وجود

... loading ...

وجود
وجود

میرا شان!

پیر 01 فروری 2016 میرا شان!

Peshawar-School-Attack

ہوا تھم گئی تھی۔ سانس لینے کی آواز معدوم ہو چکی تھی۔ ہماری آنکھیں آپریشن تھیٹر کے دروازے پر مرکوز تھیں۔ زندگی میں پہلی بار اپنے پیاروں کا چہرہ دیکھنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ میں نے اپنے چہرے پر مصنوعی حوصلہ سجا رکھا تھا۔ اچانک آپریشن تھیٹر کے اندر سے بولنے اور چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم سب مستعد، کھڑے ہو کر منتظر تھے۔ ڈاکٹر نے دروازے سے باہر قدم نکالا، تو میرے حوصلے کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں لپک کر اس سے اپنے بیٹے کی خیریت کا پوچھنا چاہتا تھا۔ لیکن جوں ہی میری ڈاکٹر سے نظریں چار ہوئیں، مجھے لگا میرا دل اپنی دھڑکن، بھول گیا ہے، میرا خون اپنی گردش بھول چکا ہے۔ میری آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔ میں نے نہیں میری آنکھوں نے ڈکٹر کی آنکھوں کی جانب دیکھا۔

ڈاکٹر کے چہرے پر مایوسی تھی۔ بغیر کچھ کہے وہ، میرے شان کی موت کا پروانہ سنا رہا تھا۔ اسے کچھ کہنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اسکی آنکھیں، اسکے ڈھلکے کندھے اورجھکا سر، اتنا ہی کافی تھا، میری بیوی نے فلک شگاف چیخ ماری، وہ ایسی چیخ تھی جو فرشتوں تک تو پہنچ گئی جو سات آسمانوں تک تو پہنچ گئی مگر اسلام آباد اور جی ایچ کیو کے دروازے تک نہ پہنچ سکی۔ میری ماں نے ماتم کرنا شروع کر دیا، اسکے ماتم کا ماتم بھی شاید اسکے سر سے زندگی میں پہلی بار لوگوں کے سامنے ڈھلکنے والا دوپٹہ بھی کر رہا ہو گا مگر اسکی آہ و بکا، اسلام آباد اور راولپنڈی میں کسی کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔ میرا آہنی اعصاب کا مالک باپ زندگی میں پہلی بار دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، اسکے رونے پر پہاڑ بھی ابل پڑے ہوں گے مگر ہمارے پالیسی سازوں کے پتھر دلو ںمیں سوراخ نہ کر سکے۔ میرے بھائی اپنے بھتیجے پر آنسو بہانا شروع ہو گئے انکے آنسو خشک ہو جائیں گے مگر ہماری گلیوں میں بہتا خون خشک نہیں ہو گا۔ ۔ مگر میں ساکت تھا۔ میں شل تھا۔ میری آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ میرا رواں رواں، جامد تھا۔ میں نے اپنے سر پر ایک بے انتہا بھاری پتھر محسوس کیا، مجھے لگا، کہ میں کسی پہاڑ کے نیچے آ گیا ہوں۔ مجھے دنیا کی آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں، میں اپنے دل کی دھڑکن صاف سن رہا تھا۔ مجھے یقین تھا ہو گیا کہ میں اب اسی طرح ہی رہوں گا۔ وہ چند لمحے وہ سکتے کے چند لمحے قیامت کی طرح طویل تھے۔ پھر شان ……میرے بیٹے شان کا چہرہ میرے سامنے آیا۔ وہ مسکراتا ہوا جا رہا تھا۔ اس نے منہ سے کچھ نہیں کہا مگر مجھے سنائی دیا کہ وہ مجھے خدا حافظ کہہ رہا ہے۔ ” ابو میں اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ ” اسکی مسکراہٹ میں سکوں تھا، نور تھا۔ مگر اچانک اسکے سفید کپڑوں پر خون لگ گیا، وہ چیخنے لگا، بم کے ٹکڑے گولیوں کے شیل اسکے جسم میں پیوست ہونے لگے، اسکے جسم سے خون ابلنے لگا، وہ خون اسکی رگوں سے نہیں سٹریٹجک ڈیپتھ کی گہرائیوں سے نکل رہا تھا۔

اس حملے میں چند بچوں کی “شہادت” اور” قربانی “کا بتایا گیا۔ ان شہیدوں کا جو نہ جنگ لڑنے گئے تھے نہ انہیں شہادت کے مفہوم کا علم تھا، نہ انکی قربانی کی نیت تھی نا وہ دے سکتے تھے

میں اپنے معصوم بیٹے کی چھوٹی سی لاش کو اس سے کہیں بڑے تابوت میں ڈالے کندھا دئیے قبرستان کی جانب رواں دواں تھا۔ مجھے اسکے خون کی نمی تابوت سے ٹپکتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسکا خون میرے کانوں میں سرگوشیاں کر رہا تھا، ابو مجھے کون مار گیا ؟مجھے کیوں مارا گیا ؟ شان کا خون میرے کانوں میں چیخ رہا تھا اور میں خاموش تھا۔ اب مجھے پوری عمر خاموش رہنا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ کون سا شہر ہے ؟مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ یہ کون سا راستہ ہے ؟ مجھے یہ بھی بھول گیا تھا کہ مجھے پرسہ دینے والے کون ہیں ؟ مجھے اتنا بھی احساس نہیں رہا تھا کہ میں چل رہا ہوں یا گاڑی میں ہوں ؟ مجھے اپنا آپ بھول گیا تھا مجھے صرف شان کی لاش یاد تھی۔ مجھے اسکا خون ابلتا جسم یاد تھا۔ اب میری زندگی کی یاد یہیں سے شروع اور یہیں پر ختم ہو جانی تھیں۔ ۔ میں جیسے خلا میں چل رہا تھا۔ میں ہوا سے بھی ہلکا پھلکا تھا۔ مگر میرے کندھوں پر زمینوں اور آسمانوں کا بوجھ تھا۔ میرے کندھے ہر قدم پر مزید جھک رہے تھے۔ اچانک سب کچھ تھم جاتا ہے۔ میرے کندھوں سے بوجھ کم ہو جاتا ہے لوگ میرے بیٹے کو دفنا رہے ہیں۔ لوگ اسکے تابوت پر مٹی ڈال رہے ہیں۔ میں نے نے مٹی میں ہاتھ ڈالا اور اسکی لاش پر ڈال دیا۔ وہ ایک مٹھی کی مٹی اسکی لاش پر نہیں میرے دل پر جا لگی۔ میرے دل میں ایک سوراخ مزید ہو گیا تھا۔

میں نے شان کو سکول ڈراپ کیا۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا میں اپنے بیٹے کی زندگی ڈراپ کر رہا ہوں۔ ہنستے کھیلتے، ہم سکول پہنچے، ہنستے کھیلتے خدا حافظ کر کے وہ اپنی کلاس روم کی جانب چل پڑا مگر اس بار ہمیشہ کیلئے، میں نے اسے الوداع کیا تو مجھے کیا معلوم تھا یہ خدا حافظ میری اور اسکی زندگیوں کا آخری خدا حافظ ہو گا۔ میں اسے چھوڑ کر اپنے دفتر پہنچا ہی تھا کہ سکول پر حملے اور فائرنگ کی خبریں آ گئیں۔ ٹینشن کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں تھا مگر اس دن احساس ہوا کہ دنیا میں اولاد کی جان سے بڑھ کوئی غم شاید پیدا ہی نہیں ہوا۔ میرا جسم یہ خبر سن کر ہی ڈھے گیا تھا۔ بھاگم بھاگ سکول پہنچے۔ میری بیوی میرے ساتھ تھی۔ قیامت کا آپ تصور کر سکتے ہیں تو کریں اس سے بڑھ کر قیامت کا منظر تھا۔ والدین کی چیخیں، ماؤں کا رونا، والدین کا فوجیوں، پولیس والوں سے سوال جواب کرنا، فائرنگ، دھماکوں کی آوازیں، میڈیا کے سوال، ہر طرف کیمرے، لاشوں کی لمحہ با لمحہ کوریج، زخمی بچے اور مردہ بچوں کی لاشوں کی آمد اور اس پر ہر والد اور ہر ماں کا کلیجہ منہ کو آجانا یہ تو فقط جملے ہیں جس نے محسوس کیا وہ قبر تک ان محسوسات کو ساتھ لے کر جائے گا۔ پھر میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس ہوئی اور اس میں آپریشن کی کامیابی، دہشت گردوں کی موت، ان کے “بزدلانہ” حملے کی کہانی بتائی گئی۔ انکی کال کو ٹریس کرنے کا بتایا گیا۔ انکے حملے پر پہلے سے ہی انٹیلی جنس رپورٹ کے موجود ہونے کا بتایا گیا۔ پھر اس حملے میں چند بچوں کی “شہادت” اور” قربانی “کا بتایا گیا۔ ان شہیدوں کا جو نہ جنگ لڑنے گئے تھے نہ انہیں شہادت کے مفہوم کا علم تھا، نہ انکی قربانی کی نیت تھی نا وہ دے سکتے تھے۔ اگر تو یہ الفاظ حوصلے کیلئے تھے تو انسانی تاریخ میں اس سے بھیانک الفاظ ایجاد نہیں کے گئے۔ اور اگر یہ الفاظ اپنی کوتاہیوں پر پردہ پوشی کیلئے تھا تو اس میں وہ سرخرو ٹھہرے۔ میں اپنے زخمی بیٹے کی ایمبولنس میں بیٹھا تھا۔ میں معجزے کی دعا کر رہا تھا۔ اسی دوران ہم ہاسپٹل پہنچے۔ جو ادھم وہاں مچا ہوا تھا اسکے لئے کوئی نئی زبان کا ہونا ضروری ہے۔ ہم نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹرز کے سپرد کیا۔ انہوں نے اسے گورکن کے سپرد کر دیا۔

میں اپنی لاش دفنا آیا ہوں۔ میرے کان میں کوئی گھنٹیاں سی بج رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک آواز آتی ہے، انتقام انتقام انتقام!!!


متعلقہ خبریں


اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں! وجود - بدھ 16 دسمبر 2015

کہنہ صدیوں کی زبوں و آزردہ اور افسوں و افسردہ خموشیوں سے ہم بولتے ہیں، ہم شرمندہ ہیں! ہم شرمندہ ہیں! اپنی ہی نقدِ عمر سے تم نے زندگی اُدھار مانگی تھی، مگر روحِ فرعونیت کے فرزندوں نے تمہیں وہ بھی دان نہیں کی۔تمہارے اختیار کے دیئے سے حیاتِ اضطرارکی لَو وہ بجھا گئے، تو کیا ہوا؟ موت ...

اے میرے بچو! ہم شرمندہ ہیں!

پشاور آرمی پبلک اسکول حملہ: سات میں سے چار دہشت گردوں کو پھانسی دے دی گئی وجود - بدھ 02 دسمبر 2015

پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوت چار مجرموں کو خیبرپختونخوا کی کوہاٹ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نےچاروں دہشت گردوں کے بلیک وارنٹ پر 30 نومبر کو دستخط کئے تھے۔ بعد ازاں سزایافتگان کی طرف سے رحم کی اپیل صدر مملکت ممنون حسین کو کی گئ...

پشاور آرمی پبلک اسکول حملہ: سات میں سے چار دہشت گردوں کو پھانسی دے دی گئی

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر