہے، اور دماغ بھی کھوپڑی سے نکل کر سند کے ساتھ اسی جیب میں مستقل رہائش اختیار کر لیتا ہے۔

پھر امتحانات تحدیدات ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تحدیدات کیا ہیں؟ ریاست انہیں کیوں اور کیسے قائم کرتی ہے؟ اور انہیں قائم کرنے کے کیا مقاصد ہیں؟ امتحانی اور استنادی عمل میں تحدیدات کا اثر کن چیزوں پر ہوتا ہے؟ بچے کے عقلی، نفسیاتی، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کا ان تحدیدات سے براہ راست کیا تعلق ہے؟ کیا ان تحدیدات کے ہوتے ہوئے بچے میں کوئی عقلی پرداخت، اخلاقی فضائل اور روحانی شعور پیدا کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ گزارش ہے کہ ان سوالات کو جدید تعلیم ہی کے مبحث میں رہتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مطالبات کچھ مطلوب چیزوں کو تعلیم میں شامل رکھنے، انہیں فروغ دینے اور ان میں مہارتیں پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں، اسی طرح تحدیدات نامطلوب چیزوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ تحدیدات بنیادی طور پر انسانی ذہن اور شخصیت کے کچھ عوامل اور کچھ رویوں کو نامطلوب قرار دے کر انہیں پہلے غیر اہم بنانے اور پھر انسانی زندگی سے یکسر خارج کرنے کا تعلیمی عمل ہے۔ ریاست کے تشکیل کردہ تعلیمی نظام کی ساخت ہی میں یہ تحدیدات گندھی ہوئی ہیں، اور لازمی عملی نتائج پیدا کرتی ہیں۔

اپنی حتمی معنویت میں امتحانات استناد کی بنیاد ہیں۔ پورا تعلیمی عمل جن مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا جاتا ہے، اس کی منزل مراد یہی استناد ہے۔ اس میں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ریاست کا تعلیمی استناد مقداری اور شماریاتی پہلوؤں کے علاوہ بھی کوئی معنویت رکھتا ہے یا نہیں؟ کیا عقلی اور فکری پرداخت، اخلاقی فضائل اور روحانی پہلو قابل استناد بھی ہیں یا نہیں؟ اگر وہ قابل استناد ہیں تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ اور اگر وہ قابل استناد نہیں ہیں تو طویل تعلیمی عمل ان کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟ کیا مقداری اور شماریاتی استناد کے ہوتے ہوئے بچے کی شخصیت میں اخلاقی اور روحانی پہلو باقی رکھے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جدید تعلیمی عمل کو جانے بوجھے بغیر اس پر کچھ اخلاقی فیصلے صادر کرتے ہیں، جو یقیناً بہت اچھے ہیں، لیکن ان کا کسی بھی سطح پر جدید تعلیمی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جو بوئے جائیں اور ان پر دم کر کے گندم اگنے کا یقین کر لیا جائے۔

گزارش ہے کہ جدید تعلیمی عمل کے مطالبات اور اس کی تحدیدات کریکیولم میں طے کی جاتی ہیں جو پورے فلسفۂ تعلیم اور اس کے مقاصد کا بیان ہوتا ہے۔ استناد، کریکیولم کی عملی شکل ہے، اور امتحانات اس کا نفاذی طریقۂ کار ہے۔ امتحانات، تعلیم کے مطالبات اور تحدیدات کو بچے کے ذہن، رویے اور عمل میں داخل کر کے اسے زندگی بھر کے لیے ”مستند“ کر دیتے ہیں۔

ہم نے گزشتہ دو سو سال میں ”اسلامی تعلیم“ کے ادارے بنانے کی بے شمار کوششیں کی ہیں، اور اس وقت بھی زور شور سے ہو رہی ہیں۔ ان کی حیثیت نقل لگانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اور ان کے نتائج بھی وہی رہے ہیں جو متداول جدید تعلیم سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جدید سے جدید تعلیم کی نقل لگانے میں ہم غیر معمولی ہنرمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن اسے سمجھنے کا معاملہ ہو تو بگڑ جاتے ہیں۔ ہمارے بچوں میں اگر کوئی دینی سوچ اور رویے نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ گھر کا ماحول اور مذہبی کلچر کے اثرات ہیں، وہ کسی ادارے کا ”فیض“ نہیں ہیں۔ معاشرتی تبدیلی کے ساتھ یہ چیزیں بھی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ چند سال پہلے ہمارے ہاں جب امتحانات کے نظام کو سولو ٹیکسانومی پر منتقل کیا گیا تو ناچیز نے ایک دو بار ”ماہرین تعلیم“ کے سامنے اس کا تجزیہ پیش کرنے اور دینی اقدار سے اس کی منفی نسبتوں کی نشاندہی کرنا چاہی تو جان چھڑانی مشکل ہو گئی۔ مغرب میں ادارہ سازی مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہتی ہے، اور ہمارا خیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کا کوئی جدید ادارہ بنا کے اور کچھ اپنی کتابیں لگا کے ہم دینی تعلیم کا احیا کر سکتے ہیں۔

جدید تعلیمی عمل میں امتحانات کے طریقۂ کار کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ تعلیمی نفسیات کا پورا علم امتحانات کو ثمرآور بنانے کے لیے موجود ہے۔ تعلیمی نفسیات کی ”دریافتوں“ نے جدید تعلیمی امتحانات کو بہت زیادہ ٹیکنیکل چیز بنا دیا ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ امتحانی نظام بلوم ٹیکسانومی کی بنیاد پر ترتیب دیے جاتے تھے۔ اور گزشتہ پندرہ بیس سال سے یہ نظام سولو ٹیکسانومی پر منتقل ہوا ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ کریکیولم کے ”اعلیٰ اخلاقی مقاصد“ کو ٹیکسانومی میں برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے، لیکن ہم فی الوقت ٹیکسانومی کی بحث میں نہیں جاتے۔ لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پہلے سے طے شدہ کسی تصورِ انسان کے بغیر کوئی ٹیکسانومی نہیں بنائی جا سکتی۔ تعلیمی عمل میں ”ٹیکسانومی“ دراصل اس انسان کا پہلے سے بنایا ہوا نقشہ ہے جس کا امتحان لیا جانا مقصود ہے۔

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ بطور مسلمان ہمارا کوئی تصور انسان نہیں ہے، اور اگر ہے تو اس کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، تو اور بات ہے۔ لیکن اگر ہم بھی کوئی تصور انسان رکھتے ہیں تو بلوم ٹیکسانومی اور سولو ٹیکسانومی کو دیکھنا ہماری دینی ضروریات میں سے ہے۔ ان دونوں کے موازنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امتحان کے لیے بلوم ٹیکسانومی جس مخلوق کا نقشہ بناتی تھی اسے تو کھینچ تان کے انسان کہا جا سکتا ہے۔ لیکن سولو ٹیکسانومی امتحان کے لیے جس مخلوق کو فرض کرتی ہے اسے تو انسان کہنا بھی مشکل ہے۔ واضح رہے کہ امتحانات کے لیے جو انسان فرض کیا گیا ہے، وہی اس کے نتیجے کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ ہمارے موجودہ امتحانات سولو ٹیکسانومی کو بنیاد بنا کر لیے جاتے ہیں، اور اس سے کشاں کشاں ہم اسی انسان کو سامنے لا رہے ہیں جو ان امتحانات کا مقصود ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کی پوری گفتگو نصاب سے آگے نہیں جاتی، اور جو جدید تعلیمی نظام کا ایک انتہائی کم اہم حصہ ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ہمیں تعلیمی نظام تو کبھی نظر نہیں آیا بس یہی بستہ دکھائی دیتا رہتا ہے جس سے ہم نے آس لگائی ہوئی ہے کہ بدلے گا تو دنیا بدل دے گا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ عصری دنیا کے مختلف پہلوؤں کو ”فکری“ طور پر زیر بحث لاتے ہوئے ہم انسانی دیانت کی پامالی ایک فریضہ سمجھتے ہیں۔ تائید مزید کے طور پر ہم نے یہ بھی فرض کیا ہوا ہے، اور جو اب ہمارے عقیدے کا جزو بنتا جا رہا ہے، کہ جدید مغرب کی بنائی ہوئی ہر چیز عین اسلام کے مطابق ہے، لہٰذا اسے تنقیدی نظر سے دیکھنا ناشکری اور گناہ میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مفروضہ اتنا طاقتور ہے کہ ہماری پوری تہذیب کی بربادی بھی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے، تو اس میں بیچاری تعلیم کی کیا اوقات ہے کہ نظر میں آئے۔ ہمیں تو بس اتنا ہی سجھائی دیتا ہے کہ جدید تعلیمی نظام ایک بستے کا نام ہے، اور اسی پر معتکف رہ کے ہم نے صدیاں گزار دی ہیں، اور اب بھی دھیان وہیں ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ علم کا شجر ثمرآور ہو تو تعلیمی بستے بنا کرتے ہیں، اور بستوں کی کانٹ چھانٹ بھی علم کے شجرِ سایہ دار کے نیچے بیٹھ کر ممکن ہوتی ہے۔ تاریخی اور سماجی صورت حال کا فکری تجزیہ کرنا اور حل کی طرف پیش رفت کرنا ہمارے ہاں اب نہایت مذموم سرگرمی شمار ہوتی ہے۔ ہمارے علوم کی موجودہ صورت حال سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی تاریخی اور سماجی صورت حال کا تجزیہ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس حل ہی حل ہیں، اور وہ اب اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ کون سا حل کس صورت حال یا مسئلے کا ہے۔ یہی صورت حال جدید تعلیم کی ہے، کہ ہر آدمی کی جیب میں بیسیوں حل ہوتے ہیں، اور ذہن تجزیے سے خالی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں چیزوں کو ویسے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے جیسے کہ وہ ہیں۔


متعلقہ خبریں


جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار محمد دین جوہر - بدھ 05 اکتوبر 2016

جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

جدید تعلیم اور معاش محمد دین جوہر - منگل 27 ستمبر 2016

تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...

جدید تعلیم اور معاش

پاک بھارت کشیدگی محمد دین جوہر - اتوار 25 ستمبر 2016

برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...

پاک بھارت کشیدگی

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف محمد دین جوہر - بدھ 21 ستمبر 2016

چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف

جدید تعلیم اور تربیت محمد دین جوہر - پیر 19 ستمبر 2016

جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...

جدید تعلیم اور تربیت

جدید تعلیم اور نصاب محمد دین جوہر - هفته 17 ستمبر 2016

مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...

جدید تعلیم اور نصاب

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل محمد دین جوہر - جمعه 16 ستمبر 2016

زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

جدید تعلیم کیا ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 08 ستمبر 2016

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...

جدید تعلیم کیا ہے؟

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک محمد دین جوہر - منگل 06 ستمبر 2016

سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 01 ستمبر 2016

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل وجود - جمعرات 05 مئی 2016

امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر