وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں سفاک قاتل گورنر کے لیے اعلیٰ ترین اعزاز

هفته 30 جنوری 2016 بھارت میں سفاک قاتل گورنر کے لیے اعلیٰ ترین اعزاز

Jagmohan

کشمیری پنڈت اعلیٰ ذات کا ہندو تصور کیا جاتا ہے۔ تر دماغ اور خوبصورت مکھڑے والی یہ پنڈت برادری، وادی کشمیر کی جنت سے جگ موہن کی مہربانیوں سے نکل کر بھارت کے مختلف گرم علاقوں کی تپتی اور آگ اگلتی ہوئی سرزمین میں مقیم ہے۔ 1947ء میں جب پورے برصغیر میں ہندو اور مسلم کے نام پر خون بہایا گیا، وادی کشمیر میں ان کشمیری پنڈتوں کو مسلمانوں نے نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی عزت و آبرو کا تحفظ بھی کیا۔ گاندھی جی کواسی بنیاد پر یہ اعتراف کرناپڑاکہ” کشمیر سے مجھے روشنی کی کرن نظر آرہی ہے”کشمیری پورے بر صغیر کو احساس دلاتے رہے کہ کسی نہتے انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ چاہے مقتول کا تعلق کسی بھی مذھب سے ہو۔

1987ء کے انتخابات میں بھارتی حکومت کی بدترین دھاندلی کے نتیجے میں کشمیری قوم میں یہ احساس شدت سے ابھرا کہ ان کا حق خودارادیت کا خواب انتخابات میں شرکت سے کبھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ بھارت آئین و قانون کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس انتخاب نے کشمیری عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی حکمرانوں کے خلاف ایک شدید نفرت نے جنم لیا،1989ء میں اس نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔۔ بھارتی ایوانوں کو آگ لگانے کی نعرہ بازی شروع ہوئی۔ “ہم کیا چاہتے۔ ۔ آزادی”کے فلک شگاف نعروں کی گونج ہر طرف سے سنائی دینے لگی۔ گلی کوچوں، گاؤں شہروں میں صرف ایک آواز کا غلغلہ تھا “بھارتی غاصبو! وطن ہمارا چھوڑ دو،چھین کے لیں گے آزادی”

کشمیری پنڈت برادری ان نعروں سے خوفزدہ نہیں تھی کیونکہ یہ نعرے نئے نہیں تھے۔ شیخ عبداللہ نے22 سال تک ایک بے مثال تحریک چلائی تھی اور گلی گلی قریہ قریہ اس دوران یہی نعرے لگتے تھے۔ پنڈت لوگ خوشی خوشی زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں انتظار تھا اس تحریک کی کامیابی کا، کیونکہ کشمیرصرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ جموں کشمیر میں رہنے والی ہندو برادری بھی کشمیری ہی کہلاتی ہے اور وہ ان کی بھی سرزمین ہے۔

1990ء میں یہ تحریک اپنے عروج کی طرف جارہی تھی اور بھارت سرکار نے حقائق تسلیم کرنے کے بجائے اس تحریک کو آہنی ہاتھوں سے کچلنے کا فیصلہ لیا،اور یہ بھی طے ہوا کہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر، دنیا کی نظروں میں اپنی سفاک روش کو جائز بھی قرار دلوائے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھ کر ریاستی گورنر جگموہن کو کام سونپا گیاکہ وادی سے پوری ہندو آبادی کو جموں او ربھارت کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل کرے اور پھر بزور طاقت مسلم آبادی کو اپنا حق آزادی مانگنے کے جرم سے باز رکھے۔ جگ موہن کیلئے یہ مشکل کام نہیں تھا۔ بلکہ انہیں اس کا خوب تجربہ اس وقت حاصل ہوا تھاجب 1975ء میں دہلی کے گورنر کی حیثیت سے ایمرجنسی قوانین کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکمان گیٹ دہلی میں ہزاروں مسلمانوں کو اس نے بے گھر کردیا تھا اور بستیوں کی بستیاں بلڈوز کی تھیں۔

جگ موہن نے کشمیر ی ہندو تنظیوں کو اعتماد میں لیا، ان کے ساتھ وعدے کئے گئے کہ انہیں باہر آرام و آسائش کے ساتھ زندگی گذارنے کا موقع فراہم کیا جائیگا۔۔ دنیا کی ہر نعمت انہیں فراہم کی جائیگی۔ انہیں صرف چند مہینے باہر گذارنے ہونگے۔ پھر وہ ہوں گے اور ان کا وطن ہوگا۔ چند مہینوں کا معاملہ ہے۔

بھارتی حکمرانوں کو اس سے دو طرح کے فائدے حاصل ہونے کی توقع تھی۔ ایک یہ کہ تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکے گا اور دوسرا آزادی پسندوں کا بلا کسی امتیاز کے خاتمہ کیا جاسکے گا۔ بعض مہاجر پنڈتوں کے خطوط سے جو سرینگر کے ایک مؤ قر” اخبار الصفاء” میں شائع ہوئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کس طرح اس انخلا کو اپنے حق می استعمال کرنے کی سازش میں مصروف رہا۔

11ستمبر 1990ء میں ایک مہاجر کشمیری پنڈت، کے ایل کول (ایم اے ایم ایڈ) چمن چھانپورہ سرینگر حال نگروٹہ کیمپ جموں کا خط سرینگر کے اخبار روزنامہ الصفاء میں شائع ہوا۔ خط کے چند اقتباسات:
“میں جانتا ہوں کہ ہمارے کشمیر سے بھاگنے پر کشمیری مسلم بھائیوں کو بڑا دکھ پہنچ چکا ہوگا اور مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہم ان کی محبت، عزت اور انسان دوستی سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ کیونکہ ہم غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مجھے اس بات پر شرم محسوس ہورہی ہے کہ میری کمیونٹی نے کشمیری مسلم بھائیوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا ہے۔ اور یہ سارا جگ موہن کے کہنے پر ہوا”

آگے وہ لکھتے ہیں:

“فروری کے پہلے ہفتے میں ہمیں چند خودساختہ رہنماؤں کے ذریعے گورنر جگ موہن کا ایک پیغام ملا جس میں ہمیں وادی چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ پیغام میں کہا گیا کہ تحریک دبانے کیلئے لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ مسلم نوجوانوں کو مارنے کا منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔ پنڈتوں سے یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں باہر ہر قسم کی آسائش بہم رکھی جائیگی اورمفت راشن،نوکریاں اور رہائش کا بھی انتظام ہوگا۔۔ پیغام میں یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ جونہی مجوزہ منصوبہ تکمیل کو پہنچے گا اور تحریک دم توڑے گی تو پھر آپ کو واپس اپنی جگہوں پر بسایایا جائیگا۔ میری کمیونٹی کو اب اندازہ ہورہا ہے کہ عوامی بغاوت کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے ہمیں استعمال کیا گیا”

آگے جاکر وہ مزید لکھتے ہیں:

“یہاں کی مقامی آبادی ہمیں حملہ آور سمجھتی ہے اور اسی انداز کا سلوک ہمارے ساتھ کرتی ہے۔ دودھ، سبزی اور روزمرہ کی دیگر اشیاء مہنگے داموں ہمیں خریدنی پڑتی ہیں۔ ۔ ہمارے بچے آوارہ بن چکے ہیں کیونکہ سڑکوں پر گھومنے کے سوا ان کے پاس کوئی کام نہیں۔ اس علاقے کے لوگوں کا ہماری خواتین کے بارے میں یہ قابل شرم تصور ہے کہ پیسے کی خاطر وہ اپنا عصمت بیچ سکتی ہیں۔ “اسی طرح کا ایک مشترکہ خط 22ستمبر1990کے الصفا میں شائع ہوتا ہے خط کا صرف ایک پیرا گراف پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیری پنڈت بھائی کس طرح اپنے وطن کو یاد کررہے ہیں اور اس دن کو کس طرح کوستے ہیں جس دن انہوں نے کشمیر چھوڑنے کی سازش کاحصہ بننے کی غلطی کی تھی۔۔ ملاحظ فرمائیں:

“ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ نہ صرف ہم نے اپنے مادر وطن کے ساتھ غداری کی بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی بے وفائی کی جنہوں نے صدیوں سے ہمیں عزت دی، پیار دیا۔ ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں میں ہم شامل رہے حالانکہ ہمیں اس تحریک کا ایک حصہ بننا چاہئیے تھا۔ ”

معروف کشمیری صحافی و مصنف مرحوم خواجہ ثنا ء اللہ بٹ اپنی کتاب “عہد نامہ کشمیر “صفحہ نمبر234-235میں کشمیری پنڈتوں کے اس انخلاء کے بارے میں لکھتے ہیں:

“گورنر جگموہن نے کشمیری پنڈتوں کو ورغلانے کیلئے ان میں یہ خیال بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا دیا کہ کشمیری پنڈتوں کو یہاں سے نکال لینے کے فوراََ بعد فوج سرینگر میں کریک ڈاون اور شہر کی ناکہ بندی کرکے بلا امتیاز لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گی۔ تاکہ اس مسلح بغاوت کا خاتمہ کردے جس پر قابو پانا حکومت کیلئیناممکن ہوگیا تھا۔ کشمیری پنڈتوں کے زیادہ ترگھرانے کرفیو کے نفازذ اوررات کے اندھیرے میں اپنے گھروں سے نکال کر گاڑیوں میں سوار کئے گئے، وہ لوگ کسی خوف میں مبتلا نہیں تھے۔ جس کا واضح ثبوت ہے کہ بہت سے کشمیری پنڈتوں نے اپنے گھر کی چابیاں اپنے ہمسایہ مسلمانوں کے حوالے کرکے ان سے کہا کہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں گے اور کشمیری مسلمانوں نے یقین دلایا اور ان سے کہاکہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں گے اور ان کے اس اعتماد پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے کشمیری پنڈت جموں سے سرینگرآکر بار بار اپنے علاقوں میں جانے اور اپنے گھروں وغیرہ کے محفوظ رہنے کایقین کرلیتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ درجنوں کشمیر ی پنڈت گھرانے گورنر جگموہن کی ترغیب و تحریک اور یقین دہانیوں کے باوجود کشمیر ہی میں رہے۔ ان میں سے جو گھرانے بہکاوے میں آکر جموں اور دوسرے علاقوں میں گئے وہ برابر اپنے کئے پر پچھتاتے رہے اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اعلانیہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کوکشمیری مسلمانوں نے وادی سے نہیں نکالا، بلکہ گورنر جگموہن اور اس کے ما تحتوں نے ہی ان کو وادی سے نکالا۔”

اب جہاں تک کشمیری مسلمانوں کا تعلق ہے توان کے ساتھ وہی ہوا جس کا خاکہ تیار کیا گیا تھا۔

“Committe For Initiative On Kashmir”کی چار رکنی کمیٹی کے اراکین جناب ٹپن بوس، دنیش موہن،گوتم نو لکھااور سمنتا بنرجی نے 12سے16 مارچ 90تک کشمیر کا دورہ کیا۔ ٹیم کے اراکین، زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ لوگوں سے ملے اور ایک تفصیلی رپورٹ تیا ر کی۔ رپورٹ کا ایک اقتباس:

جہاں یہ ٹیم اصولی طور پر ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے وہیں اس بات پر متفق ہے کہ کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی ہندوستانی ریاست کو یہ جواز فراہم نہیں کرتی کہ وہ ریاست کے کسی بھی حصے میں رہنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کے احترام اور تحفط فراہم کرنے کی ذمہ داری سے مبراہوسکیں۔ اس ٹیم پر حقائق کی روشنی میں یہ بات آشکارہ ہوئی کہ کشمیر میں ہندوستانی مسلح افواج اور سول انتظامیہ دہشت گردی کو روکنے میں با لکل ناکام رہے ہیں اور اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لئے وادی کے معصوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ٹیم نے جن ہندوستانی حکومت کے اہلکاروں سے بات کی وہ تمام کے تمام اسی نفسیاتی خوف کا شکار نظر آ ئے جس کے تحت وادی کا ہر شخص انہیں پاکستانی دہشت گرد نظر آتا ہے۔ انہی نفسیاتی کیفیات کے باعث وادی میں امن امان کے لئے جاری آپریشن اب وادی کے رہنے والوں کے لئے ذلت، مستقل خوف، عدم تحفط اور موت کا پیغام بن گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہاں کی آبادی کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں وہ سمجھتے ہیں کی بھارتی جبر و استبداد سے بچنے کا واحد راستہ نئی دہلی سے آزادی ہے۔ اس کیفیت کا اظہار کشمیری حکومت کے ایک افسر کے بیان سے ہوتا ہے جب وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ۔ انیس جنوری تک میں عسکریت پسندوں کے خلاف تھا لیکن آج میں انکے ساتھ ہوں۔”

انڈین پیپلز فرنٹ (IPF) کی سات رکنی ٹیم نے فرنٹ کے سربراہ ناگ بھوشن پٹنائیک کی سربراہی میں جون 1990میں کشمیر کا دورہ کیا۔ ٹیم کے دوسرے اراکین میں ممبر پارلیمنٹ رامیشور پرساد، جنرل سیکرٹری (IPF)جناب دیپنکار بٹاچاریہ اور وائس پریذیڈنٹ (IPF) راماجی راؤ شامل تھے۔ ٹیم کے اراکین تقریباً ایک ہفتے کشمیر میں رہے۔ ان کی دی گئی رپورٹ کا ایک اقتباس ملاحظ فرمائیں۔

“ہم جہاں بھی گئے، جس سے بھی ملے، ہم نے جگ موہن کے مظالم کی داستانیں سنیں بھی اور محسوس بھی کیں۔ وہ مظالم جو 19جنوری سے25فروری تک پوری شدت کے ساتھ جاری رہیں۔ ہم اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ سابق گورنر کو اپنے جرائم کا حساب دینے کیلئے عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہئیے۔ یہ صرف کشمیر میں سیاسی عمل شروع کرنے کیلئے ضروری نہیں بلکہ جمہوری اداروں پر اعتماد اور ان کی حفاظت کیلئے بھی یہ ضروری ہے۔”

29 مئی 1990ء کو انڈیپینڈنٹ اخبار لندن (Independent) کی یہ دلخراش کہانی بھی ایوارڈ یا فتہ بھارتی گورنر جگ موہن کی سفاکیت پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔

“ہندوستانی بربریت کے ایک چشم دید گواہ نے لوگوں کے ایک ہجوم پرہندوستانی پولیس (سنٹرل ریزرو پولیس فورس )کی اندھا دھند فائرنگ کا احوال اس طرح بیان کیا۔ فائر فائر فائر۔۔ ۔ لوگ گولیاں کھا کر گر رہے تھے۔ میں بھی نیچے گر پڑا۔ ہندوستانی پولیس نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں اور کراہتے ہوئے زخمی تھے۔ لیکن مجھے کوئی گولی نہ لگی میں زندہ اور محفوظ تھا۔ پھر ایک اہلکار بندوق تانے میرے پاس آیا۔ مجھ پر نشانہ تانا اور فائرنگ شروع کر دی۔ میں خوش قسمت تھا کہ اسکے جھکنے کے باعث گولی میری پشت کو چھوتی گزر گئی۔ اس نے چھ فائر کئے۔ ٹھک، ٹھک، ٹھک، ٹھک، ٹھکا ٹھک۔ میرا سر محفوز رہا اور میں نے اپنے ہوش بھی قائم رکھے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ پل پر ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ اس چشم دیدگواہ نے دیکھا کہ پولیس والے بندوق تانے لاشوں کے درمیان سے گزر رہے تھے اورزخمیوں کو مسلسل گولیاں مار رہے تھے۔ کسی بھی حرکت کرتے ہوئے جسم، کوئی بازو سر یا ٹانگ حرکت کرتی نظر آتی تو وہ فو راً گولیاں داغ دیتے۔ اور ساتھ ساتھ کہتے۔ ۔ ۔ تو تمھیں پاکستان چاہئے۔ تمھیں آزادی چاہئے۔ گولی داغتے اور کہتے۔ یہ لو اپنی آزادی۔۔ ۔ وہ جنوری کا آخری ہفتہ تھا۔ میں نے ایک ننھے لڑکے کو ایک سٹال کے نیچے کھڑا ا دیکھا۔ وہ اہلکار آیا اور اس معصوم بچے پر گولیاں داغ دیں جبکہ اس لڑکے نے ایک پتھر بھی پولیس والوں کی طرف نہیں پھینکا تھا۔”

مار دھاڑ، قتل و غارتگری، جلاؤ گھیراو کاسلسلہ صرف جگ موہن کے دور حکومت کا خاصہ رہا۔ یاد رہے گورنر جگمو ہن نے 20 جنوری 1990ء کو ریاستی گورنر کی حیثیت سے چارج سنبھالا، اور 22 مئی 1990ء کو انہیں فارغ کیا گیا۔ ان 123دنوں میں 74 دنوں کرفیو لگا رہا۔ ان 123دنوں میں پوری ریاست میں لوگوں کے مارنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہر روز لاشیں گرتی رہیں، جنازے اٹھتے رہے، جلاو گھیراو ہوتے رہے، پاکدامن خواتین کی عصمتوں کو داغدار بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اس سفاک گورنر نے کشمیری پنڈت بھائیوں کو تحریک آزادی کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے استعمال کیا گیا،اور اس آڑ میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے۔ ایسے شخص کو نریندر مودی کی حکومت نے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا۔ ایک کھلم کھلا پیغام ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پھر بھی سرنگ کے اس پار بعض لوگوں کو روشنی کی کرن نظر آرہی ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔


متعلقہ خبریں


راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، مولانا فضل الرحمان وجود - پیر 01 دسمبر 2025

  ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے ، شہباز شریف اسے امن کا نوبل انعام دینے کی بات کر رہے ہیں، آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ،بڑے لوگوں کی خواہش پر آئینی ترامیم ہو رہی ہیں افغان پالیسی پر پاکستان کی سفارت کاری ناکام رہی، جنگ کی باتوں سے مسئلے حل نہیں ہوں گے ، ...

راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، مولانا فضل الرحمان

خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور وجود - پیر 01 دسمبر 2025

متوقع نئے گورنر کے لیے تین سابق فوجی افسران اور تین سیاسی شخصیات کے نام زیر غور تبدیلی کے حوالے سے پارٹی کا ہر فیصلہ قبول ہوگا، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور شروع کردیا گیا، گورنر راج کے لیے فیصل کریم کنڈی کو رکھنے یا ان کی جگہ...

خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور

اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی پر جوابدہی ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ وجود - پیر 01 دسمبر 2025

اسرائیل کی بے دریغ بربریت نے غزہ کو انسانیت ،عالمی ضمیر کا قبرستان بنا دیا ہے صورتحال کو برداشت کیا جا سکتا ہے نہ ہی بغیر انصاف کے چھوڑا جا سکتا ہے ، اسحق ڈار نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی قانون کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کیے گئے جنگی جر...

اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی پر جوابدہی ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ

صوبائی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا،بلاول بھٹو وجود - پیر 01 دسمبر 2025

آئینی ترمیم مسترد کرنا کسی عدالت کا اختیار نہیں،قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے کسی ایسے عمل کا ساتھ نہیں دیں گے جس سے وفاق کمزور ہو،تقریب سے خطاب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے ،آئینی ترمیم کو مسترد کرنا کسی عدالت کے ا...

صوبائی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا،بلاول بھٹو

طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج وجود - اتوار 30 نومبر 2025

  پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ،بھارتی آرمی چیف کا آپریشن سندور کو ٹریلر کہنا خود فریبی ہے خیبرپختونخوا میں سرحد پر موجودہ صورتحال میں آمد و رفت کنٹرول...

طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج

عمران خان کی صحت سے متعلق خبروں کا مقصد عوام کا ردعمل جانچنا ہے ،علیمہ خانم وجود - اتوار 30 نومبر 2025

  یہ ٹیسٹ رن کر رہے ہیں، دیکھنے کے لیے کہ لوگوں کا کیا ردعمل آتا ہے ، کیونکہ یہ سوچتے ہیں اگر لوگوں کا ردعمل نہیں آتا، اگر قابل انتظام ردعمل ہے ، تو سچ مچ عمران خان کو کچھ نہ کر دیں عمران خان ایک 8×10 کے سیل میں ہیں، اسی میں ٹوائلٹ بھی ہوتا ہے ،گھر سے کوئی کھانے کی چیز...

عمران خان کی صحت سے متعلق خبروں کا مقصد عوام کا ردعمل جانچنا ہے ،علیمہ خانم

پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان وجود - اتوار 30 نومبر 2025

سہیل آفریدی کی زیر صدارت پارٹی ورکرزاجلاس میں بھرپور احتجاج کا فیصلہ منگل کے دن ہر ضلع، گاؤں ، یونین کونسل سے وکررز کو اڈیالہ جیل پہنچنے کی ہدایت پاکستان تحریک انصاف نے اگلے ہفتے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان کر دیا، احتجاج میں آگے لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جائے گا۔وزیر ...

پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان

سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں،مراد علی شاہ وجود - اتوار 30 نومبر 2025

جب 28ویں ترمیم سامنے آئے گی تو دیکھیں گے، ابھی اس پر کیا ردعمل دیں گورنر کی تقرری کا اختیار وزیراعظم اور صدر کا ہے ، ان کے علاوہ کسی کا کردار نہیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں۔سیہون میں میڈیا سے گفتگو میں مراد ...

سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں،مراد علی شاہ

پاکستان میں فلائٹ آپریشن متاثر ہونے کا خدشہ وجود - اتوار 30 نومبر 2025

دنیا بھر میںایئربس اے 320طیاروں میں سافٹ ویئر کے مسئلے سے ہزاروں طیارے گراؤنڈ پی آئی اے کے کسی بھی جہاز میں مذکورہ سافٹ ویئر ورژن لوڈڈ نہیں ، طیارے محفوظ ہیں ،ترجمان ایئر بس A320 طیاروں کے سافٹ ویئر کا مسئلہ سامنے آنے کے بعد خدشہ ہے کہ پاکستان میں بھی فلائٹ آپریشن متاثر ہو سک...

پاکستان میں فلائٹ آپریشن متاثر ہونے کا خدشہ

عمران خان سے ملاقات کی درخواستوں پر سماعت مکمل،فیصلہ محفوظ وجود - اتوار 30 نومبر 2025

37روز سے کسی کی ملاقات نہیں کرائی جارہی، بہن علیمہ خانم کو ملاقات کی اجازت کا حکم دیا جائے سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا جائے کہ سلمان اکرم راجہ،فیصل ملک سے ملاقات کی اجازت دی جائے ، وکیل بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے جیل میں ملاقات سے متعلق درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد ف...

عمران خان سے ملاقات کی درخواستوں پر سماعت مکمل،فیصلہ محفوظ

تحریک انصاف کا سینیٹ میں شدید احتجاج، عمران خان سے ملاقات کرواؤ کے نعرے وجود - هفته 29 نومبر 2025

پاکستان تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کر انے وانے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ''بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروائو '' کے نعرے لگا ئے جبکہ حکومت نے واضح کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی صحت سے متعلق چلنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ جمعہ کو سی...

تحریک انصاف کا سینیٹ میں شدید احتجاج، عمران خان سے ملاقات کرواؤ کے نعرے

اڈیالہ جیل کے باہر منگل کو احتجاج میں کارکنان کو کال دینے پر غور وجود - هفته 29 نومبر 2025

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے اڈیالہ جیل فیکٹری ناکے پر جاری دھرنا جمعہ کی صبح ختم کر دیا ۔ دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ علامہ ناصر عباس کے آنے کے بعد ہونے والی مشاورت میں کیا گیا، علامہ ناصر عباس، محمود اچکزئی، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی، مینا خان، شاہد خٹک اور مشال یوسفزئی مشاو...

اڈیالہ جیل کے باہر منگل کو احتجاج میں کارکنان کو کال دینے پر غور

مضامین
آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ وجود پیر 01 دسمبر 2025
آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ

بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد وجود پیر 01 دسمبر 2025
بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد

کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے! وجود اتوار 30 نومبر 2025
کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے!

مقبوضہ کشمیر سے مسلم تشخص کا خاتمہ وجود اتوار 30 نومبر 2025
مقبوضہ کشمیر سے مسلم تشخص کا خاتمہ

بھارت و افغان گٹھ جوڑاورامن وجود اتوار 30 نومبر 2025
بھارت و افغان گٹھ جوڑاورامن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر