... loading ...
ریاض احمدچودھری
بنگلہ دیش نے برسوں کی بھارتی مداخلت کے بعد اب دو قومی نظریے سے جڑی اپنی تاریخی شناخت کوحاصل کر لیا ہے اور ایک خودمختار ریاست کے طور پر ابھرا ہے جو ہندوتوا حکومت کی نظریاتی اور سیاسی چالوں سے مرعوب نہیں ہو گا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش مشترکہ عقیدے اور نظریے کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور ہندوتوا فکر کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔یہ دعویٰ کہ دو قومی نظر کمزور ہو گیا،۔ اس نظریے کی بنیادی حقیقت کہ برصغیر کے مسلمان ایک الگ سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی وحدت ہیں۔آج بھی سرحدوں سے ماورا اپنی موجودگی منوا رہی ہے، تمام تر دباؤ اور انکار کے باوجود۔پاکستان اور بنگلہ دیش تاریخ، قربانی اور ہندو بالادستی کے خلاف مزاحمت سے جنم لینے والے دو بھائی ہیں۔ ان کی علیحدگی دو قومی نظریے کی نفی نہیں تھی بلکہ ایک بھارتی سازش کا نتیجہ تھی، جو اب بے نقاب ہو چکی ہے۔ آج پاکستان اور بنگلہ دیشی عوام ہر مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے ہیں، جبکہ بھارت دونوں ممالک کو دہشت گرد پراکسیوں کے ذریعے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ہی تاریخی جدوجہد سے ابھرے، جو ہندو اکثریتی غلبے اور نوآبادیاتی ورثے کے خلاف تھی۔ آج دونوں آزاد ریاستیں ہونے کے باوجود تہذیبی رشتوں، عوامی تعلقات اور مشترکہ مزاحمتی تجربات سے جڑی ہوئی ہیں۔ بھائی چارہ سرحدوں سے نہیں بلکہ مشترکہ جدوجہد اور باہمی احترام سے ماپا جاتا ہے۔بھارت کی بے چینی کی اصل وجہ یہی حقیقت ہے۔ ایک مستحکم اور خودمختار بنگلہ دیش، جو آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرے اور اپنی مسلم شناخت سے دوبارہ جڑ جائے، بھارت کے اس بے بنیاد بیانیے کو چیلنج کرتا ہے کہ 1971 نے دو قومی نظریے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔نئی دہلی کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ سیاسی انجینئرنگ، میڈیا کے ذریعے اثراندازی، معاشی دباؤ اور منتخب سفارت کاری، تاکہ بنگلہ دیش کو سخت لاٹھی کی پالیسی کے تحت اپنے محدود اسٹریٹجک دائرے میں رکھا جا سکے۔جب بنگلہ دیش خودمختاری کا مظاہرہ کرتا ہے، بھارتی مداخلت پر سوال اٹھاتا ہے یا اپنی تاریخ پر نظرثانی کرتا ہے تو بھارت فوراً اسے ”غیر مستحکم” قرار دے کر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔بھارت ایک ایسے بنگلہ دیش سے خوفزدہ ہے جو جونیئر پارٹنر بننے سے انکار کرے، پاکستان سے تعلقات استوار کرے اور تاریخ کو بھارتی سرپرستی کے بغیر یاد کرے۔
بنگلہ دیش کی سیاست پر اثرانداز ہونے اور داخلی اختلافات کو سیکیورٹی خطرہ بنا کر پیش کرنے کی کوششیں خیرخواہی نہیں بلکہ کنٹرول کے ہتھکنڈے ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش کی خودمختاری بھارتی اثر و رسوخ کے تابع رہے۔پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان فطری محبت اور بھائی چارہ بھارت کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ دونوں برادر ممالک کو ایک دوسرے سے دور رکھنا چاہتا ہے۔بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارتی سازشیں اور مبینہ ٹارگٹ کلنگز کامیاب نہیں ہوں گی۔ عثمان ہادی کا حالیہ قتل بھارتی عزائم کی ایک واضح مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔پاکستان کی مضبوط حمایت اور ہندوتوا مداخلت کے خلاف مشترکہ عزم کے ساتھ، پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر بھارتی ہندوتوا نظریے کو بے نقاب اور محدود کریں گے۔ دو قومی نظریہ کامیاب ہو چکا ہے اور یہی نظریہ آئندہ بھی پاکستانی اور بنگلہ دیشی بھائیوں کے درمیان رشتے کی بنیاد بنا رہے گا۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل افراد اپنے خبثِ باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں نہیں آیا، اور دو قومی نظریے کا مفہوم اسلام نہیں ہے بلکہ خدانخواستہ قائداعظم تو پاکستان کو سیکولر دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر قائداعظم نے دو قومی نظریے پر اس تواتر اور وضاحت کے ساتھ کلام کیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کے دو قومی نظریے کی جڑیں اسلام میں کس حد تک پیوست تھیں۔ قائداعظم نے فرمایا:
”تمام دشواریوں کے باوجود مجھے یقین ہے کہ مسلمان کسی دوسرے فرقے کی نسبت ”بہتر سیاسی دماغ” رکھتے ہیں۔ سیاسی شعور مسلمانوں کے خون میں ملا ہوا ان کی رگوں اور شریانوں میں دوڑ رہا ہے، اور اسلام کی باقی ماندہ عظمت ان کے دلوں میں دھڑک رہی ہے۔” (عربک کالج، دہلی 1939ء )
جمہوریت کی تعریف کے اعتبار سے مسلمان ہندوستان میں اقلیت تھے، مگر قائداعظم فرما رہے ہیں کہ ہمیں اقلیت نہیں ایک قوم سمجھا جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے پوری شدت کے ساتھ مسلمانوں کے نصب العین پر اصرار کیا ہے، اور مسلمانوں کا نصب العین اسلام کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ قائداعظم نے ایک اور جگہ کلام کرتے ہوئے صاف کہا:حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ”قومی تصور” اور ہندو دھرم کے سماجی طور طریقوں کے باہمی اختلاف کو محض وہم و گمان بتانا ہندوستان کی تاریخ کو جھٹلانا ہے۔ ایک ہزار سال سے ہندوئوں کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب ایک دوسرے سے دوچار ہیں، اور دونوں قومیں آپس میں میل جول رکھتی چلی آئی ہیں، مگر ان کے اختلافات اسی پرانی شدت سے موجود ہیں۔ ان کے متعلق یہ توقع رکھنا کہ ان میں محض اس وجہ سے انقلاب آجائے گا اور ہندو اور مسلمان ایک قوم بن جائیں گے کہ ان پر ایک جمہوری آئین کا دبائو ڈالا گیا، سراسر غلطی ہے۔ جب ہندوستان میں ڈیڑھ سو سال سے قائم شدہ برطانوی وحدانی حکومت اس کام میں کامیاب نہ ہوسکی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت میں فیڈرل نظام کے جبری قیام سے وہ کامیابی حاصل ہوجائے گی۔ اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں ہیں بلکہ درحقیقت وہ دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔
٭٭٭