وجود

... loading ...

وجود

بنگلہ دیش سے سیکھنے کے اسباق

پیر 22 دسمبر 2025 بنگلہ دیش سے سیکھنے کے اسباق

محمد آصف

بنگلہ دیش ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں میں معاشی، سماجی اور ماحولیاتی ترقی کے حوالے سے قابلِ تعریف کارکردگی دکھا رہا ہے ۔ یہ ملک ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ محدود وسائل، بڑھتی ہوئی آبادی اور قدرتی آفات کے باوجود حکمت عملی، مستقل مزاجی اور اجتماعی کوشش سے ترقی کے راستے کو نہ صرف روشن کیا جا سکتا ہے بلکہ عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی بھی لائی جا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش نے غربت کے خاتمے ، تعلیم، خواتین کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ اور صحت کے شعبے میں کئی اقدامات کیے ہیں، جو دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں بنگلہ دیش کی معیشت سے سیکھنا چاہیے ۔ اگرچہ یہ ملک وسائل میں محدود ہے اور صنعتی ترقی کی رفتار کچھ کم تھی، لیکن انہوں نے مائیکرو فائنانس اور چھوٹے کاروباروں کے ذریعے مقامی لوگوں کو خود کفیل بنانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ مشہور مائیکرو فائنانس اسکیمیں جیسے گرامین بینک نے لاکھوں لوگوں کو چھوٹے قرضے فراہم کیے تاکہ وہ اپنی روزی روٹی کے ذرائع قائم کر سکیں۔ اس سے نہ صرف غربت میں کمی آئی بلکہ خواتین کی معیشتی شرکت اور خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوا۔ اس بات سے سبق ملتا ہے کہ چھوٹے قدم اور مقامی سطح پر مضبوط اقدامات بھی بڑی سماجی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں بھی بنگلہ دیش نے نمایاں کام کیا ہے ۔ یہاں کے تعلیمی منصوبے ، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر زور دینے والے پروگرام، معاشرتی ترقی اور اقتصادی ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم کے برابر مواقع دینے سے نہ صرف تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا بلکہ خواتین کے شعور، خود اعتمادی اور خاندان کے معیارِ زندگی میں بھی بہتری آئی۔ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ایک اہم سبق ہے کہ تعلیم کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری معاشرے کی طویل مدتی ترقی کے لیے ضروری ہے ، اور لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہر قوم کی فلاح کا ضامن ہے ۔
صحت کے شعبے میں بھی بنگلہ دیش نے قابلِ تعریف اقدامات کیے ہیں۔ ویکسینیشن پروگرام، ماں اور بچے کی صحت کے لیے مہمات، اور دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ کم وسائل کے باوجود منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے ذریعے بڑے پیمانے پر اثر ڈالا جا سکتا ہے ۔ بنگلہ دیش نے ماحولیاتی تبدیلیوں، بارش کے سیلاب، اور سمندری طوفان جیسے قدرتی آفات کے دوران اپنی عوام کی حفاظت کے لیے منصوبہ بندی اور بروقت اقدامات کیے ، جس سے انسانی جانوں اور معیشت کو نقصان کم ہوا۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ قدرتی آفات کے لیے تیار رہنا، ہنگامی ردعمل اور سماجی شعور پیدا کرنا ہر ملک کے لیے لازمی ہے ۔
ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے بھی بنگلہ دیش ہمیں اہم اسباق دیتا ہے ۔ ملک نے درخت لگانے ، پانی کے وسائل کا بہتر انتظام، اور فضائی آلودگی کم کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ پانی کی نکاسی، بارش کے پانی کا استعمال اور زراعت میں پائیدار طریقے اپنانا یہاں کی حکومت اور مقامی کمیونٹیز کی اولین ترجیح رہی ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدود وسائل کے باوجود اگر منصوبہ بندی ہو اور سماجی شعور پیدا کیا جائے تو ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
سماجی سطح پر بھی بنگلہ دیش کے اقدامات قابلِ تقلید ہیں۔ خواتین کی حقوق، دیہی معاشرت کی بہتری، اور غربت کے خاتمے کے پروگرام ایک ماڈل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مقامی کمیونٹیوں کو خود کفیل بنانے ، معاشرتی تعاون بڑھانے اور سماجی انصاف کے اصولوں پر کام کرنے کے ذریعے یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کر پائے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرتی شعور، تعاون اور مساوات پر مبنی پالیسیاں ترقی کی بنیاد رکھتی ہیں۔
بنگلہ دیش کی ترقی میں حکومتی شفافیت، مقامی کمیونٹی کی شمولیت اور بین الاقوامی تعاون بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک نے عالمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی، مالی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کیا اور مقامی لوگوں کو منصوبوں میں شامل کیا۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ترقی صرف مالی وسائل کے استعمال کا نام نہیں بلکہ منصوبہ بندی، شفافیت اور عوامی شمولیت کے امتزاج سے حاصل ہوتی ہے ۔
حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کو ایشین ٹائیگرزکی صف میں شامل کیا جی ڈی پی تقریبا 8 تک پہنچ گئی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بوسٹ دیا، برآمدات بڑھائیں، غربت کو 31 سے 18 فیصد پر لے آئیں، 96 فیصد ملک میں بجلی پہنچا دی، تعلیم اور صحت میں انقلاب آ گیا، انفراسٹرکچر میں نمایاں تبدیلیاں لے آئیں، پدما بریج جیسے میگا پراجیکٹس چلائے لیکن۔۔ اس کے برعکس جمہوری اقدار کا قتل کیا، اپوزیشن کو دبایا، مخالف سیاسی رہنماؤں کو جیل میں ڈالا، عقوبت خانے بنائے ، میڈیا پر قدغن لگائی، مکمل ڈکٹیٹرشپ چلائی ۔جب عوام جاگے تو وہی فوج جس کا چیف حسینہ واجد کو عزیز تھا وہی ججز جن کے ذریعے اس نے مخالفین کو سزائیں دلوائیں سب اس کے خلاف ہو گئے ، اسے بھارت بھاگنا پڑا، اپنی زمین اس کے لیے تنگ ہو گئی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اور آئین کا گلا گھونٹ کے اقتصادی ترقی کر لیں اور باقی جو مرضی کرتے رہیں ان کے لئے حسینہ واجد کی سزائے موت میں کھلی نشانیاں ہیں۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ محدود وسائل، قدرتی مشکلات اور بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود مستقل مزاجی، حکمت عملی اور اجتماعی کوشش سے معاشی، سماجی اور ماحولیاتی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک، خاص طور پر پاکستان، بنگلہ دیش کے تجربات سے سبق لے کر اپنی پالیسیوں میں اصلاحات، عوامی شمولیت اور پائیدار ترقی کے اصول شامل کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا یہ سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قیادت، عوامی شعور اور اجتماعی محنت کے امتزاج سے ہی کسی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور عوام کی زندگی میں
حقیقی تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ وجود پیر 22 دسمبر 2025
سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ

مقبوضہ کشمیر سے کشمیری بے دخل وجود پیر 22 دسمبر 2025
مقبوضہ کشمیر سے کشمیری بے دخل

بنگلہ دیش سے سیکھنے کے اسباق وجود پیر 22 دسمبر 2025
بنگلہ دیش سے سیکھنے کے اسباق

پٹنہ واقعہ حجاب پر ہاتھ، وقار پر وار وجود اتوار 21 دسمبر 2025
پٹنہ واقعہ حجاب پر ہاتھ، وقار پر وار

مودی کے دور میں کالا دھن وجود اتوار 21 دسمبر 2025
مودی کے دور میں کالا دھن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر