وجود

... loading ...

وجود

پاکستان کیوں ایک خو شحال ریاست نہیں بن پارہا !

جمعرات 18 دسمبر 2025 پاکستان کیوں ایک خو شحال ریاست نہیں بن پارہا !

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

پچھلے 77سالوں سے یہ سوال ہمیں وحشیانہ انداز میں تنگ کررہا ہے کہ پاکستان کیوں ایک خو شحال ریاست نہیں بن پارہا ہے۔ ریاست کب خوشحال ہوتی ہے ؟ آئیں اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ریاست کی خوشحالی محض معاشی اعداد و شمار ، عمارتوں کی اونچائی یا شاہراہوں کی چمک سے نہیں ناپی جاتی ۔ خوشحالی ایک روحانی ، اخلاقی اور اجتماعی کیفیت ہے ۔ جو تب جنم لیتی ہے جب قوم کے اندرونی اصول بیرونی ترقی سے ہم آہنگ ہوں ۔ فلسفیوں کے نزدیک ریاست اس وقت خوشحال ہوتی ہے جب اس کی بنیادوں میں عدل، دانائی ، بھائی چارہ اور اجتماعی مقصد رچ بس جائیں۔
افلاطون کہتا ہے کہ ”عدل و ہ بنیاد ہے جس پر ریاست کی عمارت کھڑی رہتی ہے ”۔ ریاست اس وقت خوشحال ہوتی ہے جب عدالت سے طاقتور خوف کھائے اور کمزور کو سکون ملے۔ جہاں انصاف تاخیر کا شکار ہو وہاں خوشحالی ہمیشہ راستہ بھول جاتی ہے۔ انصاف کا پھیلائو ریاست میں ایک ایسی روشنی پیدا کرتا ہے جس سے امن ، استحکام اور اعتماد جنم لیتے ہیں ۔ارسطو کے مطابق ریاست اس وقت ترقی کرتی ہے۔ جب فیصلے اصولوں کے تحت ہوں ، خو اہشات کے تخت نہیںجہاں، افراد اداروں پر بھاری ہوجائیں ، خوشحالی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ ریاست اس وقت خو شحال ہوتی ہے جب ادارے مضبوط شفاف اور مستقل ہوں ۔ ایسے ادارے جو افراد کے بدلنے پر بھی اپنا معیار برقرار رکھیں ۔ جان اسٹورٹ مل کہتا ہے کہ ” تعلیم ہی آزادی کو زندہ رکھتی ہے ”۔ ایک غیر تعلیم یافتہ قوم خواہ کتنے ہی وسائل رکھتی ہو، خو شحال نہیں ہوسکتی ۔ جب اسکولوں میں تنقیدی سوچ، اخلاقیات ، تحقیقات اور انسانی احترام کا درس دیا جائے تو پورا معاشرہ ذہنی طورپر بیدار ہوتاہے۔ یہ ہی بیداری ریاست کو آگے بڑھنے والی قوت بنتی ہے ۔ خوشحال ریاست وہ ہے جو صرف دولت پیدا نہیں کرتی بلکہ اسے منصفانہ تقسیم بھی کرتی ہے ۔ ایڈم اسمتھ کے مطابق ریاست کی خوشحالی کاپہلا اصول یہ ہے کہ شہری محنت کریں اور محنت کا پھل پائیں ۔ جہاں روزگار عام ہو، خوشحالی پھیلتی ہے۔ جہاں چند ہاتھ دولت پر قبضہ رکھیں ، غریب بھیگی مٹی کی طرح دب جاتا ہے ۔ امن وہ فضا ہے جس میں تہذیب پروان چڑھتی ہے ۔ ہابس کہتاہے کہ ”خوف انسان کو جانور بنادیتاہے ” ۔ ریاست اس وقت خوشحال ہوسکتی ہے جب شہری خوف سے آزاد ہوں۔ خوف جرم سے ، خوف بھوک سے ، خوف ناانصافی سے ۔محفوظ شہری خود کو ریاست کاحصہ سمجھتے ہیں اور اس میں تعمیر میں پورا کردار ادا کرتے ہیں۔ کانٹ کہتا ہے کہ ”طاقت اگر اخلاق سے خالی ہو تو ظلم بن جاتی ہے ، ریاست اس وقت خوشحال ہوتی ہے جب اقتدار رکھنے والے خود کو مالک نہیں بلکہ خادم سمجھتے ہیں۔ وہ رہنما جو قوم کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور قوم کے خوا ب کو اپنا خواب سمجھتے ہیں وہ ہی ریاستوں کو اوج ثریا تک لے جاتے ہیں ۔ دنیا کی کسی بھی عظیم ریاست کو دیکھیں وہ سب اخلاقی اقدار پر قائم تھیں ۔ سچائی ، دیانت، انصاف پسندی ، برداشت ، ایک دوسرے سے ہمدردی ، یہ وہ قوتیں ہیں جو عوام کو متحد کرتی ہیں اور اتحاد سے ہی خوشحالی جنم لیتی ہے ۔ خوشحالی باہر سے نہیں آتی ، یہ اندر سے اگتی ہے ۔ اداروں سے پھیلتی ہے اور انصاف کی روشنی سے پروان چڑھتی ہے ۔ اور دوسر ی طرف جب ریاست تباہ اور بدحال ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ صرف حکومت نہیں گرتی بلکہ پورا سماجی ڈھانچہ بکھر جاتاہے ۔تباہی کے اثرات بہت گہرے ،دردناک اور نسلوں تک جاری رہتے ہیں ۔ ریاست ہم آہنگی ، انصاف اور امن کے بغیر کبھی نہیں چلتی ۔
جب ریاست تباہ اور بدحال ہو جاتی ہے تو گلیاں لا قانونیت سے بھر جاتی ہیں ۔جرائم بڑھ جاتے ہیں ۔ طاقتور کمزور پر مسلط ہوجاتا ہے ، عدالتیں ، پو لیس ، ادارے بے کار ہو جاتے ہیں ۔ ریاست کی بدحالی سے سب سے پہلے معیشت ڈوبتی ہے ۔ کرنسی اپنی قدر کھو دیتی ہے ۔ روزگار ختم ہوجاتاہے ۔ خوراک ، دوائیں ، پیٹرول جیسی بنیادی اشیاء نایاب ہوجاتی ہیں ۔ عام لوگ بھوک اور بے بسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ملازمین تنخواہ نہیں لے پاتے ۔ عوام کی خدمت کے بجائے ادارے اپنی بچت بچائو میں لگ جاتے ہیں ۔ قوم تقسیم در تقسیم ہوجاتی ہے ۔ لسانی ، مسلکی ، علاقائی گروہ تشکیل پاتے ہیں ۔ لوگ اپنی حفاظت اپنی برادری اور قبیلے سے ڈھونڈتے ہیں ۔ ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ انسانوں کی بے وطنی بڑھ جاتی ہے ۔ جو گھر بار چھوڑ کر بھاگ سکتا ہے بھاگ رہا ہوتا ہے ۔ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ایک پوری نسل ذہنی ، اخلاقی اورتربیتی بحران کا شکار ہوجاتی ہے۔ ریاست کی بربادی صرف مادی نقصان نہیں لاتی یہ انسان کی روح بھی توڑ دیتی ہے ۔ بیرونی طاقتیں فیصلہ ساز بن جاتی ہیں ۔ ہابس کے مطابق معاشی بدحالی انسانوں کو ” ہر ایک کی جنگ ہر ایک کے خلاف ” والی حالت کی طرف دھکیل دیتی ہے اور یہ ہی ریاست کی موت ہے ۔ معاشی بدحالی ریاست کو اندر سے کھا جاتی ہے ۔اور کھوکھلا کردیتی ہے یہ بالکل سیدھی سادی اور معصوم باتیں ہیں۔ جو ہم77سالوں سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ معاشی خوشحالی ہی ریاست کو نہ صرف قائم رکھتی ہے بلکہ سماج کو جوڑے رکھتی ہے ۔ جبکہ معاشی بدحالی ریاست اور لوگوں کو آہستہ آہستہ اندر سے کھاتی چلی جاتی ہے ۔ اور آخر میں صرف ریاسیت اور انسانی ڈھانچے باقی رہ جاتے ہیں ۔ جیساکہ پاکستان میں رہ گئے ہیں ۔ معاشرے کی اصل طاقت دولت نہیں ، بھروسہ ہوتاہے اور جس معاشرے میں اعتماد مرجائے وہ معاشرہ چلتا ہوا قبرستان بن جاتاہے ۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کی پناہ گزینوں کیلئے قربانیاں اور عالمی دن وجود جمعرات 18 دسمبر 2025
پاکستان کی پناہ گزینوں کیلئے قربانیاں اور عالمی دن

پاکستان کیوں ایک خو شحال ریاست نہیں بن پارہا ! وجود جمعرات 18 دسمبر 2025
پاکستان کیوں ایک خو شحال ریاست نہیں بن پارہا !

سیاسی عدم استحکام وجود جمعرات 18 دسمبر 2025
سیاسی عدم استحکام

اقتدار میں خسارہ وجود جمعرات 18 دسمبر 2025
اقتدار میں خسارہ

سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور وجود بدھ 17 دسمبر 2025
سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر