... loading ...
منظر نامہ
۔۔۔۔۔۔
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت میں حالیہ برسوں میں منظر نامہ بدل رہا ہے ۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ کرسمس کے موقع پر مسیحیوں کو نشانہ بنانا، نابینا لڑکی پر حملہ اور مذہبی تبدیلی کے نام پر مظالم عام ہونا، اس بات کا غماز ہے کہ انتہا پسند ہندوتوا نظریہ نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خطرہ بن چکا ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق اور آئینی ضمانتوں کی بھی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے ۔
حال ہی میں میڈیا رپورٹس اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز نے اس صورتحال کو بے نقاب کیا ہے ۔ مدھیہ پردیش کے جبل پور میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ضلع نائب صدر، انجو بھارگَو نے ایک نابینا لڑکی پر تشدد کیا۔ اطلاعات کے مطابق اس پر الزام تھا کہ وہ مذہبی تبدیلی میں ملوث ہے ۔ اس واقعہ میں نہ صرف نابینا لڑکی کے انسانی وقار کو پامال کیا گیا بلکہ موقع پر موجود پولیس نے بھی خاموش تماشائی بن کر اس تشدد کو روکنے میں ناکامی دکھائی، جو کہ قانون کے نفاذ میں شدید کمی کا عندیہ دیتا ہے ۔ اسی دوران ایک اور ویڈیو میں ایک ہندو بنیاد پرست رہنما کو ایک مسیحی پادری کو دھمکاتے اور ان سے عیسائی عقیدہ قبول کرنے پر بار بار جارحانہ انداز میں سوال کرتے دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ مظاہرے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں پر تشدد کے واقعات منظم اور منصوبہ بندی کے تحت کیے جا رہے ہیں، اور ان کے خلاف سماجی اور انتظامی سطح پر مؤثر کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے ۔بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بھارت میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 2023میں بھارت میں 1,200سے زائد واقعات میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر تشدد ہوا، جن میں ہندو قوم پرست تنظیموں کے مبینہ کردار کی نشاندہی کی گئی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اقلیتوں کے لیے بھارت میں روزمرہ کی زندگی محض مذہبی شناخت کی وجہ سے خطرناک اور غیر محفوظ ہو چکی ہے ۔ کرسمس کے موقع پر مسیحیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا، جس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتوں پر حملے صرف ذاتی یا عارضی نہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی سطح پر ایک خطرناک رجحان کا حصہ ہیں۔
اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ سب سے اہم ہندو قوم پرستی کی انتہا پسند نظریات ہیں، جو اقلیتوں کو
ملک کے حقیقی شہری تصور کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ دوسرے عنصر میں انتظامیہ کی غیر فعال رویہ شامل ہے ، جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر ایسے واقعات میں مداخلت نہیں کرتے اور متاثرہ افراد کو انصاف دلانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ میڈیا کی غیر یکساں توجہ اور بعض اوقات حکومتی سنجیدگی کی کمی بھی مسئلے کو بڑھاوا دیتی ہے ۔
ان مظالم کا اثر صرف متاثرہ افراد تک محدود نہیں رہتا۔ سماج میں خوف اور عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوتی ہے ، جو تعلیمی اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر، نابینا لڑکی پر حملے کے بعد اس کے خاندان اور علاقے میں رہنے والے دیگر افراد بھی خوف کی حالت میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس سے بچوں کی تعلیم، خواتین کی آزادی اور معاشرتی شمولیت متاثر ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی سطح پر بھارت کی انسانی حقوق کی ساکھ متاثر ہوتی ہے ، جو اقتصادی اور سفارتی تعلقات پر بھی اثر ڈال سکتی ہے ۔
تاریخی طور پر، بھارت میں اقلیتوں کے حقوق آئین کے تحت محفوظ ہیں۔ آرٹیکل 15 ہر شہری کو نسلی، مذہبی، جنس یا پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی طرح کے امتیاز سے تحفظ دیتا ہے ، جبکہ آرٹیکل 25 ہر شہری کو اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق عبادت، رسومات اور مذہبی عمل کی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ یہ دونوں آرٹیکلز اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے سنگ بنیاد ہیں۔ مگر موجودہ حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ قانونی حقوق پر عملی طور پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا اور سماجی سطح پر اقلیتوں کے خلاف تشدد جاری ہے ۔ ایسے حالات میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی برادری بھارت سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ آئینی حقوق کو تحفظ ملے اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم روکے جا سکیں۔چرچوں پر حملے مذہبی آزادی پر قدغن ہے .
اقلیتوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بچاؤ کے لیے متعدد اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے ، حکومت کو چاہیے کہ فوری اور مؤثر تحقیقات کر کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے ، چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سماجی تنظیم سے تعلق رکھتے ہوں۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی تربیت دی جائے کہ وہ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم میں مؤثر مداخلت کریں اور متاثرین کو تحفظ فراہم کریں۔ تعلیمی اداروں میں سماجی ہم آہنگی، رواداری اور انسانی حقوق کے موضوعات کو نصاب میں شامل کرنا بھی اہم ہے تاکہ نئی نسل میں معاشرتی شعور بیدار ہو۔اس کے علاوہ، میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مستند معلومات اور رپورٹس کو فروغ دینا چاہیے تاکہ اقلیتوں پر تشدد کے واقعات کو چھپایا نہ جا سکے اور عوام میں شعور پیدا ہو۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون بڑھانا اور بھارت میں انسانی حقوق کی نگرانی کے لیے شفاف میکانزم تیار کرنا بھی ضروری ہے ۔ معاشرتی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کے لیے بین المذاہب فورمز اور کمیونٹی سینٹرز کا قیام اقلیتوں کے تحفظ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔
آخر میں، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم ایک سنگین انسانی اور سماجی بحران کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کرسمس جیسے مذہبی تہوار کے موقع پر مسیحیوں پر حملے نہ صرف انسانی وقار کی خلاف ورزی ہیں بلکہ بھارت کے متنوع سماجی ڈھانچے کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتی سنجیدگی، قانونی کارروائی، عوامی شعور اور بین الاقوامی تعاون سب ضروری ہیں۔ صرف تبھی بھارت میں اقلیتیں محفوظ اور برابر کے شہری کے طور پر اپنی زندگی گزار سکیں گی، اور ملک میں معاشرتی ہم آہنگی اور انسانی وقار قائم رہے گا۔عالمی مسیحی برادری بھارت میں بڑھتے ہوئے مظالم کے خلاف عملی اقدامات کرے۔