... loading ...
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
پچھلے 77سالوں سے یہ سوال ہمیں وحشیانہ انداز میں تنگ کررہا ہے کہ پاکستان کیوں ایک خو شحال ریاست نہیں بن پارہا ہے۔ ریاست کب خوشحال ہوتی ہے ؟ آئیں اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ریاست کی خوشحالی محض معاشی اعداد و شمار ، عمارتوں کی اونچائی یا شاہراہوں کی چمک سے نہیں ناپی جاتی ۔ خوشحالی ایک روحانی ، اخلاقی اور اجتماعی کیفیت ہے ۔ جو تب جنم لیتی ہے جب قوم کے اندرونی اصول بیرونی ترقی سے ہم آہنگ ہوں ۔ فلسفیوں کے نزدیک ریاست اس وقت خوشحال ہوتی ہے جب اس کی بنیادوں میں عدل، دانائی ، بھائی چارہ اور اجتماعی مقصد رچ بس جائیں۔
افلاطون کہتا ہے کہ ”عدل و ہ بنیاد ہے جس پر ریاست کی عمارت کھڑی رہتی ہے ”۔ ریاست اس وقت خوشحال ہوتی ہے جب عدالت سے طاقتور خوف کھائے اور کمزور کو سکون ملے۔ جہاں انصاف تاخیر کا شکار ہو وہاں خوشحالی ہمیشہ راستہ بھول جاتی ہے۔ انصاف کا پھیلائو ریاست میں ایک ایسی روشنی پیدا کرتا ہے جس سے امن ، استحکام اور اعتماد جنم لیتے ہیں ۔ارسطو کے مطابق ریاست اس وقت ترقی کرتی ہے۔ جب فیصلے اصولوں کے تحت ہوں ، خو اہشات کے تخت نہیںجہاں، افراد اداروں پر بھاری ہوجائیں ، خوشحالی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ ریاست اس وقت خو شحال ہوتی ہے جب ادارے مضبوط شفاف اور مستقل ہوں ۔ ایسے ادارے جو افراد کے بدلنے پر بھی اپنا معیار برقرار رکھیں ۔ جان اسٹورٹ مل کہتا ہے کہ ” تعلیم ہی آزادی کو زندہ رکھتی ہے ”۔ ایک غیر تعلیم یافتہ قوم خواہ کتنے ہی وسائل رکھتی ہو، خو شحال نہیں ہوسکتی ۔ جب اسکولوں میں تنقیدی سوچ، اخلاقیات ، تحقیقات اور انسانی احترام کا درس دیا جائے تو پورا معاشرہ ذہنی طورپر بیدار ہوتاہے۔ یہ ہی بیداری ریاست کو آگے بڑھنے والی قوت بنتی ہے ۔ خوشحال ریاست وہ ہے جو صرف دولت پیدا نہیں کرتی بلکہ اسے منصفانہ تقسیم بھی کرتی ہے ۔ ایڈم اسمتھ کے مطابق ریاست کی خوشحالی کاپہلا اصول یہ ہے کہ شہری محنت کریں اور محنت کا پھل پائیں ۔ جہاں روزگار عام ہو، خوشحالی پھیلتی ہے۔ جہاں چند ہاتھ دولت پر قبضہ رکھیں ، غریب بھیگی مٹی کی طرح دب جاتا ہے ۔ امن وہ فضا ہے جس میں تہذیب پروان چڑھتی ہے ۔ ہابس کہتاہے کہ ”خوف انسان کو جانور بنادیتاہے ” ۔ ریاست اس وقت خوشحال ہوسکتی ہے جب شہری خوف سے آزاد ہوں۔ خوف جرم سے ، خوف بھوک سے ، خوف ناانصافی سے ۔محفوظ شہری خود کو ریاست کاحصہ سمجھتے ہیں اور اس میں تعمیر میں پورا کردار ادا کرتے ہیں۔ کانٹ کہتا ہے کہ ”طاقت اگر اخلاق سے خالی ہو تو ظلم بن جاتی ہے ، ریاست اس وقت خوشحال ہوتی ہے جب اقتدار رکھنے والے خود کو مالک نہیں بلکہ خادم سمجھتے ہیں۔ وہ رہنما جو قوم کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور قوم کے خوا ب کو اپنا خواب سمجھتے ہیں وہ ہی ریاستوں کو اوج ثریا تک لے جاتے ہیں ۔ دنیا کی کسی بھی عظیم ریاست کو دیکھیں وہ سب اخلاقی اقدار پر قائم تھیں ۔ سچائی ، دیانت، انصاف پسندی ، برداشت ، ایک دوسرے سے ہمدردی ، یہ وہ قوتیں ہیں جو عوام کو متحد کرتی ہیں اور اتحاد سے ہی خوشحالی جنم لیتی ہے ۔ خوشحالی باہر سے نہیں آتی ، یہ اندر سے اگتی ہے ۔ اداروں سے پھیلتی ہے اور انصاف کی روشنی سے پروان چڑھتی ہے ۔ اور دوسر ی طرف جب ریاست تباہ اور بدحال ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ صرف حکومت نہیں گرتی بلکہ پورا سماجی ڈھانچہ بکھر جاتاہے ۔تباہی کے اثرات بہت گہرے ،دردناک اور نسلوں تک جاری رہتے ہیں ۔ ریاست ہم آہنگی ، انصاف اور امن کے بغیر کبھی نہیں چلتی ۔
جب ریاست تباہ اور بدحال ہو جاتی ہے تو گلیاں لا قانونیت سے بھر جاتی ہیں ۔جرائم بڑھ جاتے ہیں ۔ طاقتور کمزور پر مسلط ہوجاتا ہے ، عدالتیں ، پو لیس ، ادارے بے کار ہو جاتے ہیں ۔ ریاست کی بدحالی سے سب سے پہلے معیشت ڈوبتی ہے ۔ کرنسی اپنی قدر کھو دیتی ہے ۔ روزگار ختم ہوجاتاہے ۔ خوراک ، دوائیں ، پیٹرول جیسی بنیادی اشیاء نایاب ہوجاتی ہیں ۔ عام لوگ بھوک اور بے بسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ملازمین تنخواہ نہیں لے پاتے ۔ عوام کی خدمت کے بجائے ادارے اپنی بچت بچائو میں لگ جاتے ہیں ۔ قوم تقسیم در تقسیم ہوجاتی ہے ۔ لسانی ، مسلکی ، علاقائی گروہ تشکیل پاتے ہیں ۔ لوگ اپنی حفاظت اپنی برادری اور قبیلے سے ڈھونڈتے ہیں ۔ ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ انسانوں کی بے وطنی بڑھ جاتی ہے ۔ جو گھر بار چھوڑ کر بھاگ سکتا ہے بھاگ رہا ہوتا ہے ۔ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ایک پوری نسل ذہنی ، اخلاقی اورتربیتی بحران کا شکار ہوجاتی ہے۔ ریاست کی بربادی صرف مادی نقصان نہیں لاتی یہ انسان کی روح بھی توڑ دیتی ہے ۔ بیرونی طاقتیں فیصلہ ساز بن جاتی ہیں ۔ ہابس کے مطابق معاشی بدحالی انسانوں کو ” ہر ایک کی جنگ ہر ایک کے خلاف ” والی حالت کی طرف دھکیل دیتی ہے اور یہ ہی ریاست کی موت ہے ۔ معاشی بدحالی ریاست کو اندر سے کھا جاتی ہے ۔اور کھوکھلا کردیتی ہے یہ بالکل سیدھی سادی اور معصوم باتیں ہیں۔ جو ہم77سالوں سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ معاشی خوشحالی ہی ریاست کو نہ صرف قائم رکھتی ہے بلکہ سماج کو جوڑے رکھتی ہے ۔ جبکہ معاشی بدحالی ریاست اور لوگوں کو آہستہ آہستہ اندر سے کھاتی چلی جاتی ہے ۔ اور آخر میں صرف ریاسیت اور انسانی ڈھانچے باقی رہ جاتے ہیں ۔ جیساکہ پاکستان میں رہ گئے ہیں ۔ معاشرے کی اصل طاقت دولت نہیں ، بھروسہ ہوتاہے اور جس معاشرے میں اعتماد مرجائے وہ معاشرہ چلتا ہوا قبرستان بن جاتاہے ۔
٭٭٭٭