وجود

... loading ...

وجود

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

پیر 15 دسمبر 2025 ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

منظر نامہ
۔۔۔۔۔۔
پروفیسر شاداب احمد صدیقی

بھارت میں جب سے بی جے پی کی حکومت نے غاصبانہ قبضہ کیا اور ہندوتوا نظریہ کی بنیاد رکھی ہے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی بد امنی کو فروغ ملا ہے ۔ جنوبی ایشیا ہمیشہ تہذیبوں کے ملاپ، ثقافتی تنوع اور مذہبی ہم آہنگی کی پہچان رہا ہے ، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت میں ہندوتوا نظریے کے بڑھتے ہوئے اثرات نے خطے کی اس تاریخی شناخت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے ۔ دلوں میں خوف اور آنکھوں میں بے یقینی کے سائے تب گہرے ہوتے ہیں جب کوئی سیاسی نظریہ ریاستی طاقت، عدالتی ڈھانچے ، انتخابی سیاست اور سفارتی پالیسی کو اس طرح اپنے تابع کر لے کہ اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگیں اور ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی سلامتی کے بارے میں نئے خدشات گھیر لیں۔ یہی صورتحال آج کے بھارت میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں ہندوتوا کا نظریہ صرف سیاسی مقاصد تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک توسیع پسندانہ سوچ کی صورت اختیار کر چکا ہے جو خطے کے امن، بقا اور معاشرتی استحکام کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے ۔
ہندوتوا کا دعویٰ ہے کہ برصغیر صرف ہندو قوم کا خطہ ہے ، اور باقی تمام مذاہب یا تو اس کے تابع ہیں یا پھر انہیں ثانوی حیثیت میں رہنا ہو گا۔ یہی سوچ بھارت کے داخلی ڈھانچے میں گہری سرایت کر چکی ہے جہاں شہریت قوانین سے لے کر تعلیم، میڈیا اور ثقافت تک ہر جگہ مذہبی قوم پرستی کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون نے پہلی بار مذہب کو شہریت کے تعین کا پیمانہ بنا کر نہ صرف آئینی مساوات کو مجروح کیا ہے بلکہ ملک گیر این آر سی کے خدشے کے ساتھ یہ اندیشہ بھی گہرا ہو گیا ہے کہ لاکھوں مسلمان محض کاغذی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے شہریت کے پیچیدہ جال میں الجھ سکتے ہیں۔اسی نظریے کی علامت ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مساجد کے انہدام، تاریخی ناموں کی تبدیلی، مسلم محلوں پر حملوں اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی نے بھارتی سماج کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے ۔ جب ایک ملک کے اندر عدم برداشت بڑھے تو اس کے اثرات لازماً سرحدوں سے باہر بھی محسوس ہوتے ہیں، اور یہی بات خطے کے امن کے لیے تشویشناک ہے ۔
خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا اس خطے کی جغرافیائی و تہذیبی حقیقتوں کا حصہ ہیں، لیکن ہندوتوا کے نظریہ ساز انہیں ایک ”اکھنڈ بھارت” کے غیر اعلانیہ تصور کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اس سوچ کو بھارتی سیاست میں جس طرح پذیرائی مل رہی ہے ، وہ مستقبل میں علاقائی تنازعات کے خدشات کو بڑھاتی ہے ۔ سرحدی جھڑپیں، سفارتی تناؤ، اور خطے میں اسلحے کی دوڑ کا بڑھنا اسی سوچ کا نتیجہ ہے ۔ پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ بیانات، بالاکوٹ واقعہ کے بعد بھارتی میڈیا کا جنگی جنون، اور لداخ میں چین کے ساتھ محاذ آرائی کا ماحول اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ مذہبی قوم پرستی جب سیاسی فیصلوں پر غالب آ جائے تو امن کی راہیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ہندو توا کے توسیع پسندانہ عزائم کا ایک اہم پہلو بھارت کی عسکری حکمت عملی میں بھی جھلکتا ہے ۔ دفاعی بجٹ میں سالانہ مسلسل اضافہ، جدید میزائل سسٹمز کی خریداری، اور خطے میں اسٹریٹجک برتری کے دعوے ایک ایسے ملک کی تصویر دکھاتے ہیں جو دفاع کے نام پر جارحانہ طاقت کو ترجیح دے رہا ہے ۔ سال 202526 کے لیے بھارت کی حکومت نے دفاع کے لیے کل بجٹ چھے لاکھ اکیاسی ہزار کروڑ روپے مقرر کیا ہے ، جو موجودہ تبادلے کی شرح کے مطابق تقریباً 78۔3 بلین امریکی ڈالر بنتا ہے ۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف سرکاری طور پر باوثوق ہیں بلکہ معتبر تجزیاتی رپورٹوں سے بھی تصدیق شدہ ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ بجٹ حقیقت پسندانہ انداز میں بھارت کی عسکری ضروریات اور خطے میں اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کو مستحکم رکھنے کی نیت کے مطابق ہے ، اور یہ کہنا کہ بھارتی دفاعی بجٹ تقریباً 7879 بلین ڈالر کے قریب ہے ۔ جب ایک ملک اس حد تک عسکری طاقت پر انحصار بڑھے اور اس کے فیصلے مذہبی قوم پرستی کے زیرِ اثر ہوں تو یہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر بیانات،مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل اشتعال انگیزی خطے میں غیر یقینی کو بڑھاتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ہندوتوا سیاست کا مرکزی محور بن چکا ہے ۔آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ مقبوضہ کشمیریوں کو مسلسل عسکری محاصرے ، میڈیا بلیک آؤٹ، گرفتاریاں اور نقل و حرکت کی پابندیوں کا سامنا ہے ۔ ہندوتوا نظریہ مقبوضہ کشمیر کو صرف جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک مذہبی اور سیاسی علامت کے طور پر دیکھتا ہے ، اور اسی لئے اس کے حل میں طاقت کے استعمال کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔ مگر طاقت سے حل ہونے کے بجائے مسائل مزید پیچیدہ شکل اختیار کرتے ہیں، اور یہ صورتحال پاکستان سمیت پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے ۔خطے کے امن کے لیے ایک اور بڑا خطرہ بھارتی معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی ہے جسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے ۔ گائے کے نام پر قتل، مساجد پر حملے ، مسلم کاروباروں کا بائیکاٹ، اور میڈیا میں مسلسل نفرت انگیز پروپیگنڈہ اقلیتوں کے معمولاتِ زندگی کو مفلوج کر رہا ہے ۔ جب ایک ملک اپنا سماجی توازن کھو بیٹھے تو اس کی خارجہ پالیسی بھی شدت پسندی کی طرف جھکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سفارتی زبان میں بھی سختی، الزام تراشی اور جارحیت بڑھتی جا رہی ہے ۔ یہ رویہ نہ صرف پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے کردار پر بھی سوالات اٹھا رہا ہے ۔خطے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہندوتوا کا سیاسی ماڈل ہندوستان کے آئین، جمہوریت اور سیکولر ریاست کے دعوے سے براہِ راست متصادم ہے ۔ اگر اس نظریے کو لگام نہ دی گئی تو جنوبی ایشیا کی یہ بڑی ریاست اپنے اندر بھی انتشار کا شکار ہو سکتی ہے اور بیرونی سطح پر بھی غیر ضروری تصادمات کو جنم دے سکتی ہے ۔ عالمی طاقتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتصادی مفادات کے باوجود مذہبی قوم پرستی کو سیاسی سرپرستی دینا خطے کے امن کے ساتھ سنگین کھلواڑ ہے ۔
امن کی راہ اسی وقت ہموار ہو سکتی ہے جب بھارت کے اندر آفاقی برابری، مذہبی آزادی اور آئینی اصولوں کی بحالی کو ترجیح دی جائے ۔ خطے کے ممالک سفارتی سطح پر مکالمے کو مضبوط کریں، انتہاپسندانہ بیانیوں کو چیلنج کیا جائے ، اقوامِ متحدہ کو مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے منصفانہ حل میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا، اور جنوبی ایشیا کی قیادت کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ امن، ترقی اور انسانی حقوق کے بغیر کوئی بھی نظریہ، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، مستقل استحکام نہیں لا سکتا۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم کو محدود کرنے اور خطے کے مستقبل کو محفوظ سمت میں لے جانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مردوں کو گالیاں وجود پیر 15 دسمبر 2025
مردوں کو گالیاں

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

ہائبرڈ نظام اور اس کے خدو خال وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہائبرڈ نظام اور اس کے خدو خال

وندے ماترم:ایک تیر سے کئی شکار وجود پیر 15 دسمبر 2025
وندے ماترم:ایک تیر سے کئی شکار

مودی سرکار کی سفاکی وجود پیر 15 دسمبر 2025
مودی سرکار کی سفاکی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر