... loading ...
ب نقا ب /ایم آر ملک
اک اور برس جینے کا الزام ہم نے اپنے سر لے لیا ۔
سانحہ پشاور پر لکھنے بیٹھوں تو احساسات لفظوں کی صورت بکھر جاتے ہیں جنہیں میں سمیٹ نہیں پاتا ۔اندر کے موسم ان باہر کے موسموں سے کبھی مشروط نہیں ہوتے بلکہ کبھی کبھی باہر کے موسموں کو بھی غارت کر دیتے ہیں اور گریبان تو شاید ہے ہی اسی لئے کہ اسے جھنجھوڑا جاتا رہے۔
وہ مائیں جو خوشیوں کی راہ تکتی رہیں انتظار جن کامقدر ہو گیا بھلا کوئی اُن سے پوچھے کہ اِس سانحہ کے بعد گزرنے والا ہر لمحہ اُنہیں کتنے زخم اور ٹیسیں دے گیا مگر ان مائوں کا ذکر کون کرتا یہاں اب یہ چلن رہا ہی نہیں انسان ،انسان کا دارُو تھا اب درد بن گیا ہے ۔
وہ مائیں جو کہنے کو اِک آزاد فضا میں سانسیں لے رہی ہیں کیا زندگی کے عالم میں ایک بھی سانس لے پاتی ہیں جن کے لخت ِ جگرنے اپنے ماتھے پر ممتا کا بوسہ لے کر دہلیز پار کی اور پھر لوٹ کر نہ آیا ، جب بھی تصور آتا ہے ساری دلیلیں ،سارے جواز بے بسی اور لاچاری کے سامنے گھگھیاتے نظر آتے ہیں ۔ قلم لہو اُگلنے لگتا ہے ،لفظ لفظ خون میں ڈوب جاتا ہے۔کہتے ہیں کانچ کے برتن گھروں میں اور خواب آنکھوں میں زیادہ دیر سلامت نہیں رہتے ۔
رضی نے لکھا کہ یہ سقوطِ ڈھاکہ سے بڑا سانحہ ہے۔سچ کہتا ہے رضی !پشاور کی مائوں کے خواب بکھرے ، جب خواب بکھر جائیں تو اِن کی کِرچیاں دل سے لیکر روح تک اُتر جاتی ہیں یہ کرب کوئی ماں ہی جان سکتی ہے۔ جب روز و شب کی تلخیوں اور زندگی کی تڑپا دینے والی اذیتوں نے نس نس میں زہر بھر دیا ہو، روح بھی ممتا کے بوجھ سے جکڑ گئی ہو ۔ایسے میں حالات سے سمجھوتے آساں نہیں ہوا کرتے، اپنی ذات کو حالات کی ڈگر پر چلنے کیلئے قائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔پشاور کی مائوں کیلئے زندگی ہر قدم پہ امتحان بن گئی ہے کہ کرب میں وہ جو منزلیں طے کر رہی ہیں اُنہیں سوچ کر روح میں شگاف پڑ تے جا رہے ہیں ۔ اور پھر بہلاوے تو سطح آب پر اُبھرنے والے بلبلے کی صورت ہوتے ہیں ناں !
ہ ر ایمان ہے کہ رب مہربان کسی بھی انسان کو اُس کی برداشت سے بڑھ کر دُکھ نہیں دیتا ۔یہ سچ بھی ہے زخموں کو تازہ رکھنا شاید ہم لکھنے والوں کی عادت ہے۔لیکن شاید پشاور کی وہ مائیں ہی بہت باہمت ہیں اپنے لعل کھو کر بھی جن کی برداشت کی کوئی حد نہیں ۔خوش قسمتی اور بد قسمتی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے یہ شاید آج تک کوئی بھی نہ جان سکا، یہ شاید پلک جھپکنے کا مرحلہ ہوتا ہے ۔اور انسان کو خبر نہیں ہو پاتی کہ وہ کب کس جزیرے میں اُترنے والا ہے ۔سوچنے بیٹھ جائیے تو اپنے ہی بخیئے ادھیڑے جاتے ہیں اور کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا، صرف اِک اُمید اور آس ہے جو جینے کا حوصلہ دیتی ہے ۔ اس خوش فہمی میں مبتلا رکھتی ہے کہ شاید کبھی ہم جو اپنی مرضی سے جی نہیں سکتے تو اپنی مرضی کے مرنے کا ہی حق پاسکیں۔
انتظار جب اس خواہش کا ہو جو اپنی دسترس میں نہ ہو تو اس انتظار کی کوئی حد نہیں ہوا کرتی یہ تو مرتے دم تک ساتھ رہتا ہے ۔حقیقتیں کتنی تلخ کیوں نہ ہوں اُنہیں تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے ۔شامیں لہو رنگ ہوں تو اُن کی نفی نہیں کی جاسکتی ،آنسو رواں دواں ہوں تو قہقہے لگانا مشکل ہوتا ہے، شاہراہ ِ زندگی میں کڑی دھوپ کا سامنا ہو تو سائے پناہ نہیں دیتے ،دھرتی ماں کی طرح ہوتی ہے اور اِس سے وفا کی راہیں آسان نہیں ہوا کرتیں ،ان مائوں نے دھرتی ماں کا خراج ادا کیا ، اُن کے شہید بچوں نے قائد کے پاکستان کی بقاء کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ پشاور سانحہ کی ایک ماں جیسے اپنے اکلوتے شہید بیٹے کیلئے کہ رہی ہو کہ ”آج تمہاری فرقت میں میری ہستی ویرانیوں کا شکار ہو کر رہ گئی ہے ،روح پر آبلے نمودار ہیں اور بیٹے تمہارے جانے کے بعد زندگی خاکستر ہو چکی ،زندگی کی اُمنگ دل سے ناطہ توڑ کر جانے کہاں کھو گئی ؟بیٹے تمہاری یادوں کی زہریلی ناگن میرا دامن تھام کر اپنے ساتھ جانے کو مجبور کر رہی ہے جہاں تک نظر جاتی سینکڑوں مائیں ہیں جن کے زندہ لاشے ایک دوسرے پر اپنا بوجھ گرائے سسک رہے ہیں ”۔
کسی ماں کا جب اس احساس پر سوچتا ہوں تو قارئین میرے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں ،درد ِ لازوال کے بستر پر نیند نہیں آتی،سوچ کے تکئے پر سر رکھے آنکھیں بند کر کے جاگتا رہتا ہوں اور بستر کم مائیگی ،بے بسی کی شکنوں سے بھر جاتا ہے ۔ سچ کو آئینوں میں تلاش نہیں کیا جاتا اور نہ ہی یہ تمغے کی صورت رکھتا ہے کہ اسے آپ نے سینے میں سجا لیا تو آپ سچائی کے دعویدار ہو گئے ۔ میں اُن سے مخاطب ہوں جو اسلام کے ٹھیکیدار بن کر اسلام جیسے پاکیزہ مذہب کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے ، اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جن کے مدرسے خود کش بمباروں کی نرسریاںہیں ،وہ مولوی جو 80کے عشرے میں بوری اپنے کندھوں پر اُٹھا کر گندم کی اُٹھائی کے موقع پر چھوٹے زمینداروں سے گندم کی بھیک مانگتا تھا ،اب اُس کے پاس تین تین لینڈ کروزر ہیں اور وہ اپنے علاقے کا سب سے بڑا غنڈہ ہے۔ اسلام سلامتی کا نام ہے کیا ان نو دولتیئے مولویوں کے من کے کسی گوشے میں اُس سلامتی کی رمق باقی ہے ؟
٭٭٭