وجود

... loading ...

وجود
وجود

شرمین چنائے کا آسکر ایوارڈ

منگل 01 مارچ 2016 شرمین چنائے کا آسکر ایوارڈ

Sharmeen-Obaid-Oscar-Winning-Director

مسعود انور نے یہ تحریر شرمین عبید چنائے کو پہلی مرتبہ آسکر ایوارڈ ملنے پر لکھی تھی ۔ جو آج بھی تازہ ہے۔ وجود ڈاٹ کام کے قارئین کے لئے اسے دوبارہ پیش کیاجا رہا ہے ۔ تاکہ شرمیین عبید چنائے کے گرد پیدا کیا جانے والا ماحول اور کارپوریٹ میڈئا کے کھیل کو سمجھا جا سکے۔


 

شرمین عبید چنائے کی بنائی گئی دستاویزی فلم save the face کو آسکر ایوارڈ برائے 2012کا حقدار قرار دے دیا گیا۔ اس طرح وہ پہلی پاکستانی قرار پائیں جن کو اس ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا۔ آج تک کسی بھی پاکستانی فلمکار یا اداکار یا اس شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ اس کو اس ایوارڈ کا فاتح قرار دینا تو درکنار، اس میں یا اسی قبیل کے کسی بھی ایوارڈ میں نامزد کیا جاتا۔

شرمین کی اس کامیابی کو پورے پاکستان کی کامیابی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اب پاکستان کا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور وہ پڑوسی ملک بھارت کی ہمسری اس شعبے میں بھی کرسکتا ہے۔ ایوارڈ جیتنے کے اعلان کے ساتھ ہی جناب وزیراعظم پاکستان نے بھی شرمین کو پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز دینے کا اعلان کیا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کے فلم کاری کے شعبے سے تعلق رکھنے والے حضرات نے بھی اس کو پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے اور اس اسٹوری کو پاکستانی الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا نے خاصی جگہ دی ہے بلکہ آئندہ کئی دنوں تک اس پر سائیڈ اسٹوریز آتی رہیں گی۔

شرمین کی تمام فلمیں ایک نوعیت ہی کی ہیں۔ ان تمام فلموں کے عنوانات دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ایک مخصوص طرز فکر کے تحت تیار کی گئیں اور کرائی گئیں۔ ان فلموں کو دیکھا جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ پروپیگنڈہ وار کتنی آگے بڑھ چکی ہے۔

شرمین کی یہ کامیابی، ریڈ کارپٹ پر استقبال اور میڈیا کوریج، کسی بھی شخص کو رشک و حسد میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔ آسکر ایوارڈ کی فاتح قرار دینے کے ساتھ ہی شرمین اب ایک icon بن گئی ہیں۔ ان کو صحافی و فلمکار کا مشترکہ ٹائٹل تو پہلے سے ہی حاصل تھا اب وہ دانشوروں کے کیڈر میں بھی شامل ہوجائیں گی۔

شرمین کی یہ دستاویزی فلم save the face نہ تو ان کی پہلی فلم ہے اور نہ ہی آسکر ایوارڈ ان کی پہلی کامیابی ہے۔ شرمین اس سے قبل 14 دستاویزی فلمیں پروڈیوس کرچکی ہیں۔ ان کی یہ فلمیں امریکا و برطانیہ کے بااثر ترین اور مقبول ترین ٹی وی چینلChannel 4, , CNN, PBS,HBO اور الجزیرہ پر چل چکی ہیں۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں,Children of the Taliban Lost Generation اور Unveiled Afghanistan شامل ہیں۔ اس سے قبل وہ گریمی ایوارڈ سمیت دیگر کئی ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔

1978 میں کراچی میں پیدا ہونے والی شرمین چنوئے نے اے لیول کراچی گرامر اسکول سے کیا اور پھر گریجویشن اسمتھ کالج سے کیا جبکہ پوسٹ گریجویشن اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے کیا۔ اس کے بعد سے ہی 2002 میں وہ نیویارک ٹائمز ٹیلی وژن سے منسلک ہوگئیں۔ اور اس کے بعد تمام سنگ میل ان کی راہ کی خاک قرار پائے اور وہ چینل فور، بی بی سی، الجزیرہ اور سی این این سمیت تمام بڑے بڑے میڈیا گروپوں کی منظور نظر قرار پائیں۔آخر پاکستانی نژاد کنیڈین شہریت کی حامل شرمین میں ایسا کیا تھا کہ ان چینلز نے نہ صرف شرمین کی تربیت کی، ان کو تیکنیکی معاونت فراہم کی اور سب سے بڑھ کر کہ ان کو بلا روک ٹوک فنڈز فراہم کئے۔ان کو آگے بڑھانے کے لئے تمام تر وسائل کا استعمال کیا گیا اور پھر ان کو ایوارڈز بھی دئے گئے۔

یہ سب سے اہم سوال ہے جس کا جواب ساری گتھی کو سلجھا دیتا ہے۔ آئیے شرمین کی پہلی دستاویزی فلم کا جائزہ لیتے ہیں جو اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوا۔ شرمین نے 2002 میں نیویارک ٹیلی وڑن کے لئے اپنی پہلی دستاویزی فلمChildren Terror’s پروڈیوس کی۔ اس فلم کے نام کا اردو ترجمہ دہشت کے بچے بنتا ہے اور یہ افغان مہاجر بچوں کے بارے میں تھی۔ اس فلم کے بنتے ہی شرمین پر انعامات کی بارش کردی گئی اور اس کو اوورسیز پریس کلب ایوارڈ، دی امریکن وومین ان ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن ایوارڈ اور ساؤتھ ایشین جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔

شرمین نے نیویارک ٹائمز ٹیلی وژن کے لئے چار مزید دستاویزی فلمیں تیار کیں۔ اس میں Taliban Reinventing the یعنی طالبان کی ازسرنو پیداوار کو زبردست پزیرائی ملی۔ اس فلم کو 2003 میں کینیڈا میں ہونے والے BANFF ٹی وی فیسٹیول میں خصوصی ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی دی امریکن وومین ان ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن ایوارڈ، سائنے گولڈن ایگل ایوارڈ اور لونگ اسٹون بھی دیا گیا۔ 2005 میں شرمین نے سعودی عرب میں خواتین کی حالت زار پر ایک اور دستاویزی فلم تیار کی۔ جس کا عنوان تھا Women of the Holy Kingdom ۔ دیگر فلموں کی طرح شرمین کی اس فلم کو بھی زبردست پذیرائی دی گئی اور اسی طرح انعامات کی بارش کردی گئی۔

شرمین کی دیگر تمام فلمیں بھی اسی نوعیت ہی کی ہیں۔ ان تمام فلموں کے عنوانات دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ایک مخصوص طرز فکر کے تحت تیار کی گئیں اور کرائی گئیں۔ ان فلموں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پروپیگنڈہ وار کتنی آگے بڑھ چکی ہے۔

یہاں پر ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان تمام فلموں کی تیاری کے لئے ایک پاکستانی خاتون ہی کو کیوں چنا گیا، کوئی گورا کیوں نہیں؟ جناب اگر یہی کام اگر ایک گورا کرتا تو اسے یہ پبلسٹی اسٹننٹ نہیں ملتا۔ گورا پہلے ہی تنقید کی زد میں آجاتا اور اس کو تعصب پر مبنی قرار دیا جاتا۔ شرمین نے کوئی نیا کام نہیں کیا۔ یہ سب مغربی پریس روزانہ چھاپتا بھی ہے اور دکھاتا بھی ہے۔ ان کے مقامی نمائندے ان کی فرمائش پر اس طرح کی فوٹیج روزانہ اہتمام سے تیار کرکے بھجواتے ہیں جو روزانہ پوری دنیا میں نشر ہوتی ہے مگر اس کا وہ اثر نہیں آتا۔

اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔ مغرب کی عورت الف ننگی روزانہ سڑک پر گھومتی نظر آتی ہے۔ اس کی ہر زاویہ سے تصاویر بھی ان کے میگزین میں نظر آتی ہیں۔ ابھی زیادہ پہلے کی بات نہیں ہے۔ فرانس کی موجودہ خاتون اول کارلا برونی کی برہنہ تصاویر میگزین کی زینت بنیں۔ مگر وینا ملک کو نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی زبردست جگہ دی۔ اس کی وجہ صرف اور صرف وینا کا پاکستانی ہونا تھا۔ وینا نے کارلا سے زیادہ تو برہنگی نہیں دکھائی تھی اور نہ ہی وینا کا کارلا سے بڑا اسٹیٹس ہے۔

یہ پاکستانی و بین الاقوامی میڈیا انہی لوگوں کے زیر اثر ہے جو دنیا پر ایک عالمگیر حکومت کے خواہاں ہیں۔ یہی لوگ پہلے شرمین جیسے لوگوں کو تیار کرتے ہیں، ان سے اپنے مطلب کی فلمیں تیار کراتے ہیں اور پھر اس کو ایوارڈ سے نوازتے ہیں اور پھر اس کو بھرپور میڈیا پبلسٹی کے ذریعے ایک بت کی صورت تراشتے ہیں۔اور جی ہاں پھر یہ بت ان کے وہ کام کرتے ہیں جو بڑے بڑے لیڈر بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا نوجوان نسل پر وہ اثر ہوتا ہے جو ان کے والدین کا بھی نہیں ہوتا۔ یہ نئی نسل کے آئیڈیل قرار پاتے ہیں اور پھر ان عالمی ساہوکاروں کا فرستادہ بننا ایک خواب قرار پاتا ہے اور اس کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ اسے مختصر ترین الفاظ میں دام ہم رنگ زمیں کہا جاسکتا ہے۔

(اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔)


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر