... loading ...
محمد آصف
قوموں کی اصل پہچان ان کے آرام و آسائش کے دنوں میں نہیں بلکہ ان کی مشکلات اور آزمائش کے لمحات میں ہوتی ہے ۔ خوش حالی، امن اور استحکام کے اوقات میں ہر معاشرہ بظاہر منظم اور متحد دکھائی دیتا ہے ، لیکن جب حالات کا طوفان اٹھتا ہے ، جب قوم پر مصائب، ناانصافی، ظلم، غربت یا بیرونی خطرات کے سائے منڈلانے لگتے ہیں، تب معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے افراد میں صبر، استقلال، قربانی اور ایثار کا جذبہ کتنا ہے ۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب قوموں کا اصل مزاج آشکار ہوتا ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض نعروں کی قوم ہے یا کردار کی۔
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ دنیا کی تمام عظیم اقوام نے اپنی پہچان آزمائش کے لمحات میں بنائی۔جب رومی سلطنت پر حملے ہوئے ، جب جاپان پر ایٹم بم گرا، جب جرمنی تباہی کے دہانے پر پہنچا، یا جب مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی ان تمام مواقع پر یہی ثابت ہوا کہ جو قومیں مشکلات کے سامنے ڈٹ جاتی ہیں، وہی تاریخ میں زندہ رہتی ہیں۔ جاپان دوسری جنگِ عظیم کے بعد ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا، مگر اس نے عزم، محنت اور نظم و ضبط سے دنیا کی جدید ترین صنعتی طاقت بن کر دکھایا۔ جرمنی نے اپنی شکست کو ہمت اور علم سے فتح میں بدلا۔ مسلمانوں نے ہجرت اور بدر کے میدان میں صبر و یقین سے وہ مثال قائم کی جو تا قیامت مشعلِ راہ ہے ۔ آزمائش دراصل قوموں کے لیے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے ۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے :کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالتیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئیں؟ (البقرہ: 214)۔ یعنی ایمان اور کامیابی کا دعویٰ کرنے والی ہر قوم کو امتحان سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اگر وہ صبر و استقلال سے ان حالات کا سامنا کرے تو کامیابی اس کا مقدر بنتی ہے ۔ اگر وہ مایوسی، خوف یا خود غرضی کا شکار ہو جائے تو تباہی اس کا انجام ٹھہرتی ہے ۔پاکستان کی تاریخ بھی اس حقیقت کی روشن مثال ہے ۔ 1947ء کی آزادی کسی تحفے میں نہیں ملی تھی بلکہ لاکھوں قربانیوں کا نتیجہ تھی۔ ہجرت کے قافلوں نے بھوک، پیاس، لوٹ مار اور شہادت کے اندھیروں میں ایک نئی صبح کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران قوم نے جس اتحاد اور جرات کا مظاہرہ کیا، وہ ہماری قومی تاریخ کا سنہری باب ہے ۔ زلزلوں، سیلابوں، معاشی بحرانوں اور دہشت گردی کے ادوار میں بھی پاکستانی قوم نے جس حوصلے سے حالات کا سامنا کیا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری اصل قوت ہماری غیرت، ایمان اور اجتماعی ہمت میں پوشیدہ ہے ۔
قوموں کی عظمت دولت، اسلحے یا آبادی سے نہیں ناپی جاتی، بلکہ ان کے عزم، کردار اور اجتماعی شعور سے ہوتی ہے ۔ جب کسی قوم کے اندر سچائی، قربانی اور اصولوں پر ڈٹے رہنے کا جذبہ باقی رہے ، تو وہ شکست کے باوجود فنا نہیں ہوتی۔ لیکن جب قومیں عیش و عشرت میں مبتلا ہو کر مقصد کو بھول جاتی ہیں، خود غرضی اور مادہ پرستی میں گم ہو جاتی ہیں، تب ان کی بنیادیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
یعنی اگر افراد کمزور، مفاد پرست یا بزدل ہو جائیں تو پوری قوم زوال کا شکار ہو جاتی ہے ۔ آزمائش کے وقت قوم کا امتحان اس بات سے ہوتا ہے کہ کیا اس کے رہنما دیانت دار ہیں؟ کیا اس کے ادارے مضبوط اور بااصول ہیں؟ کیا عوام نظم، قانون اور اجتماعی بھلائی کے لیے قربانی دینے کو تیار ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو وہ قوم مشکلات سے نکل کر پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرتی ہے ۔ اگر جواب نفی میں ہے تو آزمائش ہی اس کے زوال کا سبب بن جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب اقوام اپنے بحرانوں کو مواقع میں بدلتی ہیں، جبکہ کمزور اقوام انہی بحرانوں میں بکھر جاتی ہیں۔آج کے پاکستان میں بھی یہ قول انتہائی معنی خیز ہے ۔ مہنگائی، بدامنی، سیاسی انتشار، معاشی بحران اور اخلاقی زوال کے اندھیرے ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لیں، دیانت داری اور انصاف کو اپنا شعار بنالیں، محنت اور قربانی کا راستہ اپنالیں، تو یہی آزمائش ہمارا نیا آغاز بن سکتی ہے ۔ قومیں ہمیشہ مشکلات میں ہی اپنی اصل پہچان ظاہر کرتی ہیں۔ اگر ہم نے ان اندھیروں میں امید کا چراغ جلایا، تو یہی تاریکی ہمارے لیے صبحِ نو کا پیغام بن جائے گی۔
آزمائش کے لمحے دراصل آئینہ ہوتے ہیں جن میں قوم اپنی حقیقت کو دیکھتی ہے ۔ یہ وہ کسوٹی ہے جس پر کردار کی خالصتاً جانچ ہوتی ہے ۔ قومیں اگر مایوسی، خوف، یا الزام تراشی میں الجھ جائیں تو وہ اپنے وجود کا جواز کھو دیتی ہیں۔ لیکن اگر وہ صبر، اتحاد اور قربانی کو شعار بنائیں تو وہ نہ صرف زندہ رہتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن جاتی ہیں۔ تاریخ ہمیشہ انہی قوموں کو یاد رکھتی ہے جو مشکل وقت میں خود کو ثابت کرتی ہیں۔
لہٰذا یہ سچ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قوموں کی عزت و عظمت آسائش میں نہیں بلکہ قربانی، صبر،محنت اور ایمان کے نور میں پروان چڑھتی ہے ۔ امتحان کے لمحے ہی قوم کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ جو قوم ان اندھیروں سے گزرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ، وہی روشن صبح کا حق دار بنتی ہے ۔ چنانچہ آج بھی اگر ہم اپنے اندر اتحاد، ایثار اور دیانت کا شعور پیدا کر لیں، تو ہمارے لیے کوئی آزمائش اندھیرا نہیں بلکہ کامیابی کی ایک نئی صبح کا آغاز بن سکتی ہے ۔ یہی پیغام اس قول کا جوہر ہے کہ”قومیں ہمیشہ آسائش کے لمحوں میں نہیں بلکہ آزمائش کے اندھیروں میں پہچانی جاتی ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔