وجود

... loading ...

وجود

وہ میرا بیٹا نہ رہا ہوگا!!!

جمعه 28 اگست 2015 وہ میرا بیٹا نہ رہا ہوگا!!!

Rasul-Gamzatov

پیرس میں میری ملاقات ایک مصور سے ہوئی جو داغستانی تھا۔ انقلاب کے کچھ ہی دن بعد وہ تعلیم کی غرض سے اٹلی چلا گیا۔وہیں اُس نے ایک اطالوی خاتون سے شادی کرلی اور ہمیشہ کے لئے بس گیا۔بے چارہ پہاڑی رسم ورواج کا ساختہ پرداختہ تھااِس لئے اِس نئے وطن میں بسنے اور وہاں کے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھالنے میں اُسے خاصی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔خود کو اِس نئی دنیا کا عادی بنانے کے لئے اُس نے سیر وسیاحت کا سہارا لیا۔دور دراز ملکوں کی راجدھانیوں میں دل بہلانے کی کوشش کی، مگر جہاں بھی گیاوطن کی یاد اوراپنے وطن سے جدائی کا احساس سایہ کی طرح اُس کے ساتھ رہا۔میں نے اُس سے کچھ تصویریں دکھانے کی خواہش کی، محض یہ دیکھنے کے لئے کہ اُس مصور نے اپنے اِن جذبات اور اپنی اِن کیفیات کو رنگ کے قالب میں کس طرح ڈھالا ہے۔

اُن میں ایک تصویر نظر آئی جس کا عنوان تھا ’’وطن کی غمگین یاد‘‘۔ اُس تصویر میں ایک اطالوی عورت (مصور کی بیوی) دکھائی دی جو داغستانی عورتوں کا روایتی لباس پہنے ایک پہاڑی چشمے کے کنارے کھڑی تھی۔اُس کے ساتھ میں چاندی کی ایک منقش صراحی تھی جس پر گوتسا تلی کے کاری گروں جیسے نقش بنے تھے۔جن کی کاری گری دُور دُور تک مشہور ہے۔پس منظر میں پہاڑ کی ڈھلوان پر بسا ہوا ایک سنسان سا تنہا آوار گاؤں تھا۔گاؤں کے پتھریلے مکانات کے پس منظر میں پہاڑ تھے، جو گاؤں سے زیادہ اُداس اور بے جان لگ رہے تھے۔پہاڑ کی چوٹیاں کُہر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

’’کُہر پہاڑوں کے آنسو ہیں‘‘ مصور نے وضاحت کی۔ ’’کُہر جب ڈھلوانوں پر چھا جاتی ہے تو شبنم کا روپ لے کرصاف شفاف قطروں کی صورت میں ڈھلکتی نیچے، گہرائیوں میں جاگرتی ہے۔یہ کُہر میں ہوں۔‘‘

ایک دوسری تصویر میں ایک چڑیا دکھائی گئی تھی جوبنجر پہاڑوں پر اُگنے والی ایک خاردار جھاڑی پر بیٹھی تھی۔ چڑیا چہچہا رہی تھی اور ایک مکان کی کھڑکی میں ایک پہاڑی دوشیزہ کا افسردہ اور معصوم چہرہ نظر آرہا تھا، مجھے یہ تصویر کافی دلکش لگی، میری دلچسپی محسوس کرتے ہوئے مصور نے کہا:
’’یہ ایک پرانی آور لوک کتھا پر مبنی ہے۔‘‘

’’کون سی لوک کتھا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’کہانی یوں ہے کہ ایک بار ایک چڑیا کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیا گیا۔چڑیا پنجرے میں رات دن چلایا کرتی:میرا وطن، وطن، وطن ․․․․․․․بالکل اِسی طرح ان تمام طویل برسوں کے دوران میں وطن، وطن کی رٹ لگائے رہا ہوں․․․․․․․ایک دن اُس چڑیا کو پکڑنے والے نے سوچا: ’’آخر اِس چڑیا کا وطن ہے کہاں اور کس قسم کا ہے؟یقیناً وہ کوئی خوب صورت وادی اور سرسبزو شاداب پہاڑ ہوگا جہاں خوب صورت اور قد آور درخت ہوں گے اور ایسی خوبصورت چڑیائیں ہونگیں جو فردوس میں ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔میں چڑیا کو آزاد کردوں گا، اِس کا پیچھا کروں گا اور یوں اُس خوبصورت وادی تک پہنچ جاؤں گا، اُس نے پنجرے کا دروازہ کھول دیااور اُسے اڑ جانے دیا۔چڑیا اڑ کر دس قدم گئی اور پھر ایک اجاڑ سی جھاڑی پر جا بیٹھی جو ننگی بوچی پہاڑی پر اُگی ہوئی تھی۔ اُسی جھاڑی کی کسی شاخ پر اُس کا گھونسلہ تھا․․․․․․ میں بھی اپنے پنجرے کی تیلیوں سے اپنے وطن کو دیکھتا رہا ہوں۔

’’تو پھر آپ وطن کیوں نہیں لوٹنا چاہتے؟‘‘میں نے پوچھا۔

’’اب بہت دیر ہو چکی ہے۔جب میں نے وطن چھوڑا تھا تو میرے پہلو میں ایک جوان دل تھا جس میں ایک جوالا بھڑک رہی تھی اور اب میں محض اپنی بوڑھی ہڈیاں لے کر اپنے وطن کس منہ سے جاؤں؟‘‘

پیرس سے واپسی پر میں نے مصور کے عزیزوں کو تلاش کیا۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اُس کی ماں ابھی تک زندہ ہے۔مصور کے عزیز افسردہ چہروں کے ساتھ گاؤں کے ایک مکان میں میرے اردگرد جمع ہوئے، اپنے اس سپوت کی کہانی سننے کے لئے جس نے ہمیشہ کے لئے اپنا وطن چھوڑ دیا تھا اور ایک دوسرے ملک میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ اُنہوں نے وطن چھوڑنے کا قصور معاف کردیا تھا اور یہ جان کر ان میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی تھی کہ اُن کا کھویا ہوا بیٹا ابھی زندہ ہے۔

اچانک اُس کی ماں نے مجھ سے ایک سوال کیا ’’اُس نے تم سے بات چیت تو آوار زبان میں کی ہوگی نا؟‘‘
’’نہیں۔ ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ میں روسی بول رہا تھا اور آپ کا بیٹا فرانسیسی‘‘ میں نے جواب دیا۔

ماں نے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال لیا جس طرح ہمارے پہاڑوں میں بیٹے کی موت کی خبر سن کر مائیں کیا کرتی ہیں۔اوپر چھت پر بڑی بڑی بوندیں گررہی تھیں، ہم آوارستان میں تھے، غالباً بہت دُور دنیا کے اُس سرے پر پیرس میں داغستان کا وہ بیٹا بھی جو اپنے قصور پر نادم تھا، برستے پانی کی آواز سن رہا ہوگا ’’رسول!تم سے غلطی ہوئی۔‘‘ ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا ۔’’میرے بیٹے کو مرے ہوئے تو ایک مدت بیت گئی۔ جس سے تم ملے ہو وہ میرا بیٹا نہ رہا ہوگا، کیونکہ میرا بیٹا اُس زبان کو کبھی بُھلا نہیں سکتا جو میں نے ، ایک آوار ماں نے اُسے سکھائی تھی۔‘‘

(رسول حمزہ توف کی کتاب ’’میرا داغستان‘‘ سے ایک اقتباس)


متعلقہ خبریں


کچھ کوسنوں کے بارے میں وجود - جمعه 28 اگست 2015

’’خدا کرے تیرے بچے اُس زبان سے محروم ہو جائیں جو اُن کی ماں بولتی ہے۔‘‘ یہ کوسنا میں نے ایک عورت کو دوسری عورت کو دیتے ہوئے سنا ہے۔ جن دنوں میں اپنی نظم ’’پہاڑی عورت‘‘ لکھ رہا تھاتو مجھے کچھ کوسنوں کی ضرورت محسوس ہوئی جنہیں نظم میں ایک تند خو اور غصہ ور عورت کی زبان سے ادا کرن...

کچھ کوسنوں کے بارے میں

آئی بات تمہاری سمجھ میں؟ وجود - جمعه 28 اگست 2015

ابو طالب ایک بار ماسکو گئے۔ سڑک پر انہیں کچھ معلوم کرنے کی ضرورت پڑی۔ غالباً بازار کا راستا۔انہوں نے ایک راہ گیر سے پوچھا۔ اب اسے اتفاق ہی کہئے کہ انہوں نے جس سے سوال کیا وہ انگریز تھا۔ ابوطالب کو اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ماسکو کی سڑکوں پر بہت سارے غیر ملکی گھومتے پھرتے م...

آئی بات تمہاری سمجھ میں؟

مضامین
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ وجود جمعه 22 ستمبر 2023
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ

بوڑھوں کا ملک وجود جمعه 22 ستمبر 2023
بوڑھوں کا ملک

چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے

احتساب کی چھلنی وجود جمعه 22 ستمبر 2023
احتساب کی چھلنی

نئے چیف جسٹس سے توقعات وجود جمعرات 21 ستمبر 2023
نئے چیف جسٹس سے توقعات

اشتہار

تجزیے
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ وجود جمعرات 14 ستمبر 2023
مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ

اشتہار

دین و تاریخ
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے

مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج وجود جمعه 08 ستمبر 2023
مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج

سُسرِ رسول سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ وجود جمعه 01 ستمبر 2023
سُسرِ رسول سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا

چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ وجود پیر 28 اگست 2023
چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال

محتسب (عالمی ادب سے منتخب افسانہ) وجود پیر 10 جولائی 2023
محتسب  (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)