... loading ...
ّآج کل
۔۔۔۔
رفیق پٹیل
جب تک پا کستان کے اعلیٰ ترین منتظمین ریاست کو چلانے اور اس کو مستحکم رکھنے کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کریں گے پاکستان عدم استحکا م کا شکار رہے گا۔ انٹرنیٹ پر گوگل کے ذریعے جب یہ سوال کیا گیا کہ سیاسی اورمعاشی استحکام کے بنیادی اصول کیا ہیں ؟مصنوعی ذہانت کے ذریعے فوری جواب آگیا”احتساب کے نظام پر مشتمل مستحکم ادارے،قانون اور آئین کی بالادستی،مو ثر حکمرانی،رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ،وسائل کا بہتر استعمال،روزگار کے نئے مواقع کی فرہمی،عوام کے بھرپور اعتماد پر مشتمل حکومت کے ذریعے خوشحالی کی راہ کو ہموار کرنا،شفافیت ،جمہوریت اور آزاد عدلیہ کے ذریعے انصاف کا نظام شامل ہے ”۔ اس جواب کی روشنی میں موجودہ نظام سے استحکام کی توقع رکھناخلاف عقل ہے۔ حکمراںجماعتیں ہیرے جوہرات اور ڈالروں کی بارش کے خواب دیکھ سکتی ہیں لیکن شاید اس قسم کی دولت کی بارش اور خوشحالی چند لوگوں کے لیے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ عوام کے نصیب میں مہنگائی بے روزگاری اوربدحالی ہی دکھائی دیتی ہے ۔موجودہ نظام کے تحت حکمراں جماعتو ں کی تمام تر توجہ حزب اختلاف خصوصاً پی ٹی آئی کے خاتمے پر مرکوز ہے ۔اس صورت حال کے پیش نظر پاکستانی حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے بے معنی سیاسی بیانات کاسلسلہ حکومت کی جانب سے وقت گزاری اور بانی پی ٹی آئی کے لیے مزید سزائوںکی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ ان کی قید اتنی طویل ہوکہ وہ زندہ جیل سے باہر نہ نکل سکیں ۔اس طرح ملک میں آئندہ پچاس سال یا اس سے زائد موجودہ حکمرانوں اور ان کی نسلوں کی حاکمیت کا تسلسل جاری رہے۔ رفتہ رفتہ ہر قسم کی مخالفانہ آوازکو دبا دیا جائے یا ان کو اپنا ہم نوا بنا لیا جائے۔ ابتدائی طور پر ان کا اصل ہدف بانی پی ٹی آئی اور ان کے ساتھی ہیں جو ہزاروں کی تعداد میںجیلوں میںقید ہیں۔اگلا ہدف باقی ماندہ پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن ہو سکتے ہیں جن کی تعدادمیں کمی کے بجا ئے اضافہ ہورہا ہے۔
بانی پی ٹی آئی جو جمائمہ خان سے علیحدگی کے موقع پر عدالت کے ذریعے ملنے والی اربوںروپوں کی دولت کوٹھکراچکے تھے۔ آج بھی ان کے ایک اشارے پر دنیا بھر سے کروڑوں ڈالر مل سکتے ہیں،انہیں توشہ خانہ کے مقدمے میں بدعنوانی اور رشوت کا مجرم قرار دے کر 17سال کی سزادے دی گئی ہے۔ ان کی اہلیہ بشرٰی بی بی کو بھی سترہ سال کی سزا سنادی ۔اب انہیں مجرموں کے کپڑے پہنا دیے جائیں گے ۔ہائی کورٹ اپیل کب سنے گی موجودہ حالات میں یہ مرحلہ بہت طویل ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگی رہنما بار بار بانی پی ٹی آئی کو فتنہ قرار دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق فتنے کو کچل دینا چاہیے۔ اس رویے کے پیش نظر اگلے مرحلے میں انہیں شاید پھانسی کی سزا بھی دی جاسکتی ہے ۔سرکار کے حامی بعض مبصرین یہ باور کرانا چاہتے ہیں یہ انصاف کااعلیٰ معیا ر ہے ان کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے جیسے ایماندار اور بدعنوانی سے پاک شریف اور زرداری خاندان نسل در نسل حکمران رہنے کا حق رکھتے ہیں ۔وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان خاندانوں کی سادہ زندگی اور ایمانداری کے دنیا بھرمیں چرچے ہیں اور یہ خاندان بانی پی ٹی آئی کی سزا کے بعد عوام کی نظر میں سر خرو ہورہے ہیں سڑکوں پر ان کی شان میں قصیدے بھی پڑھے جائیں گے ۔عوام منتظر ہیں کہ وہ کب مٹھائی تقسیم کرنے بازاروں میں نکلیں گے اورعوام ان پرہا ر پھو ل نچھاور کریں۔ عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی اورغربت سے کوئی پریشانی اور شکایت نہیں ہے ۔غربت اور جہالت عوام کا مقدّر ہے موجودہ حکمرانوں اور ان کی نسلوں کو صدا حکمرانی کا حق حاصل ہے ۔ہو سکتا ہے اگلی آئینی ترمیم میں ان کے اس حق کوبھی تسلیم کرلیا جائے گا ۔وہ سمجھتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی سزا کے بعد حکومت پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی ہے ۔حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس بات سے کوئی نا سمجھ ہی انکار کرسکتا ہے کہ اپریل دو ہزار بائیس میں بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے موقع پر اس بات کے باوجود کہ سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی کو عدم اعتماد کی تحریک سے اس وقت وزارت عظمٰی سے برطرف کیا گیا تھا، اقتدار کے آخری دنوں میں ا ن کی مقبولیت کم ہورہی تھی۔ لیکن اقتدار سے محرومی کے بعد ان کی مقبولیت رفتہ رفہ بڑھتی چلی گئی او ر گزشتہ فروری کے انتخابات میں ان کی جماعت پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلّا چھین لیا گیا جو اب تک انہیں واپس نہیں ملا ۔اس طرح پی ٹی آئی پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی جو اب تک جاری ہے۔ بانی پی ٹی آئی کا نام لینے پر پابندی لگادی گئی فروری دو ہزار چوبیس میں ان کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد امیدوار قر ار دیے گئے اور ان کے بیشتر امیدواروں کو امیدواری کے کاغذات جمع کرنے سے روکا گیا۔ امیدواروں کو جوتا، بیگن ،لوٹا، چمٹا، چارپائی اور دیگر عجیب و غریب نشانات دیے گئے ۔اس کے باوجو د پی ٹی آئی کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہورہے تھے ۔عالمی میڈیا نے اس پر کئی خبریں اور تجزیے شائع کیے جس کے مطابق رات بھر نتائج روک کر اچانک نتائج تبدیل کیے گئے اور ناکام امیدواروں کو کامیاب قرار دیاگیا ۔اس طرح ایک غیر نمائندہ حکومت تشکیل دی گئی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پہلے بھی انتخابات میں دھاندلی ہوتی تھی جو دودھ میں پانی ملانے کے برابر ہوتی تھی یعنی دس سے بیس فیصد پر پسندیدہ انتظام کر لیا جاتا تھا۔ اس مرتبہ پانی میں دودھ ملادیا گیا یعنی بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی اور بعض مقامات پر چوتھی پوزیشن پر آنے والوں کو کامیاب قرار دیا گیا ۔
حکمراں جماعتیں اقتدار پر قابض رہنے کے لیے طاقت کے استعمال کی وجہ سے عوام میں اپنی ساکھ کھو رہی ہیں۔ اب وہ طاقت کے استعمال کو ہی کامیابی کا نسخہ تصور کرتی ہے ۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دینی جماعتیں اندرون خانہ طاقتور حلقوں سے ساز باز رکھتی ہیں اور دوستانہ حزب اختلاف کا کردار اداکر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں فارم پینتالیس پیش کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں اسلام آباد کی تمام نشستیں مسلم لیگ ن کو مل گئیں جبکہ ان نشستوں پر کامیاب قرار دیے گئے نمائندے بری طرح ہار چکے تھے۔ جمعیت علماء اسلام نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں حاصل کرلیں۔ عین ممکن ہے کہ اب یہ جماعتیں حکومت کے اشارے پر تحریک تحفظ آئین پاکستان کی احتجاجی تحریک کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں جس کی وجہ سے شریف ،زرداری خاندان اور ایم کیو ایم کی حکمرانی برقرار رہے اور کچھ مراعات چند مذہبی جماعتوں کوبھی مل جائے۔ موجودہ حکومت کا خیال ہے کہ وہ عالمی قوتوں کی حمایت حاصل کر چکی ہیں اور وہ اس حمایت کو عرصہ دراز تک برقرار رکھنے کا جادو جانتی ہے۔ لہٰذایک لا محدود مدت تک اپنا اقتدار برقرار رکھ سکتی ہیں۔ایک ایسی ریاست جس کی حکمراں جماعتوں کو عوامی حمایت حاصل نہ ہو، جس کی عدلیہ آزاد نہ ہو، امن وامان کی صورت حال ٹھیک نہ ہو، عوام میں مہنگائی اور غربت کی وجہ سے بے چینی ہو، وہاں کا نظام حکمراں جماعتوں کی خواہشات کے مطابق طویل عرصے تک برقرار رہے اور وہ معاشی اور سیاسی استحکام کی توقع بھی رکھیں، جدیددور میں ایسے کسی معجزے کا امکان کم ہے ۔
٭٭٭