... loading ...
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔
اسپین کے مصور Pere Borrell del Caso کی مشہور پینٹنگ Escaping Criticism یا جسے ہم علامتی طوپر ”فریم سے
فرار” کہتے ہیں صرف ایک تصویری منظر نہیں بلکہ انسانی آزادی اور سماجی جبر کا گہرا فلسفیانہ اعلان ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب فن حقیقت سے
آنکھ ملاتا ہے اور حقیقت فن کی حدود کو چیر کر باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے پینٹنگ میں ایک بچہ لکڑی کے فریم سے باہر نکلنے کی سعی کرتاہے ایسا لگتا ہے جیسے وہ کینوس کی قید توڑ کر نئی دنیا کی طرف ہاتھ بڑھا رہاہو ۔ لیکن یہ ہی لمحہ ہمارے لیے سب سے بڑا سوال بن کر ابھرتاہے۔ کیا ہم بھی اپنی زندگی کے فریم میں قید ہیں ؟ اور اگر ہاں تو ہمیں اس کا ادراک کب ہوتاہے ؟
ہر معاشرہ اپنے افراد کے لیے کچھ فریم تشکیل دیتا ہے۔ روایات ، اقدار، توقعات ، نظریات کے ۔ اور وہ نازک مگر مضبوط تہذیبی اصول جو فرد سے مطابقت تو چاہتے ہیں مگر اس کی انفرادیت چھین لیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فلسفی جان اسٹورٹ مل فرد کو خبردار کرتاہے کہ ” سب سے خطرناک قسم کی غلامی وہ ہے جو معاشہرہ فرد پر مسلط کر تاہے کیونکہ وہ اسے غلامی سمجھنے ہی نہیں دیتا ” ۔ اسی طرح ژان پال سارتر ہمیں یاددلاتا ہے کہ انسان پیدا تو آزاد ہوتاہے مگر پھر ” خود ساختہ ” اور ”اجتماعی ” فریم اسے آہستہ آہستہ جکڑ لیتے ہیں ۔ پینٹنگ کا بچہ حیران ہے اس کی حیرت میں معصومیت بھی ہے اور درد بھی ۔و ہ فریم سے نکل تو آیا ہے مگر اس کے چہرے پر ایک انجانی کیفیت ہے۔ جیسے وہ دریافت کررہاہو کہ اصل دنیااور فریم کی دنیا سے بالکل مختلف ہے جہاں اسے رکھا گیا تھا ۔ یہ لمحہ اس وقت پیدا ہوتاہے جب انسان پہلی بار اپنے ”قید ” ہونے کاشعور پاتا ہے ۔ علامہ اقبال اسے ”خود کی بیداری ” کہتے ہیں۔
پینٹنگ ایک اور تلخ حقیقت بیان کرتی ہے ۔ آزادی ملنے کے بعد انسان کو یہ بھی احساس ہو تاہے کہ اس نے اپنی زندگی کے کتنے سنہرے لمحے ایسی حدود میں ضائع کردیے جو اس کی اپنی نہیں تھیں۔ یہ وہ ہی احساس ہے جسے نطشے ”روح کی جلاوطنی” کہتاہے ”انسان اس لمحے ٹوٹ جاتا ہے جب اسے یہ دکھ ہوتاہے کہ وہ کھبی اپنے ہونے کے مطابق زندہ ہی نہیں رہا ” ۔ اور کئیر کیگارڈ کاکہنا ہے کہ معاشرہ انسان سے
” اصل خود ” چھین لیتاہے اور جب وہ اسے دوبارہ تلاش کرتاہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔انسان اکثر سمجھتا ہے کہ قید وہ ہے جو باہر سے مسلط کی جائے ۔ لیکن نفسیات بتاتی ہے کہ اصل قید باہر نہیں بلکہ اندر ہوتی ہے ۔ اندر بننے والی زنجیریں زیادہ مضبوط ، زیادہ خاموش اور زیادہ دیر پاہوتی ہیں۔ پینٹنگ کا فریم دراصل انسان کی اندرونی قید کی علامت ہے وہ قید جو ہمیں نظر نہیں آتیں۔
ماہر نفسیات کا رل یونگ کہتاہے کہ انسان اپنی شخصیت کا بڑا حصہ اجتماعی لاشعور سے لیتا ہے۔ یعنی وہ اقدار اور خیالات جو معاشرے نے اس کے ذہن میں رکھ دیے ہوں ۔ وہ اسے اپنی سوچ سمجھ کر اختیار نہیں کرتا ۔ وہ انہیں وارث میں پاتا ہے ۔ انسان ہمیشہ دیوار وں کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ مگر یہ دیواریں اینٹ کی نہیں ہوتیں ۔ اس کی پہلی قید و ہ آوازیں ہوتی ہیں جو اس کے اندر رکھی جاتی ہیں ، ماں کی ہدایت ، باپ کی امیدیں، استاد کے اصول ، مذہب کی سرحدیں ، معاشرے کی لہجے میں لپٹی ہوئی ممانعتیں یعنی انسان ایک گھر میں نہیں بلکہ ایک بیانیے میں جنم لیتا ہے ۔معاشرہ انسان کو طاقت سے نہیں معنی سے قید کرتاہے ۔ خوف سے قید رکھتا ہے ۔ خوف ہی وہ لکڑی ہے جس پر سماج اپنی تصویر کھینچتاہے اور انسان اس تصویر کو اپنی پہچان سمجھ کر لٹکا رہتا ہے۔ فریم انسان کو محفوظ رکھتاہے۔ مگر اسی حفاظت کے اندر وہ گھٹنے لگتا ہے ۔ محفوظ انسان اکثر جیتا ہوا نہیں ہوتا۔ بس چھپا ہوا ہوتاہے ۔نفسیات کہتی ہے کہ سب سے مقبول قید وہ ہے جو انسان شوق سے قبول کرے۔ ایرک فرام کہتا ہے انسان آزادی سے بھاگتا ہے، کیونکہ آزادی ذمہ داری لاتی ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ فریم میں رہنا پسند کرتے ہیں پھر قیدان کے لیے قید نہیں رہتی پناہ بن جاتی ہے ۔ جب انسان پہلی بار فریم سے نکلتا ہے تو وہ آزاد نہیں ہوتا، وہ کنفیوژن کا شکار ہو تاہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جسے ماہرین نفسیات Indentity Crisis کہتے ہیں ۔ فریم سے نکلنے کے بعد انسان سوچتا ہے میں اصل میں کون ہوں ؟ میری اپنی سوچ کیا ہے ؟ میری خواہشات کون سی ہیں اور کون سی مجھے سکھائی گئی تھیں؟ میری زندگی مجھے جینی ہے یاورثے میں ملی ہے ؟ کیا میں خود فیصلہ کرسکتاہوں ؟ یہ سوالات انتہائی خوفناک ہیں اسی لیے زیادہ تر لوگ یہ راستہ چھوڑ دیتے ہیں مگر جو آگے بڑھتا ہے وہ آزاد انسان بنتا ہے ۔ سماج ہمیشہ فریم توڑنے والوں سے خائف ہوتا ہے کیونکہ جب ایک شخص فریم تو ڑتا ہے تو دوسرے بھی سوال کرنے لگتے ہیں ۔ اسی لیے انسانی تاریخ میں سقراط کو زہر دیا گیا۔ منصورحلاج کو دار پر چڑھا یا گیا ۔ گیلیلیو کو قید کیا گیا ، برو نو کو زندہ جلا دیا گیا ۔ نطشے کو پاگل قرار دیا گیا ۔ فرائڈ کو رد کیا گیا ،سارتر کو دشمن سمجھا گیا ۔ کیونکہ فریم توڑنے والے فرد کو چیلنج نہیں کرتے ۔ وہ پورے نظام کو سوال بنا دیتے ہیں ۔
آج جب ہم پاکستان پر اپنی نظریں ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم چلتا ہے کہ لوگوںکی اکثریت اپنی قیدی آپ ہیں ۔ پاکستان کے موجودہ حالات جن میں سیاسی انتشار ، معاشی تنزلی ،عدلیہ اور میڈیا پر دبائو ، کر پشن ، لوٹ مار، اختیارات اور حقوق کو چند لوگ کا اپنی ذاتوں میں جمع کرلینا، عدم مساوات و برداشت اور سماجی تضادات شامل ہیں ۔ ایک ایسا فریم تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو فرد اور قوم دونوں کو اپنی شناخت سے دو ر لے گیا ہے ۔ یہ فریم کبھی روایات ، کبھی مذہبی اور سیاسی نظریات ، کبھی خوف اور استحصا ل کی شکل میں نمودار ہوتا رہتا ہے۔ ہر معاشرہ اپنے افراد کے لیے فریم وضع کرتا ہے ۔ مگر پاکستان میں یہ فریم اکثر سیاسی قوتوں کی سازشیں ، جو عوام کو محدود اور مشتبہ فیصلے کرنے پر مجبور کر تی ہیں ۔ معاشرتی اور صنفی روئیے جو آزادی اور خودی کی ابتدائی بیداری کو دبانے کا سبب بنتے ہیں ۔ اقتصادی عدم مساوات جو فرد اور طبقات کو پیدا وار اور مواقع سے محروم رکھتی ہے۔ یہ وہ سماجی اور سیاسی قید ہے جسے جان اسٹورٹ مل او ر سارتر کے فلسفے میں موجود تصورات کے مطابق فرد اور قوم اکثر خود غلامی سمجھے بغیر قبول کرلیتے ہیں ۔ پاکستان کے لوگ محدود سوچ، تعلیمی خامیوں اور معاشرتی دبائو کے بیچ اپنی شناخت اور آزادی کی تلاش میں ہیں ۔ انہیں احساس ہے یہ نظام اورفریم ہمیں اصل صلاحیت سے محروم کررہا ہے ۔ کتنے برس ہم نے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی فریم میں گذار دیے جو ہماری خوشحالی، آزادی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔ تعلیم ، انصاف، روزگار اور آزادی اظہار کے مواقع ضائع ہوئے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاست ،مذہب اور سماجی رویوں کے نام پر جو فریم ہم پر مسلط کیے گئے ہیں ۔ انہیں توڑ دیں ۔ تمام خوفوں کو دفنا دیں ۔ اپنی شناخت، خواہشوں اور اپنے شعور کو پہچا نیں ۔ اور وہ بنیں جو ہم واقعی ہیں اور جو ہم بننا چاہتے ہیں ۔ آئیں تمام زنجیریں توڑ دیں اور تمام فریم بھی۔
٭٭٭