وجود

... loading ...

وجود
وجود

جنرل بخشی کی کھری کھری اور بھارت نوازوں کی بے بسی

اتوار 08 مئی 2016 جنرل بخشی کی کھری کھری اور بھارت نوازوں کی بے بسی

general-bakhshi

16 اپریل 2016ء کو سہ پہر پانچ بجے سے لیکر چھ بجے تک ’’ذی نیوزٹیلی ویژن چینل‘‘ پر ایک مباحثے کا آغاز ہوا جس میں خاتون اینکر کے علاوہ کانگریس اور بی جے پی کے نمائندوں کے علاوہ بھارتی فوج کے ریٹائرڈ جنرل بخشی اور پی ڈی پی کے محمد دلاور میر شامل تھے ۔موضوع تھا ہندواڑہ ہلاکتوں کے نتیجے میں پیدا شدہ نئی صورتحال ؟جنرل بخشی نے ہندواڑہ میں فوج کے ہاتھوں نہتے شہریوں پر فائرنگ کا یہ کہتے ہو ئے دفاع کیا کہ مشتعل ہجوم نے بینکر کو آگ لگا کر دو فوجیوں کو زندہ جلانے کی کوشش کی تو کیا وہ اپنے دفاع کے لئے گولی نہیں چلاتے ؟اس کے علاوہ جنرل بخشی نے یہ بھی کہا کہ کشمیر میں ’’بالائے زمین جہادی‘‘حالات کو خراب کرنے کی تاک میں بیٹھے ہو تے ہیں اور ان جیسے واقعات کو جنم دیکر وہ بھارتی فوج کو بدنام کرتے ہیں ۔جنرل بخشی نے مباحثے میں شریک پی،ڈی،پی رہنما محمد دلاور میر پر نشانہ سادھتے ہو ئے کہا کہ حکومت اس لئے حالات خراب کرنے والے عناصر پر ہاتھ نہیں ڈالتی ہے کہ گزشتہ اسمبلی چناؤ میں انہی عناصر نے پی ،ڈی،پی کی بھرپور مدد کی اور اب انھیں کھلی ڈھیل دیکر ان کا احسان چکا رہی ہے ۔جنرل بخشی نے این ،آئی،ٹی ایشو پر بھی کشمیری طلباء اور پولیس کو ذمہ دار قرار دیتے ہو ئے کہا کہ کشمیر کے جتنے طالب علم ہندوستان کی ستائیس ریاستوں میں زیر تعلیم ہیں، انھیں یہاں کوئی پریشان نہیں کرتا ہے بلکہ انہیں یہاں ہم ہر جگہ تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔کانگریسی نمائندے کو چند ایک منٹ سے زیادہ بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر بی جے پی نمائندے نے ’’ہونا چاہیے اور نہیں ہونا چاہیے‘‘کی تکرار کے سوا کوئی با معنی بات نہیں کی ۔

محمد دلاور میر نے ہندواڑہ سانحہ کو این ،آئی،ٹی کے ساتھ نتھی کرتے ہو ئے جب جنرل بخشی سے پوچھا کہ آخر آپ کو ہر جگہ اور ہر سانحہ کے پیچھے ’’جہادی عناصر‘‘ہی کیوں نظر آتے ہیں تو جنرل صاحب غصے سے لال پیلے ہو کر دلاور میر پر برس پڑے اور انتہائی درشت لہجے میں فرمانے لگے ’’مسٹر دلاور میر جس دن فوج کشمیر سے ہٹ جائے گی اسی دن یہ لوگ آپ سب کو مار دیں گے ،یہ صرف فوج ہے جن کے بل بوتے پر آپ کشمیر میں ٹکے ہو ئے ہو‘‘۔دلاور میر جنرل صاحب کے اس زہریلے تیر سے سنبھل نہیں پائے اور ان سے اس اچانک خوفناک سچائی کا سامنا کرنے میں ’’نہ ہاں اور نہ ناں‘‘میں جواب بن پائے ۔دلاور میر ہی نہیں بلکہ پوری ہندنواز کشمیری لیڈر شپ اس سچائی کے دل ہی دل میں معترف ضرور ہے پر اس کے ایک ریٹائرڈ نامور فوجی جنرل کی زبانی اس طرح براہ راست نشریات میں سننے سے انھیں سبکی ہی نہیں ہوئی بلکہ اس نے ان کو ایک طرح کی جھنجھلاہٹ میں بھی مبتلا کردیا ۔حق یہ ہے کہ آن ائیر براہ راست نشریات میں شاید کسی اتنے بڑے ذمہ دار شخص نے کبھی بھی ہندنواز لیڈر شپ کے منہ پر اتنی سچی اور حقیقت پر مبنی بات کہتے ہو ئے انھیں ان کی اوقات یاد دلائی ہو۔

کیا کشمیر کے حالات ہر وقت ’’بالائے زمین جہادی عناصر‘‘ہی بگاڑ دیتے ہیں؟ ہندواڑہ ہی کے تازہ سانحہ کو لے لیجئے !کیا اس کی تخلیق میں کسی بھی طرح جہادی عناصر ملوث ہیں ؟

جنرل صاحب کے ان ارشادات میں کئی اہم باتیں قابل بحث ہیں ۔پہلی بات یہ کہ کیا کشمیر کے حالات ہر وقت ’’بالائے زمین جہادی عناصر‘‘ہی بگاڑ دیتے ہیں؟ ہندواڑہ ہی کے تازہ سانحہ کو لے لیجئے !کیا اس کی تخلیق میں کسی بھی طرح جہادی عناصر ملوث ہیں ؟یہ الفاظ اپنی پاک دامنی پر آپ ماتم کناں ہیں۔ایک نابالغ طالبہ بیت الخلاء بشری تقاضے کے لئے داخل ہو گئی اس نے باہر فوجی کو کھڑا دیکھ کر شور مچایا ،آس پاس موجود طلباء اور دوکاندارجمع ہو گئے اور انھوں نے بھاگتے فوجی کو پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہو ئے لڑکی کو پولیس کے حوالے کرنے کی کوشش کی ۔جہاں پولیس کی نااہلی نے صورتحال کو خوفناک حد تک بگاڑا اور موقع پر دو نوجوان گولیاں لگنے سے شہید ہو گئے اتنا ہی نہیں کھیت میں کام کرتی ایک معمر خاتون ٹائر گیس شیل لگنے سے زخمی ہو کر جانبر نہ ہو سکی ،وہ بھی شہید ہو گئی ۔نتنوسہ میں پر امن احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلا کر ایک طالب علم کو شہید جبکہ تین کو زخمی کردیا گیا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سبھی سانحات میں جن جہادی عناصر کی جنرل صاحب بات کرتے ہیں ،وہ کہاں سے اس میں در آئے ؟جنرل صاحب جیسے زیرک انسان کو یہ بھی یاد ہوگا کہ 2008ء ،2009،اور 2010ء کے خونیں برسوں کے خوفناک رخ تک لے جانے میں بھی کسی جہادی زیر زمین یا بالائے زمین فرد کا کوئی ہاتھ نہیں تھا ۔ 2008ء میں ریاست گیر احتجاجی لہر تخلیق کرنے میں امرناتھ شرائین بورڈ کو غیر قانونی طور پر زمین فراہم کرنے میں ڈاکٹر ارن اور حکومتِ کشمیر کی خاموش تائید ذمہ دار تھی !کوئی جہادی فرد نہیں ۔ 2009ء میں آسیہ و نیلوفر کیس کو کشمیر پولیس نے غلط طریقے سے ہینڈل کیا نتیجہ یہ نکلا کہ وادی دوسرے سال پھر اُبل پڑی۔ یہاں بھی ڈھونڈنے سے کوئی جہادی عنصر نظر نہیں آتا ہے ۔ 2010ء میں مژھل فرضی انکاؤنٹر نے وادی کشمیر میں آگ لگادی تو بروقت علاج کے بجائے پولیس اور انتظامیہ حماقتوں پر حماقتیں کرتی رہیں۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہیں ۔ 2013ء میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے ’’خون کے پیاسے بھارتی اجتماعی ضمیر کے اطمینان ‘‘کے لئے بے گناہ کشمیری مسلمان ا فضل گورو کو پھانسی پر لٹکا کر کشمیریوں کا پورا سال برباد کر دیا ۔ 2014ء سیلاب کے نذر ہو گیا ۔2015ء میں کئی ہلاکتوں اور زخموں کے باوجود ہلکا سا اطمینان نصیب ہوامگر 2016ء میں پہلے گورنر راج پھر ہندواڑہ ہلاکتیں ،کیا ان سانحات کی تخلیق میں کہیں بھی جہادی عناصر ملوث ہیں ؟یا یہ حسب روایت ہر سانحہ میں کشمیریوں کو بد نام کرنے کی قدیم مہم کی ایک کڑی ہے ؟

ہندواڑہ سانحہ میں ایک معصوم لڑکی کوبد نام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا ! اس طرح کے مسائل بھارت بھر میں پیش آتے ہیں ۔ان کی عزت نفس اور تقدس کے تحفظ میں کسی بھی ادارے سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب بھی کشمیراور کشمیریوں کی بات آتی ہے تو معاملہ ’’قومی مفاد‘‘کا روپ دھار کر ہر باعزت بے عزت اور ہر متنفس ناقابل برداشت قرارپاتا ہے آخر کیوں؟لڑکی کا بیان کیوں ریکارڈ کیا گیا جو بغیر کسی مجسٹریٹ کے لینا جرم ہے ۔پھر اس کو سوشل میڈیا پر کیوں لوڈ کیا گیا؟اور بلا روک ٹوک اور شناخت چھپائے تمام ٹیلی ویژن چینلز کو کیوں بھیجا گیا ؟لڑکی کی ماں کے بقول لڑکی سے بالجبر یہ بیان دلوایا گیاآخر کیوں؟کشمیر پولیس کی شرافت و تہذیب سے یہاں کون واقف نہیں ہے؟ آخر کس قانون کے تحت ’’قانون کے رکھوالے‘‘ہی ایسا کرتے ہیں ؟فرض کیجیے اگر یہی کچھ کوئی جہادی،حریتی یا اسلام پسند تو درکنار مین اسٹریم لیڈر یا فرد کرتا اور اس پر اتنا بوال آتا تو ’’کشمیریوں کے تحفظ کے نام نہاد علمبردار‘‘ادارے اور بھارت بھر کے ٹیلی ویژن چینلز کیا کرتے؟یقیناََ لگاتار خبروں اور تجزیوں نے کہرام مچایا ہوتا۔ المیہ دیکھئے ہندواڑہ میں ایک واقعہ میں ملوث اہلکاروں کی نشاندہی کے بجائے پورا زور اس میں لگایا جارہا ہے کہ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ ’’ہنگامہ ‘‘برپا کرنے میں ’’بالائے زمین جہادی عناصر‘‘کا ہاتھ تھا اور جو لوگ گولیوں سے جان بحق ہو گئے وہ گولی سے مارے جانے کے قابل تھے!اس سے بڑھکر شہداء کے ورثاء کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی ناکام اور نامراد کوشش اور کیا ہو سکتی ہے ؟

ذی نیوز کے گھنٹہ بھر کے پروگرام میں ششدر کردینے والی بات جنرل بخشی کی یہ تھی کہ ’’مسٹر دلاور میر جس دن فوج کشمیر سے ہٹ جائے گی اسی دن یہ لوگ آپ سب کو مار دیں گے ،یہ صرف فوج ہے جن کے بل بوتے پر آپ کشمیر میں ٹکے ہو ئے ہو‘‘ اس بات کوجنرل بخشی کی ’’سہو لسان‘‘بھی قرار نہیں دیا سکتا ہے۔ اس لئے کہ دلاور میر کے حیرت بھرے توجہ دلانے کے باوجود بھی جنرل بخشی غصے میں اپنے بات پر قائم رہے ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیر کی ہندنواز سیاست دانوں کی پشت پر فوج ہے اور جس روز یہ پشت پناہی ختم ہوگی ان کے لئے کشمیر میں ٹکنا ناممکن ہوگا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی بڑی حقیقت اتنے بڑے چینل پر سننے کے باوجود بھی مین اسٹریم سیاستدان اس کو تسلیم کرتے ہو ئے کبھی خالص کشمیری بن کر ’’کشمیر اور کشمیریوں ‘‘کے مفادات کے لئے کسی مشترکہ ایجنڈا پر کام کریں گے ؟ کبھی نہیں ۔کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے اپنا سب کچھ اقتدار اور کرسی پر قربان کردیا ہے ۔یہ لوگ ہر چھ برس بعد نمودار ہو کر حیلوں بہانوں سے ووٹ بٹورتے ہو ئے اگلے چھ برس کشمیر یوں کے لئے غائب ہو جاتے ہیں ۔ الیکشن کے قریبی دور میں انھیں کشمیر ، مسئلہ کشمیر ،کشمیریت،افسپا کی آڑ میں ظلم ،پبلک سیفٹی ایکٹ،ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ،حریت لیڈروں پر قدغن ،مذاکرات کی ضرورت ،قیدیوں کی رہائی ،لاپتہ افراد کی باز یابی ،کشمیر کی ڈانواڈول معیشت ،کشمیر کو سوئزر لینڈ بنانے کے خواب ،کشمیریوں کی پامال شدہ عزت نفس اور اس کی بحالی کے میٹھے بول یاد آتے ہیں ۔جوں ہی یہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو پھر نہ کشمیر میں بھارت کے خلاف کوئی آواز سنائی دیتی ہے اور نہ ہی عوام کے غالب رجحان کو تسلیم کرنے کی سچائی کے سامنے سرِ تسلیم خم !جنرل بخشی سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر دلاور میر سے ان کی کہی ہوئی بات ایک سو فیصد سچ ہے۔


متعلقہ خبریں


بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ جاری وجود - پیر 18 اپریل 2022

امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت ق...

بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ جاری

مقبوضہ کشمیر: تاریخی جامع مسجد سرینگر 30ہفتوں بعد نماز جمعہ کیلئے کھولنے پر جذباتی مناظر وجود - هفته 05 مارچ 2022

مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...

مقبوضہ کشمیر: تاریخی جامع مسجد سرینگر 30ہفتوں بعد  نماز جمعہ کیلئے کھولنے  پر جذباتی مناظر

آزادی کے بعد پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کے اختیارات چھین لیے گئے،راہول گاندھی وجود - بدھ 02 مارچ 2022

بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...

آزادی کے بعد پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کے اختیارات چھین لیے گئے،راہول گاندھی

کشمیر سے اظہارِیکجہتی، بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پرہندو انتہا پسندوں کا حملہ وجود - اتوار 13 فروری 2022

بھارتی ریاست گجرات میں سینکڑوں ہندو انتہا پسند مظاہرین نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیرسے اظہار یکجہتی کی پاداش میں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت والے اسٹورز کو بند کرادیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ فروری (یوم کشمیر) کے موقع پر پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں ہنڈائی موٹرز...

کشمیر سے اظہارِیکجہتی، بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پرہندو انتہا پسندوں کا حملہ

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے، امریکی کانگریس کو بریفنگ وجود - پیر 17 جنوری 2022

جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے، امریکی کانگریس کو بریفنگ

صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ وجود - اتوار 09 جنوری 2022

امریکا میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے زیر حراست صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سی پی جے نے کہا کہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کا طالب عل...

صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ

مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نظر انداز، دبئی حکومت کی زیر ملکیت کمپنی کا مقبوضہ کشمیر میں ڈرائی پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان وجود - هفته 08 جنوری 2022

بھارت نہایت پُرکاری سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے عرب ممالک کو خاص ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے ابتر سیاسی نظام اور خارجہ محاذ پر مسلسل ناکامیوں نے اب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالم اسللام کے متفقہ م...

مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نظر انداز، دبئی حکومت کی زیر ملکیت کمپنی کا مقبوضہ کشمیر میں ڈرائی پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان

مقبوضہ کشمیر'29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ وجود - جمعرات 06 جنوری 2022

مقبوضہ کشمیر میں 6جنوری 1993ء کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سوپور میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے سانحہ کو29برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1993میں اس دن سوپور میں اندھا دھند گولیاں برسا کر 60 سے زائد بے گناہ ک...

مقبوضہ کشمیر'29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے نقش قدم پر، اسرائیلی اخبار کا انکشاف وجود - جمعرات 25 نومبر 2021

بھارت نے اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے جسد خاکی لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے خود دور دراز مقامات پر دفنانا شروع کر دیے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریدے ہاریٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق ا...

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے نقش قدم پر، اسرائیلی اخبار کا انکشاف

علیحدہ کشمیر مانگ رہے ہیں تو دے دو، فوجی کی بیوہ مودی کے خلاف صف آرا وجود - جمعرات 21 اکتوبر 2021

بھارتی فوجی کی بیوہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حمایت میں میدان میں آگئیں اور کہا کہ وزیروں کی اولادوں کو ایک مرتبہ ضرور سرحد پربھیجیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پونچھ سیکٹر میں ہلاک ہونے والے بھارتی ...

علیحدہ کشمیر مانگ رہے ہیں تو دے دو، فوجی کی بیوہ مودی کے خلاف صف آرا

مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں تیزی لانے کا منصوبہ وجود - هفته 09 اکتوبر 2021

بھارت نے اپنے نام نہاد انسداد دہشت گردی کے سرکردہ ماہرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر بھیج دیا ہے تاکہ جاری مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کو ختم کرنے کیلئے مقامی پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ''ہندوستان ٹائمز'' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیش رفت بھارتی وزی...

مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں  تیزی لانے کا منصوبہ

یورپی پارلیمنٹ ریسرچ سروس کی مقبوضہ کشمیر پر تحقیقی دستاویز جاری وجود - جمعه 27 ستمبر 2019

یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس نے مقبوضہ کشمیرکی تازہ ترین صورتحال پر ایک تحقیقی دستاویز جاری کی ہے ،اس دستاویز میں مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیوکے نفاذ سے ابتک کے تمام واقعات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی یہ ...

یورپی پارلیمنٹ ریسرچ سروس کی مقبوضہ کشمیر پر تحقیقی دستاویز جاری

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر