... loading ...
حمیداللہ بھٹی
مذہبی تعصب حکمت ِعملی بن جائے تو انسانیت پر حیوانیت غالب آجاتی ہے کیونکہ اِس میں غلط طاقت کو اُبھارنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ بھارت میں یہی کچھ ہورہا ہے یہاں مذہبی تعصب سیاسی حکمت ِعملی ہے۔ اسی بناپر اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں اوربی جے پی جیسی غلط طاقت کے پاس اقتدار ہے جسے صرف ہندواکثریت کے ووٹ درکار ہیں۔ اب تو حالات اِس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ دیگر جماعتیں بھی اسی روش پرچل نکلی ہیں جس سے ہندواکثریت کے ووٹ حاصل ہوں ۔پٹنہ میں ایک سرکاری تقریب ہوئی جس میں مسلمان خاتون ڈاکٹر نصرت پروین کوبہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمارنے تقررنامہ دیتے ہوئے اُس کانقاب کھینچ دیا جوکہ عورت کی عزت،شناخت اور ذاتی آزادی پر سنگین حملہ ہے۔ خاتون نے دلبرداشتہ ہوکر ملازمت کرنے سے ہی انکار کردیا۔نتیش کمارکا رویہ نہ صرف غیر شائستہ ،توہین آمیز ، افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک ہے۔ خاتون ڈاکٹر کانقاب کھینچنا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ بڑھتی تنگ نظری کااظہار ہے۔ اس واقعہ کے بعد ایک ہجوم نے دومسلم خواتین کے نہ صرف نقاب نوچے بلکہ کرسیوں سے مار مارکرزخمی کردیا۔ جب وزیراعلیٰ جیسے منصب پر فائز ایک شخص بے شرمی اور ڈھٹائی سے کام لے توکسی اور کواپنے گھٹیا عمل پر افسوس یا ملال نہیں ہوسکتا۔ مدرسے کی تقریب میں سرپر ٹوپی پہننے سے انکار کرنے والا نتیش کمار گزشتہ برس ہی مودی کے پائوں چھونے کی کوشش کر چکاہے ۔
لباس شخصی آزادی کے ذمرے میں آتاہے۔ لہٰذا لباس اور حلیے پر تنقید کرنااور پسند کے مطابق رکھنے کا مطالبہ شخصی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے ۔ خاتون کے چہرے سے نقاب کھینچنے کی ویڈیو غیرمعمولی ہے ۔اِس کا منظرعام پر آنا دنیا بھر میں انسانی حقوق کے دعویداروں کے لیے سنجیدہ سوال ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون سے محض مسلمان ہونے کی بناپر اِس نوعیت کے سلوک سے نہاد سیکولر ریاست کا اصل اور گھنائونا چہرہ بے نقاب ہوا ہے جس میں اقلیتوں بالخصوص مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی اور تحقیر آمیزسلوک عام ہے ۔یہ ہندوتوانظریے کا عملی اظہارہے مگر کیا عالمی ذرائع ابلاغ ،انسانی حقوق کی تنظیموں اور امن کے علمبرداروں نے اِس کا نوٹس لیا ہے؟بظاہر صورتحال مایوس کُن ہے۔ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ بھارت میں اہم ترین مناصب پر براجمان لوگ مذمت کرنے کی بجائے نہ صرف جواز پیش کررہے ہیں بلکہ حوصلہ افزائی کرتے اور داد دیتے نظر آتے ہیں ،جب بی جے پی جیسی غلط طاقت مذہبی تعصب کو حکمتِ عملی بناکر اقتدار میں آ سکتی ہیں تولامحالہ دیگر جماعتیں بھی تعصب وتنگ نظری کے اظہار سے اقتدارحاصل کرنے کی کوشش کریں گی تواِس کے نتیجے میں اقلیتوں کے لیے مزید خطرات بڑھیں گے ۔اگر بھارت میں اقلیتوں سے روارکھے جانے والے امتیازی سلوک کودنیانظر انداز کرتی رہی تو ہندوتواکو آزادی ملے گی اورتعصب وتنگ نظری کی آگ مزید پھیلے گی۔ لہٰذا اِس کے خلاف موثر ،پُرامن اور مسلسل احتجاج ناگزیر ہے تاکہ یہ معاملہ کہیں دب نہ جائے اور انصاف کی آواز عالمی ضمیر تک پہنچائی جا سکے۔
مذہبی تعصب کے خلاف بھارت کے طول وعرض میں بھی بے چینی اور اضطراب ہے۔ خاتون کے چہرے سے نقاب نوچنے پر بہار کے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف جب مقدمہ درج کرنے کامطالبہ ہونے لگا تو کاغذی حد تو چندسطور لکھ دی گئیں مگر اِن سطور سے انصاف کی اُمید اِس لیے نہیں کہ گجرات کا وزیرِ اعلیٰ ہوتے ہوئے مودی جیسا سفاک اور بے رحم شخص ہزاروں مسلمانوں کوقتل کرادیتاہے لیکن آج تک کسی متاثرہ کو انصاف نہیں مل سکاجب وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہواتوحکومتی مددسے دارالحکومت دہلی میں مسلم کُش فسادات کرائے جن میں درجنوں مسلمانوں کو موت کی نیند سُلادیا گیا مگرآج تک کسی فرد یا خاندان کوبھارتی قانون انصاف نہیں دے سکاکیونکہ ہندوئوں کے حق میں بھارتی قانون لچکدار ہوجاتا ہے۔ اِس طرح متعصب اورتنگ نظر ہندوصاف بچ نکلتے ہیں یہاں مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور دلت خوف وہراس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں لیکن عالمی ضمیر گہری نیند میں ہے۔ عالمی طاقتوں نے تجارتی مفاد کے لیے ہندوشدت پسندی سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بی جے پی اور اُس کے اتحادی مذہبی تعصب کو حکمت عملی بناکرمسلسل اقتدار میں ہیں ۔اُنھیں بخوبی علم ہے کہ ایک بڑی تجارتی منڈی ہونے کی بناپر کوئی ملک بھارت کو نظر اندازنہیں کر سکتا۔اسی لیے اقلیتوں بلاخوف وخطر کچلا جارہا ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ ایک ایسا ملک جہاں مسلمان ہونا جرم ہے اورحکومت مسلم شناخت مساجد اور درگاہیں ختم کرنے میں مصروف ہے۔ اُس کے خلاف وہ عرب مسلم ممالک بھی لائحہ عمل نہیں بنا سکے، جہاں لاکھوں بھارتی مقیم ہیں۔ ہندوتواکی علمبردار بھارتی حکومت کو خوش کرنے کے لیے دبئی نے مندربنادیاہے لیکن ہندوئوں کی مسلمانوں سے سفاکی برقرارہے۔ سعودی عرب اور بھارت نے ایک ایسے دوطرفہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کی روسے سفارتی ،خصوصی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کو قیام کے ویزہ سے استثنیٰ ہوگا ۔اِس معاہدے سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات مضبوط یا سرکاری سفرکو آسان بنانا ممکن ہو سکے گایا نہیں ،البتہ بھارتی ساکھ ضروربہتر ہوگی ۔کاش یہ پہلو عرب ممالک سمجھیں اور بھارت پر دبائو ڈالیں کہ مسلمانوں سے امتیازی سلوک ترک کیا جائے ۔
بھارت کا موازنہ پاکستان سے کرتے ہیں تو واضح فرق نظر آتا ہے۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتا اور اُنھیں جان و مال کا تحفظ فراہم کرتا ہے ۔یہاں تمام مذاہب کے پیروکاربلا خوف و خطر اپنی عبادات کر سکتے ہیں۔ عیسائی بھائیوں کی نہ صرف عبادت گاہیں محفوظ ہیں بلکہ اُن کے تہواروں میں مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں۔ سکھوں اورہندوئوں کی ازکاررفتہ عبادت گاہوں کی سرکاری اخراجات سے تزئین و آرائش کرنے سے ملک میں مذہبی بھائی چارے کی فضا بنی ہے اور مذہبی سیاحت میں اضافہ ہواہے۔ مادام رتھ فائو ،جسٹس کارنیلیئس اور جسٹس بھگوان داس کاہر مکتبہ فکر احترام کرتاہے مگر بھارت میں ایساتصور کرنابھی محال ہے۔ صدیوں پرانی بابری مسجد کو مند رپر بنانے کا من گھڑت الزام لگاکر شہید کر دیا گیا۔ مسلم شناخت مٹانے کے لیے ملک بھر سے درجنوں مساجدگرائی جا چکیں ۔شہروں اوردیہات کے نام تک اِس لیے بدل دیے گئے کہ مسلم تاثر اُجاگر ہوتاہے ۔یہ نفرت،تنگ نظری کی انتہا ہے آگرہ اور لال قلعہ جیسی عمارات سے بھی ہندوئوں کی نفرت پوشیدہ نہیں جسے ہندو شدت پسندی کہنا زیادہ مناسب ہوگاجوبھارتی معاشرے کااتحادپارہ پارہ کرچکی ہے۔ مگر یہ بی جے پی اور اُس کی اتحادی شدت پسند جماعتوں کواقتدارکامختصرراستہ ہونے کی بناپرپسندہے لیکن عالمی ضمیر کوبیدار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی عالمگیر مُہم کا آغاز کیا جائے جس سے مناسب ردِ عمل آنے کی راہ ہموار ہو۔