وجود

... loading ...

وجود
وجود

جہانگیر صدیقی کا پاکستانی معیشت کو اپاہج کرکے "گاڈ فادر "بننے کا خواب (قسط اول)

جمعه 12 فروری 2016 جہانگیر صدیقی کا پاکستانی معیشت کو اپاہج کرکے

jehangir-siddiqui

افواجِ پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں عظیم کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں لیکن اب بھی وطنِ عزیز میں موجود اُن گروہوں کی گردنیں دبوچنا باقی ہے جو ملک کی مالیاتی مارکیٹوں کو تباہ کرنے میں ملوث رہے اور عام سرمایہ کاروں اور عوام کو بڑے پیمانے پر ٹھگ رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ عموماً کسی بھی معیشت کی صحت و ترقی کو ظاہر کرتی ہے اور کارپوریٹ گورننس کے عمدہ اقدامات ہی دیگر ممالک میں پاکستان کو ساکھ کو بہتر بناتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متوجہ ہوتی ہے۔ مگر جے ایس گروپ نے 2006ء سے 2008ء تک پاکستان کی اِن ہی مالیاتی مارکیٹوں کو ہدف بنایا اور ایسا بحران تخلیق کیا، جس نے بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ کو زک پہنچائی، سرمایہ کاروں بالخصوص غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بُری طرح مجروح کیا اور یوں قومی معیشت کو بہت بڑے پیمانے پر دھچکا پہنچایا۔ جے ایس بینک کے اشتہار میں عام طور پر ایک جملہ “ابھی بڑھنا ہے آگے اور” استعمال ہوتاہے۔ مگر جے ایس گروپ اور اُس کے سربراہ جس طرح آگے بڑھ رہ ہیں، اُس سے ماریو پوزو کے ناول کا “گاڈ فادر” ذہنوں میں اُبھرتا ہے۔ جو مالیاتی اداروں میں گھس کر سب کچھ اپنے کنٹرول میں لینے اور تمام سرگرمیوں کو اپنے جنبشِ ابرو سے چلانے کے لئے کمربستہ رہتا ہے۔ اطالوی طرز کی ان مافیاؤں کا مقابلہ کرنے میں سرکاری ادارے اس لئے ناکام رہتے ہیں کہ تمام کے تمام اداروں میں کہیں نہ کہیں “گاڈ فادر “نے اپنے لوگوں کے ذریعے پنجے گاڑ رکھے ہوتے ہیں۔ جے ایس گروپ کے سربراہ جہانگیر صدیقی نے اسی طرز پر ملک کےاندر اپنی معاشی سرگرمیوں سے ایک ایسی ناہمواری کو جنم دے دیا ہے جس نے سرمائے کی شفاف حرکت کو ناممکن بنا دیا ہے۔ جبکہ جے ایس گروپ نے وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر احتساب کے تمام سرکاری اداروں کو بھی تعلقات کی ایک منافع بخش آکاس بیل میں جکڑ لیا ہے۔ اس ضمن میں اُن کی رشتے داریاں بھی اُن کی زبردست معاونت کررہی ہیں، یوں جہانگیر صدیقی کے سیاسی، صحافتی اور سرکاری اداروں کے روابط نے مل کر ایک ایسابھیانک منظرنامہ بنا دیا ہے جس میں شفافیت، مسابقت کا صحت مند ماحول اور احتساب کا غیر جانبدارنہ عمل تقریباً ناممکن بن چکا ہے۔ جب سب کچھ “گاڈ فادر” کی مرضی سے ہونا ہے تو پھر عدالتیں بھی کس طرح اُن کے ارادوں سے بچ سکتی ہیں۔ پاکستان کو مالیاتی اداروں اور معیشت کا یہ مجموعی ماحول بہت جلد ایک بڑے قومی بحران میں مبتلا کرنے والا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ جہانگیرصدیقی کے خطرناک عزائم پر مبنی سنگین مالیاتی جرائم کو بے نقاب کیا جائے۔ وجود ڈاٹ کام کو میسر دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جہانگیر صدیقی نے ڈاکٹر عاصم حسین سے لے کر ہمیش خان، گجرات کے چودھریوں، موجودہ اور سابقہ بیوروکریٹس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، تک پھیلے اپنے غیر معمولی اور منافع بخش روابط استعمال کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کو کس کس طرح اور کہاں کہاں سے دبوچا؟
mir-shakeel
پاکستان دہائیوں سے دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔ اس کے اسکول، بازار، مساجد، گرجے، نقل و حمل کا نظام اور سب سے بڑھ کر خود سیکورٹی فورسز ان دہشت گردوں کا ہدف ہیں جو مختلف ذرائع بالخصوص بھارت سے فنڈنگ حاصل کرتے ہیں۔ ہزاروں شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے اس پاک سرزمین کے عوام اور اس کی املاک کو بچاتے ہوئے شہادت پائی ہے۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں عسکری اداروں کی تازہ تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ افغانستان میں بیٹھ کر اس حملے کی میزبانی کس طرح بھارت نے کی ہے؟ ایک ایسے وقت میں جب سیکورٹی فورسز کی مکمل توجہ مسلح دہشت گردوں سے نمٹنے پر ہے، ان گروہوں کی سرگرمیوں پر توجہ کم ہوگئی ہے جو پاکستان کے اندر مالیاتی مارکیٹوں کو تباہ کرنے، عام سرمایہ کاروں اور عوام کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے کی سنگین سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بد دیانتی اور لوٹ مار سے حاصل کیا گیا یہی پیسہ بعد میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہوتا ہے۔

جے ایس گروپ نے اپنی بیشتر دولت خفیہ تجارت، کارپوریٹ چھینا جھپٹی اور پاکستانی پنشن فنڈز، خیراتی ٹرسٹ اور ایک عام پاکستانی کی اسٹاک مارکیٹ میں کی گئی سرمایہ کاری کو لوٹ کر اکٹھی کی ہے

جہانگیر صدیقی کی زیر قیادت جے ایس گروپ کی پوری تاریخ مختلف مالیاتی اسکینڈلز اور مشتبہ کاروباری ضابطوں سے داغدار ہے۔ انہوں نے اپنی بیشتر دولت خفیہ تجارت، کارپوریٹ چھینا جھپٹی اور پاکستانی پنشن فنڈز، خیراتی ٹرسٹ اور ایک عام پاکستانی کی اسٹاک مارکیٹ میں کی گئی سرمایہ کاری کو لوٹ کر اکٹھی کی ہے۔ بدعنوانی کے مختلف ذرائع سے لوٹی گئی دولت میں یہی ایک تحقیق طلب مسئلہ نہیں ہوتا کہ یہ کیسے حاصل کی گئی۔ بلکہ پاکستان ایسے ملکوں میں جہاں دہشت گردی نے پنجے گاڑ رکھے ہو، اور بے پناہ دولت نے اپنے استعمال کے غیر قانونی ملکی اور غیر ملکی راستے کھوج رکھے ہیں، وہاں ایسی غیر قانونی دولت کے استعمال کے مقامات کو بھی تلا ش کرنے کی ضرورت ہے۔ جے ایس گروپ پر الزام ہے کہ اُس نے غیر قانونی فائدے سمیٹنے کے لیے نہ صرف مالیاتی قواعد کے خلاف اپنے رابطوں کو استعمال کیا بلکہ اُس نے کچھ ایسے کام بھی مشکوک طریقے سے سرانجام دیئے، جو مبینہ طور پر مالیاتی دہشت گردی کے مرتکبین کے سہولت رساں کے زمرے میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ وہ بینک آف پنجاب کے بورڈ میں شامل ہونے کے باعث بینک کے سابق صدر ہمیش خان اور چودھری برادران (چودھری پرویز الٰہی اور شجاعت حسین) کے سنگ سنگ کام کرتے رہے ہیں۔ وہ 1991ء سے 2009ء تک پی این ایس سی کے بورڈ کا بھی حصہ تھے اور وہاں بھی مختلف فراڈ اور بے ضابطگیوں کے متعددمعاملات میں ملوث رہے، جس میں مونس الٰہی کے ساتھ بحری جہاز خرید کر قومی خزانے کو نقصان پہنچانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے اپنی جے ایس انوسٹمنٹس میں 2 ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی غیر قانونی طور پر حاصل کی، جس کی آڈیٹر جنرل آف پاکستان نشاندہی کر چکے ہیں اور اب یہ معاملہ تحقیقاتی اداروں میں زیر تفتیش ہونے کے باوجود جہانگیر صدیقی کے بھاری بھرکم تعلقات کے باعث دبا رہتا ہے۔

جے ایس گروپ پر الزام ہے کہ اُس نے غیر قانونی فائدے سمیٹنے کے لیے نہ صرف مالیاتی قواعد کے خلاف اپنے رابطوں کو استعمال کیا بلکہ اُس نے کچھ ایسے کام بھی مشکوک طریقے سے سرانجام دیئے، جو مبینہ طور پر مالیاتی دہشت گردی کے مرتکبین کے سہولت رساں کے زمرے میں بھی شمار ہوتے ہیں

جہانگیر صدیقی نے مختلف اداروں میں حصص خریدے، غیر قانونی اسٹاک مارکیٹ چال بازیوں اور خفیہ تجارت کے ذریعے بنایا گیا پیسہ استعمال کیا، اپنے مختلف اداروں اور میوچوئل فنڈز کے ذریعے اور بعد میں ہدف پر موجود اداروں کی ملکیت حاصل کرلی۔ ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ادارے کے حصص تھے، انہوں نے ادارے کے مالکان اور انتظامیہ کو مختلف طریقوں سے دباؤ میں لیا تاکہ وہ اُن کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہو نے پر مجبور ہوں۔ جس میں سے ایک ادارے سے پیسہ نکالنے اور حصص میں تجارت کے دھندے میں شامل ہو نا بھی شامل ہے۔ یہ طریقہ دراصل ایک پیٹرن بن کر سامنے آتا ہے جس میں اگر ادارہ بدعنوان نہ ہو تو اُسے مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُسے عدالت میں گھسیٹ لیا جاتا ہے، جہاں مختلف عدالتی مراحل کی ایک پوری سائنس ہے جس پر جہانگیر صدیقی اور اُن کے ایک مخصوص ٹولے کی پوری مہارت اور گرفت پائی جاتی ہے۔ اس طرح وہ مزاحم کاروباری اداروں کے اہم افراد کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ (اس کی پوری تفصیلات اور مثالیں نام بہ نام اور مقام بہ مقام اپنی جگہ پر آئیں گی)۔ یہ گزشتہ 25 سال سے زیادہ عرصے سے ہو رہا ہے اور کئی اچھے ادارے جو پاکستان کے لیے ملازمت کے مواقع دے رہے تھے اور اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے، انہی حرکتوں کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ ڈاڈیکس، لبرٹی ملز، گلوب ٹیکسٹائل، سیلی ٹیکسٹائلز، العابد ملز، سرل پاکستان اور سنگر پاکستان۔ فلپس پاکستان کا 1998ء میں حصص واپس لینا بھی انہی وجوہات کی بنیاد پر تھا۔

asim-hussain-shahid-hayat

گروپ کے پے رول پر متعدد حکومتی و اہم شخصیات ہیں جن کا اثر و رسوخ مالیاتی جرائم کے ارتکاب میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جے ایس گروپ کی ان سرگرمیوں کو مکمل طور پر سیاسی حکومتوں کی پشت پناہی حاصل رہتی ہیں۔ یہ عمل نہایت منظم طریقے سے جاری ہے۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم نوازشریف کے سیکریٹری فواد حسن فواد بھی جہانگیر صدیقی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور اُنہیں ایک پشت پناہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ اسپرنٹ انرجی پرائیوٹ لمیٹڈ کے معاملے میں بھی شامل تھے۔ جس نے ایس این جی پی ایل کی جعلی دستاویزات کے ذریعے صوبہ پنجاب میں سی این جی اسٹیشنوں کو غیر قانونی طور پر دوسرے مقامات پر منتقل کیا۔ مگر یہ جہانگیر صدیقی کی پھیلائی ہوئی بساط کی ایک بہت چھوٹی سی کہانی کا نہایت معمولی کردار ہے۔ بات اس سے کہیں آگے جاتی ہے۔ جس کی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی۔ الغرض موجودہ اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور ایف بی آئی حکام بھی گروپ کے پے رول پر ہیں جیسا کہ عابد حسین (ای ڈی، ایس ای سی پی)، شاہد حیات (ڈائریکٹر ایف آئی اے)، سعود احمد مرزا (سابق ڈی جی ایف آئی اے، اِس وقت جے ایس سی ایل کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز)، جی ایم ملکانی (سابق پولیس چیف جو جے ایس گروپ آف کمپنیز کے بورڈ میں شامل تھے اور آزگرد نائن فراڈ میں ایس ای سی پی تحقیقاتی رپورٹ میں نامزد)، فہد ہارون (پی آر)، کمال افسر (سابق بیوروکریٹ، جو جے ایس اور خسرو خواجہ کے ساتھ پی این ایس سی بورڈ میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اس وقت مختلف اداروں میں جے ایس کی نمائندگی کر رہے ہیں)، عبد الحمید ڈاگیا (وہ مختلف اداروں میں جے ایس گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان پر آزگرد نائن لمیٹڈ حصص کی تجارت کے فراڈ کا الزام ہے لیکن ایس ای سی پی نے انہیں شیئر رجسٹرار سروسز چلانے کی اجازت دے رکھی ہے یعنی مفاد عامہ کو خطرے میں ڈال رکھا ہے )، عدنان آفریدی، خالد مرزا (انہوں نے چیئرمین ایس ای سی پی کی حیثیت سے اپنے عہدے کے آخری دن جے ایس گروپ کو غیر قانونی طور پر اسٹاک ایکسچینج لائسنس جاری کیا)، نجم علی (جے ایس انوسٹمنٹس کے سی ای او کی حیثیت سے وہ ایس ای سی پی کے فوجداری معاملے میں آزگرد نائن فراڈ اور دیگر مختلف جرائم کے ملزم ہیں)، حبیب الرحمٰن (جے ایس گروپ کے نمائندہ، اس سے پہلے جے ایس ابامکو، مہوش جہانگیر صدیقی فاؤنڈیشن کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں)، شمیم احمد خان (مختلف اداروں میں جے ایس گروپ کے نمائندہ)، جاوید مسعود (سابق سی ای او پاکرا ریٹنگ کمپنی)، عمارن شیخ (پی آر او، نائب صدر جے ایس گروپ)، زاہد اللہ (جے ایس بینک کے ملازم) ریٹائرڈ جسٹس محبوب احمد، طاہر محمود، کمشنر ایس ای سی پی، عاکف سعید کمشنر ایس ای سی پی، خواجہ خسرو (پی این ایس سی اور کے ای ایس سی کے بورڈز میں جہانگیر صدیقی کے ساتھ خدمات انجام دینے والے) ان میں سے چند ہیں۔ ان تمام افراد کے بارے میں ایک سلسلہ وار رپورٹ کے تحت تمام تفصیلات اور تعلقات کے بل بوتے پر اداروں کےاستحصال اور لوٹ مار کے عمل میں ایک معاونت کی مکروہ تال میل کو یہاں بے نقاب کرنا مقصود ہے۔

ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کے ذریعےجہانگیر صدیقی کے تمام معاملات کی چھان بین کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان حساس نوعیت کے معاملات میں پاکستان کے کاروباری اداروں کے ساتھ رچائی گئی سازشیں بے نقاب ہو

جے ایس گروپ بینک، این بی ایف سی (میوچوئل فنڈز مینجمنٹ)، بروکریج ہاؤس، این جی او اور پرائیوٹ کمپنیوں کا لائسنس رکھتا ہے اور وہ جرائم کے ارتکاب کے لیے اپنے پورے مالیاتی رابطوں اور وسیع سرمائے کو استعمال کرتا ہے۔ گروپ مختلف فراڈز میں ملوث رہا ہے، جیسا کہ 2008ء میں جے ایس گروپ کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں جوڑ توڑ کے ذریعے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی بھیانک سازش، جس میں جے ایس سی ایل کے جعلی حصص کا اجرا بھی شامل ہے، سرکاری اداروں کو نقصان، جے ایس بینک کے لیے کم از کم سرمائے کی اسٹیٹ بینک کی شرائط کو جھانسا دینا، مارکیٹ کے نرخوں سے کہیں زیادہ پر سرکاری اداروں جیسا کہ نیشنل بینک کف ایگری ٹیک ایف سیز کا اجرا، پی آئی سی ٹی کمپنی شیئرز میں خفیہ تجارت، علی جہانگیر صدیقی کو 4.3 ملین ڈالرز کے جعلی بونس کی ادائیگی جس نے چھوٹے حصص یافتگان کو نقصان پہنچایا، آزگرد نائن کمپنی کے حصص میں مارکیٹ جوڑ توڑ، آئی سی آئی پاکستان کے حصص میں سازباز، ایف بی آر کے سامنے غلط بیانی سے این جی او کا لائسنس حاصل کرنا، اسپرنٹ انرجی معاملے میں سی این جی اسٹیشنوں کے لائسنس فراڈ سے حاصل کرنا (جو بدنام زمانہ اوگرا معاملے سے متعلق ہے)، ای ایف یو لائف انشورنس اور ای ایف یو جنرل انشورنس کمپنی کے حصص میں سازباز، بے ایمانی اور فراڈ کے ذریعے عوامی اداروں کو میوچل فنڈ یونٹوں کی فروخت وغیرہ۔ ان میں سے متعدد مقدمات بھی درج ہو چکے ہیں اور تفتیشی اداروں کے پاس کئی معاملات کی تحقیقات موجود ہیں جیسا کہ قومی احتساب بیورو (نیب)، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، وغیرہ کے روبرو۔ مگر جہانگیر صدیقی اپنے مالیاتی جرائم کے باوجود غیر قانونی استثنا حاصل کرنے کے لیے موجودہ اور ریٹائر بیورو کریٹس، حکومتی افسران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں اور اپنے انہی تعلقات کی وجہ سے اب تک دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس میں تازہ ترین اضافہ میرشکیل الرحمان کی صورت میں اس طرح ہوا کہ وہ اب اُن کے سمدھی بن چکے ہیں۔ جس کے باعث جنگ گروپ جو ایک زبردست ساکھ کا حامل پاکستان کا سب سے بڑا ذرائع ابلاغ کا گروپ تھا، صرف جہانگیرصدیقی کی لامحدود حرص اور غیر قانونی کاروباری پھیلاؤ کے تحفظ کا آلہ کار بنتا جار ہا ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے جے ایس گروپ نے ایک منصوبہ بنایا تھا، جس میں 2006ء سے 2008ء کے دوران گروپ کے اداروں کی حصص کی قیمتیں بڑھائی گئیں تاکہ جے ایس سی ایل کی خالص اثاثہ جات کی ویلیو کے بارے میں مصنوعی تاثر قائم ہو اور پھر حصص کو گرا کر جعلی قیمتوں سے بڑے پیمانے پر منافع لوٹا جا سکے۔ مختلف ماتحت اداروں اور ایسوسی ایٹس کے حصص کی قیمتیں ایسی ہی سازشوں کے ذریعے بڑھائی گئیں تاکہ مصنوعی تاثر دیا جا سکے۔ اس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو حقوق کے ساتھ ساتھ حصص بھی جاری کیے اور ان سرمایہ کاروں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ ایس ای سی پی نے ڈاکٹر عاصم حسین اورسابق وزیر خزانہ نوید قمر کے اثر و رسوخ تلے دب کے انہیں غیر قانونی استثنا دیے۔
Naveed-Qamar
ایس ای سی پی نے جے ایس گروپ کے ان اقدامات کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں منی لانڈرنگ اور کالعدم گروہوں کی مبینہ سرمایہ کاری بھی پائی گئی۔ رپورٹ نے خانانی اینڈ کالیا منی ایکسچینج کے ساتھ متعدد ملزمان کے روابط کا بھی انکشاف کیا۔ ان روابط کی چھان بین ایسے حالات میں اور زیادہ ضروری ہو جاتی ہے جبکہ امریکا نے خود خانانی اینڈ کالیا پر پابندی عائد کردی ہے۔

جہانگیر صدیقی کے تعلقات میں تازہ ترین اضافہ میرشکیل الرحمان کی صورت میں ہوا، جو اب اُن کے سمدھی بن چکے ہیں۔ جس کے باعث جنگ گروپ جو ایک زبردست ساکھ کا حامل پاکستان کا سب سے بڑا ذرائع ابلاغ کا گروپ تھا، صرف جہانگیرصدیقی کی لامحدود حرص اور غیر قانونی کاروباری پھیلاؤ کے تحفظ کا آلہ کار بنتا جار ہا ہے

مندرجہ بالا تناظر میں ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کے ذریعےجہانگیر صدیقی کے تمام معاملات کی چھان بین کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان حساس نوعیت کے معاملات میں پاکستان کے کاروباری اداروں کے ساتھ رچائی گئی سازشیں بے نقاب ہو اورقواعد کے برخلاف فائدہ سمیٹنے والے داخلِ زنداں ہو سکیں۔ تمام اداروں اور ان کے باہمی گٹھ جوڑ کی ایک آزاد تحقیق ظاہر کرے گی کہ یہ منصوبے کیسے بنائے گئے اور ہرشد مہتا قسم کی اسکیم کے ذریعے حصص کو اوپر اور نیچے کرکے ملک کے بازار حصص اور پوری معیشت کو کتنا نقصان پہنچایا گیا، خاص طور ایسے وقت جب وہ بلند پروازی کے لیے تیارتھی۔

جامع تحقیقات کے لیے جے ایس سی ایل کا تجارتی ڈیٹا برائے سال 2007ء اور 2008ء کراچی اسٹاک ایکسچینج سے حاصل کرنا چاہیے۔ اس ڈیٹا کی جانچ کیپٹل مارکیٹوں، سرمایہ کاروں، سرکاری اداروں اور قومی معیشت کو پہنچنے والے زبردست نقصان کا حقیقی اندازہ فراہم کرے گی؛ ساتھ ہی یہ بھی کہ روپیہ دباؤ میں کیوں آیا اور نتیجتاً غیر ملکی ذخائر اور ساتھ ساتھ ادائیگی کا توازن کیسے متاثر ہوا؟جے ایس سی ایل تجارتی ڈیٹا قومی سرمایہ مارکیٹ اور معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا حقیقی فائدہ اٹھانے والوں کو بھی بے نقاب کرے گا۔ اس پورے کھیل میں کسی غیر ملکی ہاتھ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے نقصان کا اصل فائدہ ہمارے پڑوسی اٹھا سکتے ہیں۔ جن کے حق میں “امن کی آشا” جیسی مہمیں چل چکی ہیں اور “دوستی کرکے جیو” جیسی وطن دشمن نفسیات پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ حصص کی قیمت میں جوڑ توڑ کرنا سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج آرڈیننس 1969ء کے سیکشن 17 کے تحت ایک مجرمانہ فعل ہے اور اس کی سزا قید اور بھاری مالی ہرجانے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ معاملہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء میں بھی شمار ہو سکتا ہے۔ (جاری ہے)

(یہ تحریر دراصل جہانگیر صدیقی کے پورے کاروبار گروپ اور اُن کے “گاڈ فادر” بننے کی لامحدود حرص وہوس کی طرف توجہ دلانے کے لئے محض ایک تمہید کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں اُٹھائے گئے مختلف پہلووؤں پر تفصیلی روشنی اگلی تحریروں میں ڈالی جائیگی)


متعلقہ خبریں


کلفٹن میں خوفناک انداز میں کار ڈرائیونگ مہنگی پڑگئی، نوجوان گرفتار وجود - جمعه 19 اپریل 2024

کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کی حدود میں ڈرفٹنگ کرنا نوجوان کو مہنگا پڑ گیا۔۔کراچی کے خیابان بخاری پر مہم جوئی کرنے والے منچلے کو پولیس نے حوالات میں بند کردیا پولیس کے مطابق نوجوان نے نئی تعمیر شدہ خیابان بخاری کمرشل پر خوفناک انداز میں کار دوڑائی ۔ کار سوار کے خلاف مقدمہ درج کر کے لاک ا...

کلفٹن میں خوفناک انداز میں کار ڈرائیونگ مہنگی پڑگئی، نوجوان گرفتار

ایف آئی اے کی کراچی ائیرپورٹ پر بڑی کارروائی، اسمگلنگ کی کوشش ناکام وجود - جمعه 19 اپریل 2024

ایف آئی اے امیگریشن نے کراچی ائرپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے سگریٹ۔ اور تمباکو سے منسلک دیگر مصنوعات اسمگل کرنے کی کوش ناکام بنا دی ۔۔سعودی عرب جانے والے دو مسافروں کو طیارے سے آف لوڈ کردیا گیا ۔۔ ملزمان عمرے کے ویزے پر براستہ یو اے ای ریاض جا رہے تھے۔ ملزمان نے امیگریشن کلیرنس کے ...

ایف آئی اے کی کراچی ائیرپورٹ پر بڑی کارروائی، اسمگلنگ کی کوشش ناکام

بارش کا 75سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،دبئی، شارجہ، ابوظہبی تالاب کا روپ دھار گئے وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

متحدہ عرب امارات میں طوفانی ہواں کے ساتھ کئی گھنٹے کی بارشوں نے 75 سالہ ریکارڈ توڑدیا۔دبئی کی شاہراہیں اور شاپنگ مالز کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب گئے۔۔شیخ زید روڈ پرگاڑیاں تیرنے لگیں۔دنیا کامصروف ترین دبئی ایئرپورٹ دریا کا منظر پیش کرنے لگا۔شارجہ میں طوفانی بارشوں سیانفرا اسٹرکچر شدی...

بارش کا 75سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،دبئی، شارجہ، ابوظہبی تالاب کا روپ دھار گئے

قومی ادارہ برائے صحت اطفال، ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

کراچی میں بچوں کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں بیڈز ۔ ڈرپ اسٹینڈ اور دیگر طبی لوازمات کی کمی نے صورتحال سنگین کردی۔ ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا۔قومی ادارہ برائے صحت اطفال میں بیمار بچوں کے لیے بیڈز کی قلت کے سبب ایک ہی بیڈ پر ایمرجنسی اور وارڈز میں 4 او...

قومی ادارہ برائے صحت اطفال، ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا

سندھ حکومت کا کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

سندھ حکومت کاصوبے بھرمیں کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ، مشیرکچی آبادی سندھ نجمی عالم کیمطابقمیپنگ سے کچی آبادیوں کی حد بندی کی جاسکے گی، میپنگ سے کچی آبادیوں کا مزید پھیلا روکا جاسکے گا،سندھ حکومت نے وفاق سے کورنگی فش ہاربر کا انتظامی کنٹرول بھی مانگ لیا مشیر کچی آبادی نجمی ...

سندھ حکومت کا کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ

کراچی ، ڈاکو راج کیخلاف ایس ایس پی آفس کے گھیراؤ کا اعلان وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

جماعت اسلامی نے شہر میں جاری ڈاکو راج کیخلاف ہفتہ 20اپریل کو تمام ایس ایس پی آفسز کے گھیراو کا اعلان کردیا۔نومنتخب امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی ہدایت پر کراچی میں اسٹریٹ کرائم بڑھتی واردتوں اور ان میں قیمتی جانی نقصان کیخلاف بدھ کو کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ...

کراچی ، ڈاکو راج کیخلاف ایس ایس پی آفس کے گھیراؤ کا اعلان

فوج اورعوام میں دراڑ ڈالنے نہیں دیں گے، آرمی چیف وجود - بدھ 17 اپریل 2024

کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکاء نے بشام میں چینی شہریوں پر بزدلانہ دہشتگردانہ حملے اور بلوچستان میں معصوم شہریوں کے بہیمانہ قتل ،غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جنگی جرائم اور نسل کشی کی مذمت ،مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر فریقین...

فوج اورعوام میں دراڑ ڈالنے نہیں دیں گے، آرمی چیف

ملک میں دو قانون نہیں چل سکتے، لگ رہا ہے ملک ٹوٹ رہا ہے، عمران خان وجود - بدھ 17 اپریل 2024

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ایسے کمرے میں کروائی گئی جہاں درمیان میں شیشے لگائے گئے تھے۔ رکاوٹیں حائل کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے کہا لگ رہا ہے ملک ٹوٹ رہا ہے۔ عمران خان نے بہاولنگر واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئ...

ملک میں دو قانون نہیں چل سکتے، لگ رہا ہے ملک ٹوٹ رہا ہے، عمران خان

رمضان اور عید میں مرغن کھانوں کا استعمال، کراچی میں ڈائریا کے مرض میں خوفناک اضافہ وجود - بدھ 17 اپریل 2024

رمضان المبارک میں تیل میں پکے پکوان اور عید کی دعوتوں میں مرغن عذا کے سبب کراچی میں ڈائریا کے کیسز میں اضافہ ہوگیا۔ جناح اسپتال میں عید سے اب تک ڈائریا کے تین سو سے زائد مریض رپورٹ ہوچکے ہیں کراچی میں رمضان کے بعد سے ڈائریا کے کیسز میں معمول سے 10فیصد اضافہ ہوگیا ڈاکٹروں نے آلودہ...

رمضان اور عید میں مرغن کھانوں کا استعمال، کراچی میں ڈائریا کے مرض میں خوفناک اضافہ

نیا تجربہ کرنیوالے ایک دن بے نقاب ہوں گے، علی امین گنڈا پور وجود - بدھ 17 اپریل 2024

وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ نیا تجربہ کرنے والے ایک دن بے نقاب ہوں گے، بانی پی ٹی آئی کے کیسز جعلی ہیں اور یہ نظام آئے روز بے نقاب ہورہا ہے۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے راولپنڈی میں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدلیہ کا...

نیا تجربہ کرنیوالے ایک دن بے نقاب ہوں گے، علی امین گنڈا پور

سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ ،امریکا، اسرائیل کی ایران کو دھمکیاں وجود - منگل 16 اپریل 2024

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل اور امریکا کے مندوبین نے تلخ تقاریر کیں اور ایران کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں جس کے جواب میں ایران نے بھی بھرپور جوابی کارروائی کا عندیہ دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سلام...

سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ ،امریکا، اسرائیل کی ایران کو دھمکیاں

جی-7اجلاس میں تہران پر پابندیوں کا فیصلہ وجود - منگل 16 اپریل 2024

جی-7ممالک کے ہنگامی اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان نے ایران کے حملے کے جواب میں اسرائیل کو اپنی مکمل حمایت کی پیشکش کرتے ہوئے ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد جی-7 ممالک امریکا، جاپان، جرمنی، فرانس، بر...

جی-7اجلاس میں تہران پر پابندیوں کا فیصلہ

مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر