... loading ...
منظر نامہ
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت کے جنگی جنون اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پاکستان اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم اور مضبوط کر رہا ہے ۔امریکہ پاکستان دفاعی تعلقات اور ایف سولہ ریکوڈک منصوبے نے بھارت کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے ۔
انسانی تاریخ میں طاقت کے توازن کی تبدیلیاں ہمیشہ صرف ہتھیاروں یا معاہدوں تک محدود نہیں رہتیں بلکہ ان کے سائے میں خوف، بے یقینی اور سفارتی اضطراب بھی جنم لیتا ہے ۔ جنوبی ایشیا اس وقت اسی کیفیت سے گزر رہا ہے جہاں امریکہ اور پاکستان کے درمیان دفاعی اور معدنی تعاون کی نئی صورت نے نئی دہلی میں تشویش کی ایک لہر پیدا کر دی ہے ۔ یہ تشویش محض عسکری معاملات تک محدود نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں معاشی مفادات، عالمی سیاست اور خطے میں بالادستی کی کشمکش بھی کارفرما ہے ، جس نے بھارت کو ایک غیر یقینی ذہنی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے ۔امریکہ اور پاکستان کے تعلقات تاریخ کے مختلف ادوار میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، مگر حالیہ برسوں میں ان تعلقات کی ازسرِنو ترتیب نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے ۔ واشنگٹن کی جانب سے پاکستان کے ایف سولہ جنگی طیاروں کی اپ گریڈیشن کی منظوری اور بلوچستان کے ریکوڈک منصوبے میں امریکی کمپنیوں کی شمولیت نے نہ صرف اسلام آباد کے لیے سفارتی و معاشی مواقع پیدا کیے ہیں بلکہ نئی دہلی کے لیے سوالات اور خدشات بھی جنم دیے ہیں۔ بھارت اس پیش رفت کو خطے میں عسکری اور تجارتی توازن پر اثر انداز ہونے والا ایک سنجیدہ معاملہ سمجھ رہا ہے ، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ خود امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون قرار دیتا رہا ہے ۔
ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق واشنگٹن نے پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے 686 ملین ڈالر کی منظوری دی، جسے امریکہ کی جانب سے محض دفاعی نوعیت کا اقدام قرار دیا جا رہا ہے ۔ امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ اس اپ گریڈیشن کا مقصد پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے ، نہ کہ کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحانہ توازن قائم کرنا۔ تاہم بھارت میں اس وضاحت کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک ایف سولہ جیسے جدید جنگی طیاروں کی اپ گریڈیشن خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، خاص طور پر ایسے ماحول میں جہاں پاکستان اور بھارت کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔اسی طرح بلوچستان کے ریکوڈک منصوبے میں امریکی سرمایہ کاری نے بھارتی تشویش کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف پاکستان کے لیے معاشی اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر اہم معدنی وسائل، خصوصاً تانبے اور سونے کے ذخائر، سے وابستہ ہے ۔ امریکا کی جانب سے اس منصوبے کے لیے 1۔25 ارب ڈالر کی مالی سہولت کی منظوری کو بھارت میں ایک اسٹریٹجک پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔
ریکوڈک منصوبے میں تقریباً 5۔9 بلین ٹن معدنی خام موجود ہے ، جس میں 41 ملین اونس سونا اور 22 ملین ٹن تانبا شامل ہے ۔ بھارتی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سرمایہ کاری امریکہ کو پاکستان میں طویل المدتی معاشی اور جغرافیائی اثر و رسوخ فراہم کر سکتی ہے ، جو بھارت کے علاقائی مفادات کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے ۔صدر ٹرمپ کی جانب سے پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات نے بھی بھارت کی فکرمندی میں اضافہ کیا ہے ۔ یہ ملاقات بظاہر دوطرفہ عسکری روابط کے تناظر میں تھی، مگر نئی دہلی میں اسے ایک علامتی پیغام کے طور پر دیکھا گیا۔ بھارت کے لیے یہ امر تشویش کا باعث ہے کہ امریکہ ایک طرف بھارت کو اسٹریٹجک شراکت دار قرار دیتا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے ساتھ دفاعی و معدنی تعاون کو فروغ دے رہا ہے ۔ اگرچہ واشنگٹن مسلسل یہ یقین دہانی کرا رہا ہے کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن متاثر نہیں ہوگا، مگر بھارتی پالیسی سازوں اور میڈیا میں خوف اور الجھن کی کیفیت برقرار ہے ۔ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جنوبی ایشیا امور کی ڈائریکٹر فروہ عامر کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں یہ ازسرِنو ترتیب امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں ایک الجھن پیدا کر رہی ہے ، جو پہلے ہی کئی نشیب و فراز سے گزر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک بھارت کے لیے یہ صورتحال اس لیے بھی پیچیدہ ہے کہ وہ خود کو خطے میں امریکہ کا قدرتی اتحادی سمجھتا ہے ، مگر حالیہ پیش رفت نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے ۔ بھارت کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ امریکہ کی ترجیحات میں توازن کی یہ پالیسی مستقبل میں نئی دہلی کی علاقائی بالادستی کے دعوؤں کو محدود کر سکتی ہے ۔
اس پورے منظرنامے میں چین کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ چین اور امریکہ کے درمیان اگرچہ عالمی سطح پر مسابقت موجود ہے ، مگر بعض خطوں میں ان کے مفادات کا ایک نکتۂ اشتراک بھی پایا جاتا ہے ، خاص طور پر معدنی وسائل اور تجارتی راستوں کے حوالے سے ۔ پاکستان اس اشتراک میں ایک اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے ، جہاں چین پہلے ہی سی پیک کے ذریعے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر چکا ہے ۔ امریکہ کی ریکوڈک منصوبے میں شمولیت کو بعض مبصرین چین امریکہ مسابقت کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں، جہاں واشنگٹن پاکستان میں معاشی موجودگی کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ کو متوازن کرنا چاہتا ہے ۔ اس صورتحال میں بھارت خود کو ایک ایسے دباؤ میں محسوس کر رہا ہے جہاں اس کی علاقائی بالادستی محدود ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔
بھارت کی تشویش کا ایک پہلو داخلی سیاست سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ نئی دہلی میں موجودہ سیاسی قیادت نے برسوں سے یہ بیانیہ تشکیل دیا ہے کہ بھارت خطے میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور امریکہ اس کا فطری شراکت دار ہے ۔ ایسے میں امریکہ پاکستان تعلقات میں گرمجوشی
اس بیانیے کے لیے ایک سوالیہ نشان بن رہی ہے ۔ بھارتی میڈیا میں اس پیش رفت کو کبھی امریکہ کی دوغلی پالیسی قرار دیا جا رہا ہے اور کبھی
اسے بھارت کی سفارتی ناکامی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ، جس سے عوامی سطح پر بھی بے چینی بڑھ رہی ہے ۔یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ
امریکہ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ مفادات کے گرد گھومتی رہی ہے ۔ واشنگٹن کے لیے پاکستان کے ساتھ دفاعی اور معدنی تعاون کا مطلب خطے
میں استحکام، انسدادِ دہشت گردی اور اہم وسائل تک رسائی ہے ، جبکہ بھارت کے ساتھ شراکت داری کا مقصد چین کے بڑھتے اثر و رسوخ
کا مقابلہ کرنا ہے ۔ امریکہ ان دونوں اہداف کو بیک وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، مگر یہی کوشش بھارت کے لیے الجھن اور خوف کا
باعث بن رہی ہے ۔ نئی دہلی اس توازن کو اپنے حق میں کم اور پاکستان کے حق میں زیادہ محسوس کر رہی ہے ۔آخرکار یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ
امریکہ پاکستان دفاعی اور معدنی تعاون نے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کے سوال کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے ۔ بھارت کی تشویش
محض وقتی ردِعمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے علاقائی بالادستی کے خدشات، معاشی مفادات اور عالمی سیاست کی پیچیدگیاں کارفرما ہیں۔ اس
صورت حال میں خطے کے لیے ضروری ہے کہ سفارتی مکالمے کو فروغ دیا جائے ، عسکری خدشات کو شفافیت کے ذریعے کم کیا جائے ، معاشی
تعاون کو تصادم کے بجائے ترقی کا ذریعہ بنایا جائے ، اعتماد سازی کے اقدامات کو ترجیح دی جائے ، اور عالمی طاقتوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن طاقت کے توازن سے نہیں بلکہ باہمی احترام، معاشی شراکت اور سیاسی بصیرت سے ممکن ہے ۔
٭٭٭