... loading ...
بے لگام / ستار چوہدری
سورج اگر ایک دن مشرق کی ضد چھوڑ دے تو یہ محض ایک فلکی حادثہ ہوگا،پہاڑاگراپنی صدیوں پرانی خاموشی توڑ کرزمین کے سینے سے سرک جائیںتو یہ قدرت کا غضب ہوگا،دریااگر اپنے حافظے بھلا کرنیا راستہ اختیار کر لے تو یہ وقت کی کروٹ ہوگی۔مگرحقائق ۔۔۔۔یہ نہ ہجرت کرتے ہیںنہ روپ بدلتے ہیں،یہ نہ دباؤ میں آتے ہیںنہ معاہدوں پر جھکتے ہیں۔تاریخ کسی پردے میں قید نہیں رہتی،جو لفظ مٹا دیے جائیںوہی سطور بن کرصدیوں بعدزیادہ زور سے بولتے ہیں۔ہر انسان اپنی زندگی میںہزار چہرے اوڑھ لیتا ہے ،مگرموت سے پہلے اس کا باطن اس کے وجود سے خود کو الگ نہیں کر پاتا۔ایک نظام جو انسان کی خواہش سے جنم لیتا ہے اورایک نظام جو رب کی مشیت سے اترتا ہے ،ان دونوں کے بیچ ساری تاریخ امتحان بن کر کھڑی ہے ۔آخرکارنہ انسان کی چال باقی رہتی ہے نہ فریب کی مہلت،ہوتا وہی ہے جولکھا جاتا ہے اورلکھتا وہی ہے جو میرا رب چاہتا ہے ۔
راستہ ایک ہی تھا،موسیٰ علیہ السلام کا لشکرپارہوگیا،فرعون کا لشکر ڈوب گیا،پھر میرے رب نے پانی کو حکم دیا،فرعون کی لاش باہرپھینک دے ،لشکرمیں شامل کسی شخص کی لاش نہیں ملی تھی،مردہ فرعون کو محل میں لایا گیا،آج بھی وہیں ہے ۔۔۔۔ ایسا کیوں۔۔۔۔؟ ” تو آج ہم تیری لاش کو (پانی سے نکال کر) بچا لیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائے ، اوربہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ”( سورة یونس، 92) ۔ قران مجید میں 9قوموں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔۔۔ کیوں۔۔۔؟ نشان عبرت ۔۔۔ یہ قصے ہمیں سکھاتے ہیں نافرمانی، تکبراورظلم کا انجام تباہی ہے ،درگزر، توبہ اوراطاعت برکت کا باعث ۔ اختلاف تو ہوتے ہیں، لڑائی بھی،حرف آخر تو معاف کرنا ہے ،گلے لگنا ہے ۔ طاقت سے توآپ دنیا فتح نہیں کرسکتے ،محبت سے تو کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہی بتایا گیا ہے ،ہماری یہی تعلیم ہے ،لیکن ہم پڑھتے نہیں، پڑھتے ہیں توعمل نہیں کرتے ،اندھے ،گونگے ،بہرے ۔ واقعہ طائف پرعرش کانپ اٹھا تھا،جبریل امین حاضر ہوئے ،کہا،حکم کریں تو اس بستی کو دوپہاڑوں کے درمیان بھینچ دوں ۔۔۔ ؟ فرمایا !! نہیں ۔۔۔ ابھی نا سمجھ ہیں ۔ فتح مکہ کے بعد سب کو معاف کردیا،دشمنوں کو گلے لگالیا، یہی انتہا ہے ،فلم ختم ہوتوآخر میں دو لفظ آتے ہیں ” دی اینڈ ”۔۔۔ بادشاہ ہویا فقیر،مرنے کے بعد دونوں کو ایک جتنی جگہ ملتی ہے ۔ سالوں بادشاہت کرنے کے خواب سجائے بڑے بڑے جنگجوؤں کی قبروں کے نشان نہیں ملتے ،سب کو زمین کھا گئی ۔ میانی صاحب میں ساغرکا مقبرہ ، کچھ لوگ مرکر بھی زندہ رہتے ہیں، کچھ زندہ رہ کر بھی مردہ۔یحییٰ اورمشرف کا مقبرہ کہاں ہے ۔۔۔؟ دوسروں کو”مائنس”کرنے کے ”خدائی دعوے ” اللہ تعالیٰ کائنات کا پورا نظام تو انسانوں کے حوالے نہیں کرتا،خلافت محدود اورمشروط ہے ۔۔۔بھارتی طیاروں کی تباہی اور9مئی کے پیچھے کب تک چھپا جاسکتا ہے ،ملک کھوکھلا ہوچکا،حکمران اپنی عیاشی کا سامان پورا کرنے کیلئے ٹریفک جرمانوں تک آپہنچے ،یہ آخری واردات ہے ،جب کسی کے گھر سوائے بھوک کے کچھ نہیں ہوگا تو ”ڈاکو ” لوٹیں گے
کیا۔۔۔؟
سوویت یونین کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم تھے ،دنیا کی طاقتور ترین فوج تھی،دنیا میں سب سے زیادہ رقبہ تھا،ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، کیوں۔۔۔ ؟ پیسے ختم ہوگئے تھے ۔ غربت جھلک دکھائے تو خاندان ٹوٹ جاتے ہیں،اللہ تعالیٰ کے بعد روٹی ۔ ڈرے ہوئے لوگ،مرتے دم تک استشنیٰ، مرنے کے بعد کیا ہوگا۔۔۔ ؟ یہ بھی سوچ لیں، وہ رب ہے ،وہ کسی کی نسبت نہیں دیکھتا،نوح اور لوط علیہ اسلام کی بیویاں دوزخ میں جائیں گی ( سورة التحریم )،فرعون کی بیوی جنت میں جائے گی۔ ہائے !! کیا کریں ۔۔۔ کیا کریں۔۔۔۔ طاقت اورجہالت کسی دلیل کو نہیں مانتے ۔۔۔ اور رہے ہم عوام۔۔۔ملک صرف حکمرانوں کے جھوٹ بولنے سے ہی تباہ نہیں ہوتے ، تباہ اس وقت ہوتے ہیں جب لوگوں کو پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ ان کے حکمران جھوٹ بول رہے ہیں۔ لوگ ڈرے ہوؤں سے ڈر رہے ،وہ اس لئے ، ہاتھ ہمیشہ بزدل اٹھاتے ہیں،طاقتورتودرگزرکرتے ہیں،بدلہ نہیں لیتے ،پہلوان وہ نہیں جو مخالف کو گرا لے ،پہلوان تو وہ ہے جو خود پر قابو پا لے ،داماد رسول نے اس کافرکو قتل نہیں کیا تھا جس نے منہ پرتھوک دیا تھا۔ ہندہ کو بھی معافی،عکرمہ کو بھی معافی،جباربن الاسود کو بھی معاف کردیا گیا۔۔۔ اور آخر میں اسد اعوان کے شعر !!
اذیتوں سے گزر رہے تھے کہ مر نہ جائیں
یہ لوگ ہر روز مر رہے تھے کہ مر نہ جائے جائیں
میں ایسی قبروں پہ جا کے بیٹھا تو رو پڑا
جو لب کشائی سے ڈر رہے تھے کہ مر نہ جائیں
یہ دشت دیکھو یہ بسنے والوں کی بستیاں تھیں
یہ جنگ میں اپنے گھر رہے تھے کہ مر نہ جائیں
پر کریں کیا۔۔۔۔ ؟ کچھ سمجھ نہیں آتی ،پریشان ہوں ،کیوں ۔۔۔ ؟ طاقت اورجہالت کسی دلیل کو نہیں مانتے ۔