... loading ...
منظر نامہ
۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت اس وقت شدید معاشی، سیاسی اور سفارتی دباؤ کی زد میں ہے ، جہاں ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری اور سرمایہ کاری میں کمی نے عوامی زندگی کو متاثر کیا ہے تو دوسری جانب خطے اور عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ نریندر مودی کے غلط فیصلوں، جارحانہ رویّوں اور داخلی انتشار پر مبنی پالیسیوں نے نہ صرف بھارتی اپوزیشن کو متحرک کیا ہے بلکہ عوامی ردِعمل میں بھی واضح اضافہ ہوا ہے ، جس کا اظہار مختلف ریاستوں میں احتجاج، انتخابی نتائج اور سماجی بے چینی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ۔ اس بڑھتے ہوئے دباؤ اور سیاسی ہزیمت کو چھپانے کے لیے بھارتی حکومت ایک پرانی آزمودہ حکمتِ عملی اختیار کرتی ہے ، جس کے تحت پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دے کر عوامی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے ریاستی سرپرستی میں چلنے والا گودی میڈیا استعمال کیا جاتا ہے جو ہر داخلی ناکامی، معاشی بحران یا سفارتی سبکی کو پاکستان سے جوڑ کر پیش کرتا ہے ، یوں حقائق کو مسخ کر کے نفرت، خوف اور قوم پرستی کے مصنوعی جذبات کو ابھارا جاتا ہے تاکہ مودی حکومت اپنی ناکام پالیسیوں کا حساب دینے سے بچ سکے ۔
سڈنی کے معروف بونڈائی بیچ پر پیش آنے والا حالیہ دہشت گرد حملہ بھی اسی نوعیت کا واقعہ ہے جس میں خونریزی کے فوراً بعد بھارتی میڈیا اور ریاستی بیانیے نے بغیر تحقیق الزام تراشی کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی، مگر وقت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ سچ وقتی طور پر دب تو سکتا ہے مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔انسانی تاریخ کے ہر بڑے سانحے کے بعد سب سے پہلا امتحان ریاستوں اور میڈیا کا ہوتا ہے ، کہ وہ درد اور خوف کی اس گھڑی میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں یا اس موقع کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سڈنی کے بونڈائی بیچ پر گذشتہ دنوں یہودیوں کے ایک مذہبی تہوار کے موقع پر ہونے والی فائرنگ نے آسٹریلوی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ سڈنی واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد 16 ہوگئی ہے ، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے ۔ اس واقعے میں 40سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں 2 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ حملہ آور باپ اور بیٹا تھے ، جن میں سے 50سالہ باپ ساجد اکرم پولیس فائرنگ میں مارا گیا، جبکہ 24 سالہ بیٹا نوید اکرم زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہے ۔پولیس کی فوری جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور موقع پر مارا گیا جبکہ دوسرے کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ ابھی تفتیش کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ بھارتی میڈیا کے متعدد چینلز اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے حسبِ روایت عجلت اور جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آور کو پاکستانی قرار دینے کی کوشش شروع کر دی۔یہ وہ مرحلہ تھا جہاں صحافت کے بنیادی اصولوں یعنی تصدیق، توازن اور ذمہ داری کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ نہ آسٹریلوی پولیس نے کسی پاکستانی تعلق کی تصدیق کی تھی اور نہ ہی کسی بین الاقوامی ادارے نے ایسا کوئی اشارہ دیا تھا، مگر بھارتی میڈیا کی سرخیوں میں ”پاکستانی نژاد”، ”پاکستانی پس منظر” اور ”پاکستانی دہشت گرد” جیسے الفاظ بلا روک ٹوک استعمال کیے گئے ۔ یہ محض صحافتی غفلت نہیں بلکہ ایک منظم بیانیہ سازی تھی جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا تھا۔
چند ہی گھنٹوں بعد حقائق سامنے آنا شروع ہوئے تو بھارتی پروپیگنڈے کی بنیادیں لرزنے لگیں۔ تحقیقات سے یہ بات واضح ہوئی کہ اس حملے میں ملوث مرکزی کردار 50سالہ ساجد اکرم تھا جو بھارتی ریاست تلنگانہ کے شہر حیدرآباد دکن کا رہائشی تھا، جبکہ اس کا 24 سالہ بیٹا نوید اکرم آسٹریلوی شہری تھا۔ بھارتی پولیس نے خود اس امر کی تصدیق کی کہ ساجد اکرم نومبر 1998میں تعلیم کی غرض سے آسٹریلیا منتقل ہوا تھا اور اس دوران وہ کل ملا کر 6 مرتبہ بھارت آیا۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھارتی سفارتخانے نے 24 فروری 2022 کو ساجد اکرم کو 10 سال کے لیے بھارتی پاسپورٹ جاری کیا جس کی معیاد 23 فروری 2032 تک تھی، اور اس پر واضح طور پر بھارتی شہر حیدرآباد کا اندراج موجود تھا۔
فلپائن کے حکام نے بھی تصدیق کی کہ ساجد اکرم نے اپنا حالیہ سفر بھارتی پاسپورٹ پر کیا جبکہ نوید اکرم نے آسٹریلوی پاسپورٹ استعمال کیا۔ دونوں 1نومبر 2025کو فلپائن پہنچے اور 28نومبر کو وہاں سے روانہ ہوئے ، اور انہوں نے فلپائن کے جنوبی شہر ڈاواو کو اپنی منزل بتایا۔ یہاں اصل سوال یہ نہیں کہ دہشت گردی کس نظریے کے تحت کی گئی، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے حقائق سامنے آنے سے پہلے پاکستان پر الزام کیوں لگایا۔ بھارتی سفارتخانے اور متعلقہ حکام کو پہلے دن سے حملہ آور کی شناخت کا علم تھا، اس کے باوجود دانستہ خاموشی اختیار کی گئی تاکہ میڈیا کو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا وقت مل سکے ۔ یہ خاموشی محض غفلت نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ محسوس ہوتی ہے جس کا مقصد ایک بار پھر پاکستان کو عالمی سطح پر مشکوک ثابت کرنا تھا۔
برطانوی جریدے دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا نے 2020میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کے 2اہلکاروں کو غیر قانونی سرگرمیوں پر ملک بدر کیا تھا، جن پر آسٹریلیا میں مقیم بھارتی شہریوں کی غیر قانونی پروفائلنگ کا الزام تھا۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی خفیہ نیٹ ورکس کی سرگرمیاں صرف خطے تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سڈنی حملے میں ملوث افراد کے ممکنہ روابط کی تحقیقات اسی تناظر میں ایک حساس مگر ناگزیر قدم ہیں۔سڈنی حملے کے بعد آسٹریلیا میں یہود دشمنی، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف خصوصی ٹاسک فورس کا قیام اس عزم کا اظہار ہے کہ یہ ملک کسی بھی شدت پسند بیانیے کو برداشت نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی ایک خصوصی سپورٹ ٹیم کا سڈنی پہنچنا بھی اس حملے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس کے برعکس بھارت میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والا میڈیا نہ صرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے بلکہ ہر عالمی واقعے کو پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مہم میں بدل دیتا ہے ، اور جب حقائق سامنے آ جائیں تو خاموشی اختیار کر لیتا ہے ۔
پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی یہ کوشش دراصل بھارت کی اپنی اندرونی ناکامیوں اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی سے توجہ ہٹانے کی ایک پرانی حکمت عملی ہے ۔ جب بھی کسی بھارتی شہری یا ادارے کا نام دہشت گردی سے جڑتا ہے ، الزام فوراً پاکستان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ تاکہ اصل مسئلہ پس منظر میں چلا جائے ۔ مگر بونڈائی بیچ کا واقعہ ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ سچ وقتی طور پر دب تو سکتا ہے مگر دفن نہیں ہو سکتا۔
اس تمام تناظر میں عالمی میڈیا اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ بھارتی میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ کردار کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک ملک پر الزام تراشی سے نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے سچ، شفافیت اور مشترکہ ذمہ داری درکار ہوتی ہے ۔ پاکستان کے لیے بھی یہ لمحہ ہے کہ وہ سفارتی، میڈیا اور تحقیقی محاذ پر منظم اور مؤثر حکمت عملی اختیار کرے ، عالمی فورمز پر حقائق کو دستاویزی شواہد کے ساتھ پیش کرے اور جھوٹے بیانیوں کا بروقت جواب دے ، کیونکہ خاموشی الزام کو تقویت دیتی ہے اور سچ بولنا ہی سب سے طاقتور دفاع ہے ۔ پاکستانی حکومت نے اس واقعہ کی بھرپور مذمت کی ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ دنیا میں کسی بھی ملک میں بلاتفریق مذہب اور ملک دہشتگردی کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔پاکستان دنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے ۔کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اور اندوہناک قتل کرنا غیر اخلاقی عمل ہے ۔اسلام میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ پر زور دیا گیا ہے ۔بھارتی میڈیا کی طرح الزام تراشی کی بجائے پاکستانی میڈیا مثبت غیر جانبدارانہ تحقیقی رپورٹنگ کرتا ہے ۔
٭٭٭