... loading ...
ریاض احمدچودھری
مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے پالیسی فیصلوں کا ایک سلسلہ مقامی آبادی بالخصوص مسلم اکثریت کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ناقدین ان اقدامات کو نوآبادیاتی منصوبے کا حصہ قرار دیتے ہیں جن کا مقصد علاقے میں انصاف ، وقار اور ثقافتی شناخت کو مجروح کرنا ہے۔ریزرویشن پالیسیوں میں حالیہ ترامیم بھی تنازعات کا باعث بن گئی ہیں۔ان تبدیلیوں سے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں اوپن میرٹ کی نشستیں تقریبا 60% سے کم کر کے 40% کر دی گئی ہیں جبکہ اہلیت کا دہرا معیار متعارف کرایا گیا ہے جس سے مقامی امیدواروں کو مزید نقصان پہنچا ہے۔
اوپن میرٹ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے انتظامیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ریزرویشن رپورٹ کو لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری سے پہلے جاری کیا جائے۔انہوں نے اسے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بغیر کیا گیا فیصلہ قرار دیا۔میڈیکل انٹرنیز کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں جنہیں یومیہ 410 روپے کا وظیفہ ملتا ہے جو بھارت کے کسی بھی علاقے سے سب سے کم ہے اور ہسپتال کی کینٹین میں ایک وقت کا کھانا پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔ اس وظیفے کو بڑھانے کی تجویز گیارہ مہینوں سے تعطل کا شکار ہے اور اسے حال ہی میں بغیر کسی وضاحت کے مسترد کر دیا گیا جس سے کشمیری نوجوانوں کے لیے پیشہ ورانہ مواقع کو روکنے کی منظم کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
نائب تحصیلدار کے عہدوں کے لیے قابلیت کے معیار کے طور پر اْردو کو ہٹائے جانے کے بعد ثقافتی اور لسانی خدشات بھی شدت اختیار کر گئے ہیں جسے سماجی کارکن لسانی عصبیت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ فیصلہ کشمیری بولنے والے امیدواروں کو لسانی فائدے سے محروم کرنے کے لئے لیا گیا کیونکہ مقامی انتظامی ریکارڈ اردو زبان میں ہے اور یہ ثقافتی شناخت کو مٹانے کی طرف بھی ایک قدم ہے۔ریزرویشن کی یکطرفہ پالیسیاں ، انٹرنیز کا معاشی استحصال اور اردو کو نظرانداز کرنے جیسے مسائل کو بہت سے لوگ مقامی آبادی کو بے اختیار کرنے کی ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی زیرِقیادت حکومت عدم مساوات کو فروغ دے رہی ہے اور علاقے میں آبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں کو ہوا دے رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں اور وہ شفافیت اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔بھارت کا شاندار آئین ملک کے ہر ایک باشندے کو تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ اور اسی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے تعلیم اور روزگار سے منسلک ہر ایک ادارہ اور ان اداروں کی ذیلی شاخائیں بلا لحاظ مذہب و مسلک اور رنگ و نسل ہر فرقے کے ہر فرد کو نہ صرف مواقع فراہم کرتا ہے بلکہ مواقع کو حاصل کرنے میں ہر فرد کی مدد اور رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ملک میں مسلمانوں کے حقوق اور تعلیم و روزگار کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد کا بھی یہی واویلا ہے کہ مسلمان وقت کے تقاضوں کو بھانپ کر اور جدید تعلیم اور روزگار کے وسیلوں اور معیارات کو سمجھ کر اپنے بچوں کو پڑھائیں اور جو لوگ اس قابل نہیں کہ وہ پڑھائی کا خرچہ اٹھاسکیں, ان کے لئے مسلم سماج کے امیر لوگ آگے آئیں اور پچھڑے ہوئے طبقے کے بچوں کے لئے تعلیم کا بندوبست کریں۔
بھارت کے حکمرانوں نے شروع دن سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ماتحت حکومت اور انتظامی نظام کا ڈھانچا کھڑا کر دیا۔ علاقے کے مسلمان لیڈروں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ان سے وعدہ کیا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے کو خودمختاری دے دی جائے گی۔ اس لیے مسلم کشمیری لیڈر بھارت کے حامی بن گئے۔ بھارت نے اپنے وعدے کو بھارتی آئین کے آرٹیکل370 میں شامل کیا لیکن یہ خودمختاری حقیقت میں نہیں دی گئی۔غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیرمیں کانگریس کے رہنما غلام احمد میر نے مقبوضہ علاقے اور بھارت بھر میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانیوالے امتیازی سلوک پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومتیں آئینی طور پر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی پابند ہیں۔ آئینی طور پر ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنائے، اپنی سرحدوں اور اقلیتوں کاتحفظ کرے۔ اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ اقلیتوں کے حقوق کا عالمی سطح پر تحفظ ہونا چاہیے۔ یہ حقوق وراثت میں انہیں ملے ہیں اور آئین میں اس کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ فاروق عبداللہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی پسماندگی پرسخت تشویش کا اظہار کیا تھااور کہاتھا کہ بھارت میں مسلمان خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ بھارت کے 24 کروڑ مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انہیں سمندر میں پھینکا جا سکتا ہے۔ بھارت کا آئین مذہب کی بنیاد پر مساوات اور عدم امتیاز کی ضمانت دیتا ہے۔
٭٭٭