... loading ...
افواجِ پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں عظیم کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں لیکن اب بھی وطنِ عزیز میں موجود اُن گروہوں کی گردنیں دبوچنا باقی ہے جو ملک کی مالیاتی مارکیٹوں کو تباہ کرنے میں ملوث رہے اور عام سرمایہ کاروں اور عوام کو بڑے پیمانے پر ٹھگ رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ عموماً کسی بھی معیشت کی صحت و ترقی کو ظاہر کرتی ہے اور کارپوریٹ گورننس کے عمدہ اقدامات ہی دیگر ممالک میں پاکستان کو ساکھ کو بہتر بناتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متوجہ ہوتی ہے۔ مگر جے ایس گروپ نے 2006ء سے 2008ء تک پاکستان کی اِن ہی مالیاتی مارکیٹوں کو ہدف بنایا اور ایسا بحران تخلیق کیا، جس نے بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ کو زک پہنچائی، سرمایہ کاروں بالخصوص غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بُری طرح مجروح کیا اور یوں قومی معیشت کو بہت بڑے پیمانے پر دھچکا پہنچایا۔ جے ایس بینک کے اشتہار میں عام طور پر ایک جملہ “ابھی بڑھنا ہے آگے اور” استعمال ہوتاہے۔ مگر جے ایس گروپ اور اُس کے سربراہ جس طرح آگے بڑھ رہ ہیں، اُس سے ماریو پوزو کے ناول کا “گاڈ فادر” ذہنوں میں اُبھرتا ہے۔ جو مالیاتی اداروں میں گھس کر سب کچھ اپنے کنٹرول میں لینے اور تمام سرگرمیوں کو اپنے جنبشِ ابرو سے چلانے کے لئے کمربستہ رہتا ہے۔ اطالوی طرز کی ان مافیاؤں کا مقابلہ کرنے میں سرکاری ادارے اس لئے ناکام رہتے ہیں کہ تمام کے تمام اداروں میں کہیں نہ کہیں “گاڈ فادر “نے اپنے لوگوں کے ذریعے پنجے گاڑ رکھے ہوتے ہیں۔ جے ایس گروپ کے سربراہ جہانگیر صدیقی نے اسی طرز پر ملک کےاندر اپنی معاشی سرگرمیوں سے ایک ایسی ناہمواری کو جنم دے دیا ہے جس نے سرمائے کی شفاف حرکت کو ناممکن بنا دیا ہے۔ جبکہ جے ایس گروپ نے وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر احتساب کے تمام سرکاری اداروں کو بھی تعلقات کی ایک منافع بخش آکاس بیل میں جکڑ لیا ہے۔ اس ضمن میں اُن کی رشتے داریاں بھی اُن کی زبردست معاونت کررہی ہیں، یوں جہانگیر صدیقی کے سیاسی، صحافتی اور سرکاری اداروں کے روابط نے مل کر ایک ایسابھیانک منظرنامہ بنا دیا ہے جس میں شفافیت، مسابقت کا صحت مند ماحول اور احتساب کا غیر جانبدارنہ عمل تقریباً ناممکن بن چکا ہے۔ جب سب کچھ “گاڈ فادر” کی مرضی سے ہونا ہے تو پھر عدالتیں بھی کس طرح اُن کے ارادوں سے بچ سکتی ہیں۔ پاکستان کو مالیاتی اداروں اور معیشت کا یہ مجموعی ماحول بہت جلد ایک بڑے قومی بحران میں مبتلا کرنے والا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ جہانگیرصدیقی کے خطرناک عزائم پر مبنی سنگین مالیاتی جرائم کو بے نقاب کیا جائے۔ وجود ڈاٹ کام کو میسر دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جہانگیر صدیقی نے ڈاکٹر عاصم حسین سے لے کر ہمیش خان، گجرات کے چودھریوں، موجودہ اور سابقہ بیوروکریٹس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، تک پھیلے اپنے غیر معمولی اور منافع بخش روابط استعمال کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کو کس کس طرح اور کہاں کہاں سے دبوچا؟
پاکستان دہائیوں سے دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔ اس کے اسکول، بازار، مساجد، گرجے، نقل و حمل کا نظام اور سب سے بڑھ کر خود سیکورٹی فورسز ان دہشت گردوں کا ہدف ہیں جو مختلف ذرائع بالخصوص بھارت سے فنڈنگ حاصل کرتے ہیں۔ ہزاروں شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے اس پاک سرزمین کے عوام اور اس کی املاک کو بچاتے ہوئے شہادت پائی ہے۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں عسکری اداروں کی تازہ تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ افغانستان میں بیٹھ کر اس حملے کی میزبانی کس طرح بھارت نے کی ہے؟ ایک ایسے وقت میں جب سیکورٹی فورسز کی مکمل توجہ مسلح دہشت گردوں سے نمٹنے پر ہے، ان گروہوں کی سرگرمیوں پر توجہ کم ہوگئی ہے جو پاکستان کے اندر مالیاتی مارکیٹوں کو تباہ کرنے، عام سرمایہ کاروں اور عوام کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے کی سنگین سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بد دیانتی اور لوٹ مار سے حاصل کیا گیا یہی پیسہ بعد میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہوتا ہے۔
جہانگیر صدیقی کی زیر قیادت جے ایس گروپ کی پوری تاریخ مختلف مالیاتی اسکینڈلز اور مشتبہ کاروباری ضابطوں سے داغدار ہے۔ انہوں نے اپنی بیشتر دولت خفیہ تجارت، کارپوریٹ چھینا جھپٹی اور پاکستانی پنشن فنڈز، خیراتی ٹرسٹ اور ایک عام پاکستانی کی اسٹاک مارکیٹ میں کی گئی سرمایہ کاری کو لوٹ کر اکٹھی کی ہے۔ بدعنوانی کے مختلف ذرائع سے لوٹی گئی دولت میں یہی ایک تحقیق طلب مسئلہ نہیں ہوتا کہ یہ کیسے حاصل کی گئی۔ بلکہ پاکستان ایسے ملکوں میں جہاں دہشت گردی نے پنجے گاڑ رکھے ہو، اور بے پناہ دولت نے اپنے استعمال کے غیر قانونی ملکی اور غیر ملکی راستے کھوج رکھے ہیں، وہاں ایسی غیر قانونی دولت کے استعمال کے مقامات کو بھی تلا ش کرنے کی ضرورت ہے۔ جے ایس گروپ پر الزام ہے کہ اُس نے غیر قانونی فائدے سمیٹنے کے لیے نہ صرف مالیاتی قواعد کے خلاف اپنے رابطوں کو استعمال کیا بلکہ اُس نے کچھ ایسے کام بھی مشکوک طریقے سے سرانجام دیئے، جو مبینہ طور پر مالیاتی دہشت گردی کے مرتکبین کے سہولت رساں کے زمرے میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ وہ بینک آف پنجاب کے بورڈ میں شامل ہونے کے باعث بینک کے سابق صدر ہمیش خان اور چودھری برادران (چودھری پرویز الٰہی اور شجاعت حسین) کے سنگ سنگ کام کرتے رہے ہیں۔ وہ 1991ء سے 2009ء تک پی این ایس سی کے بورڈ کا بھی حصہ تھے اور وہاں بھی مختلف فراڈ اور بے ضابطگیوں کے متعددمعاملات میں ملوث رہے، جس میں مونس الٰہی کے ساتھ بحری جہاز خرید کر قومی خزانے کو نقصان پہنچانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے اپنی جے ایس انوسٹمنٹس میں 2 ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی غیر قانونی طور پر حاصل کی، جس کی آڈیٹر جنرل آف پاکستان نشاندہی کر چکے ہیں اور اب یہ معاملہ تحقیقاتی اداروں میں زیر تفتیش ہونے کے باوجود جہانگیر صدیقی کے بھاری بھرکم تعلقات کے باعث دبا رہتا ہے۔
جہانگیر صدیقی نے مختلف اداروں میں حصص خریدے، غیر قانونی اسٹاک مارکیٹ چال بازیوں اور خفیہ تجارت کے ذریعے بنایا گیا پیسہ استعمال کیا، اپنے مختلف اداروں اور میوچوئل فنڈز کے ذریعے اور بعد میں ہدف پر موجود اداروں کی ملکیت حاصل کرلی۔ ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ادارے کے حصص تھے، انہوں نے ادارے کے مالکان اور انتظامیہ کو مختلف طریقوں سے دباؤ میں لیا تاکہ وہ اُن کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہو نے پر مجبور ہوں۔ جس میں سے ایک ادارے سے پیسہ نکالنے اور حصص میں تجارت کے دھندے میں شامل ہو نا بھی شامل ہے۔ یہ طریقہ دراصل ایک پیٹرن بن کر سامنے آتا ہے جس میں اگر ادارہ بدعنوان نہ ہو تو اُسے مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُسے عدالت میں گھسیٹ لیا جاتا ہے، جہاں مختلف عدالتی مراحل کی ایک پوری سائنس ہے جس پر جہانگیر صدیقی اور اُن کے ایک مخصوص ٹولے کی پوری مہارت اور گرفت پائی جاتی ہے۔ اس طرح وہ مزاحم کاروباری اداروں کے اہم افراد کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ (اس کی پوری تفصیلات اور مثالیں نام بہ نام اور مقام بہ مقام اپنی جگہ پر آئیں گی)۔ یہ گزشتہ 25 سال سے زیادہ عرصے سے ہو رہا ہے اور کئی اچھے ادارے جو پاکستان کے لیے ملازمت کے مواقع دے رہے تھے اور اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے، انہی حرکتوں کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ ڈاڈیکس، لبرٹی ملز، گلوب ٹیکسٹائل، سیلی ٹیکسٹائلز، العابد ملز، سرل پاکستان اور سنگر پاکستان۔ فلپس پاکستان کا 1998ء میں حصص واپس لینا بھی انہی وجوہات کی بنیاد پر تھا۔
گروپ کے پے رول پر متعدد حکومتی و اہم شخصیات ہیں جن کا اثر و رسوخ مالیاتی جرائم کے ارتکاب میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جے ایس گروپ کی ان سرگرمیوں کو مکمل طور پر سیاسی حکومتوں کی پشت پناہی حاصل رہتی ہیں۔ یہ عمل نہایت منظم طریقے سے جاری ہے۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم نوازشریف کے سیکریٹری فواد حسن فواد بھی جہانگیر صدیقی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور اُنہیں ایک پشت پناہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ اسپرنٹ انرجی پرائیوٹ لمیٹڈ کے معاملے میں بھی شامل تھے۔ جس نے ایس این جی پی ایل کی جعلی دستاویزات کے ذریعے صوبہ پنجاب میں سی این جی اسٹیشنوں کو غیر قانونی طور پر دوسرے مقامات پر منتقل کیا۔ مگر یہ جہانگیر صدیقی کی پھیلائی ہوئی بساط کی ایک بہت چھوٹی سی کہانی کا نہایت معمولی کردار ہے۔ بات اس سے کہیں آگے جاتی ہے۔ جس کی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی۔ الغرض موجودہ اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور ایف بی آئی حکام بھی گروپ کے پے رول پر ہیں جیسا کہ عابد حسین (ای ڈی، ایس ای سی پی)، شاہد حیات (ڈائریکٹر ایف آئی اے)، سعود احمد مرزا (سابق ڈی جی ایف آئی اے، اِس وقت جے ایس سی ایل کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز)، جی ایم ملکانی (سابق پولیس چیف جو جے ایس گروپ آف کمپنیز کے بورڈ میں شامل تھے اور آزگرد نائن فراڈ میں ایس ای سی پی تحقیقاتی رپورٹ میں نامزد)، فہد ہارون (پی آر)، کمال افسر (سابق بیوروکریٹ، جو جے ایس اور خسرو خواجہ کے ساتھ پی این ایس سی بورڈ میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اس وقت مختلف اداروں میں جے ایس کی نمائندگی کر رہے ہیں)، عبد الحمید ڈاگیا (وہ مختلف اداروں میں جے ایس گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان پر آزگرد نائن لمیٹڈ حصص کی تجارت کے فراڈ کا الزام ہے لیکن ایس ای سی پی نے انہیں شیئر رجسٹرار سروسز چلانے کی اجازت دے رکھی ہے یعنی مفاد عامہ کو خطرے میں ڈال رکھا ہے )، عدنان آفریدی، خالد مرزا (انہوں نے چیئرمین ایس ای سی پی کی حیثیت سے اپنے عہدے کے آخری دن جے ایس گروپ کو غیر قانونی طور پر اسٹاک ایکسچینج لائسنس جاری کیا)، نجم علی (جے ایس انوسٹمنٹس کے سی ای او کی حیثیت سے وہ ایس ای سی پی کے فوجداری معاملے میں آزگرد نائن فراڈ اور دیگر مختلف جرائم کے ملزم ہیں)، حبیب الرحمٰن (جے ایس گروپ کے نمائندہ، اس سے پہلے جے ایس ابامکو، مہوش جہانگیر صدیقی فاؤنڈیشن کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں)، شمیم احمد خان (مختلف اداروں میں جے ایس گروپ کے نمائندہ)، جاوید مسعود (سابق سی ای او پاکرا ریٹنگ کمپنی)، عمارن شیخ (پی آر او، نائب صدر جے ایس گروپ)، زاہد اللہ (جے ایس بینک کے ملازم) ریٹائرڈ جسٹس محبوب احمد، طاہر محمود، کمشنر ایس ای سی پی، عاکف سعید کمشنر ایس ای سی پی، خواجہ خسرو (پی این ایس سی اور کے ای ایس سی کے بورڈز میں جہانگیر صدیقی کے ساتھ خدمات انجام دینے والے) ان میں سے چند ہیں۔ ان تمام افراد کے بارے میں ایک سلسلہ وار رپورٹ کے تحت تمام تفصیلات اور تعلقات کے بل بوتے پر اداروں کےاستحصال اور لوٹ مار کے عمل میں ایک معاونت کی مکروہ تال میل کو یہاں بے نقاب کرنا مقصود ہے۔
جے ایس گروپ بینک، این بی ایف سی (میوچوئل فنڈز مینجمنٹ)، بروکریج ہاؤس، این جی او اور پرائیوٹ کمپنیوں کا لائسنس رکھتا ہے اور وہ جرائم کے ارتکاب کے لیے اپنے پورے مالیاتی رابطوں اور وسیع سرمائے کو استعمال کرتا ہے۔ گروپ مختلف فراڈز میں ملوث رہا ہے، جیسا کہ 2008ء میں جے ایس گروپ کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں جوڑ توڑ کے ذریعے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی بھیانک سازش، جس میں جے ایس سی ایل کے جعلی حصص کا اجرا بھی شامل ہے، سرکاری اداروں کو نقصان، جے ایس بینک کے لیے کم از کم سرمائے کی اسٹیٹ بینک کی شرائط کو جھانسا دینا، مارکیٹ کے نرخوں سے کہیں زیادہ پر سرکاری اداروں جیسا کہ نیشنل بینک کف ایگری ٹیک ایف سیز کا اجرا، پی آئی سی ٹی کمپنی شیئرز میں خفیہ تجارت، علی جہانگیر صدیقی کو 4.3 ملین ڈالرز کے جعلی بونس کی ادائیگی جس نے چھوٹے حصص یافتگان کو نقصان پہنچایا، آزگرد نائن کمپنی کے حصص میں مارکیٹ جوڑ توڑ، آئی سی آئی پاکستان کے حصص میں سازباز، ایف بی آر کے سامنے غلط بیانی سے این جی او کا لائسنس حاصل کرنا، اسپرنٹ انرجی معاملے میں سی این جی اسٹیشنوں کے لائسنس فراڈ سے حاصل کرنا (جو بدنام زمانہ اوگرا معاملے سے متعلق ہے)، ای ایف یو لائف انشورنس اور ای ایف یو جنرل انشورنس کمپنی کے حصص میں سازباز، بے ایمانی اور فراڈ کے ذریعے عوامی اداروں کو میوچل فنڈ یونٹوں کی فروخت وغیرہ۔ ان میں سے متعدد مقدمات بھی درج ہو چکے ہیں اور تفتیشی اداروں کے پاس کئی معاملات کی تحقیقات موجود ہیں جیسا کہ قومی احتساب بیورو (نیب)، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، وغیرہ کے روبرو۔ مگر جہانگیر صدیقی اپنے مالیاتی جرائم کے باوجود غیر قانونی استثنا حاصل کرنے کے لیے موجودہ اور ریٹائر بیورو کریٹس، حکومتی افسران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں اور اپنے انہی تعلقات کی وجہ سے اب تک دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس میں تازہ ترین اضافہ میرشکیل الرحمان کی صورت میں اس طرح ہوا کہ وہ اب اُن کے سمدھی بن چکے ہیں۔ جس کے باعث جنگ گروپ جو ایک زبردست ساکھ کا حامل پاکستان کا سب سے بڑا ذرائع ابلاغ کا گروپ تھا، صرف جہانگیرصدیقی کی لامحدود حرص اور غیر قانونی کاروباری پھیلاؤ کے تحفظ کا آلہ کار بنتا جار ہا ہے۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے جے ایس گروپ نے ایک منصوبہ بنایا تھا، جس میں 2006ء سے 2008ء کے دوران گروپ کے اداروں کی حصص کی قیمتیں بڑھائی گئیں تاکہ جے ایس سی ایل کی خالص اثاثہ جات کی ویلیو کے بارے میں مصنوعی تاثر قائم ہو اور پھر حصص کو گرا کر جعلی قیمتوں سے بڑے پیمانے پر منافع لوٹا جا سکے۔ مختلف ماتحت اداروں اور ایسوسی ایٹس کے حصص کی قیمتیں ایسی ہی سازشوں کے ذریعے بڑھائی گئیں تاکہ مصنوعی تاثر دیا جا سکے۔ اس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو حقوق کے ساتھ ساتھ حصص بھی جاری کیے اور ان سرمایہ کاروں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ ایس ای سی پی نے ڈاکٹر عاصم حسین اورسابق وزیر خزانہ نوید قمر کے اثر و رسوخ تلے دب کے انہیں غیر قانونی استثنا دیے۔
ایس ای سی پی نے جے ایس گروپ کے ان اقدامات کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں منی لانڈرنگ اور کالعدم گروہوں کی مبینہ سرمایہ کاری بھی پائی گئی۔ رپورٹ نے خانانی اینڈ کالیا منی ایکسچینج کے ساتھ متعدد ملزمان کے روابط کا بھی انکشاف کیا۔ ان روابط کی چھان بین ایسے حالات میں اور زیادہ ضروری ہو جاتی ہے جبکہ امریکا نے خود خانانی اینڈ کالیا پر پابندی عائد کردی ہے۔
مندرجہ بالا تناظر میں ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کے ذریعےجہانگیر صدیقی کے تمام معاملات کی چھان بین کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان حساس نوعیت کے معاملات میں پاکستان کے کاروباری اداروں کے ساتھ رچائی گئی سازشیں بے نقاب ہو اورقواعد کے برخلاف فائدہ سمیٹنے والے داخلِ زنداں ہو سکیں۔ تمام اداروں اور ان کے باہمی گٹھ جوڑ کی ایک آزاد تحقیق ظاہر کرے گی کہ یہ منصوبے کیسے بنائے گئے اور ہرشد مہتا قسم کی اسکیم کے ذریعے حصص کو اوپر اور نیچے کرکے ملک کے بازار حصص اور پوری معیشت کو کتنا نقصان پہنچایا گیا، خاص طور ایسے وقت جب وہ بلند پروازی کے لیے تیارتھی۔
جامع تحقیقات کے لیے جے ایس سی ایل کا تجارتی ڈیٹا برائے سال 2007ء اور 2008ء کراچی اسٹاک ایکسچینج سے حاصل کرنا چاہیے۔ اس ڈیٹا کی جانچ کیپٹل مارکیٹوں، سرمایہ کاروں، سرکاری اداروں اور قومی معیشت کو پہنچنے والے زبردست نقصان کا حقیقی اندازہ فراہم کرے گی؛ ساتھ ہی یہ بھی کہ روپیہ دباؤ میں کیوں آیا اور نتیجتاً غیر ملکی ذخائر اور ساتھ ساتھ ادائیگی کا توازن کیسے متاثر ہوا؟جے ایس سی ایل تجارتی ڈیٹا قومی سرمایہ مارکیٹ اور معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا حقیقی فائدہ اٹھانے والوں کو بھی بے نقاب کرے گا۔ اس پورے کھیل میں کسی غیر ملکی ہاتھ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے نقصان کا اصل فائدہ ہمارے پڑوسی اٹھا سکتے ہیں۔ جن کے حق میں “امن کی آشا” جیسی مہمیں چل چکی ہیں اور “دوستی کرکے جیو” جیسی وطن دشمن نفسیات پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ حصص کی قیمت میں جوڑ توڑ کرنا سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج آرڈیننس 1969ء کے سیکشن 17 کے تحت ایک مجرمانہ فعل ہے اور اس کی سزا قید اور بھاری مالی ہرجانے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ معاملہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء میں بھی شمار ہو سکتا ہے۔ (جاری ہے)
(یہ تحریر دراصل جہانگیر صدیقی کے پورے کاروبار گروپ اور اُن کے “گاڈ فادر” بننے کی لامحدود حرص وہوس کی طرف توجہ دلانے کے لئے محض ایک تمہید کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں اُٹھائے گئے مختلف پہلووؤں پر تفصیلی روشنی اگلی تحریروں میں ڈالی جائیگی)
نہتے مسلم خوراک کے منتظر تھے ، صہیونی فوج نے فضائی اور زمینی حملوں سے نشانہ بنایا 24 گھنٹوں میں بچوں، خواتین اورنوجوانوں کا قتل عام کیا گیا ، عالمی بے حسی برقرار غزہ پر اسرائیلی بمباری کا سلسلہ شدید تر ہو گیا ہے،24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 128 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ حملے...
ٹیموں کی اچھی کارکردگی پر تعریف کی بجائے تنقید ہورہی ہے ، عاصم منیر کے شکر گذار ہیں،رانا مجاہد ہاکی کے لیے کم ازکم سالانہ 75 کروڑ روپے کا بجٹ درکار ہے،اخراجات کی تفصیل بنا کردینی ہے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل رانا مجاہد کا کہنا تھا کہ بھارت میں شیڈول ہاکی ایونٹس کے...
ہم جیلوں میں بیٹھے ہیں آپ اختلافات پیدا کررہے ہیں، جان بوجھ کرلاہور اجلاس کو لے کر اختلاف پیدا کیاگیاہے، پارٹی میںجو اختلاف پیدا کریگا اس کو میں خود دیکھ لوں گا سپرنٹنڈنٹ جیل اور کرنل صاحب نے انسانی حقوق ختم کیے ہوئے ہیں، میرے ساتھ جو سلوک ہورہاہے یہ سب ایک شخص کے کہنے پر کیا ج...
(تاجروں کے سامنے حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور) 2 لاکھ نقد بینک میں جمع کرانے پر ٹیکس کی کٹوتی نہیں ہوگی،ایف بی آرکی آل پاکستان تنظیم تاجران کو یقین دہانی ، کسی صورت ظالمانہ ٹیکسز قبول نہیں کریں گے،تاجر رہنماؤں کا مؤقف ڈیجیٹل انوائسنگ چھوٹے تاجروں اور ریٹیلرز کیلئے نہیں، بزنس ...
حکومت نے 3 لاکھ ٹن چینی کی درآمد کا ٹینڈر واپس لے لیا ،50 ہزار میٹرک ٹن چینی کی درآمد کا نظرثانی ٹینڈر جاری نیا ٹینڈر جاری کرتے ہوئے اب 50 ہزار ٹن چینی کی درآمد کے لیے 22 جولائی تک بولیاں طلب کرلی گئیں، دستاویز حکومت نے درآمدی چینی پر ٹیکس چھوٹ پر آئی ایم ایف کے انکار کے...
ریاستی ادارے اپنے آئینی کام کو چھوڑ کر دوسرے کام پر لگ گئے ، پختونخوا اور بلوچستان کے حالات کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جن کا کام سرحدوں کو کلیئر کرنا ہے مگر وہ تحریک انصاف کے پیچھے لگے ہوئے ہیں عمران خان نے بڑا واضح کہا ہے کہ وہ پاکستان کی خاطر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، با...
فضائی اورزمینی حملوں میں رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر ، امداد کے منتظر مسلم قتل خاندانوں کو ختم کردیا ، اسرائیلی درندگی متعدد افراد زخمی ، عالمی ادارے خاموش غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا خونریز سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔11جولائی کی شب سے13جولائی کی دوپہر تک کی اطلاعات کے مطا...
کوئلے سے 31 گیگا واٹ بجلی پیدا کی گئی، اس بجلی سے تقریبا 30 لاکھ گھروں کو بجلی مہیا ہوئی وفاقی حکومت کی پالیسیوں سے صوبے میں توانائی کے شعبے شدید متاثر ہو رہے ہیں،صوبائی وزیر سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سندھ کے پاس ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے لیے...
انتخابی مہم کے دوران دعوؤں کا فائدہ حکمران اور شوگر مافیا کو پہنچا ، معیشت کا پہیہ جام ہے عوام، کسان ، صنعت کار سب خسارے میں ہیں، حافظ نعیم الرحمان کا حکمرانوں سے سوال کراچی مانیٹرنگ ڈیسک )جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے حکمران جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم ...
حق خودارادیت ملنے تک کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے، وزیراعظم ٹرمپ کی ثالثی کی تجویز نے امن کا دروازہ کھولا، بھارت نے انکار کر کے دروازہ بند کیا،وزیر داخلہ نقوی صدرمملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے آج یوم شہدائے کشمیر کے موقع پر کشمیر...
پی ٹی آئی کی کال گرومندر سے جناح ٹائون تک ریلی ، عوام کی بھرپور شرکت،شرکاء نے پارٹی پرچم اور بینرز اٹھا رکھے تھے عمران کی رہائیکیلئے پانچ اگست کو ملک بھر میں عوام ایک آواز بن کر سڑکوں پر نکلے گی، حلیم عادل شیخ اور دیگر کا ریلیوں سے خطاب پاکستان تحریک انصاف سندھ کی ج...
صدرسے استعفیٰ لیے جانے یا آرمی چیف کے صدر بننے کی خواہش سے متعلق افواہوں کو سختی سے مسترد میڈیا میں گردش کرنیوالی خبروں میں کوئی صداقت نہیں،پاکستان کو خوشحال بنانے کیلئے اعلیٰ قیادت متحد وزیراعظم شہباز شریف نے صدر آصف علی زرداری سے استعفیٰ لیے جانے یا آرمی چیف فی...